کتاب کا نام ہے ملفوظات اعلیٰ
حضرت صفحہ نمبر 160 اور 161۔ اگر کسی محترم بھاي کو مزید تصدیق کی ضرورت ہو
تو اپنا ای میل ایڈریس بھیج دیں میں کتاب کی فوٹو کاپی بھیج دوں گا۔
عرض : حضور فنا فی الشیخ کا مرتبہ کس طرح حاصل ہوتا ہے۔
ارشاد : "یہ خیال رکھے کہ میرا شیخ میرے سامنے ہے۔ اور اپنے قلب کو اس کے
قلب کے نیچے تصور کر کے اس طرح سمجھے کہ سرکار رسالت سے فیوض و انوار قلب
شیخ پر فائض ہوتے اور اس سے چھلک کر میرے دل میں آ رہے ہیں۔ پھر کچھ عرصے
کے بعد یہ حالت ہو جائے گی کہ شجر و حجر و درو دیوار پر سیخ کی صورت صاف
نظر آئے گی۔ اور یہاں تک کہ نماز میں بھی جدا نہ ہوگی ( نعوذ باللہ) اور
پھر ہر حال میں اپنے ساتھ پاؤ گے۔ حافظ الحدیث سیدی احمد سلجماسی کہیں
تشریف لے جاتے تھے۔ راہ میں اتفاقاً آپ کی نظر ایک نہایت حسینہ عورت پر پڑ
گئی۔ یہ پہلی نظر تھی جو بلا قصد تھی۔ دوبارہ پھر نظر اٹھ گئی اب دیکھا کہ
پہلو میں حضرت سیدی غوث وقت عبدالعزیز دباغ آپ کے پیر و مرشد تشریف فرما
ہیں اور فرماتے ہیں کہ احمد! عالم ہو کر نہیں ( یعنی عالم ہو کر ایسی حرکت
نہ کر)۔"
بھائیوں کاش کہ آپ وہ نمی دیکھ سکو جو کہ یہ سب کچھ لکھتے ہوے میری آنکھوں
میں آ رہی ہے۔ دیکھو ان لوگوں نے دین کا کیا حشر کر دیا ہے۔ کیا نبی نے یہی
دین سکھایا تھا۔ کیا ہمارے پیارے نبی نے فنا فی الشیخ ہونے کا حکم اور
تعلیم دی تھی۔ یہ کونسا اسلام ہے۔ کیا صحابہ نے ایسا کوئی طریقہ اختیار کیا۔
کیا امام بخاری نے اس بارے میں کوئی حدیث بیان کی۔ کیا امام مسلم، امام
مالک، نسای، ابو داود یا احادیث کے تمام مشہور مصنفین نے اس طرح یا اس سے
ملتی جلتی کوئی بات ہم تک پہنچائی۔ کیا امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام
حنبل یا امام مالک نے اس طرح فنا فی الشیح ہو نے کی تعلیم دی۔ جب نہیں تو
آؤ دوستوں اور کچھ نہیں تو دو لفظ یہاں لکھیں دین کی شکل اس طرح بگاڑنے
والوں سے بیزاری کا اظہار کر دو۔ اب دیکھیں کہ آخر میں خود ہی یہ عمل
اختیار کرنے والے کی تباہی پر مہر لگا دی کہ نماز بھی اس خشوع و خضوع سے نہ
پڑھ سکو گے جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ وہاں بھی اس تصور کے
بجائے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے انہیں شیخ کی تصویر نظر آئے گی۔
اب ذرا دل تھام کر آگے کی حکایت سنیے۔ " انہی سلجماسی کی دو بیویاں تھیں۔
سید عبدالعزیز دباغ نے فرمایا کہ تمہیں ایک بیوی کے جاگتے ہوئے دوسری بیوی
سے ہم بستری نہیں کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے فرمایا حضور وہ سوتی تھی۔
فرمایا نہیں وہ سوتی نہیں تھی سوتے میں جان ڈال دی تھی ( یعنی جاگ رہی
تھی)۔ سلجماسی نے کہا حضور آپ کو کیسے معلوم ہوا۔ فرمایا وہاں کوی تیسری
چارپائی بھی تھی۔ کہا ہاں تھی۔ آپ نے فرمایا کہ اس چارپائی پر میں موجود
تھا۔ "
دوستوں بات سمجھ میں آئی۔ یہ شیخ اپنے مریدوں کی خلوت میں بھی موجود ہوتا
اور جو کچھ آپ کرتے ہیں اسے بھی بغور دیکھتا ہے۔ اب یہ کیا اخلاقی عمل ہے
یا غیر اخلاقی فیصلہ قارئین خود ہی کریں۔ |