سجدہ سہو کے مسائل

سجدہ سہو کا بیان
مسئلہ:نماز میں کسی واجب کی تاخیر، رکن کی تقدیم یا تاخیر یا اس کو مکرر کرنا، واجب میں تغیر ، یہ سب ترک واجب ہیں۔
مسئلہ:واجبات نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس کی تلافی کے لئے سجدہ سہو واجب ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ التحیات کے بعد دائیں طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرے پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرے۔
مسٔلہ:امام یا منفرد جب بھول کر کسی رکن کو اپنے مقام سے ہٹ کر ادا کرے، یعنی مقدم یا مؤخر کرے، یا کوئی رکن دو بار کر لیا، ایک رکعت میں ایک ہی سجدہ کیا پھر بعد والی رکعت میں اس رکعت کے سجدوں کے علاوہ سابقہ چھوٹ جانے والا سجدہ بھی کیا، کوئی بھی واجب (قعدہ اولیٰ، تشہد، قنوت وغیرہ) بھول گیا تو اسے نماز کے آخر میں سہو کے دو سجدے کرنے ہوں گے۔ اس سے اللہ تعالیٰ اس کی غلطی معاف فرما کر اس کی نماز ان شاءاللہ قبول فرما لے گا۔ (صلوٰۃ الرّسُول)
مسٔلہ:اگر بغیر سلام پھیرے سجدے کر لئے، کافی ہیں مگر ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
مسٔلہ:سجدہ سہو کے لئے ایک سلام کرنا چاہئے، دوسرا سلام پھیرنا منع ہے، یہاں تک کہ اگر دونوں قصداً پھیر دے گا، سجدہ سہو نہ ہو سکے گا اور نماز کا اعادہ واجب ہو گا۔ (رضویہ)
مسٔلہ:قصداً واجب ترک کیا تو سجدہ سہو سے وہ نقصان رفع نہ ہوگا بلکہ اعادہ واجب ہے۔ یونہی اگر سہواً واجب ترک ہوا اور سجدہ سہو نہ کیا جب بھی اعادہ واجب ہے۔
مسٔلہ:کوئی ایسا واجب ترک ہوا جو واجبات نماز سے نہیں بلکہ اس کا وجوب امر خارج سے ہو تو سجدہ سہو واجب نہیں۔ مثلاً خلاف ترتیب قرآن مجید پڑھنا ترک واجب ہے مگر موافق ترتیب پڑھنا واجبات تلاوت سے ہے، واجبات نماز سے نہیں، لہذا سجدہ سہو نہیں۔
مسٔلہ:نماز میں امام سے قرأت میں غلطی ہوئی اور کسی نے صحیح لقمہ دیا تو سجدہ سہو واجب نہیں۔ یونہی آیت یا لفظ چھوٹ گئے اور یاد آ گئے تو اسے پڑھ لینا چاہئے اور سجدہ سہو اس صورت میں بھی نہیں۔ سجدہ سہو اس وقت واجب ہوتا ہے کہ کوئی واجبِ نماز بھول کر ترک ہو جائے۔ (امجدیہ)
مسٔلہ:تلاوت کرنے والے کے لئے قرآن مجید ترتیب مصحف کے مطابق پڑھنا واجب ہے اور نماز میں بھی قرآن کی صورتوں کو ترتیب کے مطابق پڑھنا چاہئے۔ لیکن یہ مسٔلہ واجبات تلاوت سے ہے، واجبات نماز سے نہیں۔ لہذا اگر کسی نے بھول کر نماز کی رکعات میں سورتیں خلاف ترتیب پڑھ لیں تو بھی نماز صحیح ادا ہو جائے گی اور سجدہ سہو لازم نہیں آئے گا۔ تاہم جان بوجھ کر خلاف ترتیب پڑھنے سے گریز کرنا چاہئے۔ (تفہیم المسائل)
مسٔلہ:فرض ترک ہو جانے سے نماز جاتی رہتی ہےسجدہ سہو سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی لہذا پھر پڑھے اور سنن و مستحبات مثلاً تعوذ، تسمیہ، ثنا،آمین، تکبیرات، انتقالات، تسبیحات کے ترک سے بھی سجدہ سہو واجب نہیں بلکہ نماز ہو گئی، مگر اعادہ مستحب ہے، سہواً ترک کیا ہو یا قصداً۔
مسٔلہ:سجدہ سہو اس وقت واجب ہے کہ وقت میں گنجائش ہو، اور اگر نہ ہو، مثلاً فجر میں سہو ہوا اور پہلا سلام پھیرا لیکن ابھی سجدہ بھی نہ کیا کہ آفتاب طلوع کر آیا تو سجدہ سہو ساقط ہو گیا۔اگر اس سے جمعہ یا عید کا وقت جاتا رہے گا، جب بھی یہی حکم ہے۔
مسٔلہ:جو چیز مانع بنی مثلاً کلام وغیرہ منافی نماز اگر سلام کے بعد پائی گئی تو اب سجدہ سہو نہیں ہو سکتا۔
مسٔلہ:فرض و نفل دونوں کا ایک حکم ہے یعنی نوافل میں بھی واجب ترک ہونے سے سجدہ سہو واجب ہے۔
مسٔلہ:نفل کی دو رکعتیں پڑھیں اور ان میں سہو ہوا پھر اسی پر بنا کر کے دو رکعتیں اور پڑھیں تو سجدہ سہو کرے اوراگر فرض میں سہو ہوا تھا اور اس پر قصداً نفل کی بنا کی تو سجدہ سہو نہیں بلکہ فرض کا اعادہ کرے۔ اگر اس فرض کے ساتھ سہواً نفل ملایا ہو مثلاً چار رکعت پر قعدہ کیا پھر کھڑا ہو گیا اور پانچویں کا سجدہ کر لیا تو ایک رکعت اور ملائے کہ یہ دو نفل ہو جائیں اور ان میں سجدہ سہو کرے۔
مسٔلہ:سجدہ سہو کے بعد بھی التحیات پڑھنا واجب ہے۔ التحیات پڑھ کر سلام پھیرے اور بہتر یہ ہے کہ دونوں قعدوں میں درود شریف بھی پڑھے اور یہ بھی اختیار ہے کہ پہلے قعدہ میں التحیات و درود پڑھے اور دوسرے میں صرف التحیات۔
مسٔلہ:سجدہ سہو سے وہ پہلا قعدہ باطل نہ ہوا مگر پھر قعدہ کرنا واجب ہے اور اگر نماز کا کوئی سجدہ باقی رہ گیا تھا ،قعدہ کے بعد اس کو کیا یا سجدہ تلاوت کیا تو قعدہ جاتا رہا اب پھر قعدہ فرض ہے کہ بغیر قعدہ نماز ختم کر دی تو نہ ہوئی اور پہلی صورت میں ہو جائے گی مگر واجب الاعادہ۔
مسٔلہ:ایک نماز میں چند واجب ترک ہوئے تو وہی دو سجدے سب کے لئے کافی ہیں۔
مسٔلہ:فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور نفل کی کسی رکعت میں سورہ الحمد کی ایک آیت بھی رہ گئی یا سورت سے پیشتر دو بار الحمد پڑھی یا سورت ملانا بھول گیا یا سورت کو فاتحہ پر مقدم کیا یا الحمد کے بعد ایک دو چھوٹی آیتیں پڑھ کر رکوع میں چلا گیا پھر یاد آیا اور لوٹا اور تین آیتیں پڑھ کر رکوع کیا تو ان سب صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے۔
الحمد کے بعد سورت پڑھی، اس کے بعد پھر الحمد پڑھی تو سجدہ واجب نہیں۔ یونہی فرض کی پچھلی رکعتوں میں فاتحہ کی تکرار سے سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر پہلی رکعتوں میں الحمد کا زیادہ حصہ پڑھ لیا تھا پھر اعادہ کیا تو سجدہ سہو واجب ہے۔
مسٔلہ:الحمد پڑھنا بھول گیا اور سورت شروع کر دی اور بقدر ایک آیت پڑھ لی، اب یاد آیا تو الحمد پڑھ کر سورۃ پڑھے اور سجدہ سہو بھی واجب ہے۔ یونہی اگر سورت کے پڑھنے کے بعد یا رکوع میں یا رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا تو پھر الحمد پڑھ کر سورت پڑھے اور رکوع کا اعادہ کرے اور سجدہ سہو کرے۔
مسٔلہ:فرض کی پچھلی رکعتوں میں سورت ملائی تو سجدہ سہو نہیں اور قصداً ملائی جب بھی حرج نہیں مگر امام کو نہ چاہئے۔ یونہی اگر پچھلی میں الحمد نہ پڑھی جب بھی سجدہ سہو نہیں اور رکوع و سجود و قعدہ میں قرآن پڑھا تو سجدہ سہو واجب ہے۔
مسٔلہ:آیت سجدہ پڑھی اور سجدہ کرنا بھول گیا تو سجدہ تلاوت ادا کرے اور سجدہ سہو کرے۔
مسٔلہ:جو فعل نماز میں مکرر ہیں ان میں ترتیب واجب ہے لہذا خلاف ترتیب فعل واقع ہو تو سجدہ سہو کرے۔ مثلاً قرأت سے پہلے رکوع کر دیا اور رکوع کے بعد قرات نہ کی تو نماز فاسد ہو گئی کہ فرض ترک ہو گیا اور اگر رکوع کے بعد قرات کی مگر پھر رکوع نہ کیا تو فاسد ہو گئی کہ قرات کی وجہ سے رکوع جاتا رہا اور اگر بقدر فرض قرات کر کے رکوع کیا مگر واجب قرات ادا نہ ہوا مثلاً الحمد نہ پڑھی یا سورت نہ ملائی تو حکم یہی ہے کہ لوٹے اور الحمد و سورت پڑھ کر رکوع کرے اور سجدہ سہو کرے اور اگر دوبارہ رکوع نہ کیا تو نماز جاتی رہی کہ پہلا رکوع جاتا رہا تھا۔
مسٔلہ:کسی رکعت کا کوئی سجدہ رہ گیا، آخر میں یا د آیا تو سجدہ کر لے پھر التحیات پڑھ کر سجدہ سہو کرے اور سجدہ سے پہلے جو افعالِ نماز ادا کئے باطل نہ ہوں گے۔ ہاں اگر قعدہ کے بعد وہ نماز والا سجدہ کیا تو پھر وہ قعدہ جاتا رہا۔
مسٔلہ:تعدیل ارکان بھول گیا، سجدہ سہو واجب ہے۔
مسٔلہ:فرض میں قعدہ اولیٰ بھول گیا تو جب تک سیدھا کھڑا نہ ہو لوٹ آئے اور سجدہ سہو نہیں۔ اور اگر سیدھا کھڑا ہو گیا تو نہ لوٹے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے۔
مسٔلہ:امام قعدہ اولیٰ میں بیٹھنا بھول گیالیکن اٹھنے لگا، اتنے میں لقمہ پاتے ہی وہ قعدہ اولیٰ کے لئے بیٹھ گیا اور تشہد پڑھنے کے بعد کھڑا ہو گیااور نماز پوری کی۔ ایسی صورتحال میں اگر امام کھڑا ہونے کے قریب تھا یعنی بدن کے نیچے کا آدھا حصہ سیدھا ہو گیا تھا اور پیٹھ میں خم باقی تھا کہ مقتدی کے لقمہ دینے پر بیٹھ گیا اور آخر میں سجدہ سہو کر لیا تو نماز پوری ہو گئی اور اگر سجدہ سہو نہ کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔ اور اگر بیٹھنے کے قریب تھا یعنی ابھی جسم کے نیچے کا آدھا حصہ سیدھا نہ ہوا تھا کہ لقمہ دینے پر بیٹھ گیا تو سجدہ سہو واجب نہیں، نماز پوری ہو گئی۔ البتہ اگر امام کے کھڑا ہونے کے بعد کسی مقتدی نے اسے لقمہ دیا تو اس مقتدی کی نماز فاسد ہو گئی۔ جب امام قعدہ اولیٰ چھوڑ کر پورا کھڑا ہو جائے تو مقتدی بیٹھنے کا اشارہ نہ کرے ورنہ ہمارے امام کے مذہب پر مقتدی کی نماز جاتی رہے گی کہ پورا کھڑا ہونے کے بعد امام کو قعدہ اولیٰ کی طرف عود کرنا جائز نہیں لہذا اس کا بتانا محض بے فائدہ رہا اور اپنے اصلی حکم کے رو سے کلام ٹھہر کر مفسد نماز ہوا۔ اور جو شخص امام کے ساتھ کھڑا نہ ہوا بلکہ بیٹھا رہا، التحیات پڑھ کر کھڑا ہوا، وہ نماز کا اعادہ کرے۔ (فیض الرسول)
مسٔلہ:اگر سیدھا کھڑا ہو کر لوٹا تو سجدہ سہو کرے اور صحیح مذہب میں نماز ہو جائے گی مگر گنہگار ہوا، لہذا حکم ہے کہ اگر لوٹے تو فوراً کھڑا ہو جائے۔
مسٔلہ:اگر مقتدی بھول کر کھڑا ہو گیا تو ضروری ہے کہ لوٹ آئے تاکہ امام کی مخالفت نہ ہو۔
مسٔلہ:قعدہ اخیرہ بھول گیا اور کھڑا ہو گیا تو جب تک اس رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو لوٹ آئے،اور سجدہ سہو کرے۔ اور اگر قعدہ اخیرہ میں بیٹھا تھا مگر بقدر تشہد نہ ہوا تھا کہ کھڑا ہو گیا تو لوٹ آ ئے اور جو پہلے کچھ دیر تک بیٹھا تھا محسوب ہو گا یعنی لوٹنے کے بعد جتنی دیر تک بیٹھا تھا یہ اور پہلے کا قعدہ دونوں مل کر اگر بقدر تشہد ہو گئے فرض ادا ہو گیا مگر سجدہ سہو اس صورت میں بھی واجب ہے۔ اور اگر اس رکعت کا سجدہ کر لیا تو سجدہ سے سر اٹھاتے ہی وہ فرض نفل ہو گیا لہذا اگر چاہے تو علاوہ مغرب کے اور نمازوں میں ایک رکعت اور ملا لے کہ شفع پورا ہو جائے اور طاق رکعت نہ رہے، اگرچہ وہ نماز فجر یا عصر ہو۔ مغرب میں اور نہ ملائے کہ چار پوری ہو گئیں۔
مسٔلہ:تین یا چار رکعتی نماز میں قعدۂ اولیٰ واجب ہے اور قعدۂ اخیرہ ہر نماز میں فرض۔ اور دونوں کے احکام جداگانہ۔ مثلاً فرض میں قعدۂ اولیٰ بھول گیا تو جب تک سیدھا نہ کھڑا ہوا، لوٹ آئے اور سجدہ سہو نہیں۔ اور اگرسیدھا کھڑا ہو گیا تو نہ لوٹے۔ آخر میں سجدہ سہو کرے۔ اور اگر قعدہ اخیرہ بھول گیا تو جب تک اس رکعت زائد کا سجدہ نہ کیا ہو، لوٹ آئے اور سجدہ سہو کرے۔ اور اگر اس رکعت کا سجدہ کر لیا تو سجدہ سے سر اٹھاتے ہی وہ فرض نفل ہو گیا۔ لہذا فرض نماز دوبارہ پڑھے۔ (خلیلیہ)
مسٔلہ:نفل کا ہر قعدہ، قعدہ اخیرہ ہے یعنی فرض ہے ۔ اگر قعدہ نہ کیا اور بھول کر کھڑا ہو گیا تو جب تک اس رکعت کا سجدہ نہ کر لے لوٹ آئے اور سجدہ سہو کرے اور واجب نماز مثلاً وتر، فرض کے حکم میں ہے لہذا وتر کا قعدہ اولیٰ بھول جائے تو وہی حکم ہے جو فرض کے قعدہ اولیٰ بھول جانے کا ہے۔
مسٔلہ:اگر بقدر تشہد قعدہ اخیرہ کر چکا ہے اور کھڑا ہو گیا تو جب تک اس رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو لوٹ آئے اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دے اور اگر قیام ہی کی حالت میں سلام پھیر دیا تو بھی نماز ہو جائے گی مگر سنت ترک ہوئی۔ اس صورت میں اگر امام کھڑا ہو گیا تو مقتدی اس کا ساتھ نہ دیں بلکہ بیٹھے ہوئے انتظار کریں۔ اگر لوٹ آیا تو ساتھ ہو لیں اور نہ لوٹا اور سجدہ کر لیا تو مقتدی سلام پھیر دیں اور امام ایک رکعت اور ملائے کہ یہ دو نفل ہو جائیں اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیرے، لیکن یہ دو رکعتیں سنت ظہر یا عشا کے قائم مقام نہ ہوں گی۔ اور اگر ان دو رکعتوں میں سے کسی میں امام کی اقتدا کی یعنی اب شامل ہوا تو یہ مقتدی بھی چھ پڑھے اور اگر اس نے توڑ دی تو دو رکعت کی قضا پڑھے اور اگر امام چوتھی پر نہ بیٹھا تھا تو یہ مقتدی چھ رکعت کی قضا پڑھے اور اگر امام نے ان رکعتوں کو فاسد کر دیا تو اس پر مطلقاً قضا نہیں۔
مسٔلہ:چوتھی پر قعدہ کر کے کھڑا ہو گیا اور کسی فرض پڑھنے والے نے اس کی اقتدا کی تو اقتدا صحیح نہیں اگرچہ لوٹ آیا، اور قعدہ نہ کیا تو جب تک پانچویں کا سجدہ نہ کیا، اقتدا کر سکتا ہے کہ ابھی تک فرض ہی میں ہے۔
مسٔلہ:دو رکعت کی نیت تھی اور ان میں سہو ہوا اور دوسری کے قعدہ میں سجدہ سہو کر لیا تو اس پر نفل کی بنا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
مسٔلہ:چار رکعت والی نماز میں امام دو رکعت کے بعد بیٹھا اور التحیات کے بعد درود شریف شروع کر دیا۔ مقتدی امام کے اتنا قریب ہے کہ اس نے امام کی آواز سنی کہ اس نے التحیات کے بعد درود شریف شروع کر دیا تو جب تک امام اللّھُم صلّی علیٰ سے آگے نہیں بڑھا ہے یہ سبحان اللہ کہہ کر بتائے اور اگر صلی علی محمد کہہ لیا ہے تو اب بتانا جائز نہیں بلکہ انتظار کرے، اگر امام کو خود یاد آئے اور کھڑا ہو جائے فبہا، اور اگر سلام پھیرنے لگے تو اس وقت بتائے، اگر اس سے پہلے بتائے گا تو بتانے والے کی نماز جاتی رہے گی اور اس کے بتانے کو امام لے گا تو اس کی اور سب کی جائے گی۔ (رضویہ)
مسٔلہ:مسافر نے سجدہ سہو کے بعد اقامت کی نیت کی تو چار پڑھنا فرض ہے اور آخر میں سجدہ سہو کا اعادہ کرے۔
مسٔلہ:قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد اتنا پڑھا اللّھم صلّ علیٰ محمّد سجدہ سہو واجب ہے ۔اس وجہ سے نہیں کہ درود شریف پڑھا بلکہ اس وجہ سے کہ تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر ہوئی۔ تو اگر اتنی دیر تک سکوت کیا جب بھی سجدہ سہو واجب ہے جیسے قعدہ و رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہے حالانکہ وہ کلام الٰہی ہے۔
مسٔلہ:کسی قعدہ میں اگر تشہد میں سے کچھ رہ گیا، سجدہ سہو واجب ہے، نماز نفل ہو یا فرض۔
مسٔلہ:پہلی دو رکعتوں کے قیام میں الحمد کے بعد تشہد پڑھا، سجدہ سہو واجب ہے اور الحمد سے پہلے پڑھا تو نہیں۔
مسٔلہ:قیام کی حالت میں تشہد پڑھ دیا۔ اگر پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے پڑھا تو سجدہ سہو لازم نہیں کیونکہ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان ثناء کا محل ہے اور تشہد ثناء سے۔ (ارکانِ اسلام)
مسٔلہ:اگر قیام میں تشہد قرأت کے بعد پڑھ دیا اور رکعت پہلی ہے یا دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پڑھ دیا یا بعد میں پڑھ دیا تو سجدہ سہو لازم ہو گا کیونکہ رکوع کو قرأت سے ملانا واجب ہے اسی طرح دوسری رکعت میں قرأت بعد میں پڑھ دیا تو سجدہ سہو لازم ہو گا کیونکہ رکوع کو قرأت سے ملانا واجب ہے، اسی طرح دوسری رکعت میں قرأت سے ابتدا بھی واجب ہے۔ دونوں سورتوں میں واجب کا ترک آ رہا ہے اس لئے آخر میں سجدہ سہو کرنا ہو گا۔ (ارکانِ اسلام)
مسٔلہ:پچھلی رکعتوں کے قیام میں تشہد پڑھا تو سجدہ واجب نہ ہوا۔ اور اگر قعدہ اولیٰ میں چند بار تشہد پڑھا تو سجدہ واجب ہو گیا۔
مسٔلہ:تشہد پڑھنا بھول گیا اور سلام پھیر دیا، پھر یاد آیا تو لوٹ آئے تشہد پڑھے اور سجدہ سہو کرے۔ یونہی اگر تشہد کی جگہ الحمد پڑھی، سجدہ واجب ہو گیا۔
مسٔلہ:رکوع کی جگہ سجدہ کیا یا سجدہ کی جگہ رکوع یا کسی ایسے رکن کو دوبارہ کیا جو نماز میں مکرّر مشروع نہ تھا یا کسی رکن کو مقدم یا مؤخر کیا تو ان سب صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے۔
مسٔلہ:رکوع و سجود کی تسبیحات سنت ہیں لہذا اگر یہ بھولے سے رہ جائیں یا رکوع میں بھولے سے سجدے کی تسبیح اور سجدے میں بھول کر رکوع کی تسبیح پڑھ لی جائے تو نماز ادا ہو جاتی ہے اور اس سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا۔ البتہ اگر رکوع یا سجدے میں جھکا اور سر اٹھا لیا اور ایک تسبیح کی مقدار بھی نہ رکا تو تعدیل رکن کا واجب فوت ہو جائے گا اور سجدہ سہو لازم آئے گا۔ (تفہیم المسائل)
مسٔلہ:قنوت یا تکبیر قنوت یعنی قرات کے بعد قنوت کے لئے جو تکبیر کہی جاتی ہے بھول گیا تو سجدہ سہو کرے۔
مسٔلہ:عیدین کی سب تکبیریں یا بعض بھول گیا یا زائد کہیں یا غیر محل میں کہیں ان سب صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے۔
مسٔلہ:امام تکبیرات عیدین بھول گیا اور رکوع میں چلا گیا تو لوٹ آئے اور مسبوق رکوع میں شامل ہوا تو رکوع ہی میں تکبیریں کہہ لے۔
مسٔلہ:عیدین میں دوسری رکعت کی تکبیر رکوع بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ہے اور پہلی رکعت کی تکبیر رکوع بھولا تو نہیں۔
مسٔلہ:جمعہ یا عیدین میں سہو واقع ہوا ہو اور جماعت کثیر ہو تو بہتر یہ ہے کہ سجدہ سہو نہ کرے۔
مسٔلہ:امام نے جہری نماز میں بقدرِ جوازِ نماز یعنی ایک آیت آہستہ پڑھی، یا سرّی میں جہر سے، تو سجدہ سہو واجب ہے اور ایک کلمہ آہستہ یا جہر سے پڑھا تو معاف ہے۔
مسٔلہ:منفرد نے سرّی نماز میں جہر سے پڑھا تو سجدہ سہو واجب ہے اور جہری میں آہستہ تو نہیں۔
مسٔلہ:ثنا و دعا و تشہد بلند آواز سے پڑھا تو خلاف سنت ہوا مگر سجدہ سہو واجب نہیں۔
مسٔلہ:قرات وغیرہ کسی موقع پر سوچنے لگا کہ بقدر ایک رکن یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے وقفہ ہوا، سجدہ سہو واجب ہے۔
مسٔلہ:امام سے سہو ہوا اور سجدہ سہو کیا تو مقتدی پر بھی سجدہ سہو واجب ہے۔ اگرچہ مقتدی سہو واقع ہونے کے بعد جماعت میں شامل ہوا اور امام سے سجدہ سہو ساقط ہو گیا تو مقتدی سے بھی سجدہ سہو ساقط۔ پھر اگر امام سے ساقط ہونا اس کے فعل کے کسی سبب ہو تو مقتدی پر بھی نماز کا اعادہ واجب ورنہ معاف۔
مسٔلہ:اگر مقتدی سے بحالت اقتداء سہو واقع ہو تو سجدہ سہو واجب نہیں۔ لیکن اگر قصداً کوئی فعل کرے (جس سےسجدہ سہو واجب ہوتا ہے) تو برا کیا لیکن نماز بہرحال ہو گئی۔ (خلیلیہ)
مسٔلہ:مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے اگرچہ اس کے شریک ہونے سے پہلے سہو ہوا ہو اور اگر امام کے ساتھ سجدہ نہ کیا اور باقی پڑھنے کھڑا ہو گیا تو آخر میں سجدہ سہو کرے اور اگر اس مسبوق سے اپنی نماز میں بھی سہو ہوا تو آخر کے یہی سجدے اس سہو امام کے لئے بھی کافی ہیں۔
مسٔلہ:مسبوق نے اپنی نماز بچانے کے لئے امام کے ساتھ سجدہ نہ کیا یعنی جانتا ہے کہ اگر سجدہ کرے گا تو نماز جاتی رہے گی مثلاً نماز فجر میں آفتاب طلوع ہو جائے گا یا جمعہ میں وقت عصر آ جائے گا تو امام کے ساتھ سجدہ نہ کرنے میں کراہت نہیں بلکہ بقدر تشہد بیٹھنے کے بعد کھڑا ہو جائے۔
مسٔلہ:مسبوق نے امام کے سہو میں امام کے ساتھ سجدہ سہو کیا پھر جب اپنی پڑھنے کھڑا ہوا اور اس میں بھی سہو ہوا تو اس میں بھی سجدہ سہو کرے۔
مسٔلہ:مسبوق کو امام کے ساتھ سلام پھیرنا جائز نہیں اگر قصداً پھیرے گا، نماز جاتی رہے گی اور اگر سہواً پھیرا اور سلامِ امام کے ساتھ معاً بلا وقفہ تھا تو اس پر سجدہ سہو نہیں اور اگر سلامِ امام کے کچھ بھی بعد پھیرا تو کھڑا ہو جائے، اپنی نماز پوری کر کے سجدہ سہو کرے۔
مسٔلہ:امام کے ایک سجدہ کرنے کے بعد شریک ہوا تو دوسرا سجدہ امام کے ساتھ کرے اور پہلے کی قضا نہیں اور اگر دونوں سجدوں کے بعد شریک ہوا تو امام کے سہو کا اس کے ذمہ کوئی سجدہ نہیں۔
مسٔلہ:امام نے سلام پھیر دیا اور مسبوق اپنی نماز پوی کرنے کھڑا ہوا اب امام نے سجدہ سہو کیا تو جب تک مسبوق نے اس رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو ، لوٹ آئے اور امام کے ساتھ سجدہ کرے، جب امام سلام پھیرے تو اب اپنی پڑھے اور پہلے جو قیام و قرات و رکوع کر چکا ہے اس کا شمار نہ ہو گا بلکہ اب پھر سے وہ افعال ادا کرے، اور اگر نہ لوٹا اور اپنی پڑھ لی تو آخر میں سجدہ سہو کرے، اور اگر اس رکعت کا سجدہ کر چکا ہے تو نہ لوٹے، لوٹے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔
مسٔلہ:امام کے سہو سے لاحق پر بھی سجدہ سہو واجب ہے مگر لاحق اپنی آخر نماز میں سجدہ سہو کرے گا اور امام کے ساتھ اگر سجدہ کیا ہو تو آخر میں اعادہ کرے۔
مسٔلہ:اگر تین رکعت میں مسبوق ہوا اور ایک رکعت میں لاحق تو ایک رکعت بلا قرات پڑھ کے بیٹھے اور تشہد پڑھ کر سجدہ سہو کرے پھر ایک رکعت بھری پڑھ کر بیٹھے، یہ اس کی دوسری رکعت ہے۔ پھر ایک بھری اور ایک خالی پڑھ کر سلام پھیرے۔ اگر ایک میں مسبوق ہے اور تین میں لاحق تو تین پڑھ کر سجدہ سہو کرے۔ پھر ایک بھری پڑھ کر سلام پھیر دے۔
مسٔلہ:مقیم نے مسافر کی اقتدا کی اور امام سے سہو ہوا تو امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے پھر اپنی دو پڑھے اور ان میں بھی سہو ہوا تو آخر میں پھر سجدہ کرے۔
مسٔلہ:جس پر سجدہ سہو واجب ہے اگر سہو ہونا یاد نہ تھا اور بہ نیت قطع سلام پھیر دیا تو ابھی نماز سے باہر نہ ہوا بشرطیکہ سجدہ سہو کرلے، لہذا جب تک کلام یا حدثِ عمد یا مسجد سے خروج یا اور کوئی فعل منافی نماز نہ ہو، اسے حکم ہے کہ سجدہ سہو کر لے۔ اور اگر سلام کے بعد سجدہ سہو نہ کیا تو سلام پھیرنے کے وقت سے نماز سے باہر ہو گیا۔ لہذا سلام پھیرنے کے بعد اگر کسی نے اقتدا کی اور امام نے سجدہ سہو کر لیا تو اقتدا صحیح ہے اور اگر سجدہ نہ کیا تو اقتدا صحیح نہیں۔ اور اگر یاد تھا کہ سہو ہوا ہے اور بہ نیت قطع سلام پھیر دیا تو سلام پھیرتے ہی نماز سے باہر ہو گیا اور سجدہ سہو نہیں کر سکتا ، اعادہ کرے۔ اور اگر اس نے غلطی سے سجدہ کیا اور اس میں کوئی شریک ہو تو اقتدا صحیح نہیں۔
مسٔلہ:سجدہ تلاوت باقی تھا یا قعدہ اخیرہ میں تشہد نہ پڑھا تھا مگر بقدر تشہد بیٹھ چکا تھا اور یہ یاد ہے کہ سجدہ تلاوت یا تشہد باقی ہے مگر قصداً سلام پھیر دیا تو سجدہ ساقط ہو گیا اور نماز سے باہر ہو گیا نماز فاسد نہ ہوئی کہ تمام ارکان ادا کر چکا ہے مگر بوجہ ترک واجب مکروہ تحریمی ہوئی۔ یونہی اگر اس کے ذمہ سجدہ سہو و سجدہ واجبِ تلاوت ہیں اور دونوں یاد ہیں یا صرف سجدہ تلاوت یاد ہے اور قصداً سلام پھیر دیا تو دونوں ساقط ہو گئے، اگر سجدہ نماز و سجدہ سہو دونوں باقی تھے صرف سجدہ نماز رہ گیا تھا اور سجدہ نماز یاد ہوتے ہوئے سلام پھیر دیا تو نماز فاسد ہو گئی اور اگر سجدہ نماز و سجدہ تلاوت باقی تھے اور سلام پھیرتے وقت دونوں یاد تھے یا ایک جب بھی نماز فاسد ہو گئی۔
مسٔلہ:سجدہ نماز یا سجدہ تلاوت باقی تھا یا سجدہ سہو کرنا تھا اور بھول کر سلام پھیرا تو جب تک مسجد سے باہر نہ ہوا ، ادا کرے۔ اور میدان میں ہو تو جب تک صفوں سے متجاوز نہ ہو یا آگے کو سجدہ کی جگہ نہ ہو تو گزارا کر لے۔
مسٔلہ:رکوع میں یاد آیا کہ نماز کا کوئی سجدہ رہ گیا ہے اور وہیں سے سجدہ کو چلا گیا یا سجدہ میں یاد آیا اور سر اٹھا کر وہ سجدہ کر لیا تو بہتر یہ ہے کہ اس رکوع و سجود کا اعادہ کرے اور سجدہ سہو کرے اور اگر اس وقت نہ کیا بلکہ آخر نماز میں کیا تو اس رکوع و سجود کا اعادہ نہیں سجدہ سہو کرنا ہو گیا۔
مسٔلہ:ظہر کی نماز پڑھتا تھا اور یہ خیال کر کے کہ چار پوری ہو گئیں، دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو چار پوری کر لے اور سجدہ سہو کرے، اور اگر یہ گمان کیا کہ مجھ پر دو ہی رکعتیں ہیں مثلاً خود کو مسافر تصور کیا یا یہ گمان ہوا کہ نماز جمعہ ہے یا نیا مسلمان ہے اورسمجھا کہ ظہر کے فرض دو ہی ہیں یا نماز عشا کو تراویح تصور کیا تو نماز جاتی رہی۔ یونہی اگر کوئی رکن فوت ہو گیا اور یاد ہوتے ہوئے سلام پھیر دیا تو نماز گئی۔
مسٔلہ:جس کو شمارِ رکعت میں شک ہو مثلاًتین ہوئیں یا چار، اور یہ شک پہلی بار نہیں بلکہ پیشتر بھی ہو چکا ہے تو اگر غالب گمان کسی طرف ہو تو اس پر عمل کرے ورنہ کم کی جانب کو اختیار کرے یعنی تین اور چار میں شک ہو تو تین قرار دے ، دو اور تین میں شک ہو تو دو، و علٰی ہذا القیاس اور تیسری چوتھی دونوں میں قعدہ کرے کہ تیسری رکعت کا چوتھی ہونا محتمل ہے اور چوتھی میں قعدہ کے بعد سجدہ سہو کر کے سلام پھیرے۔ اور گمان غالب کی صورت میں سجدہ سہو نہیں مگر جبکہ سوچنے میں بقدر ایک رکن کے وقفہ کیا ہو، سجدہ سہو واجب ہو گیا۔
مسٔلہ:نماز پوری کرنے کے بعد شک ہوا تو اس کا کچھ اعتبار نہیں اور اگر نماز کے بعد یقین ہے کہ کوئی فرض رہ گیا مگر اس میں شک ہے کہ وہ کیا ہے تو پھر سے پڑھنا فرض ہے۔
مسٔلہ:ظہر پڑھنے کے بعد ایک عادل شخص نے خبر دی کہ تین رکعتیں پڑھیں تو اعادہ کرے اگرچہ اس کے خیال میں یہ خبر غلط ہو اور اگر کہنے والا عادل نہ ہو تو اس کی خبر کا اعتبار نہیں اور اگر نمازی کو شک ہو اور دو عادل نے خبر دی تو ان کی خبر پر عمل کرنا ضروری ہے
مسٔلہ:اگر تعدادِ رکعات میں شک نہ ہوا مگر خود اس نماز کی نسبت شک ہے مثلاً ظہر کی دوسری رکعت میں شک ہوا کہ یہ عصر کی نماز پڑھتا ہوں اور تیسری میں نفل کا شبہ ہوا اور چوتھی میں ظہر کا، تو ظہر ہی ہے۔
مسٔلہ:تشہد کے بعد یہ شک ہوا کہ تین ہوئیں یا چار اور ایک رکن کی قدر خاموش رہا اور سوچتا رہا پھر یقین ہوا کہ چار ہو گئیں تو سجدہ سہو واجب ہے اور اگر ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد ایسا ہوا تو کچھ نہیں اور اگر اسےحدث ہوا اور وضو کرنے گیا تھا کہ شک واقع ہوا اور سوچنے میں وضو سے کچھ دیر تک رکا رہا ، سجدہ سہو واجب ہے۔
مسٔلہ:یہ شک ہوا کہ اس وقت کی نماز پڑھی یا نہیں، اگر وقت باقی ہے اعادہ کرے ورنہ نہیں۔
مسٔلہ:شک کی سب صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے اور غلبہ ظن میں نہیں مگر جبکہ سوچنے میں ایک رکن کا وقفہ ہو گیا تو واجب ہو گیا۔
مسٔلہ:بے وضو ہونے کا یقین ہوا اور اسی حالت میں ایک رکن ادا کر لیا تو سرے سے نماز پڑھے اگرچہ پھر یقین ہوا کہ وضو تھا۔
مسٔلہ:نماز میں شک ہوا کہ مقیم ہے یا مسافر تو چار پڑھے اور دوسری کے بعد قعدہ ضروری ہے۔
مسٔلہ:وتر میں شک ہوا کہ دوسری ہے یا تیسری تو اس میں قنوت پڑھ کر قعدہ کے بعد ایک رکعت اور پڑھے اور اس میں بھی قنوت پڑھے اور سجدہ سہو کرے۔
مسٔلہ:امام نماز پڑھا رہا ہے، دوسری میں شک ہوا کہ پہلی ہے یا دوسری یا چوتھی اور تیسری میں شک ہوا اور مقتدیوں کی طرف نظر کی کہ وہ کھڑے ہوں تو کھڑا ہو جاؤں اور بیٹھیں تو بیٹھ جاؤں تو اس میں حرج نہیں اور سجدہ سہو واجب نہ ہوا۔
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440363 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.