زندگی کے رنگ ۔۔۔اپنوں کے سنگ

سوشل میڈیا کا غلط استعمال

"آج سورج بھی کچھ زیادہ
ہی اپنی زمہ داری نبھا رہا ہے ، اتنی گرمی۔۔۔اف!
میں روز بروز کی آسمان کو چھوتی گرمی کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے بولی کہ اچانک فون کی گھنٹی نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔
اسلام علیکم ! فروا کیسی ہو؟
ایک عرصہ دراز کے بعد یہ جانی پہچانی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔۔
صفا۔۔اوہ!
میں بہترین الحمداللہ ۔ تم کونسی دنیا میں شفٹ ہوگئی ہو کالج کے بعد؟
میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ بھاری آواز میں جیسے چپکے چپکے سے آنسو بہا کر میری جانب لوٹی ہو اور دل کا کچھ درد بانٹنا چاہتی ہو۔۔ میری بات کا جواب دیے بغیر وہ بولی:
"تم کتنی خوش قسمت ہو نا ، سب نعمتیں ہیں اس کی تمہارے پاس ۔ تم دنیا کی ہستی بستی لڑکیوں کی لسٹ کے ٹاپ پر ہو ۔" یوں جیسے وہ ظاہری تسکیں مجھے اور باطنی گلہ اللہ سے کر رہی ہو۔
"میں کچھ سمجھی نہیں صفا "۔۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں بات میری سمجھ سے بالاتر تھی ۔
"تمہارہ واٹس ایپ سٹیٹس دیکھا میں"
اوہ اچھا۔۔ تو اس نے میرا وہ سٹیٹس دیکھا جو چند دن پہلے امی ابو اور گھر والوں کے ساتھ سیر کے مزے لوٹتے ہوئے میں لگا دیا تھا۔۔اور اس مہنگے ترین شاپنگ سنٹر سے شاپنگ کے متعلق غالبا میں کچھ لکھا تھا۔
وہ رونے لگی۔۔ زمانے بھر کی مشکلات کو سہنے کے بعد یوں جیسے اسے ایک کاندھا ملا تھا جس پر وہ اپنا سر رکھ کر اپنے مرحوم والدین کو یاد کر سکتی تھی اور اپنے بھائی کی اسکے بچوں میں مصروف زندگی کو کوس سکتی تھی۔۔ آہ وقت بھی کتنا ظالم ہوتا ہے۔۔اتنی سی عمر میں اسکے اتنے عزیز رشتے چھین لیے۔
مجھے کہنے لگی تم خوش قسمت ہو اس وجہ سے کہ جب چاہتی ہو اپنی خواہشات کی تکمیل کرا سکتی ہو۔ ایک میں ہوں کہ کالج فیس کے لیے بھابھی کی جلی کٹی سننا پڑتیں تھیں اور بھائی کے ماتھے پہ آئے بل کو بھی دیکھنا پڑتا تھا ، آج جب گھر کے سب کام بھابھی کے کہنے پے کرنے پڑتے ہیں تو امی کی بہت یاد آتی ہے فروا۔
پتہ نہیں میرا مستقبل کیا ہو گا فروا ۔ مجھے کس کے ہاتھوں اس گھر سے نکالا جائے گا ، پتہ نہیں آگے کیا ہوگا یار، کبھی امی تھیں تو کام کو ہاتھ نہیں لگاتی تھی میں ، روٹی پکانے کا ارادہ کرتی تو جاتے ہی پیرا بننا شروع کر دیتی اور امی آکر کہتیں کہ ہمیشہ نکمی ہی رہوگی کیا؟ یہ نہیں معلوم تمہیں کہ سب سے پہلے چولہا جلاتے ہیں؟
اور میں کہتی امی مجھے نہیں یاد رہتیں یہ سب باتیں ۔ اللہ جانے آپ کیسے یاد رکھ لیتی ہیں۔
اب تو مجھے یہ بھی فکر رہتی ہے کہ آٹا بھی ہے کہ نہیں گوندھا ہوا۔ اب تو میں بہت سگھڑ ہو گئی ہوں نا۔
زندگی میں پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ کبھی کبھار ہم اپنی خوشی میں دوسروں پہ گزرنے والی قیامت کو بھول جاتے ہیں۔ ہم یہ تصور ہی نہیں کر پاتے کہ جانے ہمارے یہ سٹیٹس کتنے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں ۔ اگلا نا جانے کن حالات سے دوچار ہوتا ہے۔ ہماری خوشی کی خبر پڑھ کر خود کو ملامت کرتا ہے ۔ جب کہ ہم اپنے اہل و عیال کے ساتھ اتنا مزہ نہیں لوٹ رہے ہوتے جتنا وہ سمجھتا ہے۔ دور کے ڈھول سہانے ۔ اس نے شاید اس سے پہلی رات کو خود کو بہت سمجھایا ہو گا کہ نہیں اب بس امی کو بھول جاو اب یہی میری زندگی ہے۔۔ اب ہوں ہی جینا ہے۔۔ اور اگلے ہی دن میرا سٹیٹس دیکھ کر وہ تڑپی ہوگی،اسے ایک بار پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر خود کو مار ڈالنے کو جی چاہا ہوگا۔
ہم اس سوشل میڈیا کے جال میں ایسا پھنس چکے ہیں کہ ہمیں اپنے ساتھ بیٹھے انسان کے حال کا پتہ نہیں ہوتا اور سٹیٹس ہوں لگائے جاتے ہیں کہ جیسے ہم کتنا کو سب میں گھلے ملے ہوئے ہیں ، جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔
اپنی پرسنل لائف اور ان خوشیوں کو خدارا ایک حد میں رہ کر اپ لوڈ کیجیے ۔ اس لائف کو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ شیر کیجئے ۔ فیس بک کو کسی دین کی خبر پھیلانے یا دوسروں کی اخلاقی تربیت جیسے کام کے لیے استعمال کریں نا کہ دوسروں کی زندگی پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے ۔ اپ کو کیا ملے گا ایسا کر کے؟ جب کہ اس نے تو آپ کو دیکھا تک انہیں۔ اپنے ساتھ بیٹھے کی خبر پہلے لیں ناکہ سٹیٹس اپ لوڈ کرنا ضروری سمجھیں اپ۔۔اپنے ان چھوٹے چھوٹے لمحات کو انجوائے کیجئے ۔۔ سفر کو ، دوستوں کی باتوں کو، امی کی اپنے زمانے کی پرانی باتوں کو ، بہن بھائی کے پیار کو اور دوران سفر کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو۔اپنی زندگی کو با مقصد بنایں۔دکھلاوا چھوڑ دیجئے۔

زندگی بہت خوبصورت رنگوں سے بڑھی پڑھی ہے مگر یہ رنگ اپنوں کے ساتھ ہیں۔۔۔فیس بک کے فرینڈز کے ساتھ نہیں ۔
 

Ayesha Zubair
About the Author: Ayesha Zubair Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.