حسن نے ڈاکٹر سے شارب کی حالت پوچھی تو انہوں نے مایوسی
سے کہا۔ دُوانے بہت سے ٹشوز کو ڈیمیج کر دیا ہے ۔ہم نے اپنی طرف سے تو پوری
کوشش کی ہے لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا اگلے چوبیس گھنٹوں میں امید ہے ہے کہ
ہوش آ جائے ،پھر دیکھتے ہیں کیا سیچویشن ہے ۔ آپ دُعا کریں ۔
غزالہ جو تھوڑی دیر کے لیے چپ کر کے دُعائیں اور منتیں مانگ رہی تھیں پھوٹ
پھوٹ کر رونے لگیں۔ حسن خاموشی اور غصے سے ان کی جانب دیکھ رہے تھے۔ نازیہ
اپنے دُکھ کو بھول کر اپنے بھائی کے لیے دُعائیں مانگ رہی تھی۔ اس سے اپنی
ماں کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ اگر شارب نے یہ سب نہیں کیا ہوتا تو
شاہد میں یہ سب کرنے کا سوچ رہی ہوتی ۔اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ سے
کہا۔ہم کیسے خود غرض ہو جاتے ہیں ۔بھائی نے خودکشی کرتے وقت کسی بھی رشتے
کا نہیں سوچا ،سوائے اپنی محبت کی ناکامی کے۔ ہمیں ہماری ذات ہی دھوکا دیتی
ہے ۔ کچھ دھوکے انسان باخوشی کھاتا ہے۔ نفس کی خوشی کے لیے۔ اس کی نظر بے
اختیار اپنے موبائل پر پڑی جو پاورڈ آف تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر کے سر
کرسی کی سیٹ پر پیچھے کی طرف ٹیک دیا۔ وہ بہت تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی۔عارف
نے فون کر کےسبین کو خبر دی اور شارب کی حالت کا بتایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبین کو شارب کے بارے میں سن کر بہت دُکھ ہوا اس نے عنابیہ کو فون کر کے
بتایا۔ عنابیہ نے افسوس کی اظہار کرتے ہوئے کہا۔ یار مجھے کیا پتہ تھا ۔وہ
اس حد تک جا سکتا ہے ۔ میں نے تو تمہیں اس لیے مشورہ دیا تھا۔ کیونکہ تم اس
کی فضول قسم کی کال سےتنگ تھی ۔ میرا خیال تھا جب وہ تمہارے نکاح کی خبر
سنے گا تو خود بخود پیچھے ہٹ جائے گا۔سبین نے روتے ہوئے کہا۔ عنابیہ یار
اسے کچھ ہو گا تو نہیں ۔ اب میں کیا کروں ۔ اس کا ایس ایم ایس بھی میں نے
نہیں دیکھا ۔ اس کے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ اس کی حالت بہت نازک ہے۔ اللہ
۔ اسے کچھ نہ ہو۔
عنابیہ ، رو نہیں یار ۔ اس میں تمہارا اور میرا کیا قصور ۔ ہمیں کیا پتہ
تھا کہ وہ اس قدر بے وقوف ہو سکتا ہے۔ بھلا کو ئی ۔اس دور میں بھی کسی کے
لیے خود کشی کر سکتا ہے۔ سبین نے روتے ہوئے کہا۔ میں ہوسپٹل جا رہی ہوں ۔
تم چلو گی۔ عنابیہ نے اس کی بات سننے کے بعد فوراً سے انکار کر دیا۔ سبین
تم پاگل ہو کیا ۔ اس کے گھر والے تمہیں پتہ نہیں کیا کیا کہیں گئے۔ خبر دار
ایسی حماقت کی تو ۔ تم وہاں ہر گرز نہیں جانا ۔ سمجھی تم ۔
سبین نے روتے ہوئے کہا۔ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ وہ اس قدر سنجید ہ ہے تو
میں اس سے سوچنے کے لیے وقت لیتی ۔ مجھے لگا کہ وہ ٹائم پاس کرنے کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عنابیہ نے فسردگی سے کہا۔ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہا تھا۔
مجھے شارب بہت ایموشنل لگتا ہے۔ تم نے ہی غور نہیں کیا۔
سبین نے اپنی الماری سے شارب کی دی ہوئی کتاب نکالی ۔ جو شاعری پر مبنی
کتاب تھی۔ سبین کو جب شارب نے کتاب دی تو وہ ہنسی تھی۔ میں اس کا کیا کروں
گی۔ مجھے تو شاعر لوگ پاگل لگتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ جس کو محبت ہو جاتی
ہے اسے شاعری اچھی لگنے لگتی ہے ۔ کہیں تمہیں کسی سے محبت تو نہیں ہو گئی۔
شارب نے نظریں چراتے ہوئے کہا تھا۔ ہوئی تو نہیں شاہد ہو جائے۔ کتاب اچھی
ہے پڑھنا۔
سبین نے کتاب کے کور کو غور سے دیکھا اس نے کتاب کو کھول کر بھی نہیں دیکھا
تھا۔ وہ غالباً پہلی بار اسے کھول رہی تھی۔
کور پر بڑا سا آویزاں تھا چاند اور میں ۔ احمد فراز کی کتاب۔ وہ الٹ پلٹ
کر دیکھنے کے بعد کھول کر بیچ بیچ سے پڑھنے لگی۔ایک صفحہ پر اسے لکھا نظر
آیا کہ مر گیا ہے ۔ تو اس کا دل ذور سے دھڑکا ۔ اس نے وہ گزر جانے والا
صفحہ پھر سے ڈھونڈا اور غزل کو شروع سے پڑھنے لگی۔
غزل اپنے عنوان کے ساتھ اس کی انکھوں سے دل میں اُتر رہی تھی۔
سچ کا زہر
تجھے خبر بھی نہیں
کہ تیری اداس ادھوری
محبتوں کی کہانیاں
جو بڑی کشادہ دلی سے
ہنس ہنس کے سن رہا تھا
وہ شخص تیری صداقتوں پر فریفتہ
باوفا ثابت قدم
کہ جس کی جبیں پہ
ظالم رقابتوں کی جلن سے
کوئی شکن نہ آئی
وہ ضبظ کی کربناک شدت سے
خموش ،چپ چاپ
مر گیا ہے۔
پڑھنے کے بعد وہ پھر سے رونے لگی ۔ میں نے یہ تو ایس کبھی نہیں چاہ تھا۔
اللہ اسے کچھ نہ کرئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کافی دیر ہو چکی تھی۔ نازیہ اور حسن گھر میں تھے۔ نازیہ نے نماز پڑھی اور
اپنے بھائی کے لیے اللہ سے دُعا کرنے لگی۔ وہ کبھی باقاعدگی سے نماز نہیں
پڑھتی تھی۔ اس کے کانوں میں امی کی آواز کانوں سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوئی۔
بیٹا دلوں کا سکون تو اللہ کی یاد میں ہی ہے۔ یہ گانے وانےروح کی غذا نہیں
ہوتے۔
نازیہ نے قرآن مجید کھولا اور تلاوت کرنے لگی ۔ اس کی انکھوں سے
آنسوگِرنے لگے۔اس نے کافی دنوں کے بعد قرآن کھولا تھا۔ یہ اس کا قرآن
تھا ،جسے اس کی دوسری چیزوں کی طرح کسی کو ہاتھ لگانے کی اجاذت نہیں تھی۔
اس کے لحاف پر گرد پڑی تھی۔ اس نے لحاف کوا تارہ تو مٹی اس کے ہاتھوں کو لگ
گئی ۔ اس کی انکھوں میں آنے والے آنسووں مذید بڑھ گئے،اسے پھر امی کی بات
یاد آئی۔ نازی نماز اور قرآن نہیں چھوڑتے بیٹا ،جب انسان اللہ کی عبادت
چھوڑ دیتا ہے اور وہ مومن ہوتا ہے تو رب اس پر غم مسلط کر دیتا ہےتا کہ وہ
اپنے رب کی طرف لوٹ آئے۔ اس نے اپنے آپ سے روتے ہوئے کہا۔ ہاں اسی لیے
مجھ پر غم مسلط کیا گیا ہے۔ میں توقیر سے تو گھنٹوں باتیں کرتی رہی لیکن
اپنے رب کو فراموش کر دیا۔اس نے اپنا چہرہ اپنے دوپٹہ سے صاف کیا۔ وہ سورت
فاتحہ کی تلاوت کر رہی تھی۔ اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دیکھا۔ راستہ ان
لوگوں کا جن پر تیرا انعام ہوا ۔وہ بار بار یہ ہی آیت پڑھ رہی تھی ۔ اس کو
عنودگی محسوس ہوئی ۔ اس نے قرآن مجید کو الماری میں رکھا۔ لحاف کو لے کر
بستر کی طرف گئی۔ بستر پر لیٹ کر اس نے سوچا، جب میں جاگوں گی تو اس لحاف
کو سب سے پہلے دھو لوں گی۔ اس نے انکھیں بند کی تو فوراً نیند نے اس پر
غلبہ پا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن ہوسپٹل جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے ،انہوں نے نازیہ کو آواز دی ۔
نازیہ کی انکھ کھل چکی تھی۔ وہ فوراً سے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ پاپا کے پاس گئی
تو انہوں نے اسے ساتھ چلنے کا کہا اس نے تھوڑا سا وقت مانگا ۔ وہ واش روم
میں منہ دھو رہی تھی کہ اسے قرآن مجید کے لحاف کا خیال آیا وہ اسے دھونے
لگی ۔ تھوڑی دیر میں حسن اور نازیہ ہوسپٹل پہنچ چکے تھے ۔ جہاں عارف اور
غزالہ موجود تھے کافی تھکے تھکے لگ رہے تھے۔
حسن نے غزالہ کے قریب آ کر دھیرے سے کہا ، یہ سب تمہاری شے کا نتیجہ ہے ۔
اب لڑکے کو کچھ ہو گیا توکون ذمہ دار ہو گا۔ تمہارا فرض تھا نا اسے سمجھاتی
لیکن تمہیں اپنے ماضی پر پچھتانے کے سوا کچھ سوجھے تونا۔ کافی گھنٹے گزر
چکے تھے ۔ شارب کو ابھی ہوش نہیں آیا تھا ۔ نازیہ خاموشی سے اپنے ماں باپ
کی بے بسی کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ اپنی محبت کے کھو جانے کی بجائے اپنی
ماں کے دُکھ اور تکلیف سے متعلق سوچ رہی تھی۔ کافی دیر کرسی پر بیٹھے بیٹھے
وہ تھک چکی تھی۔اس نے اپنی انکھیں بند کر لیں ۔ عارف گھر گیا ہوا تھا۔ حسن
اور غزالہ کے درمیان ہونے والی بات جیت سے نازیہ کوشدید حیرت ہو رہی تھی۔
اس نے اپنے پاپا کے منہ سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں سنی تھی جو قابل فخر نہ
ہو۔ اس کے پاپا اس کے ہیرو تھے۔ وہ اپنی ماں سے ذیادہ اپنے پاپا کی بات
مانتی اور عزت کرتی تھی۔ آ ج اسے اس کا ہیرو ایک عام سا انسان محسوس ہو
رہا تھا۔ جو غصہ کو جذب نہیں کر رہا تھا۔ جو اپنی تکلیف اپنے سے کمزور کو
منتقل کر دینا چاہ رہا تھا۔ تم غزالہ تم میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہو۔
منحوس تھا وہ دن جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا۔ تمہاری وجہ سے میری
زندگی برباد ہو گی ۔ اب اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا تو میں تمہیں چھوڑوں گا
نہیں ۔ نازیہ نے پہلی دفعہ اپنے باپ کو اپنی ماں کے لیے ذہر اُگلتا ہوا
دیکھا تھا۔ پاپا ایسے کیسے بول سکتے ہیں نازیہ نے اپنی نگاہوں کو حسن کی
طرف گماتے ہوئے سوچا۔ ماما کا کیا قصور جو کچھ بھائی نےکیا ہے۔ پھر اس نے
اپنی ذات پر اک نگاہ دُہرائی ۔
حسن ابھی اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے۔ تم نہ اچھی بیٹی ہو ،نہ اچھی بیوی
کم سے کم اچھی ماں تو بن جاتی غزالہ ۔ میری ہی عقل پر پتھر پڑے تھے ۔ جو
لڑکی اپنے باپ کی عزت نہیں رکھ سکتی وہ اپنے شوہر کا گھر کیسے سنبھالے گی۔
میری ماں نے ٹھیک کہا تھا میں کبھی خوش نہیں رہوں گا۔ اب دیکھو۔ غزالہ
خاموشی سے سنتی جا رہی تھی۔ نازیہ کو اپنے تمام جسم میں انگارےجلتے ہوئے
محسوس ہوئے۔ یہ وہ پسند کی شادی تھی۔ میرے اللہ ۔ نازیہ نے دل ہی دل میں
خود کو کوسا۔ میں سوچتی تھی ماما کس قدر خوش ہیں ۔پسند کی شادی کر کے ۔ میں
بھی پسند کی شادی کروں گی۔ مگرمیرے اللہ ۔
غزالہ نے دھیرے سے کہا ۔ حسن آپ غصہ نہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ روتے
ہوئے خود کو اور حسن کو تسلی دے رہی تھیں ۔ حسن نے مذید غصے میں آتے ہوئے
کہا۔ تمہارے جیسی عورت جس گھر میں ہو وہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ نازیہ کی
انکھوں سے آنسو وں کی بارش جاری ہو گئی ۔ اس نے افسردگی سے حسن کی طرف
آتے ہوئے دھیرے سے ان سے کہا۔ پاپا اس میں ماما کیا کیا قصور ۔ حسن فورا
کچھ پیچھے ہو گئے ۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ نازیہ ان کی باتیں سن رہی
تھی۔
وہ نازیہ اور غزالہ کو روتا چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔نازیہ نے اپنی ماں کے
کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ماما۔ یہ ہے آپ کی لو میرج ۔ مائی گاڈ ۔ آپ نے کبھی
شیئر کیوں نہیں کی ۔ آپ نے تصویر کے پیچھے کا رُخ ہم سے کیوں چھپایا ماما۔
یہ ہے آپ کی خوشگوار زندگی۔ آپ نے پاپا سے کہا کیوں نہیں کہ شادی آپ نے
زبردستی نہیں کی ان سے ۔ آپ نے کچھ کہا کیوں نہیں بولیں نا ۔ ماما بولیں
نا۔ غزالہ نے روتے ہوئے کہا۔میں نے جو گناہ کیا ہے اس کی سزا تو مجھے ملنی
ہی چاہیے نا۔ کیسا گناہ ماما۔ نازیہ نے حیرت سے کہا۔ اپنی ماں کو چھوڑنے کا
گناہ ۔ اپنے باپ کی عزت کو پاوں میں روندنے کا گناہ۔ کوئی ایک گناہ کیا ہو
تو نا۔ میں اندھی ہو گئی تھی۔ میری انکھوں پر سہانے خوابوں کی پٹی باندھ دی
تھی تمہارے باپ نے ۔ مجھے لگتا تھا ۔ روتے ہوئے ہچکیوں میں بول نہیں پا رہی
تھی۔ نازیہ نے ان کی بے بسی کو اپنے اندر اُترتے ہوئے محسوس کیا۔ اس کا غم
تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کی ماں تو غموں کے بوجھ میں دبی ہوئی تھی۔ اس نے
اپنی ماں کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔ اپنے بوجھ کو ہلکا کر لیتی نا ماما ۔ مجھے
کیوں نہیں بتایا ۔ آپ تو چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بتاتی تھی ۔ اتنا سارا
بوجھ دل میں لیے بیٹھی تھیں۔
اس نے پھر اپنے دل کی طرف دیکھا۔ ہم انسان شاہد ایسے ہی ہوتے ہیں ۔دلوں کے
بوجھ دوسروں سے بانٹنا بہت مشکل کام ہے۔ شاہد یہ دل ہوتے ہی اسی لیے ہیں کہ
ان میں قبریں بنائی جائیں۔ یادوں کی قبریں ۔وہ خاموشی سے اپنی ماں کے
وجودمیں گِرتے ہوئے آنسووں کو اپنے دل میں جذب کر رہی تھی۔ اگر توقیر کے
ساتھ شادی کر کے میری زندگی ایسی ہوتی تو بہت اچھا ہے کہ یہ رشتہ راستے میں
ہی دم توڑ گیا۔ اس نے اپنی ماں کے وجود کو دیکھ کر تخیل میں اللہ کا شکر
ادا کیا۔
ڈاکٹر نے قریب آ کرکہا۔ آپ کے بیٹے کو ہوش آ گیا ہے۔ غزالہ خاموشی سے
ڈاکٹر کی انکھوں میں دیکھ کر اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ وہ آئی سی یو کی طرف چل پڑی
۔ نازیہ دروازے پر ہی رُکی ہوئی تھی ۔ غزالہ نے شارب کے سر پر ہاتھ رکھا تو
اس کی انکھوں سے آنسو گِر گئے۔
غزالہ نے پیار سے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔ شارب یہ سب کرتے ہوئے
بیٹا تمہیں کیا ایک بار بھی میرا خیال نہیں آیا۔ شارب نے روتے ہوئے کہا۔
ماما جب خیال آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ سوری ماما۔ میں پاگل ہو گیا تھا۔
ایم ریلی سوری ماما۔ نازیہ نے دل ہی دل میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا
اس کا بھائی موت کے منہ سے نکل آیا تھا۔ وہ دروازے پر کھڑی اپنی ہی سوچوں
میں گم تھی کہ رونے کی آواز نے اسےکی سوچوں کے دھارے کو توڑ دیا۔ کوئی
عورت دھاڑیں مار مار کر اپنے جوان بیٹے کی موت کا ماتم کر رہی تھی۔ نازیہ
نے جب ویزٹر روم کی طرف دیکھا تو اسے اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ پھر اس
نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تو نے شارب کو بچا
لیا۔بے شک تو کسی نفس کو اس کی طاقت سے ذیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ اے اللہ تو
کریم ہے۔ اسے اپنا وجود اللہ کی ذات سے بہت قریب محسوس ہو رہا تھا۔ ایک
عورت اس کے قریب سے گزری بے دھیانی میں اس کا کندھا نازیہ کے کندھے سے ٹکرا
گیا۔ اس نے فوراً سوری کہا۔ نازیہ نے کوئی بات نہیں کہہ کر پھر کھڑکی سے
اندر دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ بار بار اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی۔ جس نے
انہیں ایک بہت بڑے غم سے بچا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شارب نے بیٹھنے کی کوشش کی اس کو محسوس ہوا کہ اس کے جسم کا آدھا حصہ کام
نہیں کر رہا۔ وہ خود کو گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ اس کا ایک بازو اور ایک ٹانگ
کام نہیں کر رہے تھے۔ او میرے خدا کیا میں۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ ڈاکٹر
کی ٹیم کمرے میں آ چکی تھی۔ انہوں نے غزالہ کو ایک سائیڈ پر کر کے شارب کا
مکمل معائنہ کیا ۔ شارب نے اپنی حالت کا مکمل طور پر ان سے اظہار کر دیا۔
غزالہ رونے لگی۔ ڈاکٹر نے غزالہ کو باہر بھیج دیا۔
نازیہ نے غزالہ کو باہر آتے دیکھ کر فوراً شارب کی حالت کا پوچھا۔ ماما
کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں ۔ ماما بولیں نا۔ حسن بھی واپس آ چکے تھے ۔
کیا ہوا انہوں نے غزالہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ شارب کو ہوش آ گیا ہے ، نازیہ
نے مجھے فون کیا تھا۔ ڈاکٹر نے کیا کہا۔
ڈاکٹر کی ٹیم باہر آ چکی تھی۔ حسن ان کی طرف چلے گئے۔ ڈاکٹر ز نے حسن کو
بتایا کہ شارب نے جو گولیا ں کھائی تھیں ان کی وجہ سے اس کی ایک بازو اور
ایک ٹانگ مفلوج ہو چکے ہیں ۔ ممکن ہے کہ وہ تمام عمر اب اسی طرح رہے اور یہ
بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی قوت ارادی سے دوبارہ چلنے لگے۔ ٹھیک ہو جائے۔ ہم نے
دنیا میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنی قوت ارادی سے اپنے مرض پر
قابو پا لیتے ہیں ۔
حسن کو افسوس کے ساتھ ساتھ شارب پر شدیدغصہ آ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے شارب کو
ڈسچارج کرنے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ آپ کے بیٹے کو اب ایسی کوئی بیماری
نہیں جس کا علاج کیا جائے ۔ ہاں روٹین چیک آپ کے لیے آپ اسے دو دن بعد لے
آنا ۔ تب تک کے لیے ہم اسے ویل چیر اور کچھ دوائیں دیں گے ۔
ویل چیر حسن نے ڈاکٹر کے جانے بعد چلاتے ہوئے کہا۔ سنا تم نے غزالہ ویل
چیر۔ اس سے تو اچھا تھا مر جاتا تمہارا بیٹا ۔ غزالہ نے غصہ سے حسن کی طرف
دیکھا۔ روتے ہوئے بولی۔ آپ کچھ بھی کہہ رہے ہیں جو منہ میں آ رہا ہے۔ حسن
تو کیا کہوں ۔ اس عمر میں اپائیج ہو کر بیٹھ گیا ہے ۔ قوت ارادی ۔ ناکام
عاشق کے پاس نہیں ہوتی قوت ارادی ۔ اسے کہو۔ ایک پتہ اور کھا لے گولیوں کا
اور میری جان چھوڑے ۔غصے کی شدت میں حسن کیا کہہ رہے تھے انہیں خود اس بات
کا علم نہیں تھا۔ان کی آواز اندر ہتھوڑے کی طرح شارب کے کانوں میں بج رہی
تھی ۔
اس نے اپنے آپ سے کہا میں ضرور چلوں گا پاپا ۔ میں ضرور کامیاب ہو کر
دیکھاوں گا۔ اگر میں موت سے لڑ کر زندہ رہ سکتا ہوں تو میں کچھ بھی کر سکتا
ہوں ۔ آنسو اس کی انکھوں میں ٹھہر چکے تھے۔ اس نے اپنے نہ ہل سکنے والے
ہاتھ کی طرف غورسے دیکھا۔ پھر اپنے دوسرے ہاتھ کو اپنی انکھوں کے سامنے
لہراتے ہوئے کہا۔ شکر ہے اللہ کا میری یہ ہاتھ تو ہلتا ہے ، میری یہ ٹانگ
بھی ہلتی ہے اس نے اپنی ٹانگ کوکافی اونچا ہوا میں اُٹھایا ہوا تھا ۔ جب
نرس کمرے میں داخل ہوئی اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا۔ آپ کو کچھ
گھنٹوں کے بعد ڈسچارج کر دیا جائے گا ۔ ابھی آپ کو روم میں شفٹ کر رہے ہیں
۔ شارب نے اپنے جسم کو گھسیٹ کرنرس کی شفٹنگ کرنے میں مدد کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازیہ اور غزالہ دونوں ہی رو رہی تھیں ۔ انہوں نے اپنے آنسو صاف کئے اور
شارب کے کمرے میں داخل ہوئی۔ شارب انکھیں بند کیے لیٹا تھا۔ وہ سوچ رہا
تھا۔ شاہد میری زندگی کی سب سے بڑی حماقت مجھ سے سر زد ہو چکی ہے ۔ اب اس
کے بعد کسی حماقت کی کوئی جگہ نہیں ۔ غزالہ نے بھرائی ہوئی آ واز میں شارب
سے کہا فکر نہ کرو شارب جب تک میں زندہ ہوں ۔ وہ پھر رونے لگی۔ شارب نے
مسکرانے کی ناکام کو شش کی ۔ ماما۔ ماما۔ آپ کیوں رو رہی ہیں ۔ میں کسی پر
بوجھ نہیں بنوں گا۔ میں بہت جلد اپنے قدموں پر چلنے لگوں گا۔ نازیہ نے پاس
آ کر شارب کا نہ ہل سکنے والا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ شارب کو اس کے لمس
کا کوئی احساس نہیں ہوا۔ وہ ہاتھ جیسے اس کے جسم کا حصہ تھا ہی نہیں اس کی
پوری بازوکا یہی حال تھا۔ اس نے اپنے جسم کی ہر تلخ حقیقت کو تسلیم کر لیا
تھا۔ اُس کےپاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹر کے لیکچر نے اس
میں ٹھیک ہونے کے لیے کافی جوش بھر دیا تھا ۔وہ بار بار اپنے مفلوج ہاتھ
اور پاوں کو ہلانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توقیر ایر پورٹ پر تھا۔ اس کی کزن ارم اور ماموں آ چکے تھے۔ اس نے بڑے جوش
سے ان کا خیر مقدم کیا۔ انہیں لے کر گھر آیا ۔ اس کی نظر بار بار ارم کو
دیکھ رہی تھی۔ وہ خود پر رشک کر رہا تھا۔ارم جیسی خوبصورت لڑکی اس کی شریک
حیات بننے جا رہی تھی۔ ارم بھی مسکرا کر اس کی نظروں کو خوش آمدید کہہ رہی
تھی۔
ان دونوں کی شادی کی تیاریاں ہونے لگی تھی۔ طے یوں ہوا تھا۔ کہ شادی کا کچھ
عرصہ ساتھ گزارنے کے بعد ارم واپس یو کے اپنے ڈیڈی کے ساتھ چلی جائے گی اور
وہاں سے ویزا بھیج کر توقیر کو بلا لے گی۔ اس دوران توقیر بھی اپنی پڑھا
پوری کرنے کے ساتھ ساتھ انگلش لینگویج کو بہتر بنا لے گا۔ توقیرکو اپنا
مستقبل جنت سا حسین محسوس ہو رہا تھا۔ وہ نازیہ کو بلکل بھول گیا۔
ارم نے حیرت سے فوزیہ کو جاتے ہوئے دیکھا۔ توقیر نے مسکرا کر کہا شاہد کباب
میں ہڈی نہیں بننا چاہتی ۔ میری بہن بہت سمجھ دار ہے۔ ارم مسکرا دی۔اس نے
توقیر کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے بھی ہڈی پسند نہیں ۔ توقیرنے
اس کی نگاہوں میں دیکھتے ہوئے ۔ اچھا کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازیہ واپس گھر آ چکی تھی ،شارب ہوسپٹل سے ڈسچارج ہو چکا تھا۔ پورے گھر
میں ماتم کا سا سناٹا تھا۔ نازیہ کچھ دیر شارب کے کمرے میں امی کے ساتھ
بیٹھی جو بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھا۔ غزالہ حسن بار بار رو رہی تھی۔ وہ
شارب کو تسلی دینے کی کوشش کرتی اور پھر خود ہی رونے لگتی ۔ نازیہ اپنے
کمرے میں آ چکی تھی ۔ اسے اپنا دل دماغ بوجھل لگ رہا تھا۔ اس کے تھرڈ ایر
کے امتحان کا رذلٹ آنے والا تھا۔
اس نے موبائل پر فیس بک کھولی ۔اسے سب ایک دھوکا محسوس ہو رہا تھا۔ زندگی
کس قدر تلخ ہے اس نے شارب کی بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے سوچا۔ اس نے اپنی
لاسٹ پوسٹ دیکھی جو ایک شعر تھا۔ جو اس نے توقیر کو کسی ڈائجسٹ سے پڑھ کر
کافی دفعہ سنایا تھا۔ اس نے بھی دل کھول کر داد دی۔ اس نے شعر پر ایک نظر
دہرائی۔
وہ جو میرا ہو انکھوں میں حیا رکھتا ہو۔
ہر قدم ساتھ چلے عزم وفا رکھتا ہوا۔
میں اس کے ناز نہ اُٹھاوں تو گلہ نہ کرے۔
میرے درد کو سہنے کی ادا رکھتا ہو۔
اس کی انکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ اس کا پورا چہرہ بھیگ چکا تھا۔وہ دل ہی
دل میں سوچ رہی تھی ،آخر محبت ہے کیا۔ کیا محبت ایک دھوکا ہی ہے یا پھر اس
کا کوئی وجود بھی ہے۔ اسے شارب کی بے بسی اور اپنے کیے پر شدت سے ملال تھا۔
اس نے لاگ آوٹ کیا اور اوندھی ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شارب نے امی کی طرف دیکھا۔ اسے واش روم جانا تھا۔ وہ دل ہی دل میں پریشان
ہو رہا تھا۔ اسے کہتے ہوئے شرم آ رہی تھی۔وہ ہر پل اس پل کو کوس رہا تھا۔
جب اس نے خود کشی کا سوچا۔ کتنی بڑی غلطی کر دی میں نے وہ دھیر ے سے
بڑبڑھایا۔
|