رمضان المبارک کی برکتوں کے کیاکہنے!یوں تواس ماہ مبارک
کی ہرہرگھڑی ولمحہ رحمت خداوندی سے بھری ہوئی ہے اورہرہرساعت اپنے جِلومیں
بے پایاں رحمتیں لئے ہوئے ہے۔مگراس ماہ مکرم میں شب قدرسب سے زیادہ اہمیت
کی حامل ہے۔اس مقدس شب کی فضیلت کون نہیں جانتا؟اُسے پانے کے لئے ہمارے
پیارے آقاحضورنبی اکرم،نورمجسم ،شاہ بنی آدم،نبی محتشم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم نے رمضان المبارک کاپورامہینہ بھی اعتکاف فرمایاہے اورآخری دس (10)دن
توآپ ﷺ نے توکبھی ترک نہیں فرمایا۔یہاں تک کہ ایک بارکسی عُذرخاص کی وجہ سے
آپ ﷺاعتکاف نہ کرسکے توشوّال المکرم کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا۔’’جامع
الترمذی‘‘ وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ سفرکی وجہ سے آپ ﷺ کامبارک اعتکاف رہ
گیاتواگلے رمضان المبارک میں بیس(20) دن کااعتکاف فرمایا۔بہرحال ہم غریبوں
کے آقا ،یتیموں کے ماویٰ ،بیکسوں کاسہاراحضوررحمت دوعالم ﷺاعتکاف کاخوب
اہتمام فرماتے رہے ،نیزپچھلی امتوں میں بھی اعتکاف کی عبادت موجودتھی۔خدائے
وحدہٗ لاشریک قرآن مجیدفرقان حمیدمیں ارشادفرماتاہے کہ:’’وَعَھِدْنَااِلیٰ
اِبرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَابَیْتِیْ لِلطَّائِفِیْنَ
وَالعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ‘‘اورہم نے تاکیدفرمائی ابراہیم
واسمٰعیل (علیھماالسلام)کوکہ میراگھرخوب ستھراکروطواف والوں اوراعتکاف
والوں اوررکوع وسجودوالوں کے لئے‘‘۔(ترجمہ:کنزالایمان،پارہ 1،رکوع 15،آیت
نمبر125)نماز واعتکاف کے لئے کعبہ مشرفہ کی پاکیزگی اورصفائی کاخودرب
کائنات کی طرف سے فرمان جاری کیاجارہاہے۔چنانچہ کُتب تفاسیرمیں اسی آیت
کریمہ کے تحت ہے کہ کعبہ شریف کی آبادی اوررونق افزائی کااہتمام
فرمایاجارہاہے اورحکم دیاجارہاہے’’ائے ابراہیم!ائے
اسمٰعیل!(علیھماالسلام)ہرآلائش وہرآلودگی سے ہمارے گھرکوپاک وصاف ورکھو۔اس
کافرش غبارسے ،اس کی دیواریں بدنمادھبوں سے ،اوراس کی چھتیں مکڑی کے جالوں
سے نہ اٹی رہیں،بلکہ اُجلافرش،شفّاف آئینہ داردِیواریں اورپاک وصاف چھتیں
ہوں۔تاکہ عبادت کرنے والوں کودل جمعی نصیب ہواوروہ اطمینان وسکون کے ساتھ
اپنے معبودبرحق کی عبادت کرسکیں۔
اعتکاف کالغوی معنٰی:اعتکاف کالغوی معنیٰ ہے اپنے آپ کوکسی خاص مقام پرروکے
رکھناکسی چیزپرجمارہنااورکسی شئے کی پابندی اختیارکرنا۔
اعتکاف کاشرعی معنٰی:شرع میں عبادت کی نیت سے اﷲ تعالیٰ کی رضاکے لئے
مسجدمیں ٹھہرنے کانام اعتکاف ہے۔رمضان المبارک کااعتکاف سنت مؤکدہ علی
الکفایہ ہے کیونکہ حضوراکرمﷺرمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہمیشہ اعتکاف
فرمایاکرتے تھے،اعتکاف کے متعلق احادیث مبارکہ ذکرکی جارہی ہیں جن سے اس کی
فضیلت اوراہمیت واضح ہوجائے گی۔
٭ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ حضوراکرم
ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کیاکرتے تھے یہاں تک کہ اسی معمول
پروصال فرمایا۔٭حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ رمضان
المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے اورایک مرتبہ اعتکاف نہیں
فرمایاتودوسرے سال بیس دن یعنی (دوعشرے)اعتکاف فرمایاایک دوسری روایت میں
بھی اسی طرح آیاہے۔٭بے شک نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخرعشرے میں اعتکاف فرماتے
تھے ۔یہاں تک کہ اﷲ نے آپ کووفات دے دی پھرآپ کے بعدآپ کی ازواج مطہرات
اعتکاف کیاکرتی تھیں۔٭ابن ماجہ شریف میں ہے کہ جب آپ ﷺ اعتکاف فرماتے تھے
توآپ کابستریاآپ کی چارپائی ستون توبہ کے آگے یاپیچھے بچھائی جاتی
تھی۔مرقات میں ہے کہ ستون توبہ مسجدنبوی شریف کے ستونوں میں سے ایک ہے جہاں
حضرت ابولبابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی توبہ قبول ہوئی تھی یہ مقام بھی قابل
زیارت ہے۔٭حضرت نافع نے کہامجھے عبداﷲ بن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وہ جگہ
دکھائی جہاں رسول اﷲ ﷺ اعتکاف فرمایاکرتے تھے۔
ان مذکورہ روایات سے اعتکاف کی فضیلت واہمیت کاپتہ چلتاہے اوراس بات کاواضح
ثبوت ملتاہے کہ حضوراکرم ﷺنے اس عمل کوہمیشہ کیااورحضورﷺ کاکسی عمل کوہمیشہ
کرنااس کی فضیلت پربَیِّن دلیل ہے اسی وجہ سے رمضان ا لمبارک کے آخری عشرے
میں اعتکاف کرناسنت مؤکّدہ علی الکفایہ قرارپایاجیساکہ شیخ عبدالحق محدث
دہلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ’’ اشعۃ اللمعات جلد۲صفحہ۱۱۸‘‘پرفرماتے ہیں!
’’ظاہرمذہب حنفیہ میں اعتکاف سنت مؤکدہ ہے اس لئے کہ رسول اﷲ ﷺ ہمیشہ
اعتکاف فرمایاکرتے تھے یہاں تک کہ اس دنیاسے تشریف لے گئے‘‘۔
ابن ماجہ میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ
حضوراکرم ﷺنے معتکف کے بارے میں فرمایا وہ گناہوں سے باز رہتاہے اورنیکیوں
سے اُسے اس قدرثواب ملتاہے جیسے اس نے تمام نیکیاں کیں۔
امام بیہقی نے حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضورنبی
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاجس نے رمضان میں دس دنوں کااعتکاف کیاتووہ ایساہے
جیسے اس نے دوحج اوردوعُمرکئے۔
اعتکاف کی قسمیں: اعتکاف کی تین قسمیں ہیں(۱)اعتکاف واجب(۲)اعتکاف
سنت(۳)اعتکاف مستحب۔
اعتکاف واجب: اعتکاف واجب یہ ہے کہ جیسے کسی نے یہ منت مانی کہ میرا فلاں
کام ہوجائے تو میں ایک دن یا دودن کااعتکاف کروں گااوراس کاوہ کام ہوگیا تو
یہ اعتکاف واجب ہے اوراس کاپوراکرناضروری ہے لیکن یادرکھئے کہ اعتکاف واجب
کے لئے روزہ شرط ہے بے غیرروزے کے اعتکاف واجب صحیح نہیں
ہے۔(درمختار،جلد۲،ص۱۲۹،۱۳۰)
اعتکاف سنت: یہ رمضان کے آخری دس دنوں میں کیاجاتاہے یعنی بیسویں رمضان
کوغروب آفتاب سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوجائے اورتیسویں
رمضان کوغروب آفتاب کے بعدیاانتیسویں رمضان کوچاندہونے کے بعدمسجدسے نکلے۔
واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ یعنی اگرمحلے کے سب لوگ
چھوڑدیں گے توسب تارک سنت کی وجہ سے گنہگارہونگے اوراگرایک نے بھی
کرلیاتوسب بری ہوجائیں گے۔اس اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے۔(درمختار،ج۲،ص۱۲۹)
اعتکاف مستحب : اعتکاف مستحب یہ ہے کہ کبھی دن یارات میں کسی بھی وقت
مسجدکے اندرداخل ہوتواعتکاف کی نیت کرے جتنی دیرمسجدمیں رہے گااعتکاف کا
ثواب پائے گا۔نیت کے لئے صرف اتنادل میں خیال کرلینااورزبان سے کہہ
لیناکافی ہے کہ میں نے رضائے خداکے لئے اعتکاف مستحب کی نیت کی اس اعتکاف
میں روزہ شرط نہیں ہے۔(فتاویٰ عالمگیری،ج۱،ص۱۹۷)
اعتکاف کی حقیقت: اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ عاجزی وانکساری کے ساتھ جب
اپنے مولیٰ کے درپرآکرٹھہرجاتاہے اورتمام دُنیوی کاموں کوپس پشت ڈال کرصرف
اپنے رب کوراضی کرنے کے لئے اس کی یادمیں محوہوجاتاہے توپھراﷲ تعالیٰ اس کی
گناہوں کوبخش دیتاہے اورحدیث شریف کے مطابق معتکف کوبے شمارنیکیاں
عطافرماتاہے کیونکہ جب وہ راضی ہوجاتاہے اوربندے پراپنے کرم کی برسات
کرتاہے توپھراس کے انعامات اورنوازشات کااندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔
اعتکاف کامقصد: اعتکاف کامقصوداصلی یہ ہے کہ انسان کی روح اوراس کا دل اﷲ
تعالیٰ کی پاک ومقدس ذات کے ساتھ کامل طورسے اس طرح وابستہ ہوجائے کہ سب کی
طرف سے ہٹ کراسی کی طرف مجتمع ہوجائے اورساری مشغولیوں کے بدلے میں اسی کی
پاک ذات سے مشغول ہوجائے اوراس کے غیرکی طرف سے منقطع ہوکراس طرح اس میں لگ
جائے کہ خیالات وتفکرات سب کی جگہ اس کاپاک ذکراوراس کی محبت سماجائے حتیٰ
کہ مخلوق کے ساتھ انس کے بدلے اﷲ تعالیٰ کی ذات مقدس کے انس
پیداہوجائے۔صاحب مراقی الفلاح کہتے ہیں کہ اعتکاف اگراخلاص کے ساتھ
ہوتوافضل ترین اعمال سے ہے کہ قلب کودنیاومافیہاسے الگ کرلیناہے اورنفس
کومولیٰ تعالیٰ کے سپردکردیناہے اورآقاکی چوکھٹ پرپڑجاناہے۔نیزاس میں ہروقت
وہ عبادت میں مشغول ہے اس کاسوناجاگناسب عبادت میں شمارہوتاہے اوراﷲ تعالیٰ
کے ساتھ قرب حاصل ہوتاہے۔حدیث قدسی میں آتاہے کہ جوشخص میرے ایک ہاتھ قریب
ہوتاہے تومیں اس سے دوہاتھ قریب ہوتاہوں ،جومیری طرف آہستہ چلتاہے میں اس
کی طرف دوڑکرآتاہوں ،اوراعتکاف میں بندے کواﷲ تعالیٰ کے گھرجاناپڑتاہے یعنی
وہ اﷲ تعالیٰ کامہمان ہوتاہے اوریہ قاعدہ ہے کہ میزبان ہمیشہ اپنے گھرآنے
والے کااکرام کرتاہے توجب بندہ اﷲ تعالیٰ کے گھر میں اس کی رضااورحصول قرب
کے لئے قیام کرتاہے توپھراﷲ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوجاتاہے۔
اعتکاف کے مسائل: ٭مسجدمیں اﷲ تعالیٰ کے رضاکی حصول کی نیت سے ٹھہرنااعتکاف
ہے اوراس کے لئے مسلمان عاقل جنابت اورخواتین کے لئے حیض ونفاس سے پاک
ہوناشرط ہے بلوغ شرط نہیں بلکہ نابالغ جوشعوررکھتاہواگربہ نیت اعتکاف
مسجدمیں ٹھہرے تو یہ اعتکاف صحیح ہے۔(عالمگیر،درمختار،ردالمحتار)٭سب سے
افضل اعتکاف حرم شریف میں ہے پھرمسجدنبوی شریف پھرمسجداقصیٰ اورپھراس
مسجدمیں جہاں بڑی جماعت ہوتی ہو۔(جوہرہ نیرہ)٭مرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ
مسجدمیں اعتکاف کرے اورعورت اپنے گھرمیں اس جگہ اعتکاف کرے گی جوجگہ اس نے
نماز پڑھنے کے لئے مقررکی ہو۔(درمختار،ج۲،ص۱۲۹)٭اگرعورت نے اپنے نماز کے
لئے کوئی جگہ مقررنہیں کررکھی توگھرمیں اعتکاف نہیں کرسکتی البتہ اگراس وقت
یعنی جب اعتکاف کاارادہ کیااورکسی جگہ نماز کے لئے خاص کرلیاتوپھراس جگہ
اعتکاف کرسکتی ہے۔(درمختار،ردالمحتار)٭اعتکاف کرنے والادُنیوی بات نہ کرے
قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہے حدیث شریف پڑھے اوردرودشریف کی کثرت کرے
علم دین پڑھنے پڑھانے میں مصروف رہے ۔حضوراکرم ﷺ اوراولیاء عظام کی سیرت
طیبہ کی کتابیں پڑھے۔(فتاویٰ عالمگیری،ج۱،ص۱۹۸،مطبوعہ مصر)٭معتکف کے لئے
بِلاعذرمسجدسے نکلناحرام ہے اگرنکلاتواعتکاف ٹوٹ جائے گاچاہے قصداً نکلے
یاپھربھول کر،اسی طرح عورت نے جس گھرمیں اعتکاف کیا اس کواس گھرسے
باہرنکلناحرام ہے اگرعورت اس گھرسے باہرنکل گئی توخواہ وہ قصداًنکلی
ہویاپھربھول کراس کااعتکاف ٹوٹ جائے گا۔(درمختار،ج۲،ص۱۳۳)٭معتکف دن رات
مسجدمیں ہی رہے گاسوئے گامگریہ احتیاط رکھے کہ کھانے پینے سے مسجدگندی نہ
ہونے پائے معتکف کے سوااورکسی کومسجدمیں کھانے پینے اورسونے کی اجازت نہیں
ہے اس لئے اگرکوئی آدمی مسجدمیں کھاناپیناچاہے تواس کوچاہیے کہ اعتکاف
مستحب کی نیت کرکے مسجدمیں داخل ہواورنمازپڑھے۔ذکرالٰہی کرے پھراس کے لئے
کھانے پینے اورسونے کی بھی اجازت ہے۔(درمختار،ج ۲،ص۱۴۴)٭معتکف صرف دوعذروں
کی وجہ سے باہرنکل سکتاہے ایک عذرطبعی جیسے پاخانہ۔پیشاب اورغسل فرض ووضوکے
لئے دوسرے عذرشرعی کے لئے جیسے جمعہ کے لئے جاناان اعذارکے سواکسی اوروجہ
سے دانستہ یانادانستہ ایک بھی منٹ کے لئے مسجدسے نکلاتواعتکاف ٹوٹ جائے
گا۔(درمختار،ج۲،ص۱۳۳)٭اعتکاف کے لئے جامع مسجدہوناشرط نہیں بلکہ ایسی
مسجدجہاں نماز باجماعت ہوتی ہے اعتکاف کیا جاسکتاہے یعنی وہ مسجدجس میں
امام ومؤذن مقررہوں۔(ردالمحتار)٭اگرایسی مسجدمیں اعتکاف کیاجہاں جماعت نہیں
ہوتی تونمازباجماعت اداکرنے کے لئے اس کومسجدسے باہرجانے کی اجازت
ہے۔(ردالمحتار)٭اگرمعتکف کسی ڈوبنے یاجلنے والے کوبچانے کے لئے مسجدسے
باہرگیایاگواہی دینے کے لئے گیایاجہادمیں سب لوگوں کابلاوہ ہوااوریہ بھی
نکلایامریض کی عیادت کی یانمازجنازہ کے لئے گیا۔اگرچہ کوئی دوسراپڑھانے
والانہ ہوتوان سب صورتوں میں اعتکاف فاسدہوگیا۔(عالمگیری)٭عورت نے اعتکاف
کی منت مانی توشوہرمنت پوری کرنے سے روک سکتاہے بائن ہونے یاشوہرکی موت کے
بعدپوری کرے۔(عالگیری)٭ اگرمنت مانتے وقت یہ شرط کرلی کہ مریض کی عیادت
،نمازجنازہ،اورمجلس علم میں حاضرہوگاتویہ شرط جائزہے ۔اب اگران کاموں کے
لئے جائے گاتواعتکاف فاسدنہ ہوگامگردل میں نیت کرلیناکافی نہیں بلکہ زبان
سے کہناضروری ہے۔(عالمگیری،ردالمحتار)٭کسی دن یاکسی مہینے کے اعتکاف کی منت
مانی تواس سے پہلے بھی اس منت کوپوراکرسکتاہے یعنی جبکہ معلق نہ
ہواورمسجدحرام شریف میں اعتکاف کرنے کی منت مانی تودوسری مسجدوں میں بھی
پوراکرسکتاہے۔(عالمگیری)٭معتکف نے حرام مال یانشہ کی چیزرات میں کھائی
تواعتکاف فاسدنہ ہوااگرحرام کاگناہ ہوالہٰذاتوبہ کرے۔٭معتکف کابے ہوشی
اورجنون اگرطوایل ہوں کہ روزہ نہ ہوسکے تواعتکاف فاسدہوگیااورقضاء واجب ہے
اگرچہ کئی سال بعدصحت یاب ہو۔(عالمگیری)٭معتکف کووطی کرنااورعورت کابوسہ
لینا،چھونایاگلے لگاناحرام ہے۔جماع سے بہرحال اعتکاف فاسدہوجائے گا۔انزال
ہویانہ ہوقصدًاہویابھولے سے۔مسجدمیں ہویاباہر،رات میں ہویادن میں احتلام
ہوگیایاخیال جماع سے نظرکرنے سے انزال ہواتواعتکاف فاسدنہ ہوا۔(عالمگیری)
مولاناعبدالسلام رضویؔ
نائب قاضی ادارہ شرعیہ مرکزاہلسنت مسجداعظم و خطیب مسجداقصیٰ،فاؤنٹین سرکل،
میسور |