“ ارے بیٹا کہا جا رہے ہو ،،،، رکو بات تو سنو،،،، ارے “
شازمہ نے والی کو جاتا دیکھا تو پکارتی رہ گئی والی بھی سنی ان سنی کرتا
گاڑی لے کر جانے کہا چلا گیا تھا۔ وہ بس دیکھتی رہ گئی۔ پھر وہ آہستہ سے
چلتی ہوئی حسنہ کے کمرے میں آگئی ، حسنہ زمیں پر خلاہ میں کچھ گھور رہی تھی
۔شازمہ کو لگا وہ رو رہی ہے ، مگر اسکی آنکھیں خشک تھی۔ ان میں آنسو ؤں کا
شائبہ تک نہ تھا۔
“ کیا ہوا ہے بیٹا ایسے کیوں بیٹھی ہو ،،، والی سے جھگڑا ہوا ہے کیا؟ “
شازمہ اسکے پاس پنجوں کے بل بیٹھ گئی اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
حسنہ نے چونک کر اسے دیکھا بولی کچھ نہیں۔
“ کیا ہوا ہے بیٹا کچھ تو بتاؤ ؟ “ شازمہ نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
“ کردار ،،، کردار کے پرخچے اڑا گیا وہ شخص “ وہ مشکل سے بس اتنا ہی کہہ
پائی ۔
“ کیا کہہ رہی ہو بیٹا،،،،، چلو اٹھو یہاں سے بیڈ پر بیٹھو “ وہ اسے زمین
سے اٹھا کر بیڈ پر بیٹھا دیتی ہے۔ سائیڈ ٹیبل پر پرے جگ سے پانی انڈیل کر
اسکے منہ سے گلاس لگا دیتی ہے۔ وہ مشکل سے صرف دوگھونٹ ہی ہلک سے انڈیل
پائی
“ اب بتاؤ کیا ہوا ہے “ شازمہ نے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
حسنہ نے ساری بات شازمہ کو رک رک کر بتا دی۔
“ مگر آپکی اور سہیل کی تصویر لی کس نے ؟ نائلہ کے گھر تو کوئی اور تھا ہی
نہیں ہمارے سوا پھر وہ کون ہو سکتا ہے بیٹا!“
میں نہیں جانتی آنٹی! وہ کون تھا مگر اسکے موبائل میں وہ تصویر تھی جو کسی
نے اسے ایم ایم ایس کی،،،، وہ کون ہے کیا چاہتا ہے میں نہیں جانتی۔ اسکی
مجھ سے کیا دشمنی ہے ؟ “ وہ جو مشکل سے آنسوؤں پر بندھ لگائے بیٹھی تھی، اب
آنسو اسکی گالوں پر لڑھکنے لگے ۔
“ اچھا تم پریشان نا ہو میں کچھ کرتی ہوں ،،، اور اب آرام کرو رونا بلکل
نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ “ شازمہ اسے تسلی دیتی وہاں سے چلی گئی۔
مگر حسنہ کے دل کو سکون نہیں آرہا تھا اسکے ذہن میں یہ ہی سوال ہتھوڑے برسا
رہا تھا کہ آنٹی نے اسے منع کیوں کیا کہ والی کو کچھ نہ بتائے۔
کچھ دیر بعد وہ نہا کر فریش ہو گئی۔
“ اللہ اکبر اللہ اکبر “ وہ ابھی اپنے بال خشک کر رہی تھی ، جب اذان کی
آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔
“ لا الہ الا اللہ “ وہ ڈریسنگ کے پاس سے اٹھ کر بیڈ پر سے دوپٹہ اٹھا کر
سر پر لپیٹ کر وہی بیٹھ گئی۔ اور اذان سننے لگی جس کا ہر لفظ اسکے دل کو
سکون پہنچا رہا تھا۔ آج سے پہلے اسے اذان اتنی اچھی کبھی نہیں لگی تھی جتنی
آج لگ رہی تھی۔
“ بے شک دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔ “ وہ دل میں آج اس بات کا اطراف
کرنے لگی۔ اذان کے ختم ہوتے ہی وہ جائے نماز بچھا کر نماز کے لئے کھڑی ہو
گئی جبکہ اسکا نماز پڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مگر اللہ اسے اپنے سامنے
کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ وہ اسے بلا رہا تھا۔ اس لئے اسے اذان کی طرف متوجہ
کیا۔ اور وہ خود کو روحانی کیفیت میں محسوس کرتی پوری توجہ سے نماز پڑھنے
لگی۔ نماز کے دوران اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھی، پھر ان میں تیزی
آتی گئی۔ وہ نماز کے دوران ہچکیوں سے رونے لگ گئی۔ اسکے در پر حاضری دے کر
رونے کا مزہ وہ محسوس کر سکتی تھی کیوں کہ اسکے دل سے ساری پریشانی آنسوؤں
کے ذریعے بہ کر ختم ہو رہی تھی ۔ پھر بے چینی کی جگہ دل کو سکون اور قرار
آرہا تھا۔ وہ سجدے میں بھی کافی دیر تک دل ہلکا کرتی رہی۔
سچ کہا کسی نے جس کا کوئی نہیں ہوتا اسکا اللہ ہوتا ہے۔ اور اللہ اپنے بندے
کو کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑتا پھر حسنہ کو کیسے چھوڑ دیتا۔ وہ تو اپنے
بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ کافی دیر رو لینے کے بعد وہ نماز سے
فارغ ہو کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر ایک بار پھر اپنے رب کے حضور بلک اٹھی۔
(جاری ہے ) |