دنیا میں وہی قومیں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں ۔ جو اپنے
انسانی وسائل کا مؤثر اور صحیح استعمال کر رہی ہیں ۔ مشرقی ایشیاء جہاں اب
حالات بدل چکے ہیں۔ وہاں ریاستوں نے اپنے تمام لوگوں کو نہ صرف خواندہ
بنایا۔ بلکہ لوگوں کے رجحان طبع کے مطابق مختلف Skills میں ٹریننگ دی ۔ اب
ان ملکوں کی آبادیاں اپنے ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کر رہی ہیں۔اب دنیا
کی قوت کا مرکز امریکہ اور یورپ کی بجائے مشرقی ایشیاء بنتا جا رہا ہے ۔
پاکستان بھی ایک بڑی آبادی والا ملک ہے ۔2017کی آبادی کی گنتی کے
اعدادوشمار آنے کے بعداندازہ ہے کہ آبادی20کروڑ سے بڑھ جائے گی۔ اس وقت
پاکستان کی 68.4فیصد آبادی کی عمر 30سال سے کم ہے ۔ ان میں 15سال سے29سال
کی عمر کے نوجوان 27.63فیصد ہیں ۔ ان نوجوانوں کا تیسرا حصہ شہروں اور باقی
دیہاتوں میں رہتا ہے ۔ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد دنیا کے بہت کم ملکوں
میں ہے ۔یورپ کی لیبر فورس تو اب کافی بوڑھی ہو چکی ہے ۔ انہیں نوجوانوں کی
کمی کا مسئلہ در پیش ہے ۔ مسئلہ یہ در پیش ہے کہ پاکستان بچوں اور نوجوانوں
کی اتنی بڑی تعداد کو اپنے اور دنیا کے لیے کیسے موثر اور فائدہ مند بنا
سکتا ہے ۔ ہمارے ان نوجوانوں کو اﷲ نے بے پناہ جسمانی اور دماغی صلاحیتیں و
دیعت کی ہیں ۔ مسئلہ ان صلاحیتوں کو دریافت کرنا اور انہیں نشو و نما دینے
کا ہے ۔ آجکل دنیا میں ہر شعبہ زندگی میں جدید ترین آلات و اوزار اور
مشینیں استعمال ہو رہی ہیں ۔ زراعت، دستکاریاں ، صنعتیں ، بجلی اور گیس
پیدا کرنے کے پلانٹ ، ٹرانسپورٹ اور ذرائع رسل و رسائل کے ذرائع ہر وقت
تبدیلی کی زد میں رہتے ہیں ۔ کام کرنے کے طریقے اور ٹیکنالوجیز بدلتی رہتی
ہیں ۔ ان تمام شعبہ ہائے زندگی میں صحیح کام کرنے کے لیے جدید اور اعلیٰ
تعلیم انتہائی ضروری ہے ۔ اب تو زراعت جیسے بظاہر سادہ نظر آنے والے کام
بھی تعلیم کے بغیر نہیں ہو سکتے ۔ اگر ہم اپنے نوجوانوں کو معیاری تعلیم
دیں تو ہم بھی قوموں کی برداری میں تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ تعلیم کے
ساتھ ساتھ صحت کی سہولتوں کی فراہمی بھی لازمی ہے ۔ کیونکہ ایک اچھے دماغ
کے لیے صحت مند جسم کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ اوپر نوجوانوں کی تعداد بتائی
گئی ہے ۔ ان میں 32 فیصد نوجوان سرے سے ناخواندہ ہیں ۔ جو پڑھ رہے ہیں ان
میں سے بھی بہت کم بچوں اور نوجوانوں کو معیاری تعلیم کی سہولیات حاصل ہیں
۔ آج کل تعلیم پبلک اور پرائیویٹ دونوں شعبے فراہم کر رہے ہیں ۔ پرائیویٹ
شعبے میں اب پورے ملک میں ایسے تعلیمی نیٹ ورکس قائم ہو گئے ہیں ۔ جہاں
تعلیم کا معیار کافی اونچا ہے اور زمانے کی ضرورتوں کے مطابق ہے ۔ لیکن
ایسے معیاری پرائیویٹ سکولوں کی تعداد ضرورت کے لحاظ سے بہت ہی کم ہے ۔
جہاں تک پبلک اسکولوں کا تعلق ہے ۔ وہاں کے حالات انتہائی پسماندہ ہیں ۔
پنجاب میں اب چند اضلاع میں دانش اسکول قائم ہوئے ہیں ۔ جہاں تعلیم کا
معیار بہتر ہے ۔ لیکن پرائیویٹ معیاری اسکولوں کی طرح ان کی تعداد بھی
انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔ ضرورت ہے کہ تمام پبلک اسکولوں کا معیار دانش
اسکولوں کے برابر کیا جائے ۔ دیہات کے پبلک اسکول کے حالات میڈیا پر آتے
رہتے ہیں ۔ کئی اسکولوں میں اب بھی بڑے زمینداروں نے اپنے جانور باندھے
ہوتے ہیں ۔اس سے حکومتوں کی تعلیم سے بے توجہی کا پتہ چلتا ہے ۔ اب ضروری
ہو گیا ہے کہ جدید علوم اور خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم ایسے
طریقے سے دی جائے کہ طالب علم تخلیقی ذہن کے حامل بنیں ۔ طلباء کو سوچنے ،
سمجھنے اور کچھ کر دکھانے کی طرف توجہ دلائی جائے ۔ ہم صرف اسی صورت میں
اپنے کروڑوں نوجوانوں کو معاشرے اور ملک کے لیے فائدہ مند بنا سکتے ہیں ۔
یہی اعلیٰ تعلیم یافتہ بچے بڑے ہو کر اپنے ملک کے قدرتی وسائل سے بہتر فائد
ہ اٹھا سکیں گے ۔ ہمارے ہاں قدرتی وسائل کی کمی نہیں ہے ۔ زرخیز زمینیں اور
پانی موجود ہے ۔ اگر تعلیم یافتہ نوجوان زراعت میں کام کریں گے تو وہ بہت
جلد پاکستان کو ایشیاء کا اناج کا گھر بنا سکتے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان کی
زمین کے نیچے معدنیات کی بھی کمی نہیں ہے ۔ انہیں نکال کر مصنوعات میں ڈھال
سکتے ہیں ۔ یوں ہماری برآمدات بڑھیں گیں اور درآمدات کم ہونگی ۔ تعلیم
اداروں سے فارغ ہونے والے نوجوانوں میں یہ رجحان پیدا کیا جائے کہ انہوں نے
تعلیم کی تکمیل کے بعد اپنا روزگار خود شروع کرنا ہے ۔ اسے آگے بڑھانا ہے ۔
اس طرح وہ روزگار تلاش کرنے والے کی بجائے روزگار فراہم کرنے والے بنیں ۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے کورسز کرائے جا
رہے ہوں۔ وہاں انہیں کاروبار اور معاشی دنیا کے بارے میں بھی بتایا جائے ۔
تاکہ تعلیمی فراغت کے بعد وہ اپنی پسند کے شعبوں میں خود کاروبار شروع کر
سکیں ۔ طلباء کو چاہئے کہ وہ Salary لینے والوں کی بجائے Salary دینے والے
بنیں ۔ پاکستان میں غربت کے خاتمے اور بے روزگاری کا یہی ایک حل ہے ۔ اس
طرح اشیاء کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا ۔ ملک کی قومی آمدنی بڑھے گی ۔
دوسری قوموں کی طرح ہمارے حالات بھی بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ مشرقی
ایشیاء میں جو تبدیلی آئی ہے ۔ وہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی وجہ سے آئی ہے ۔
جاپان ، جنوبی کوریا اور چین کا معاشی انقلاب تعلیم یافتہ ، باہنر نوجوانوں
اور ایمان دار سیاسی لیڈر شپ کی وجہ سے آیا ہے ۔ اس تبدیلی کے لیے ضروری ہے
کہ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں تعلیم و تربیت کے لیے بڑی بڑی
رقومات مختص کریں ۔ چین اور جنوبی کوریا نے تعلیم پر لگا تار اپنی آمدنی کا
بڑا حصہ خرچ کیا ہے ۔ نوجوانوں نے اپنے ملک میں بھی تعلیم حاصل کی اور اپنی
صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے تعلیمی اداروں سے
بھی فائدہ اٹھایا۔ طلباء نے نئی نئی ٹیکنالوجیز سیکھیں اور واپس آکر اپنے
ملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئے ۔ U.N.O نے بھی اپنی تحقیق شائع کی ہے کہ
جہاں انسانی وسائل ترقی نہیں کرتے ۔ وہا معاشی ترق بھی نہیں ہوتی ۔ مسلم
ممالک پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممالک معاشی ترقی میں
بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ اگر تمام مسلم ممالک کی قومی آمدنیوں کو جمع کیا
جائے تو وہ ایک ملک جاپان کے برابر بھی نہیں بنتیں ۔ وجہ ظاہر ہے کہ مسلم
ممالک میں جدید تعلیم اور خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجیز کی تعلیم پر بہت
کم اخراجات کئے گئے ہیں ۔ اپنے انسانی وسائل کی صلاحیتوں میں اضافہ نہیں
کیا گیا ۔ پاکستان کی بھی صورت حال ایسی ہی ہے ۔ یہاں اب تک تعلیم پر صرف 2
فیصد خرچ کیا گیا ہے ۔ حالانکہ 2009 ء کی تعلیمی پالیسی کے اعلان کے وقت یہ
کہا گیا تھا کہ تعلیم کا بجٹ G.D.P کے 7 فیصد تک بڑھا دیا جائے گا ۔ لیکن
اب تک 8بجٹ آ چکے ہیں ۔ تعلیم پر اخراجات جوں کے توں ہیں ۔پنجاب کے علاوہ
کہیں تبدیلی نہیں آئی ۔ ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ہم نئی مردم
شماری کے مطابق 20کروڑ سے زائد ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کی
تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان انسانی وسائل کو معیشت کے لیے فائدہ
مند بنانے کے لیے تعلیم اور خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر
بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کرنا ضروری ہے ۔ صحت کی سہولیات بہم پہنچانا بھی ضروری
ہیں ۔ انسانی ترقی کے اعشاریے میں اب ہم 187 ملکوں کی برادری میں 145 نمبر
پر شمار ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا درجہ تعلیم اور دیگر سہولیات
میں بہت نیچے ہے ۔ اگر ہم نے تعلیم کے ذریعے ان بچوں اور نوجوانوں کو بہتر
انسان بنا لیا تو یہ ہمارے لیے اور دنیا کے لیے فائدہ مند ہونگے ۔ اس کے بر
عکس دہشت گرد تنظیمیں ناخواندہ نوجوانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے
استعمال کرتی رہیں گی ۔ انسانی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے نقطہ نظر سے
دنیا میں اب Global Talent Ranking کی جاتی ہے ۔ اس ریکنگ میں ہم کافی نیچے
ہیں ۔ نوجوانوں کی تعلیم وتربیت سے ہی ہم اپنا یہ درجہ بہتر بنا سکتے ہیں ۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ طلباء میں تعلیم کے ساتھ کاروباری فہم پیدا کریں ۔
تاکہ طالب علم تعلیم کے بعد فوراً اپنے کاروبار میں مشغول ہو جائیں ۔ حکومت
کاروبار شروع کرنے کے لیے مدد فراہم کرے ۔ انسانی وسائل کے موثر استعمال سے
ہی ہم قوموں کی برادری میں باوقار مقام حاصل کر سکتے ہیں ۔
|