صوم رمضان کی تاریخی اہمیت

حضرت ابنِ عمر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : (۱) اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اﷲ کے بندے اور رسول ہیں (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃ ادا کرنا (۴) حج کرنا (۵) رمضان کے روزے رکھنا ‘‘۔ پس رمضان کے مہینے کے روزے رکھنااسلام کاایک بنیادی رُکن ہے۔ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل دسویں محرم کا روزہ فرض تھا۔ اس کے بعد ایام بیض کے روزے فرض کردیئے گئے جو ہر قمری مہینے کی تیرہویں ، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو رکھے جاتے تھے۔جب دس شعبان المعظم سن دو ہجری میں رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ اور ایام بیض کے روزے منسوخ ہوگئے۔جیسا کہ سورہ ٔ البقرہ میں ارشاد ربانی ہے۔ ’’ اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی ( پرہیزگار ) بن جاؤ ‘‘۔ روزوں کا اصل مقصد اﷲ کے بندوں کو نیکی اور پرہیز گاری کی طرف بلانا ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہے کہ اپنے نفس کو ان چیزوں سے بچانا جس سے نقصان کا اندیشہ ہو یعنی جو گناہ کا مؤجب ہوں۔ پس یہ مبارک مہینہ ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہمیں اپنے تمام معاملات اورمعمولات کو اسی سوچ کے تحت لے آئیں اور ان تمام امور میں رب کی رضا اور ناراضگی کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی رضامندی کو اختیار کرلیں تو بندہ تقویٰ کی راہ چل پڑتا ہے۔ اسی فرمان الہٰی کے مطابق روزہ اُمت ِ محمدی ﷺ سے پہلی اُمتوں پر بھی فرض رہا ہے یعنی روزہ تمام نبیوں اور اُمتوں کی عبادت و ریاضت کا ذریعہ رہا ہے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام اور ان کی اُمت بھی روزے رکھتی تھی۔ عاشورہ کے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات کے احکامات عطا ہوئے تھے اسی لئے تورات میں اس دن کے روزے کی خاص تاکید بیان کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہودی صحیفوں میں روزوں کے احکام صراحت کے ساتھ مذکور ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن تک جنگل میں روزہ رکھا تھااور ان کی اُمت پر بھی روزہ فرض تھا۔روزوں کا تصور زمانہ قدیم میں بھی ملتا ہے۔ قدیم مصری ، یونانی اور رومی روزہ رکھتے تھے۔پارسی مذہب کے پیروکار اگرچہ روزوں سے مستثنیٰ تھے مگر اُن کے پیشوا روزہ رکھتے تھے۔ ہندوؤں میں برہمن پورے سال بھر میں چوبیس روزے رکھتے ہیں، یعنی ہر ہندی ماہ کی گیارہ اور بارہ تاریخ کو روزہ ہوتا ہے۔ جین مت میں بھی روزوں کا تصور موجود ہے۔ یہ چالیس دن تک روزہ رکھتے ہیں۔ غرض روزہ ہر مذہب میں رہا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں قریش ِ مکہ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام پر صحیفے ماہ رمضان کی پہلی رات (بعض روایتوں میں تین رمضان آتا ہے ) میں ، حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور اٹھارہ رمضان ، حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات چھ رمضان ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل تیرہ اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر قرآن مجید اسی ماہ مبارک میں نازل ہوا۔جیساکہ سورہ ٔ القدر میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ’’ بے شک ہم نے اس (قرآن ) کو شب قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ اس مہینے کی خاص اہمیت یہ بھی ہے کہ جنگ بدر کا عظیم معرکہ 17رمضان المبارک دو ہجری کو مدینہ منورہ سے تقریباً اسّی میل کے فاصلہ پر ـ’’بدر ‘‘ نامی مقام پر پیش آیا۔ جس میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتح مبین نصیب ہوئی۔ جیسا کہ فرمان ایزدی ہے۔ ’’ اور یقینا اﷲ تعالیٰ نے تم لوگوں کی مدد فرمائی بدر میں جب کہ تم لوگ کمزور اور بے سروسامان تھے۔ پس تم لوگ اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار ہوجاؤ ‘‘۔ اس کے علاوہ فتح مکہ کا عظیم الشان واقعہ دس رمضان آٹھ ہجری کو پیش آیا۔ جب آپ ﷺ دس ہزار اصحاب کرام ؓ کے ہمراہ مکہ مکرمہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور بیت اﷲ میں موجود 360 بتوں کو توڑتے ہوئے فرمایا۔ ’’حق آگیا اور باطل چلا گیا ، باطل جانے والی چیز ہے ‘‘۔ اُم المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ کی وفات اور حضرت علی ؓ کی شہادت بھی اسی مہینہ میں ہوئی۔ جب کہ حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اﷲ تعالیٰ کی ولادت باسعادت آپ ﷺ کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے بطن سے پندرہ رمضان تین ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آخر میں دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک میں اپنی لا متناہی برکتوں ، رحمتوں اور مغفرتوں سے نوازے۔ آمین۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301703 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.