رمضان المبارک کامہینہ الواداع کررہاہے ،خوشنصیب
ہیں وہ لوگ جو رحمان کوراضی کررہے ہیں اورشیطان کی قید سے فائدہ اٹھارہے
ہیں ،اس مبارک ماہ میں اﷲ پاک نے جن لوگوں پر خاص انعام وفضل وکرم کیاہے وہ
قابل دیدوقابل صدتحسین ہیں ۔رمضان کامبارک ماہ اﷲ پاک کی طرف سے احسان عظیم
ہے جس میں عبادات کالطف وسروراور رحمتوں کانزول ہوتارہتاہے اس مبارک ماہ کے
اختتام پر اورشوال ماہ کے آغاز پراﷲ پاک نے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم دن
اور مقرر کیاہے جسے عیدالفطر کے نام سے جانااور منایاجاتاہے عیدالفطر
مسلمانوں کی خوشی کادن ہے عیدالفطر کی رات کوعرف عام میں چاند رات
کہاجاتاہے ۔چاند رات کو فرشتوں میں خوشی کے مارے دھوم مچ جاتی ہے اور اﷲ رب
العزت فرماتاہے کہ بتاؤ، مزدور اپنی مزدوری پور ی کرچکے تو اس کی جزا کیا
ہے؟
وہ عرض کرتے ہیں اس کو پوری پوری اجرت ملنی چاہیے۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے: اے
فرشتو!تم گواہ رہو میں نے محمد (ﷺکی امت )کے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان
کے لیے جنت واجب کردی۔ اسی لیے یہ رات لیل الجائزہ انعام کی رات کے نام سے
بھی مشہور ہے۔
وہ عید بھیج ،کہ لائے نویدِ آبادی
ہلالِ عید کو کر دے نویدِ آزادی
الٰہی آج نہ سائل پھرے ترامحروم
تراغلام ہوا تیرے درکافریادی
ذراغور کریں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس رات میں پوری مزدوری ضائع کردیتے
ہیں؟حدیث پاک میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو شب
بیداری کرے گا نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا ،
جس دن اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔
اﷲ تعالی فرماتا ہے: اے فرشتو!تم گواہ رہو، ان کے رمضان کے روزے اور نمازوں
کی وجہ سے میں اپنے بندوں سے خوش ہوگیا ہوں اور ان کو بخش دیا ہے۔ اور
فرماتا ہے:اے میرے بندو!تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا
کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا وآخرت کی جو کچھ بھلائی مجھ سے مانگو گے
میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے
رہو گے، تمھاری خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی
بزرگی اور عزت کی قسم ہے!نہ تمھیں رسوا وذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے
سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو میں نے معاف کردیا، تم نے مجھے
راضی کرنے کی کوشش کی، میں تم سے راضی ہوگیا یہ اعلان اور انعام ِ بخشش سن
کر فرشتے جھوم اٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پرجشن مناتے ہیں۔
روزہ اور قرآن دونوں بارگاہ الٰہی میں سفارشی
حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اﷲ ﷺنے:رمضان میں
رکھنے والا روزہ اﷲ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور رمضان سفارش و شفاعت کرتے
ہوئے کہے گا:اے رب!میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوت سے دن بھر روکے رکھا
تھا،اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔اس کی تائید کرتے ہوئے قرآن بارگاہِ
ایزدی میں عرض کرے گا:اے رب!میں نے اسے رات کے آرام سے روکے رکھا، تو میری
شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ اﷲ ان دونوں کی سفارش قبول کرے گا اور اس کو
دنیا و آخرت میں بہتر اجر سے نوازے گا۔
کتاب ہدیٰ میں یہ تاثیردیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیردیکھی
عید درحقیقت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں اور
اس ماہ مبارک کی تمام عبادتیں ادا کر کے اپنے دامن مراد کو نیکیوں سے بھر
لیا ہے اور امتحان میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ عید ان لوگوں کی نہیں ہے
جنہوں نے اس ماہ کو غفلت اور لاپرواہی میں ضائع کر دیا اور امتحان میں
ناکام ہو گئے۔ کسی نے سچ کہا ہے :
لیس العید لمن لبس الجدید۔۔۔۔انما العید لمن خاف الوعید
عید اس کی نہیں جس نے نئے اور زرق برق لباس پہن لیے،عید اس کی ہے جو اﷲ کی
وعید سے ڈرگیا۔
یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھ کر متقی اور پرہیزگار بن گیا اور ایفائے
عہد وذمہ داری کے امتحان میں کامیاب ہوگیا۔
ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد
ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وطیرا ہے کہ ان کی
عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔
مسلمانوں کی عید اﷲ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اﷲ کے سامنے سجدہ ریز
ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔
اس دن کا پہلا عمل اﷲ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز
ہونا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید
اﷲ تعالیٰ کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا
رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔
عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا
چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا
تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اﷲ کو معبود مان کر اس کی
عبادت کرتا تھا تو اﷲ زندہ و جاوید ہے، اسے کبھی فنانہیں۔
خالق وہی جہاں کا مالک وہی جہاں کا
داتاوہی جہاں کا ،رازق وہی جہاں کا
جس شخص کے روزے اور قیام اﷲ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو
کوئی علامت ہوگی اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص
کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے۔اﷲ تعالی سورہ محمد ﷺ میں
فرماتے ہیں: اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اﷲ ان کو اور زیادہ ہدایت
دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقوی عطا فرماتا ہے۔
عید کی مسرت اور خوشی یقینا ان لوگوں کو زیادہ ہوگی جنہوں نے روزوں کا
احترام کی اور قیام اللیل کیا ۔اﷲ والے عید کے دن بھی آنسو بہاتے ہیں اور
رب کو مناتے ہیں
ایک مرتبہ عید کے دن لوگ خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی
اﷲ تعالی عنہ کے کاشانہ خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ دروازہ بند
کرکے زار و قطار رو رہے ہیں، لوگوں نے تعجب سے عرض کیا، یا امیر المؤمنین
!آج تو عید کا دن ہے، آج تو شادمانی و مسرت اور خوشی منانے کا دن ہے، یہ
خوشی کی جگہ رونا کیسا ؟
آپ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا، ھذا یوم العید وھذا یوم الوعید
اے لوگو !یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے، آج جس کے نماز روزہ
مقبول ہوگئے، بلاشبہ اس کیلئے آج عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز روزہ کو
مردود کرکے اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اس کے لئے تو آج وعید ہی کا دن ہے
اور میں تو اس خوف سے رو رہا ہوں کہ آہ !مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول
ہوا ہوں یا رد کر دیا گیا ہوں-
یہ وقت امیرالمؤمنین تھے جن کے ان جملوں نے ہر مسلمان کو تڑپا کر رکھ دیا
کہ مسلمانو! اپنے اعمال پہ نہ اتراؤ بلکہ اعمال کی قبولیت کے لیے دامن کو
بھی پھیلاؤ اﷲ پاک اس ماہِ مبارک میں کی جانے والی ہماری تمام عبادات کو
قبول ومنظور فرمائے اور عید کے دن کی خوشیاں ہمیں نصیب فرمائے (آمین یارب
العالمین بحرمۃ سید الانبیاء والمرسلین)
|