توجہ برائے خصوصی خواتین اوربچوں کا صفحہ
تحریر: صبا نزہت، کراچی
وہ اسکول سے تھکی ہاری گھر لوٹی تو حسب معمومل مشین کی گھڑگھڑ نے اس کا
استقبال کیا۔ مشین پر جھکی اماں کو دھیرے سے سلام کر کے بھاری بستہ بے دلی
سے ایک طرف ڈال کر وہ کمرے میں پڑی واحد چارپائی پر لیٹ گئی۔ اس کے سلام
کرنے کے انداز سے ہی نادرہ بیگم کو معلوم تھا کہ آج پھر ان کی لاڈلی بیٹی
کا مزاج ٹھیک نہیں ہے۔ خلاف توقع انہوں نے مشین پیچھے کھسکا کر اسے اپنے
پاس بلایا تو کب سے رکے آنسو اس کی آنکھوں سے چھلکنے لگے۔ ان کی گود میں
منہ چھپا کر وہ کافی دیر تک سسکتی رہی۔ اچھا چلو اب بس کرو ہاتھ منہ دھوکر
کپڑے بدلو پھر جاکر آرام کرلو روزہ بھی ہے تھک چکی ہوں گی۔
بانو خالہ کے سارے کپڑے آج شام تک مکمل کر کے دینا ضروری تھے۔ آج مہینے کی
5تاریخ تھی اور مالک مکان کرائے کے لیے کئی چکر لگا چکا تھا۔ بانو خالہ سے
پیسے ملتے تو ہی وہ کرایہ ادا کرپاتیں۔ گھر میں کئی دن سے پکانے کو صرف دال
چاول اور آلو ہی تھے اور سارہ کا اداس چہرہ انہیں بتا رہا تھا کہ آج پھر
فیس جمع نہ کرنے پر ٹیچر نے اسکول سے نام خارج کرنے کا ڈروادیا ہوگا۔ وہ
سوئی میں دھاگا ڈال رہی تھی جب سارہ ان کے پاس آبیٹھی۔ ٹیچر سے کہنا نام نہ
کاٹیں میری امی تین چار دنوں میں فیس ضرور جمع کروادیں گی۔
یہ بات نہیں ہے سارہ نے گلابی بنارسی کپڑے کو انگلیوں میں مسلتے ہوئے
کہا۔پھر کیا بات ہے؟ نادرہ بیگم نے اپنی ٹوٹی ہوئی عینک کو سنبھالتے ہوئے
نظریں اٹھاکرسارہ سے پوچھا۔
عید آنے میں کتنے کم دن رہ گئے ہیں کلاس میں سب لڑکیوں کے عید کے کپڑے بن
گئے ہیں مگر آپ ابھی تک میرے لیے کپڑے تک خرید کر نہیں لائیں۔ اوہ تو یہ
بات ہے، نادرہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔مگر دل ہی دل میں کچھ فکر مند بھی
ہوگئیں۔
جب سے بانو خالہ اپنی پوتی رضیہ کے کپڑے سینے کے لیے دے کر گئیں تھیں اس دن
سے سارہ کو بھی اپنے کپڑوں کی بے چینی شروع ہوگئی تھی۔
رضیہ سارہ کی کلاس فیلو تھی، دونوں میں دوستی بھی بہت تھی جب تک اپنی ہر
بات ایک دوسرے کو نہ بتا دیتیں تب تک چین سے نہ بیٹھتی تھیں۔ روزانہ کلاس
میں لڑکیاں عید کے کپڑوں کا ہی ذکر رہتی تھیں۔ ایسے میں سارہ ان کے بیچ میں
خاموش بیٹھی بس ان کی باتیں سنتی رہتی مگر کچھ نہ بولتی، پاس کہنے کے لیے
کچھ نہیں ہوتا تھا۔ وہ انہیں کیا بتاتی کہ ابھی اماں کو گھر کا کرایہ دینا
ہے ابا کی بیماری پر لیے گئے قرض کی قسط ادا کرنی ہے۔ نانی کی دوائیاں لانا
بھی ضروری ہیں۔ گھر کا راشن بھی خریدنا ہے اور پھر عادل اور اس کی کئی
مہینوں سے ادا نہ کی گئی فیس بھی دینی ہے۔ اگر یہ سب کام ہوگئے جو کہ نا
ممکن تھے اس کے بعد ہی اس کے لیے عید کا جوڑا خریدا جاسکتا تھا۔
رضیہ کے ابا کی محلے میں پھلوں کی دکان تھی جہاں سے ان کی ٹھیک ٹھاک آمدنی
ہوتی تھی اوپر سے وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اس لیے وہ اکثر اس
کی ہر خواہش پوری کردیاکرتے تھے۔ چند سال پہلے تک سارہ کا گھرانہ بھی
خوشحال تھا اس کے ابا درزی تھے عام دنوں میں بھی وہ اچھا خاصا کما لیتے تھے
۔ عید کی دن تو ان کے سیزن کے ہوتے تھے۔ بدقسمتی سے دو سال قبل ان کو ٹی بی
ہوگئی۔ بروقت علاج میسر نہ آنے پر بیماری بڑھتی چلی گئی اور بالآخر دنیا سے
کوچ کر گئے۔ ابا کے انتقال کے بعد مشین اس کی اماں نے سنبھالی اور پھر دو
بچوں کی کفالت کرنے لگیں۔ ان کا ایک بھائی تھا وہ خود اتنا غریب تھے کہ
اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل تھا۔ مزید تین افراد کی کفالت ان کے استطاعت
میں نہیں تھی۔ سارہ کے والد کے انتقال کے بعد نانی ان کے پاس آکر رہنے لگیں
تھیں۔ نانی کی موجودگی سے نادرہ بیگم کو ڈھارس بندھی رہتی تھی۔
ضعیف اور بیمار نانی کا نحیف ساوجود بھی ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔
صبح سارہ کو اسکول بھیج کر وہ چھوٹا بیٹا نانی کے پاس چھوڑ کر ایک فیکٹری
میں ملازمت کرنے لگیں تھیں اور شام میں محلے والوں کے کپڑے سیا کرتیں۔
٭٭٭٭
انگلش کی کاپی میں سر دیے وہ بظاہر ٹیسٹ کی تیاری کر رہی تھی مگر اس کا
سارہ دھیان رضیہ، ارم اورفروہ کی باتوں کی جانب تھا۔ ان کے ایک نہیں دو تین
جوڑے عید کے لیے خریدے گئے تھے۔ ساتھ میں ہم رنگ جوتے چوڑیاں اور کلپ بھی
اور رضیہ نے تو ایک چھوٹا خوبصورت سا پریس بھی خرید لیا تھا جس میں اسے اس
بار ملنے والی عیدی رکھنا تھی۔ تمام وقت وہ کلاس میں گم سم سی بیٹھی رہی
لیکن گھر آتے ہی وہ پھٹ پڑی۔ ’’آخری اﷲ ایسا کیوں کرتے ہیں ۔ کسی کو اتنے
سارے کپڑے ، جوتے اور ہر چیز دے دیتے ہیں اور کسی کو عید پر ایک جوڑا بھی
نہیں دیتے ۔ کسی کو کھانے کو گوشت پھل اور آئس کریم اور طرح طرح کی چیزیں
دیتے ہیں اور کوئی ہروقت صرف دال اور آلو ہی کھاتا رہے ۔ یہ کیسا انصاف
ہے‘‘۔ اس کی ہچکیاں مشین پر بیٹھی نادرہ کو بہت تکلیف دے رہی تھیں۔ جیسے
کوئی ان کے دل پر آری چلا رہا ہو۔ ان کی تو پوری کوشش تھی کہ اگردوچار سو
روپے بھی بچ گئے تو وہ تھوڑا کپڑا لاکر جوڑ توڑ کر کے اس کے لیے ایک قمیض
ہی سی دیں گی مگر رضیہ جیسا ریشمی فراک جس کے گلے اور دامن پر بنارسی کپڑے
کی پٹیاں لگی ہوئی تھیں ایسا فراک سینا ان کی استطاعت میں نہیں تھا۔
’’بری بات ہے سارہ بیٹی، اﷲ تعالیٰ کے بارے میں ایسا نہیں کہتے۔ اﷲ کا بہت
احسان ہے کہ ہم ابھی بھی بہت سے لوگوں سے بہتر حالت میں ہیں۔ ذرا سوچو اگر
تمہارے ابا کے ساتھ امی بھی مرگئی ہوتیں تو تم دونوں بہن بھائی کسی یتیم
خانے میں پل رہے ہوتے۔ پھربھلا تم کس کے سامنے روتے اور فرمائشیں کیا کرتے۔
کتنے ہی بچوں کی عیدیں ہر سال یتیم خانوں میں گزرجاتی ہیں ۔ذرا ان بچوں کے
دل سے پوچھو تو وہ کہیں گے کہ سارہ ایک خوش نصیب لڑکی ہے ۔جس کا ایک گھر ہے
محبت کرنے والی ماں اور نانی ہے۔ جس کے ساتھ کھیلنے والا ایک بھائی ہے جو
اسکول بھی جاتی ہے۔ کھیلتی ہے اور اپنی ماں سے اپنے دل کی ہر بات کہہ سکتی
ہے‘‘۔
نانی کی چارپائی سے ٹیک لگا کر روتی ہوئی سارہ کے بہتے آنسو فورا ہی اس
خوفناک خیال سے رک گئے تھے۔ ’’اگر امی بھی نہ ہوتیں تو کیا ہوتا؟؟؟
‘‘’’خبردار بیٹی اﷲ کے بارے میں ایسے نہیں کہتے‘‘۔ اﷲ سے شکوہ کرتی سارہ کی
بات نانی نے بیچ میں ہی کاٹ دی تھی۔
’’اﷲ تواپنے سب ہی بندوں کے لیے بہت مہربان ہے۔ وہ تو اپنے بندوں کو صرف
آزماتا ہے کہ کون اس کا شکرگزار ہے اور کون ناشکرا۔ کبھی کسی کو وہ دے کر
آزماتا ہے اور کبھی کسی سے لے کر آزماتا ہے۔ جو اﷲ کے شکر گزار بندے ہوتے
ہیں وہ ہر حال میں اﷲ سے راضی رہتے ہیں۔ دولت مند اپنی دولت میں سے غریبوں
کو بھی دیتے ہیں تاکہ رب ان سے راضی رہے اور جن کے پاس مال نہیں ہے وہ بھی
رب سے راضی رہتے ہیں کہ مال نہیں تو کیا ہوا اور بہت سی نعمتیں بھی تودی
ہیں اﷲ نے‘‘۔
’’ایک اور مزے کی بات بتاؤں‘‘۔ نانی کی بات کرنے کے اندازپر سارہ نے اپنا
سر اٹھا کر استفہامیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔ ’’اﷲ تعالیٰ غریبوں کی دعا
جلدی سنتے ہیں اور غریب لوگ امیروں کی نسبت پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل
کیے جائیں گے۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم بھی دعا فرمایا کرتے تھے کہ’’
اﷲ انہیں مسکینوں میں رکھے اور قیامت کے دن مسکینوں کے ساتھ ہی اٹھائے‘‘۔
’’اور ہاں! جو لوگ اﷲ کی نعمتوں پر اﷲ کا شکرادا کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کو
آزمائش میں پاس کردیتا ہے اور انعام میں ان کی نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں‘‘۔
نانی کی باتوں نے سارہ کے غمگین دل کو بہت سہارا دیا تھا۔ وہ اسی خیال سے
خوش تھی کہ وہ امیروں کی نسبت پانچ سوسال پہلے جنت میں داخل ہوسکے گی اور
اگر وہ اﷲ کا شکرکرتی رہے گی تو اﷲ اس کی نعمتیں بڑھا دیں گے۔ ’’چلو اب
ہاتھ منہ دھوکر آؤ تو پھر ہم سب مل کر روزہ افطار کریں گے‘‘۔ نانی نے کہا
تو وہ اثبات میں سر ہلاکر اٹھ گئی۔ نادرہ بیگم اپنی اماں کی طرف دیکھ کر
مسکرانے لگیں۔ اماں کی باتوں نے صرف سارہ کو ہی نہیں بلکہ خود نادرہ کو بھی
حوصلہ دیا تھا۔
مغرب کی نماز پڑھ کر سارہ نے دل ہی دل میں اﷲ کا شکر ادا کیا۔وہ مسلسل سوچے
جارہی تھی کہ’’ اﷲ تعالیٰ نے اسے پیار کرنی والی امی، بھائی اور نانی دیے
ہیں اگر وہ اکیلی ہوتی تو کتنی اداس ہوتی‘‘۔
٭٭٭
رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوگیا تھا اور آج بچوں کا اسکول میں آخری دن تھا۔
سب سہلیاں ایک دوسرے کے لیے عید کارڈ بنا رکر لائی تھیں۔ سارہ نے بھی رضیہ،
فروہ اور ارم کے لیے خوبصورت عید کارڈ بنائے تھے۔ رضیہ نے سوائے سارہ کے سب
کو عید کارڈز کے ساتھ تحفے دیے اور سارہ سے اس نے یہ کہا کہ تمہارا تحفہ
میں شام میں امی کے ساتھ گھر آکر دوں گی۔ اسکول سے گھر جاکر سارہ کو شام
ہونے کا بے چینی سے انتظار تھا۔ افطار کے بعد وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی ہی
تھی کہ رضیہ اپنی امی کے ساتھ آگئیں۔
اس کے ہاتھ میں سنہرے کاغذ میں لپٹا ایک بڑا سا ڈبہ بھی تھا۔ جس کے اوپر
ہاتھ سے بنا ایک خوبصورت کارڈ بھی تھا۔ رضیہ نے وہ ڈبہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ
سارہ کو تھماد یا تھا۔ ’’بہن ہم تو کل ہی آنا چاہ رہے تھے مگر رضیہ نے کارڈ
نہیں بنایا تھا۔ آج وہ اسکول سے آکر سارہ دن بیٹھی سارہ کے لیے کارڈ ہی
بناتی رہی ‘‘۔ رضیہ کی امی نے رضیہ کی بے چینی کا حال سنایا تو نادرہ بیگم
مسکرانے لگیں۔
سارہ بڑے انہماک سے رضیہ کا بنایا ہوا کارڈ پڑھ رہی تھی۔ ’’اب بس کارڈ ہی
پڑھتی رہوگی یا میرا ڈبا بھی کھولو گی؟‘‘۔ رضیہ نے شرارت بھرے انداز میں۔
’’ارے یہ کیا!‘‘ سارہ کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا۔ ڈبے میں گلابی چوڑیوں
، ہار بندوں کے علاوہ جوتوں ایک خوبصورت سا جوڑا رکھا ہوا تھا۔ سلور جوتوں
کے برابر ہی میں سلور رنگ کا ایک پرس بھی تھا اور ان سب چیزوں کے نیچے
سلیقے سے تہہ کیا ہوا وہ گلابی فراک رکھا ہواتھا جس کے گلے اور دامن پر
سلور رنگ کی چوڑی سی بنارسی پٹی لگی ہوئی تھی۔
گلابی فراک اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر سارہ کی خوشی سے چیخ نکل گئی تھی۔
ٹپ ٹپ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر رضیہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس
کو چپ کیسے کروائے۔ نادرہ بیگم بھی آبدیدہ نظر آرہی تھیں۔
’’آنٹی لگتا ہے سارہ کو میرا تحفہ پسندنہیں آیا یا پھر شاید اس کو گلابی
رنگ پسند نہیں ہے‘‘ رضیہ نے مصنوعی غمگین صورت بناتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا
دیکھو اگر تمہیں گلابی رنگ پسند نہیں ہے تو تم میری فروزی فراک لے لو میں
گلابی لے لوں گی‘‘۔ رضیہ کی پیشکش پر سارہ نے روتے روتے نفی میں سر ہلادیا۔
نادرہ کی سمجھ اب پوری بات آچکی تھی۔ رضیہ کی دادی بانو خالہ ایک جیسی دو
فراک سینے کے لیے دے کر گئی تھیں۔ ایک گلابی اور ایک فیروزی۔ گلابی فراک کے
لیے انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی ایک دوسری پوتی کے لیے سلوانا چاہتی ہیں
جس کا قد کاٹھ سارہ جیسا ہے تو وہ اسے سارہ کے ناپ کے مطابق سی دیں۔ ان کی
ہدایت کے مطابق نادرہ بیگم نے اسے ویسا ہی سیا تھا۔ لیکن اس وقت ان کے وہم
و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ یہ فراک سارہ کے لیے ہی سلوارہی ہیں۔ وہ اس
وقت اپنے آپ کو رضیہ اور اس کی امی کی سامنے بہت ممنون محسوس کررہی تھیں۔
نادرہ کے بے حد شکر پر رضیہ کی امی کہنے لگیں۔ ’’بہن مجھے شرمندہ نہ کریں،
یہ تو میرا فرض تھا اور ویسے بھی رضیہ کی تو کوئی بہن ہی نہیں اﷲ کا شکرہے
کہ سارہ جیسی اچھی بچی کی شکل میں میری بیٹی کو ایک بہن ملی ہوئی ہے ‘‘۔
’’اور کیا آنٹی، اب جب ہم دونوں عید پر ایک جیسے کپڑے پہنیں گی تو بالکل
بہنیں ہی لگیں گی ناں‘‘، رضیہ نے چہکتے ہوئے سارہ کو گلے سے لگالیا تھا۔
رضیہ کے گلے لگی سارہ کی نظریں اپنی نانی کی طرف اٹھیں تو وہ بھی مسکرارہی
تھیں۔ جیسے کہہ رہی ہوں کہ دیکھا میں نہ کہتی تھی اﷲ تعالیٰ کااپنے شکرگزار
بندوں کی نعمتیں بڑھا دیتے ہیں۔
قارئین ! آپ بھی اپنے آس پاس کا جائزہ لیں گے تو ایک نہیں کئی ایسے چہرے
نظر آئیں گے جن کے چہرے کی مسکراہٹ اور عید کی خوشیاں آپ کی مدد کی محتاج
ہیں اور عید کی اصل خوشی تو آپ کو تب ہی محسوس ہوگی جب آپ اس خوشی میں کسی
دوسرے کو بھی شریک کریں گے۔
|