واقعی بہت بُرا ہوا۔ اچھا خاصا لڑکا تھا۔ اپنے ساتھ بڑا
ظلم کر لیا اس نے۔ عنابیہ نے سبین کو تسلی دی۔ دیکھو سبین جو کچھ ہوا اس
میں تمہاری کیا غلطی ۔ اس نے تم سے پوچھ کر یہ سب تھوڑا ہی کیا ہے۔ قسمت ہے
اس کی ۔ جو قسمت میں ہوتا ہے ہو کر رہتا ہے۔ انسان تو بے بس ہے۔ اللہ کی
مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ سبین اداس خاموش واپس لوٹ چکی تھی۔
سبین سبین تم کیا سوئی ہی رہو گی۔ اُٹھو نا۔ سبین کی ماں ثریا اس کے سر پر
کھڑی تھی، وہ تھی کہ ہلنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔انہوں نے ہاتھ لگا کر
دیکھاتو اس کا جسم تپ رہا تھا۔ سبین ، سبین وہ باہر سبین کے ڈیڈی کے پاس
آئیں ۔ سبین کو تو لگتا ہے بخار ہے۔ اسی لیے شاہد ہماری آواز اسے نہیں آ
رہی تھی۔ وقار صاحب نے کچھ تحمل کے بعد کہا۔ ڈاکٹر کو فون کر لو۔ چیک کر
لیں ۔ مجھے جلدی ہے ، واپس آ کر اسے دیکھوں گا۔ ثریا نے انہیں دیکھتے ہوئے
کہا۔ اچھا۔ آپ فکر نہ کریں ۔ چار دن بعد کی ٹکٹ کروائی ہیں نا۔ ٹھیک ہو
جائے گی۔ وقار نے ثریا کی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہا ہاں ہاں ۔ بخار کوئی
ایسی بڑی بیماری تھوڑی ہی ہے۔ اچھا میں چلتا ہوں۔
ثریا دوبارہ سبین کے کمرے میں آئی۔ سبین بیٹا اُٹھو میں نے ڈاکٹر کو فون
کر دیا ہے ۔ وہ آتا ہی ہو گا۔ کچھ دیر بعد سبین نے اپنی سُرخ سُرخ سوجھی
ہوئی انکھیں کھولیں۔امی ڈاکٹر کو کیوں بلایا۔ ثریانے پیار سے اس کے بالوں
میں ہاتھ کی پھیرتے ہوئے کہا،تمہارے لیے ۔ تمہیں بخار ہے نا۔ مجھے سبین نے
تردید میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ نہیں تو۔
ثریا۔ چیک کروا لو ویسے بھی چار دن بعد کی دُبئی کی ٹکٹ ہوئی ہیں ہم لوگوں
کی۔ ہم سب کو جانا ہے سیر کے لیے۔ تمہارے ڈیدی نے بڑھی مشکل سے وقت نکالا
ہے۔ ہم تمہارے ماموں کے گھر رہیں گئے۔ کریم تو بہت خوش ہے۔ہم لوگ چاہ رہے
ہیں تم اور کریم ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لو تاکہ تمہاری شادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبین نے امی کی بات کاٹ دی ۔ شادی نہیں نہیں شادی نہیں۔
ثریانے سبین کی طرف دیکھا ، کیوں نہیں ۔شادی کیوں نہیں ۔ امتحان ہو چکے ہیں
تمہارے ، تم نے کہا تھانا ، اب کیسے۔ سبین نے تلخ لہجے میں کہا۔ مجھے نہیں
جانا کہیں ۔ مجھے شادی وادی نہیں کرنی۔ وہ واش روم چلی گئی۔ ثریا کو سبین
کے رویے پر حیرت ہو رہی تھی۔
سبین کو اپنا وجود خالی خالی محسوس ہو رہا تھا ۔ وہ آئینہ دیکھتے ہوئے سوچ
رہی تھی۔ آخر اس میں ایسا کیا تھا کہ شارب نے اپنی پوری زندگی برباد کر
لی۔ وہ رات کو بھی اسے سوچ سوچ کر روتی رہی تھی۔ جب وہ واش روم سے باہر
آئی تو اس کی ماں عنابیہ سے بات کر رہی تھی۔ انہیں شارب سے متعلق تمام
معلومات مل چکی تھیں ۔ اوہ یہ تو بہت بُرا ہوا۔ مگر اس میں سبین کی تو کوئی
غلطی نہیں ۔انتہائی بے وقوف لڑکا تھا۔ سبین کے کانوں میں آواز جا چکی تھی۔
ماما۔آپ کس سے بات کر رہی ہیں ۔
ثریا نے سبین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ عنابیہ سے۔ سبین نے منہ بناتے ہوئے
کہا۔ کیوں۔
ثریا نے اس کی طرف دیکھا۔ افسردگی سے بولی ۔ جب تم نہیں بتاو گی کہ تمہاری
زندگی میں کیا چل رہا ہے تو مجبورا ً کسی اور سے ہی پوچھنا پڑے گا۔
دِس اذ ناٹ فیر۔ماما۔ آپ نے عنابیہ کو فون کیوں کیا۔دیکھو سبین ہمارے کو
ئی دس بچے نہیں ہیں ۔ تم ایک ہی ایک بیٹی ہو ہماری ۔ہماری ساری خوشیاں اور
غم تم سے ہی وابستہ ہیں ۔ جس لڑکے کی وجہ سے تم پریشان ہو رہی ہو ۔ وہ اپنی
کرنی بھگت رہا ہے۔ تمہارا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔
سبین نے اونچی آواز میں تردید کر دی۔ واسطہ ہے۔ ماما۔ واسطہ ہے۔ میں اس کے
بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس کی ماں نے حیرت اور غصہ سے کہا۔ کیا تم ایک اپائیج
سے شادی کرو گی۔ کبھی خود کا بھی کام کیا ہے تم نے ۔ شاہد اب اس کے سر سے
بھی تمہاری محبت کا بھوت اُتر گیا ہو۔ تم آج کل کے بچے کیا جانتے ہو محبت
کو۔ محبت قربانی اور صبر کا دوسرا نام ہے۔ تمہاری محبت ایک دن ہوتی ہے ،
دوسرے دن شادی کرنے کا سوچتے ہو۔ تیسر ے دن اختلاف رائے اور چوتھے دن طلاق۔
زندگی اتنی بھی آسان نہیں ہے سبین۔
سبین مجھے نہیں پتہ ماما آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں ۔ میرا دماغ بلکل کام
نہیں کر رہا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں پاگل ہو رہی ہوں ۔ وہ میرے دل و دماغ سے
نکلتا ہی نہیں ۔ مجھے خود پر کوئی اختیار نہیں ہے ۔ میں جتنا چاہتی ہوں ،
اس کے بارے میں نہ سوچوں ، میں اسی کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ وہ روتے ہوئے
اپنی ماں کے گلے لگ گئی ، جو بہت پریشان حال اس کے سامنے کھڑی تھیں۔
ثریا نے سبین کو تسلی دی تم دُبئی جاو گی تو تمہارا دل بہل جائے گا۔ سبین ۔
بھولنے کے لیے چیزوں کو وقت چاہیے ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ بڑی بڑی باتیں
انسان کے دل و دماغ سے محو ہو جاتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شارب نے سبین کا فون لینا چھوڑ دیا تھا۔ وہ اچھی طرح سمجھتا تھاکہ سبین جب
اس کی حالت دیکھے گی تو اس کی محبت ہمدردی میں بدل جائے گی۔ وہ اب محبت کے
نہیں ہمدردی کے لائق ہی رہ گیاہے۔ وہ دن رات سوچنے لگا کہ کیسے وہ پیسے
کمانے کے لائق ہو جائے۔ اس کی وجہ اس کا بھیانک خواب تھا۔
ایک رات وہ سو رہا تھا۔ اس نے دیکھا۔ اس کا بھائی گھسیٹ کر اسے لے جا رہا
ہے ۔ وہ اسے ایک فٹ پاتھ پر بیٹھا آیا ہے تا کہ لوگ اسے بھیک دے سکیں ۔
خواب دیکھنے کے بعد وہ پیسے کمانے اور کوئی کام کرنے کے بارے میں شدت سے
سنجیدہ ہو گیا۔ وہ بھکاری نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس نے ویب ڈیزائنگ کا کورس
کیا۔ وہ دن رات محنت کر کے خود چھوٹی سے چھوٹی چیز سیکھ رہا تھا۔ اس نے
سیلف ڈیویلپمنٹ سے متعلقہ ڈھیروں کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔
وہ اب سوچنے لگا تھا۔ شاہد یہ حادثہ نہ ہوتا تو وہ کبھی اپنی ذات کی اہمیت
کوجان نہ پاتا ۔ کبھی خود سے محبت کرنے کو ترجیح نہ دیتا۔ نہ ہی وہ اس عظیم
قوت کی تسخیر کر پاتا جو انسان کو ہر حال میں قبول کر لیتی ہے۔ انسان کی
مدد کرتی ہے۔وہ ہر پل اپنی ماں کی عظمت کو محسوس کرتا۔ اپنی بہن کی محبت کو
سلام کر تا جو اسے کبھی کبھی ۔ باہر لے کر جاتی ۔ اس سے اکثر دین سے متعلقہ
باتیں کرتی۔ اس کی باتیں سنتی۔ یہ وہی بہن تھی جسے کہیں جانا ہوتا اوراس کی
ماں کہتی شارب تم اس کے ساتھ جاو تو شارب اپنا دل تنگ ہوتا محسوس کرتاتھا
آج اس کی زندگی بدل چکی تھی۔ لوگوں کے رویے بدل چکے تھے۔ اس نے گھر کے خرچ
کے لیے رقم دینا شروع کر دی تھی۔ اس کی ماں نے دیگر گھر کے کاموں کے لیے
کام والی عورت رکھ لی تھی۔ گھر کا ماحول کافی حد تک بہتر ہو چکا تھا۔ شارب
نے اپنے لیے ایک فزیو تھراپسٹ کا اہتمام بھی کیا تھا۔ جو اس کے بازو اور
ٹانگ کو ٹھیک کرنے کے لیے چند ایکسرسائز کرواتا ۔ چند دُوائیں بھی دے رہا
تھا۔ شارب دن رات انٹر نیٹ پر کام کرنے لگا تھا۔ اسے کام کرتےدو سال گزر
چکے تھے ۔ اس نے اپنے لیے ریمورٹ سے چلنے والی سیکنڈ ہینڈ چیرلے لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توقیر بہت غصہ میں رہنے لگا تھا۔ فوزیہ کی شادی ہو گئی تھی ۔وہ اپنے گھر
میں بس گئی تھی۔ لیکن توقیر کا ویزہ ہی نہیں لگ رہا تھا ۔ تین دفعہ ویزہ کے
پیپرز کا تبادلہ ہو چکا تھا۔ کوئی نہ کوئی مسلہ ہو جاتا اور وہ رہ جاتا ۔
اس نے انگلش کا کورس بھی دو دفعہ مکمل کر لیا تھا۔ وہ ہر روز ارم سے رات کو
بات کرتا۔ دن کو بات کرنے سے ارم نے منع کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا۔ وہ جاب
کرتی ہے ۔اس کا دن بزی ہوتا ہے۔ رات کو بھی وہ اس سے دس منٹ سے ذیادہ بات
نہیں کرتی تھی۔
نازیہ کی تصاویر ابھی بھی اس کے موبائل میں تھی۔ وہ نازیہ کو فون کرتا تو
کوئی موبائل نہیں اٹھاتا ۔ بیل جاتی اور بند ہو جاتی۔ اس نے دل بہلانے کے
لیے کافی دوستیاں کی ،مگر جس قسم کا وہ تعلق چاہتا تھا۔ اسے نہیں مل رہا
تھا۔ ہر لڑکی کہاں محبت کے نام پر بے وقوف بنتی ہے۔ وہ دل ہی دل میں سوچتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازیہ کی شادی فاخرہ آنٹی کے بیٹے سے طے ہوئی تھی ۔ اس کی سوچ اور عمل
مکمل بدل چکا تھا۔ درس و تدریس کی محفلوں میں شرکت سے اس کے کردار میں مکمل
تبدیلی آ چکی تھی۔ وہ مکمل شرعی پردہ کرنے لگی تھی۔ وہ جب بھی نماز پڑھتی،
اسے توقیر ایک گناہ کے روپ میں یاد آنے لگتا ،وہ اکثر رو رو کر اپنے گناہ
کی معافی مانگتی۔ وہ نماز کے بعد ایک یا دو آیات قرآنی کی تلاوت کرتی۔ اس
کے ترجمہ کو غور سے پڑھتی ۔ آج بھی وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو قرآن
کھول کر بیٹھ گئی۔
وہ سورت نساٗ کی آیت کا ترجمہ پڑھ رہی تھی۔
ترجمہ: کیا تو نے نہیں دیکھا،اُنہیں جو اپنی پاکیزگی کی ستائش خود کرتے
ہیں۔بلکہ اللہ جسے چاہے پاکیزہ کرتا ہے۔کسی پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہ
کیا جائے گا۔دیکھ تو یہ لوگ کس طرح اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔یہ صریح گناہ
اسے کافی ہے۔کیا تو نے انہیں دیکھا،جنہیں کتاب کا کچھ حصہ ملا ہے۔جو بتوں
اور باطل بتوں کا اعتقاد رکھتے ہیں۔اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ لوگ
ایمان والوں سے ذیادہ راہ راست پر ہیں۔یہی ہیں جنہیں اللہ نے لعنت کی۔ اور
جسے اللہ لعنت کر دے تو اس کا کوئی مدد گار نہ پائے گا۔
وہ بار بار ترجمہ کو پڑھتی اور سوچتی ،کبھی کبھی نیکی اور بدی میں کتنی
ہلکی سی لکیر ہوتی ہے ۔ انسان کب اس لکیر کو نظر انداز کر کے دونوں کو آپس
میں ملا دیتا ہے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ ہم انسانوں کو دنیا داری کو ذیادہ
اہمیت دیتے ہیں ، اللہ کی ذات اور خوشنودی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ انسان
کی محبت انسان کے دل کو مدہوشی دیتی ہے ،جبکہ رب کی محبت انسان کے دل میں
سکون بھر دیتی ہے۔ انسان کی محبت میں اس فانی انسان کو کھو دینے کا دھڑکا
لگا رہتا ہے ، جبکہ رب تو کسی پل بھی انسان سے جدا نہیں ہوتا ہے۔وہ تو ازل
سے ہے ابد تک رہے گا۔ میں جسے سکون سمجھ رہی تھی وہ سکون نہیں تھا۔کیا میں
پاکیزہ ہوں ،وہ دیر تک سوچتی اور دیر تک روتی رہی ۔ کبھی کبھی گناہ اس قدر
پیچیدہ ہوتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم سے جدا ہوئے ہیں یا ہماری ذات کے
کسی حصہ میں ہی تحلیل ہو گئے ہیں ،جن کا جدا ہونا ناممکن ہے۔
غزالہ کی آواز پر نازیہ چونک گئی۔ اس نے اپنی بھیگی ہوئی انکھوں کو صاف
کیا۔ دھیرے سے جی امی کہا۔ غزالہ جو اس کے سر پر ہی کھڑی تھیں ، مسکرا کر
بولیں ۔ میں کسی خوش قسمت ہوئی ،مجھے ایسی نیک اور پرہیزگار بیٹی ملی ہے۔
اللہ ہر کسی کو ایسی نیک اولاد دے۔ اپنی ماں کی بات سن کر اسے اپنے اندر
ایک کسسک سی اُ ٹھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے آنکھوں میں آ جانے والے نئے
آنسووں کو پلک چھپک کرچہرے پر گِرا دیا۔نیک اور پرہیز گار اس نے الفاظ کو
اپنے ذہین میں بہت آہستہ سے دہرایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توقیر کا ویزہ آ چکا تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ انگلینڈ جانے کی خوشی میں وہ سب
دوستوں سے مل کر انہیں مٹھائیاں کھلا رہا تھا۔ جب وہ ماموں کے گھر پہنچا تو
اس کا بہت گرم جوشی سے استقبال ہوا۔ ارم نے بھی مسکرا کر اس کو خوش آمدید
کہا۔ اس نے ارم کی طرف دیکھ کر حیرت سے پوچھا۔ تم مجھے لینے کیوں نہیں
آئی۔ اس پر ارم نے مسکرا کر کہا۔ میں کچھ مصروف تھی۔
رات کے کھانے کے بعد ارم نے بتایا کہ اس نے ایک گھر کرایہ پر لیا ہے ،
توقیر اور وہ اس گھر میں رہیں گئے۔ تو قیر کو سن کر حیرت ہوئی۔ کرایہ کا
گھر کیوں ۔ ارم کی طرف دیکھ کر اس نے کہا۔ ارم نے اس کی طرف گھور کر دیکھا۔
پھر کچھ دیر توقف کے بعد بولی ۔ مجھے دخل اندازی نہیں پسند ، میں اپنے
طریقے سے اور اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔ توقیر کو اس کا لہجہ اچھا نہیں
لگا مگر اس نے کچھ نہیں کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبین نے شارب سے کا تعلق استوار کرنے کی بہت کوشش کی ، وہ ہر بار اس کا فون
کاٹ دیتا۔ اس نے فیس بک پر بھی اسے ان فرینڈ کر دیا تھا۔ سبین کو سمجھ نہیں
آ رہا تھا کہ وہ کیا کرئے۔ پچھلے دو سال سے وہ شاعری پڑھ کر اور محبت پر
مبنی ناول پر کر اپنا وقت گزار رہی تھی۔وہ غزلیں لکھ کر نیچے بڑا بڑا لکھتی
۔ شارب آئی لو یو۔
اس کے ماں باپ بہت پریشان تھے۔ وہ کسی کی بات سننے کو تیار ہی نہ تھی۔ ثریا
نے غصے سے کہا۔ سبین دوسا ل کا وقت گزر چکا ہے۔ تم سمجھتی کیوں نہیں ، میرا
خیال ہے وہ لڑکا سمجھدار ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ تم جب اسے ملو گی تو تمہاری
ساری محبت ختم ہو جائے گی ۔ اسی لیے تمہارا سامنا نہیں کر رہا۔سبین نے
اداسی سے کہا۔ ماما اب مجھے سمجھ میں آ رہا ہے ٹھکرائے جانے کا غم کیا
ہوتا ہے۔ اب میں شارب کی حالت سمجھ رہی ہوں ۔ کاش کہ میں اس کے جذبات کا
احساس کر لیتی ۔ اس سے سوچنے کا وقت لے لیتی۔ ثریا غصے سے کمرے سے چلی گئی
۔ وہ خود سے بڑ بڑ ھا رہی تھی ۔ یہ لڑکی تو مکمل پا گل ہو گئی ہے۔ شارب
شارب دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ سبین کے کانوں میں ان کی آواز پڑھ چکی
تھی۔ وہ مسکرائی۔
|