حکمرانوں کی کچن ڈپلومیسی

سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ڈپلومیسی کی مختلف جہتوں سے عوام ذرائع ابلاغ کے توسط سے روشناس ہوتے رہتے ہیں جن میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی، نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی شٹل ڈپلومیسی اور بھارت کی براس ٹیک جنگی مشقوں کے جواب میں جنرل ضیاء الحق مرحوم کی کرکٹ ڈپلومیسی کو کافی شہرت حاصل ہوئی لیکن ہم روزمرہ زندگی میں اپنائی جانے والی ایک انتہائی اہم ڈپلومیسی کو فراموش کرجاتے ہیں جسے گھریلو خواتین خانگی سیاست سے نبرد آزما ہونے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ بنتِ حوا کے بارے میںکہا جاتاہے کہ وہ اپنے تمام خانگی مسائل اورگھریلو جھگڑے کچن ڈپلومیسی بروئے کار لا کر حل کرالیتی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ شوہر اور سسرالیوں کے دل تک پہنچنے کے تمام راستے معدے سے ہوکرگزرتے ہیں لیکن کچن ڈپلومیسی کا یہی نسخہ کیمیا مسلمان سلاطین و نوابین نے بھی استعمال کیا اور دوسرے ممالک یا ریاستوں کے حکمرانوں کو مرعوب کرنے یا ان سے بہتر تعلقات کیلئے شاہی ضیافتوں میں شکم پُری کیلئے نئی نئی غذائی ایجادات متعارف کرائی گئیں۔ کبھی باقر خان نے روٹی اس انداز سے پکائی کہ اس کا نام باقرخانی پڑگیا، کبھی تفتان سے بلائے گئے ایرانی نان بائی نے روغنی نان اس طریقے سے بنایا کہ اسے تافتان کے نام سے پکارا جانے لگا، کبھی بادام پستہ کی ہوائیوں سے کھچڑی تیار کی گئی، بلبلوں کے دل سے پکوان بنائے گئے، موم بتی اور ریشم کی آنچ پر نفیس ڈشیں بنائی گئیں۔ نئی نئی لحمیاتی غذائیں ایجاد ہوئیں۔ اس معاملے میں اودھ اور لکھنؤ کے نوابین میں باقاعدہ مقابلے بازی ہوتی تھی۔ پہلے پلاؤ اور زردہ بنا پھر ان دونوں کو یکجا کرکے متنجن کا نام دیا گیا۔ بریانی، قورمہ، شیرمال بھی انہی ایجادات مطبخ کا حصہ ہیں۔ مذکورہ عہد کے نوابین و سلاطین کچن ڈپلومیسی میں اس حد تک مشغول ہوگئے کہ ان کی کھانے اور کھلانے کی یہ عادت ان کی ریاستیں نگل گئی۔ کھانے اور کھلانے میں پاکستان کے سربراہان بھی پیچھے نہیں رہے اور ان کی انہی کرم فرمائیوں کی وجہ سے کچن کیبنٹ کی اصطلاح ایجاد ہوئی۔ پاکستان کے قیام کے ابتدائی چند سالوں میں ہی ایک غیرملکی سفارت کار کی اہلیہ ہمارے اس وقت کے سیکرٹری دفاع (جو بعد ازاں گورنر جنرل اور پاکستان کے پہلے صدر بنے) کو کچن ڈپلومیسی سے متاثر کرکے ان کے دل تک ہی نہیں پہنچیں بلکہ ان کے دل میں اتر کر خاتون اوّل کی حیثیت سے ایوان صدر تک پہنچ گئیں۔ کہا جاتا ہے موصوفہ نے ہمارے سکریٹری دفاع کواپنی رہائش گاہ میں صرف ایک انڈا تل کرکھلایا تھا جس کی قیمت انہیں اسی وقت 25000/=روپے کے قیمتی ہار کی صورت میں ادا کردی گئی تھی لیکن جو کام موصوفہ کے سفارت کار شوہر اپنی سفارت کاری سے انجام نہ دے پائے وہ کچن ڈپلومیسی نے کر دکھایا اور بعد ازاں ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے موصوفہ کے مشوروں سے ہی ہونے لگے۔ مرحوم ضیاء الحق کے دسترخوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں وقت کافی وسیع ہوتا تھا اور کافی لوگ ان کی طعام گاہ سے شکم سیر ہوا کرتے تھے اور اس وقت ایوان صدر کے کچن کا بل لاکھوں روپے ماہانہ ہوتا تھا وہ تو آج کی نسبت سستا دور تھا ورنہ اِس دور کے حساب سے کروڑوں روپے میں ہوتا۔ ان کے بعد آنے والے سربراہان نے اپنے مطبخ خانے اور ڈائننگ ہال کی کارروائیوں کو آف دی ریکارڈ رکھنا شروع کردیاجبکہ ان کے بعد بننے والے صدر غلام اسحق خان مرحوم نے کچن ڈپلومیسی کو محدودکردیا اور صدارتی باورچی خانے کے اخراجات میں خاصی حد تک کٹوتی کردی گئی۔ میاں نواز شریف کے دور میں بھی وقتاً فوقتاً اسی ڈپلومیسی سے استفادہ کیا جاتا رہا اور بعض سیاسی رہنماؤں کو مذکورہ ڈپلومیسی کے ذریعے حلیف بنائے رکھنے کیلئے ان رہنماؤں کے دور دراز شہروں میں صبح ناشتے کے وقت لاہور سے پھجّے کے پائے اور نان بذریعہ خصوصی ہوائی جہاز بھیجے جاتے رہے۔

کہا جاتا ہے کہ ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس اور چیف آف آرمی اسٹاف کی رہائش کی سکیورٹی فول پروف ہوتی ہے ۔ ان محلات کی دیواریں دبیز جبکہ کئی درودیوار پار کرنے اور حفاظتی رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد سربراہان کی اصل اقامت گاہیں آتی ہیں۔ محلات کی حدود سے کئی فرلانگ تک انسان تو کجا چرند پرند کو بھی دور رکھا جاتا ہے کہ کہیں ان میں بھی خودکش مواد نہ چھپا ہو۔ سنا تھا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن ان محلات کے سیکیورٹی حکام دیواروں کے ہی نہیں بلکہ دیواروں کے پیچھے رہنے والے اہلکاروں کے کان بھی کھینچنے میں مہارت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ کے کان میں نجانے کیسے بھنک پڑگئی کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزارت عظمٰی کی مسند پر براجمان ہوئیں تو انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کو اپنے ہاتھ سے پکوڑے تل کر کھلائے تھے وہ بھی آرمی ہاؤس میں۔ قاضی صاحب کے اس انکشاف نے خبر بننے تک 13سال کا سفر طے کیا ، اس عرصے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی دومرتبہ وزیراعظم ہاؤس میں منتقلی اور دونوں ہی مرتبہ بے دخلی ہوئی جبکہ آرمی ہاؤس نے بھی مرزا اسلم بیگ کے بعد تین جرنیلوں کو شرف سکونت بخشا۔ قاضی صاحب کا مذکورہ انکشاف5 سطری خبر کی صورت میں ملک کے ایک روزنامہ میں شائع ہوا لیکن ان پانچ سطروں میں یکے بعد دیگرے دو محیرالعقول انکشافات پنہاں تھے جن میں سے ایک تو سابق وزیراعظم کی پکوڑا سازی کا تھا جبکہ دوسرا اس کرشمہ سازی کا کہ وہ ملکی سیاست میں ہی نہیں بلکہ فیملی پالیٹکس یا خانگی سیاست میں بھی دسترس رکھتی ہیں اور ہر قسم کی اندرون خانہ سیاست کا مقابلہ وہ کچن ڈپلومیسی سے کرنا جانتی ہیں یہ اور بات ہے کہ سیاست کا شعبہ ثانی ان کے صاحب اوّل نے سنبھال لیا اور وہ کامیاب کچن ڈپلومیٹ ثابت ہوئے۔

پرانے زمانے کے قاضیوں کے بارے میں سنتے تھے کہ وہ شہر کے اندیشے میں دبلے رہتے تھے لیکن آج کے قاضی کو مسند اقتدار پر رہنے والوں کا غم کھاتا رہتا ہے اور وہ اپنے بیانات اور اقدامات سے صاحب اقتدار لوگوں کو بھی غمگین کرتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے کبھی جی ایچ کیو کا آدمی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ اس قسم کے دعووں کے تمام جملہ حقوق انہوں نے ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریزی کے جد امجد کو تفویض کردئیے تھے لیکن پھر بھی وہ اکثر و بیشتر جی ایچ کیو کے دروازے اس امید پر کھٹکھٹاتے تھے کہ شاید جی ایچ کیو کا دروازہ کھلنے سے ان کیلئے اقتدار کے دروازے وا ہوجائیں۔

امراء کے کچن اوردیسی چکن کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اور ان کا کچن بے چکن بدوضع دکھائی دیتاہے۔ اب خدا جانے بی بی صاحبہ نے آرمی ہاؤس کے کچن میں بیسن کو چکن پر فوقیت کیوں دی جبکہ ایک چکن سے مختلف النوع ڈشز تیار ہوسکتی تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ انہیں آرمی ہاؤس کی’’ کچن کیبنٹ‘‘ میں صرف بیسن ہی نظر آیا ہو، کولڈ اسٹوریج میں چکن پر ان کی نظر نہ پڑی ہو اور اسی بیسن سے انہوں نے مختلف اقسام کے بیسنی پکوان بنالئے ہوں مثلاً پیاز، بینگن، آلو ، گوبھی اور پالک کے پکوڑے جرنیلی دسترخوان پر سجائے گئے ہوں۔

بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہی نہیں بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دنیا سے گزرجانے کے بعد بھی ہم قاضی صاحب کے مذکورہ انکشاف کو ذہنی طور سے قبول نہیں کر پارہے ہیں کیونکہ بی بی اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئی تھیں اور ہوش سنبھالنے کے بعد انہیں اپنے اردگرد چمچے ہی چمچے نظر آئے۔ لڑکپن انہوں نے برطانیہ اور امریکا میں حصول علم یا ہاٹ ڈاگ اور ہیمبرگر کھاتے ہوئے گزارا تو انہوں نے پکوڑے بنانا کہاں سے سیکھے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کام میں ان کی معاونت ان کی جلاوطنی کے زمانے کی ساتھی ناہید خان نے کی ہو اور دیسی پکوان کی استانی بن کر نہ صرف وہ بی بی کی پرسنل سیکریٹری بن گئیں بلکہ بعد ازاں وہ پارٹی اور ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بھی بن بیٹھیں۔

قاضی صاحب نے اپنے انکشاف میں اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ان تک پہنچنے والی اس خبر کا مخرج کیا تھا اور اس بیسنی دعوت میں کن کن شخصیات نے شرکت کی شاید صدر غلام اسحق خان اس ضیافت میں مدعو نہیں کئے گئے تھے اسی لئے انہوں نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے بی بی صاحبہ کو ان کی کچن کیبنٹ سمیت وزیراعظم ہاؤس سے ہی بے دخل کردیا۔ محترمہ کی اس بے نظیر دعوت میں شاید نوابزادہ نصراللہ خان بھی مدعوئین میں شامل تھے جبھی وہ آخری سانس تک بی بی کا حق نمک ادا کرتے رہے اور ان کی ایک پکار پر عثمانی ترکوں کی نشانی پھندنے والی ٹوپی سر پر رکھ کر حکمرانوں کے خلاف ایجی ٹیشن کیلئے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ قاضی محترم نے مذکورہ انکشاف خاصی تاخیر سےکیا اب نا معلوم اس میں ان کی کیا مصلحت تھی کہ وہ آرمی ہاؤس کے دسترخوان پر رکھی جانے والی طشتریوں کے راز کو بروقت طشت از بام نہ کرسکے ہوسکتا ہے کہ وہ حکمرانوں کو دانشوروں کے ساتھ قلمی جنگ و جدل سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ ہمارے خیال میں اگر محترمہ بے نظیر بھٹو بیسنی پکوان کی یہی ضیافت اپنی سرکاری اقامت گاہ میں منعقد کرتیں تو گھر کے بھیدی کو لنکا ڈھانے کی جرأت نہ ہوتی۔ ویسے اس پانچ سطری انکشاف نے 13سال بعد بھی ملکی سیاست میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا کردی تھی کیونکہ چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ ایک منتخب وزیر اعظم کا جذبہ انکسارکئی ڈھکے چھپے رازوں کو منکشف کر گیا۔ جنرل ضیاء الحق کا گیارہ سالہ دور بی بی اور ان کے خاندان کیلئے مصیبت اور ابتلاء کا دور رہا۔ ان کے والد کو نہ صرف اقتدار سے معزول کیا گیا بلکہ مصلوب بھی کیا گیا۔ وہ خود قید و بند سے رہائی کے بعد جلا وطنی کی زندگی گزارتی رہیں۔ قاضی صاحب نے اپنے مذکورہ انکشاف میں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جنرل اسلم بیگ محترمہ بے نظیر بھٹو کیلئے نجات دہندہ ثابت ہوئے اور جو کام ملک کی سیاسی قوتیں گیارہ سال میں نہ کرسکیں وہ انہوں نے چند گھنٹے میںکر دکھایا۔ ان کے خیال میںگیارہ سالہ دورِآمریت کی حادثاتی موت اور بی بی کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کا کریڈٹ مرزااسلم بیگ کو جاتا ہے جب ہی انہوں نے ان کی خدمات کے اعتراف میں نہ صرف اپنے ہاتھ سے پکوڑے تل کر کھلائے بلکہ انہیں تمغہ جمہوریت سے بھی سرفراز کیا۔

بی بی صاحبہ نے دیسی پکوان بنانے کی ابتدا شاید آرمی ہاؤس سے ہی کی تھی اور یہیں پر انہوں نے اپنی کچن کیبنٹ بھی تشکیل دی، اسی بناء پر ان کے بنائے ہوئے پکوڑوں میں کچھ اجزاء کی کمی یا بیشی ہوگئی جس کی وجہ سے جنرل صاحب کے ہاضمہ پر برا اثر پڑا اور وہ تبخیر معدہ کا شکار ہوگئے اور اس کے بعد سے وہ جب بھی وزیر اعظم کے سامنے بیٹھے ہوتے تو ہیومن گیسز کے اخراج پر قابو نہ پاسکتے جس کی وجہ سے محترمہ کے دماغ کو جھٹکے لگتے اور اسے وہ وزیر اعظم ہاؤس سے اپنی بے دخلی کا سگنل سمجھتیں۔ انہی خدشات و تحفظات کو لے کر اپنی کیبنٹ اور چیف آف آرمی اسٹاف کے ہمراہ وہ واشنگٹن جا پہنچیں اور وہائٹ ہاؤس میں امریکی حکام سے مرزا اسلم بیگ کی طرف اشارہ کرکے شکایت کی کہ ’’یہ مجھے ایوانِ وزیر اعظم سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ جنرل صاحب اگر اس شکایت کے جواب میں اپنی طبی وجوہ کا حوالہ دیتے تو یہ ملک و قوم کی سبکی کا سبب ہوتاکیونکہ جس ملک کے حکمران اربوں اور کھربوں روپے ہضم کرجاتے ہوں وہاں جنرل اسلم بیگ سے چند پکوڑے ہضم نہ ہوسکے اور ان کے تمغہ جمہوریت کیلئے خطرہ بن گئے۔

کچن ڈپلومیسی آج بھی جاری ہے لیکن اس کا انداز تبدیل ہوگیا ہے۔ پہلے حکمرانوں کی ضیافتوں میں دسترخوان یا ڈائننگ ٹیبلیں مختلف النوع پکوانوں سے سجی ہوتی تھیں۔ اب کچن ڈپلومیسی میں بینکنگ ڈپلومیسی بھی شامل ہوگئی ہے۔ کھانے اور کھلانے کا سلسلہ آج بھی ہوتا ہے لیکن یہ باورچی خانے کے پکوانوں تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ اس میں ملین اور بلین کھائے اور کھلائے جاتے ہیں اور ماضی کی ریاستوں کی طرح ہماری مملکت خداداد کے بھی اس کھانے اور کھلانے کے مشاغل میں بیرونی قوتوں کے لقمہ تر بننے کا خدشہ ہوگیا ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223266 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.