حملہ آورکا سَرمل گیا

’’خودکش حملہ آور کا سَر مل گیا‘‘ یہ وہ خوش خبری ہے جو ہر بم دھماکے کے بعد سوگ میں ڈوبی ہوئی قوم کوکسی سرکاری شخصیت کی طرف سے ذرائع ابلاغ کے توسط سے سنائی جاتی ہے تاکہ اس کے غموں کا بوجھ ذرا ہلکا ہوجائے۔ ملک کے مختلف شہروں میں ہر ہفتے کم از کم دو بم دھماکے ضرور ہوتے ہیں بلکہ بعض دفعہ توایک ہی شہر میں دھماکوں کی پوری سیریز چلتی ہے جو تین سے لے کر نو دھماکوں پر محیط ہوتی ہے، جس کے بعد ہر مرتبہ سرکاری تَرجمان کو ’’سَر‘‘ ملنے کی خوش خبری سنا کر اپنے سرکاری فریضے کی انجام دہی کرنا پڑتی ہے۔

سچن ٹنڈولکر کے سَر پر دوسرا ’’ سَر‘‘ سجنے اور ان کے ’’سَر ٹنڈولکر‘‘ کہلانے کے بعد ہمیں بھی یہ اُمید ہوگئی کہ برطانیہ کے شاہی دربار سے اگر سَروں کے بانٹنے کا سلسلہ انہی سُروں میں جاری رہا تو شاید آئندہ عشرے میں ہم بھی ایک سر پر دوسرا ’’سَر‘‘ لگائے پھریں گے اور سَروں کی فہرست میں ہمارا نام بھی ثبت ہوجائے گا لیکن جب ہم اپنے ملک میں اُن سَروں کی فہرست دیکھتے ہیں جو خودکش دھماکوں کے بعد بازیاب ہوتے ہیں تو ہمارا سَر پھٹنے لگتا ہے اور بعض اوقات تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہَرہائی نس ملکہ الزبتھ ثانی کے دربار سے جن شخصیات کو سَر بانٹے جاتے ہیں وہ یا تو غیرمسلم ہوتی ہیں یا ماڈریٹ اسلام کی علمبردار، جب کہ ان کے سَروں پر جو سَر سجتے ہیں وہ بھی شاید مسلمان سرپھروں کی سرکشی پر تنقید کے طفیل ہوتے ہیں جو سرفروشانہ جذبہ لے کر خودکش بمبار بن جاتے ہیں اور اپنے ہی ہم مذہب و ہم وطنوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے پھٹنے لگتے ہیں، نتیجے میں ان کا سَر بھی جائے وقوعہ پر پڑا ملتا ہے جبکہ سَر سے جدا ہونے والے تن کو تلاش کرکے اس میں سے پوسٹ مارٹم کی آڑ میں اہم اور قیمتی اعضاء نکال کر عطیے میں شمار کرلیے جاتے ہیں اور مالدار ’’سَروں‘‘ کے تن میں لگا کر دَھن کمایا جاتا ہے۔ ویسے تو جائے وقوعہ پر بم دھماکے کے شکار بے شمار لوگوں کے سَر بکھرے ہوتے ہیں جب کہ سَر بریدہ جسم بھی ملبے تلے پڑے ہوتے ہیں لیکن ہمارے سراغ رساں ادارے لاتعداد سَروں کے جُھنڈ میں خودکش حملہ آور کے سَر کو آنکھیں بند کرکے بھی شناخت کرلیتے ہیں اور بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے پسماندگان کو اپنے پیاروں کی موت کے صدمے سے نکالنے کے لیے دھماکے کے چند گھنٹے کے اندر ’’خودکش حملہ آورکا سَر ملنے‘‘ کی خوش خبری سنادیتے ہیں جو بعض دفعہ کسی اسکاؤٹ کا سَر ثابت ہوتا ہے لیکن اس کے بعد یہ سَر کہاں جاتے ہیں اس سے صدمے میں ڈوبی ہوئی قوم ہی نہیں، مذکورہ سَروںکے دعویدار بھی بے خبر رہتے ہیں۔

اب تک ملکی اور غیرملکی سراغ رساں ادارے اس بات کا سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیںکہ یہ خودکش بمبارآتے کہاں سے ہیں جبکہ ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ خودکش حملہ آوروں کے سَرجاتے کہاں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان حملہ آوروں کے سَروں کی ’’برین اسکیننگ‘‘ کرنے کے لیے غیر ملکی ایجنسیاں انہیں اپنے ملک لے جاتی ہوں تاکہ ان سَروں سے ان کے سَرپرستوں کا سراغ لگایا جاسکے جن کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے ان کے سَروں میں جہادکا سودا سمایا تھا یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے حکمران خودکش بمباروں کے سَروں کے ذریعے چنگیزخان کی طرح سَروں کے مینار تعمیر کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں اور وہ اس کی تعمیر کے لیے سَروں کی مطلوبہ تعداد کے اکٹھا ہونے کا انتظارکررہے ہوں۔
جب ہم الیکٹرونک دورسے چند سال کی دوری پر تھے اور واشنگ مشین کی سہولت گھر گھر نہ ہونے کی وجہ سے ہر گھر لانڈری نہیں بنا تھا، اس زمانے میںگلی محلوں میں واشنگ فیکٹریوں کی بہتات تھی جبکہ اسی دور میں ہمارے بعض اکابرین نے جو اس زمانے میں سربراہ مملکت کے وفادار ملازم اور اسلامی بنیاد پرستوں میں شمار ہوتے تھے، قبائلی علاقوں میں ذہنوں کو دھونے کے لیے برین واشنگ فیکٹریاں قائم کیں جو سادہ لوح طالب علموں اور سرپھٹّول پر آمادہ نوجوانوں کے ذہنوں کو دھو (برین واشنگ) کر انہیں اپنے ’’مقدس جہادی مشنز‘‘ کے لیے استعمال کرتے تھے۔ جب مذکورہ شخصیات خود اقتدار پر قابض ہوئیں تو روشن خیالی کا لبادہ پہن کر اور امریکی آشیرواد کی عینک آنکھوں پر لگانے کے بعد انہیں اپنی فیکٹریوں میں برین واشنگ کے بعد تیار کیے ہوئے تمام ’’مجاہدین‘‘ چلتے پھرتے بمبار جب کہ مساجد اور مدرسے مجاہدوں کی تربیت گاہیں اور اسلحہ خانہ نظر آنے لگے۔ امریکی آشیرواد کے حصول کے لیے مساجد و مدارس پر فوج کشی نے سارے ملک میں غیراعلانیہ صلیبی جنگ برپا کردی جس نے خودکش بمباروں کی افزائش میں نمایاں کردار ادا کیا۔

قبائلی علاقوں کے عوام امریکی ڈرون حملوں سے خوفزدہ رہتے ہیں جب کہ شہروں میں خودکش بمباروں کا خوف مسلط رہتا ہے کہ نہ جانے کس بازار، پارک، سینما گھر، مسجد، امام بارگاہ ، مذہبی جلسے و جلوس میں خودکش دھماکے ہوجائیں اور لاتعداد سَر اور دھڑ کئی فرلانگ دور تک بکھرے ہوئے نظر آئیں۔ تقریباً ہر بم دھماکے کے بعد خودکش حملہ آورکا سر مل جاتا ہے لیکن چند دھماکے ایسے ہیں جن کے بمباروں کے سَروں کا پتہ نہیں چلا جن میں سانحہ نشتر پارک، حضرت امام حسینؑ کے چہلم کے جلوس ، کراچی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلوس میں بم دھماکے اور 27دسمبر 2007ء کو محترمہ کو شہید کرنے والے حملہ آوروں کے سَر بازیاب نہیں ہوئے۔ اگر مذکورہ سر بازیاب ہوجاتے تو ان تمام سانحات کے ماسٹرمائنڈ یا سرغنہ تک رسائی میں آسانی اور خودکش حملوں میں کمی ہوتی۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223259 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.