تیل کی دھار دیکھو

بچپن سے محاورہ سنتے آرہے ہیں ’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘‘، یہ محاورہ گزشتہ صدی میں کسی بزرگ نے مستقبل سے پریشان کسی شخص کو تسلی دیتے ہوئے ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ جیسی نصیحت کرکے ادا کیا ہوگا لیکن آج جب ہم پیٹرول پمپ پر اپنی موٹر سائیکل میں پیٹرول بھروانے جاتے ہیں تو اسی محاورے پر عمل کرتے ہوئے پمپ کا نوزل ٹنکی کے ڈھکنے کے ساتھ ہی رکھواتے ہیں اور تیل کی دھار دیکھ دیکھ کر اپنے جسم میں خون کی روانی کو زیر و زبر کرتے رہتے ہیں کیونکہ میٹر ٹیمپرنگ کی وجہ سے نوزل میں سے تیل کی دھار قطروں کی صورت میںگاڑی کی ٹنکی میں گرتی ہوئی نظرآتی ہے جبکہ اس دوران، ہمارا دوران خون دل سے دماغ کی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پیٹرول ہم روزانہ سو روپے کا ہی بھرواتے ہیں۔ زیادہ پیٹرول اس لیے نہیں بھرواسکتے کیونکہ جیب میں زائد پیسے ہی نہیں ہوتے اور اپنی حسرت کو اُسی دور کے بزرگ کے دوسرے نصیحت آمیز محاورے سے بہلانا پڑتا ہے کہ ’’ نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی‘‘۔ نجانے رادھا بی بی نو من تیل پی کر ناچتی تھیں یا نو من تیل میں غسل کرکے رقص روغن فرمایا کرتی تھیں اور تیل سرسوں کا ہوتا تھا یا مِٹّی کا۔ سرسوں کے تیل کی تو بُو بھی حلق میں کڑواہٹ بھردیتی ہے حالانکہ سویا بین اور سورج مُکھی کے تیل کے کچن کیبنٹ میں سجنے سے قبل سرسوں کا تیل ہی دیسی پکوانوں میں استعمال ہوتا تھا، ہاں مِٹّی کے تیل کی بو دماغ پر مسحورکن اور نشہ آور اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے رادھا بی بی اسی کے نشے میں رقص فرماتی ہوں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُس دور میں تیل بھی لیٹر یا گیلن کی بجائے سیر یا من کے حساب سے بکتا تھا؟۔ ویسے وہ انتہائی سستا دور تھا، اگر آج کا دور ہوتا تو مس رادھا نو چھٹانک یا نو لیٹر تیل بھی خرید کر اس ’’تفریحی پروگرام‘‘ کی متحمل نہیں ہوسکتی تھیں۔ خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہم نے تِلوں سے تیل نکالنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کے بعد ہمیں بھی یہی محاورہ دہرانا پڑا کہ ’’ان تلوں میں تیل نہیں‘‘۔

مغل بادشاہوں نے 6992 زبانوں کے لاؤ لشکر کو یکجا کرکے اردو زبان ایجادکی لیکن اُس کے بعد ماہرین لسانیات نے اس زبان کی تقدیس و تحریم بڑھانے کے لیے محاوروں کی ایجادات کا عمل شروع کیا۔ کسی کو سرزنش، نصیحت یا تنقید کرتے ہوئے شائستہ جملوں میں سمجھایا جاتا تھا جو بعد ازاں محاوروں کی شکل اختیار کرکے رائج العام ہوجاتے تھے۔ لیکن شاید ایک صدی قبل کے ہمارے بزرگ مستقبل بین بھی ہوتے تھے جن کی زبان سے اُس دور میں ادا ہونے والے محاورے موجودہ دور میں حقیقت کا روپ دھارچکے ہیں۔ ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے ہم سمیت ہر فرد بلبلا اور مذکورہ محاورے دہرا رہا ہے۔

کسی دور میں دالیں اتنی سستی تھیں کہ لوگ کسرِ نفسی دکھانے یا قناعت پسندی کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہا کرتے تھے کہ ’’بس دال روٹی مل رہی ہے، گزارا ہورہا ہے‘‘ لیکن خدا جانے اُس سستے دور کے عاقل نے کسی کی تضحیک کرتے ہوئے یہ جملہ کیوں ادا کیا کہ ’’ یہ منہ… مسور کی دال‘‘۔ وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو لیکن آج مہنگائی کی وجہ سے ہمارا منہ مسور سمیت کوئی بھی دال کھانے کے قابل نہیں رہا بلکہ اکثر اپنے منہ کو دال کھانے کے قابل بنانے کے لیے مہنگائی کا کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے۔ اکثرگھرانے تو دال روٹی کو بھی ترستے ہیں اور معاشی بدحالی کی وجہ سے وہاں اکثر ’’جوتیوں میں دال بٹتی ہے‘‘۔ یہ تو شُکرکریں کہ محاورتاً بٹتی ہے اگر حقیقتاً بٹ رہی ہوتی تو مجبور لوگ جوتیوں میں بٹنے والی دال کو بھی اپنی خوراک بنانے سے گریز نہ کرتے۔ ہر قسم کا گوشت انتہائی قلیل تنخواہ کی وجہ سے ہماری قوت خرید سے باہر ہے اس لیے مہنگی دالوں اورگوشت کا خیال دل سے نکال کر سستی سبزیوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی اپنے گھر میں مرغن غذائیں پکنے کے خیالی پلاؤ روزانہ پکاتے ہیں جب کہ ہمارے خوابوں میں اکثر چھیچھڑے بھی نظر آتے ہیں جو پہلے بلّی کو نظر آیا کرتے تھے لیکن اب شاید بِلّیوں نے چھیچھڑوں کے خواب ہمارے لیے چھوڑ دئیے ہیں جبکہ گوشت مہنگا ہونے کے بعد قصاب بھی چھیچھڑے بجائے کتّوں کے آگے پھینکنے کے ہم جیسے انسانوں کے ہاتھوں فروخت کے لیے بچالیتے ہیں۔

’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے‘‘ جیسا فقید المثال محاورہ اب اس لیے متروک ہوتا جارہا ہے کہ دودھ کے نرخ اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ اس کا استعمال صرف چائے کی سیاہی کو سفیدی میں بدلنے کے لیے کیا جاتا ہے، اس لیے دیگچی بھر دودھ کی بجائے صرف آدھ گلاس دودھ سے کام چلایا جاتا ہے اس لیے چھینکاخالی رہتا ہے۔ ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘۔ اشیائے خوردونوش کو قوت خرید سے باہر دیکھ کر لوگ دل جلاتے رہتے ہیں اس لیے وہ نہ تو دودھ سے اپنا منہ جلا پاتے ہیں اور نہ ہی ان کی چھاچھ پینے کی بساط ہوتی ہے۔ مرغ اور بیضہ مرغ کا شمار برصغیر کی افسانوی خوراک میں ہوتا ہے لیکن اب لوگ نہ تو مرغ کھانے کی استطاعت رکھتے ہیں اور نہ اس کا بیضہ۔ بیضہ مرغ جیسی قوت بخش خوراک کی دسترخوان سے نایابی کے بعد آج زیادہ تر لوگوں کے چہرے نقاہت کی وجہ سے بیضوی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔

’’انگور کھٹّے ہیں‘‘ ، کسی مقصد میں ناکامی کی صورت میں ادا کیا جانے والا یہ محاورہ آج ہم صرف انگور جیسے پھل کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر اُس پھل کے لیے ادا کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جسے خریدنے کی ہم سکت نہیں رکھتے۔ ٹھیلے پر انگوروں کے ڈھیر اور اس کے ساتھ ’’مثلِ لنگور‘‘ شخص کو بیٹھا دیکھ کر ہمیں ’’پہلوئے حور میں لنگور‘‘ والا محاورہ یادآجاتا ہے اور ہم انگورکو اپنے ہاتھ میں دیکھنے کی حسرت لیے ہوئے اس ٹھیلے سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ’’آم کے آم، گٹھلیوں کے دام‘‘، یہ محاورہ شاید اُس دورکا ہے جب آم واقعی گٹھلیوں کے دام ملتے تھے لیکن اِس دور میں تو آم کے دام گٹھلیوں کے نام ہوجاتے ہیں اور ہم اتنے مہنگے آم بغیر کسی سوچ بچار کے خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں ’’آم کھانے سے مطلب ہے نہ کہ پیڑگننے سے‘‘۔ اقتصادی بدحالی نے آج متوسط طبقے کو قصہ پارینہ بنا کرخط افلاس کی سطح سے بھی نیچے بٹھادیاہے اس لیے مفلوک الحالی کی وجہ سے لوگوں کی زبان سے شیریں بیانی رخصت ہوکر تلخی کلام میں تبدیل ہوگئی ہے یہی وجہ ہے کہ جب ہم سے کوئی شخص بدکلامی کرتا ہے تو ہم اس سے صرف اتنا ہی کہہ پاتے ہیں کہ بھائی ’’گُڑ نہ دوگڑ جیسی بات تو کرو‘‘۔

’’ایک حمام میں سبھی ننگے ‘‘، مذکورہ محاورہ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں لیکن کچھ عرصے قبل اسلام آباد میں قیام کے دوران ہم حاتم طائی والے کوہ نِدا کو تلاش کرتے ہوئے دامن کوہ تک جا پہنچے جس کے قریب ’’حمام بادگرد‘‘ بھی مل گیا۔ اس کی خبر لانے کے لیے جب اس میں داخل ہوئے تو وہاں بے شمار طاقتور لوگ سر تا پا برہنہ غسل فرما رہے تھے۔ پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ شاید ہم سری لنکا کے جزیرہ کینڈی کے ایلیفنٹ باتھ (Elephant bath)میں آگئے ہیں جہاں ہاتھیوں کو اجتماعی طور سے نہلایاجاتا ہے لیکن جب اپنے بدن میں چٹکی بھری تو احساس ہوا کہ ہم پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک عالیشان حمام میں کھڑے ہیں اور اس حمام میں صاحب اقتدار، فرینڈلی اپوزیشن کے تخلیق کار اور کرپشن مافیا کے سرکردہ افراد اتحاد ثلاثہ (ٹرائیکا)کی صورت میں اپنے اصل چہروں کے ساتھ قدرتی لباس میں موجود ہیں جن کے ہاتھ میں ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کی قوت و اختیارات ہیں اور جو عوام کو بھوک اور افلاس کے ہاتھوں زندہ درگور کرنے کے بعد قتل و غارت گری اور دہشت گردی کو ہوا دے کر ان کا مزید ’’غریبی میں آٹا گیلا ‘‘کرنا چاہتے ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 190619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.