منصف مزاج قادیانیوں سے چند سوالات (پارٹ 3)
(ubaidullah latif, Faisalabad)
سوال نمبر 7 :۔مرزا غلام احمد قادیانی اپنی
کتاب ازالہ اوہام میں اپنی ماموریت کے متعلق رقمطراز ہےکہ " چند روز کا ذکر
ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الآیات بعدالمآتین
ہے ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرھویں صدی کے آواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہو
گا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر
اس مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح
ہے جو کہ تیرہویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا جو پہلے سے یہی
تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی
اس نام کے عدد پورے تیرہ سو ہیں اور اس قصبہ قادیاں میں بجز اس عاجز کے اور
کسی شخص کا نام غلام احمد نہیں ہے بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت
بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں "
( ازالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن ج3ص 189،190)
اس تحریر میں صاف دعویٰ ہے کہ میری ماموریت سن تیرہ سو ہجری پورے ہو جانے
پر ہوئی تھی اسی موقف کی تائید کرتے ہوئے ایک اور مقام پر مولوی غلام احمد
قادیانی کچھ یوں رقمطراز ہے کہ غلام احمد قادیانی اپنے حروف کے اعداد سے
اشارہ کر رہا ہے یعنی تیرہ سو کا عدد جو اس نام سے نکلتا ہے وہ بتلا رہا ہے
کہ تیرہویں صدی کے ختم ہونے پر یہی مجدد آیا جس کا نام تیرہ سو کا عدد پورا
کرتا ہے "
( تریاق القلوب ص 16 مندرجہ روحانی خزائن ج 15 ص 158)
اسی بات کی مزید تائید مولوی غلام احمد کادیانی کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے
جس وہ لکھتا ہے کہ " میں بھی آنحضرتؐ کی ہجرت سے چودہویں صدی پر مبعوث ہوا
ہوں "
( تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص 71 مندرجہ روحانی خزائن ج 17 ص 209 )
یہ سب حوالہ جات واضح کر رہے ہیں کہ مولوی غلام احمد قادیانی کی ماموریت
تیرہ سو سن ہجری پورے ہونے کے بعد اور چودہویں صدی ہجری کے شروع میں ہوئی
تھی
اب مولوی غلام احمد قادیانی کااسی سلسلہ میں دوسرا موقف بھی ملاحظہ فرمائیں
چنانچہ مولوی غلام احمد قادیانی رقمطراز ہے کہ " عجیب امر ہے اور میں اس کو
خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سو نوے ہجری میں خدا
تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا "
( حقیقت الوحی ص 199 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 ص 208 )
یہ تحریر صاف بتا رہی ہے کہ مرزا قادیانی کی بعثت یعنی ماموریت تیرہویں صدی
کے خاتمہ میں دس سال رہتے تھے تب ہوئی ہے
اب مولوی غلام احمد قادیانی کا تیسرا موقف بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزا
قادیانی رقمطراز ہے کہ ": حدیثوں میں یہ بات بوضاحت لکھی گئی ہے کہ مسیح
موعود اس وقت دنیا میں آئے گا کہ جب علم قرآن زمین پر سے اٹھ جائے گا اور
جہل شیوع پاجائےگا یہ وہی زمانہ ہے جس کی طرف ایک حدیث میں یہ اشارہ ہے "
لوکان الایمان معلقاً عندالثریالنالہ رجل من فارس " یہ وہ زمانہ ہے جو اس
عاجز پر کشفی طورپر ظاہر ہوا جو کمال طغیان اس کا اس سن ہجری میں شروع ہو
گا جو آیت " واناعلی ذھاب بہ لقادرون " میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی
1274ہجری "
( ازالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن ج 3 ص 455)
اس تحریر سے واضح ہوتا ہے مولوی غلام احمد قادیانی کی بعثت یعنی ماموریت
1274 ہجری میں ہونی چاہئے تھی یعنی تیرہویں صدی کے ختم ہونے سے چھبیس سال
پہلے _ چمولوی غلام احمد قادیانی صاحب مزید فرماتے ہیں کہ" اب اس تحقیق سے
ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم کی آخری زمانے میں آنے کی قرآن شریف میں پیشگوئی
موجود ہے قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی چودہ سو برس مدت ٹھہرائی ہے بہت
سے اولیاء بھی اپنے مکاشفات کی رو سے اس مدت کو مانتے ہیں اور آیت "
واناعلی ذھاب بہ لقادرون _" جس کے بحساب جمل 1274 عدد ہیں اسلامی چاند کی
سلخ کی راتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں نئے چاند کے نکلنے کے اشارات
چھپی ہوئی ہے جو غلام احمد قادیانی کے عددوں میں بحساب جمل پائی جاتی ہے "
( ازالہ اوہام ص 675 مندرجہ روحانی خزائن ج 3 ص 464 )
یہ دونوں حوالے متفق ہیں کہ مولوی غلام احمد قادیانی کی بعثت یعنی ماموریت
کا زمانہ 1274 ہجری یعنی تیرہویں صدی کے خاتمہ سے چھبیس سال پہلے تھا
پس اس وقت مولوی غلام احمد قادیانی کے اپنی ماموریت کے بارے میں تین بیان
آپ کے سامنے ہیں
1_: تیرہ سوسن ہجری مکمل ہونے پر _
2_: تیرہویں صدی کے دس سال رہتے ہوئے 1290 ہجری _
3_: تیرہویں صدی کے پورے چھبیس سال رہتے ہوئے یعنی 1274 ہجری _
اب مولوی غلام احمد قادیانی کے پیروکار بتائیں کہ ان تینوں میں سے مولوی
غلام احمد قادیانی کا کونسا موقف درست ہے اگر تینوں تو کیسے ؟
سوال نمبر 8 :۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ ایک عظیم صحابی رسول ہونے کے
ساتھ ساتھ عظیم محدث بھی تھے جس کا اعتراف مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی
کیا ہے چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ " کما زعمہ عمرالذی یجری الحق علی
لسانہ ولہ شان عظیم فی الرای الصائب والرایہ موافقہ باحکام القرآن فی مواضع
و مع ذالک ھو ملھم ومن المحدثین _"یعنی جیسا کہ خیال کیا حضرت عمر رضی الله
عنہ نے جس کی زبان پر حق جاری ہوتا ہے اور جو صائب الرائے ہونے میں عظیم
الشان اور جن کی رائے کئی مقام پر موافق ہوئی اور اس کے ساتھ وہ ملہم اور
محدثین سے ہیں ( حمامة البشری صفحہ 81 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 246
) اب آپ مرزا صاحب کی طرف سے محدث کی تعریف بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزا
صاحب لکھتے ہیں کہ محدث جو مرسلین میں سے ہے امتی بھی ہوتا ہے اور ناقص طور
پر نبی بھی امتی وہ اس وجہ سے کہ خداتعالی نبیوں کا سا معاملہ اس سے کرتا
ہے محدث کا وجود انبیاء اور امم میں بطور برزخ کے الله تعالیٰ نے پیدا کیا
ہے وہ اگرچہ کامل طور پر امتی ہے مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے اور محدث
کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی نبی کا مثیل ہو اور خداتعالی کے نزدیک وہی نام
پاوے جو اس نبی کا نام ہے _" ( ازالہ اوہام صفحہ 569 مندرجہ روحانی خزائن
جلد 3 صفحہ 407 ) قادیانی دوستو اب آپ یہ دلائل سے یہ بتائیں کہ عمر رضی
الله عنہ کس نبی کے مثیل تھے اور انہوں نے کس نبی کا نام پایا تھا اگر آپ
یہ ثابت نہ کر سکے تو پھر مرزا صاحب کی طرف محدث کی کی گئی تعریف کو غلط
ماننا پڑے گا۔
سوال نمبر 9 :۔
اے قادیانی حضرات آپ مرزا قادیانی کا کلمہ کیوں نہیں پڑھتے جبکہ مرزا
قادیانی کا کلمہ بھی موجود ہے جس کا زکر کرتے ہوئے مرزا بشیر سیرت المہدی
میں رقمطراز ہے کہ " ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت
خلیفة المسیح اول فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا ایک کلمہ ہوتا ہے مرزا کا
کلمہ یہ ہے " میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا " (سیرت المہدی جلد اول
صفحہ 775,774 روایت نمبر 878 طبع چہارم )
سوال نمبر 10 :۔ مرشد اور مرید کے درمیان تعلق کا تزکرہ کرتے ہوئے
مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ " ایسا ہی قرآن کریم اور حدیث شریف سے معلوم ہوتا
ہے کہ مرشد کے ساتھ مرید کا تعلق ایسا ہوناچاہیے جیسا عورت کا تعلق مرد سے
"_ (ملفوظات جلد اول صفحہ 404 ) کیا کوئی قادیانی بتا سکتا ہے کہ قرآن مقدس
میں کونسی آیت مبارکہ میں اس تعلق کی تفصیل موجود ہے نیز مرشد اور مرید میں
سے مرد کا کردار کون اداکرے گا اور عورت کاکون ؟ مرزامسرور کو مرشد ماننے
والے ضرور بتائیں۔
|
|