( جمعرات ،۲۰۱۷ء۔۰۶۔۲۲)
۱۔ پر سکون گھر کوجنت کا عکس کہا جس سکتا ہے۔
۲۔ گھر کی خوشی ہی انسان کی اصل خوشی ہوتی ہے۔
۳۔ گھر کا سکون گھر سے باہر کہیں بھی نہیں ملتا۔
۴۔ کچھ لوگ گھر میں نہ رہتے ہوئے بھی’ دل میں گھر کر لیتے ہیں‘۔
۵۔ گھر ہی انسان کی بے انتہا کرپشن کا سبب بنتا ہے۔
۶۔ انسان کا دنیا کا گھر نا پائدار ہے لیکن وہ اسے پائدار بنانے کے چکر میں
پڑا رہتا ہے۔
۷۔ انسان کادرمیانہ گھر قبر ہے جس کے اندھیرے سے وہ خوف کھاتا ہے لیکن اس
اندھیرے کو دورکرنے کی کوشش نہیں کرتا۔
۸۔ انسان کا اصل گھر آخرت ہے جس کی وہ پرواہ ہی نہیں کرتا اور اکثر نظر
انداز کئے رکھتا ہے۔
۹۔ گھر کی وسعت ایک گھروندے سے لے کر کائنات تک ہے۔
۱۰۔ جن لوگوں کا گھر نہیں ہوتا ، ان کو گھر سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔
۱۱۔ کچھ گھر بہت خوبصورت ہوتے ہیں لیکن ہمیشہ ویران رہتے ہیں۔
۱۲۔ کچھ گھر دیکھنے میں پسماندہ لیکن رہنے کے لئے پر سکون ہوتے ہیں۔
۱۳۔ کچھ گھر دیکھنے کے لئے جنت لیکن رہنے کے لئے جہنم ہوتے ہیں۔
۱۴۔ ماں کے پیٹ کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو انسان کے چار گھر بنتے ہیں:
ماں کا پیٹ، دنیا، قبر ، آخرت۔
۱۵۔ دنیا میں رہتے ہوئے گھر کی نوعیت بدل بھی سکتی ہے: ہاؤس،مادرِ علمی،
ملازمت کی جگہ، ہوٹل، ہوسٹل، ہا سپیٹل،ریسٹورانٹ وغیرہ۔
۱۶۔ کچھ گھر ، کچھ لوگوں کے لئے قید خانے ہوتے ہیں۔
۱۷۔ بعض جھونپڑیاں، بعض کوٹھیوں سے زیادہ آباد و شاد ہوتی ہیں۔
۱۸۔ انسان گھر بنانے کے لئے بے گھر بھی ہوتے رہے ہیں۔
۱۹۔ ایک پرندے کو اپنا گھونسلا ، انسان کے گھر کی طرح ہی عزیز ہوتا ہے کیوں
کہ وہ اس کا گھر ہوتا ہے۔
۲۰۔ اپنا گھر بسانے کے لئے کسی کا گھر اجاڑنا اچھا نہیں۔
۲۱۔ گھروں کی خوشیاں انسانوں سے ہیں، پتھروں یا شیشوں سے نہیں۔
۲۲۔ جس گھر میں صبر شکر ہو، وہ مثالی گھر ہے۔
۲۳۔ گھر کا مطلب تعلقات کی پاس داری ہے۔
۲۴۔ عزتِ نفس عطا کرنے والا گھر ہی اصل میں گھر ہے۔
۲۵۔ کوٹھیوں والے گھروں سے اکثر سناٹا ہی سنائی دیتا ہے۔
۲۶۔ گھرصرف ایک چار دیواری ہی نہیں، ایک تہذیب بھی ہے۔
۲۷۔ ہر تہذیب، علیحدہ انداز کے گھر ترتیب دیتی ہے۔
۲۸۔ گھروں کے انداز ہر زمانے کے لحاظ سے بدلتے رہے ہیں۔
۲۹۔ گھروں کے ساتھ مذاہب کا تعلق ہمیشہ رہا ہے یہاں تک کہ انسان غاروں میں
بھی اپنے مذہب کی نمائندگی کرتا رہا ہے۔
۳۰۔ غاروں کو انسان کے پہلے باقاعدہ گھر قرار دیا جا سکتا ہے۔
۳۱۔ غاروں کی شکل سے انسان نے گھروں کو شکل دینا سیکھا،کیوں کہ انسان ،
ہمیشہ سے مثال سے سیکھتا رہا ہے۔
۳۲۔ گھر انسان کو حفاظت، سکون، اپنائیت،محبت، خواہش اور جذبہ دیتا ہے۔
۳۳۔ سب سے بڑی بیوقوفی اپنے گھر کو نقصان پہنچانا ہے، اور ایسا کرنے والے
کو ’خانہ خراب‘ بولا جاتا ہے۔
۳۴۔ گھر کی عظمت والدین، رونق بیٹیاں، عزت بیوی، وقار بیٹے اور مضبوطی شوہر
ہیں۔
۳۵۔ گھر بنانے میں دیواروں کی مضبوطی سے زیادہ رشتوں کی مضبوطی کو عمل دخل
حاصل ہے۔
۳۶۔ کچھ امیر گھروں کے لوگ نقل مکانی کر کے ترقی یافتہ علاقوں میں چلے جاتے
ہیں جس سے پسماندہ علاقوں کے گھر ویران ہو جاتے ہیں۔
۳۷۔ گھر سے محبت کرنا انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔
۳۸۔ اپنے گھر سے محبت کو مطلب دوسرے کے گھر سے نفرت نہیں ہونا چاہیے۔
۳۹۔ گھر سے جدائی انسان کو بہت جلد محسوس ہونے لگتی ہے۔
۴۰۔ اپنے اصل گھروں سے دور رہنے والے اکثر لوگ ذہنی طور پر بے سکون رہتے
ہیں۔
۴۱۔ گھروں کو ان کے رہنے والوں کے لحاظ سے شرف ملتا ہے۔
۴۲۔ گھر کا احساس خود خدائے پاک نے اپنے لئے بھی استعمال کیا ہے اور زمین
پر اپنا گھر ’بیت اﷲ‘ بنایا ہے۔
۴۳۔ ایک پودے کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ لگایا جائے تو وہ ،چاہے کچھ دیر
کے لئے ہی سہی، مرجھا جاتا ہے۔
۴۴۔ انسان کو تمام گھروں میں سے اپنی پیدائش کا گھر زیادہ پیارا لگتا ہے۔
۴۵۔ بوڑھے لوگوں کو پرانے گھروں سے نئے گھروں کی نسبت زیادہ محبت ہوتی ہے
کیوں کہ ان سے ان کی یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔
۴۶۔ نوجوانوں کو نئے گھر زیادہ پسند ہوتے ہیں۔
۴۷۔ بچے شعور سنبھالتے ہی اپنے گھروں کی نوعیت پر غور کرنے لگتے ہیں۔
۴۸۔ ٹیکنالوجی کی ترقی سے گھروں کی آسائشوں اور اخراجات میں بے تحاشا اضافہ
ہو ا ہے۔
۴۹۔ آج کے سادہ سے گھر میں ماضی کے محلات سے بھی زیادہ سہولتیں موجود ہیں۔
۵۰۔ گھروں کی سہولتوں میں اضافہ آنے والے دور میں انسان کے لئے مذید مسائل
بھی پیدا کرے گا۔
۵۱۔ آج کا جدید گھر ماضی کے طلسم کدہ سے کم نہیں ، بلکہ زیادہ ہے۔
۵۲۔ ایسے لگ رہا ہے کہ مستقبل میں گھروں کی سہولتیں انسان کو جکڑ لیں گی۔
۵۳۔ مشکلات سے جان چھڑانا آسان اور سہولتوں سے چھڑانا مشکل ہے جیسا کہ جدید
گھروں کے لحاظ سے ہو چکا ہے۔
۵۴۔ اکثر ہوتا ہے کہ سادہ گھروں میں رہنے والے ذہنی طور پر مضبوط اور پر
کشش گھروں میں رہنے والے ذہنی طور پر کم زور ہوتے ہیں۔
۵۵۔ غریب گھروں میں انسانی رشتے مضبوط جب کہ امیر گھروں میں کمزور بھی ہو
جاتے ہیں۔
۵۶۔ امیر گھروں کی ساختی پیچیدگی، ذہنی پیچیدگی کو جنم دیتی ہے۔
۵۷۔ امیر گھروں کی اونچی اونچی دیواریں، ذہنوں میں بھی آ جاتی ہیں۔
۵۸۔ بعض امیر گھروں میں واقعی بہت اچھے انسان رہ رہے ہوتے ہیں۔
۵۹۔ اگر ممکن ہو سکتا تو ہر انسان اپنا گھر کئی ایکڑوں پر پھیلا لیتا۔
۶۰۔ اکثر انسان وسیع و عریض گھر پسند ہیں لیکن وسائل کی کمی کے باعث ایسا
نہیں کر پاتے۔
۶۱۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے ماں کا پیٹ ،اور اس دنیا سے جانے کے بعد قبر
کا پیٹ ، انسا ن کے تنگ ترین گھر ہیں۔
۶۲۔ انسان کے بس میں ہو تو اپناگھر ستاروں پر بھی بنا لے۔
۶۳۔ سب سے زیادہ مشکل گھر وہ ہے جو کسی کے دل میں بنایا جائے۔
۶۴۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک جنریشن آنے والی جنریشن کے لئے گھر بناتی ہے۔
۶۵۔ انسانوں کے علاوہ پرندے اور حشرات بھی گھر بناتے ہیں۔
۶۶۔ جنات کے گھروں کا پتہ اسی وقت چلتا ہے جب وہ خود بتاتے ہیں۔
۶۷۔ انسان مٹی سے بنا ہے اور مٹی میں انس ہے ہر جگہ اس کے دل میں گھر
کرلیتی ہے۔
۶۸۔ گھر کے لئے چاردیواری یا عمارت شرط نہیں ۔
۶۹۔ فوجیوں کے گھر مورچے اور بیرکیں ہی ہوتے ہیں۔
۷۰۔ انسان کہیں بھی چلا جائے ، لوٹ کے گھر آنے کو دل چاہتا ہے۔
۷۱۔ سماجی تاریخ میں ہمیشہ عورتوں کو ہی شادی کی صورت میں اپنے آبائی گھر
چھوڑنے پڑے ہیں۔
۷۲۔ عورت کا گھر چھوڑنا ،شادی کی صورت میں،اس کی سماجی اور فطرتی مجبوری
رہی ہے۔
۷۳۔ انسان ہو ، حیوان ہو، حشرہ ہو کہ پودا ۔۔۔ ہر کسی کو اپنے گھر سے محبت
ہوتی ہے۔
|