قرآنی اسلوبِ دعوت اور تفہیم دین کے عصری تقاضے

قرآن مقدس کی رہنمائی تمام انسانیت کے لیے ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ نمونۂ عمل ہے۔ ان کی روشنی میں جب بھی مسلمان آگے بڑھے، دنیا پر غالب رہے۔ یہ غلبہ جذباتی نہیں بلکہ حقیقی رہا۔ مسلمانوں کے علمی و فکری زوال میں اغیار سے زیادہ مسلمانوں کی غلطی و کوتاہی رہی۔ اس لیے بھی کہ اغیار کی روش سے مسلمان واقف ہی نہیں عمومی طور پر باخبر رہے ہیں۔ مسلمان کی کامیابی اسلام وقرآن کے دامن سے وابستگی میں ہی ہے۔ جہاں ان کا اسلام وقرآن سے تعلق و رشتہ کم زور ہوا زوال کی تیرگی سے دوچار ہوئے۔

موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ مغرب کا سائنسی غلبہ ہے۔ مسلمان اس سے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ اہلِ علم اس سے خوب واقف ہیں کہ کسی بھی علم کی بنیاد اس کے اصول و ضوابط ہی ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے صدیوں تک علوم و فنون کی سرپرستی کی۔ قرآنی اصولِ علم کی بنیاد پر علم و فن خصوصاً سائنس کے ضابطے مسلمانوں نے ترتیب دیئے اس کے لیے ایک مثال کافی ہوگی جس سے اسلامی سائنس سے مسلمانوں کے رشتہ و تعلق کو سمجھنا آسان ہوگا۔ اہلِ بیت سے محبت مسلمان لازم جانتے ہیں۔ اہلِ بیت کے ایک فردِ جلیل ہیں حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ۔ انھیں کے شاگرد گزرے ہیں جابر بن حیان، جنھیں علم کیمیا(Chemistry)کے بانی کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس علم کے ۱۰؍بنیادی اصول آپ نے اپنی تحریر میں ایجاد کیے۔اسی طرح میڈیکل سائنس کو بھی مسلمانوں نے مرتب کیا۔ علم طبیعات بھی مسلمانوں کی دین ہے۔فلکیات،زیجات، اسطرلاب،جغرافیہ، علم الارض، علم ادویات،طب و جراحت کے اصول بھی مسلم حکما کی دین ہیں،لیکن ہماری اپنی کوتاہی سے ان علوم پر دوسروں کا اجارہ ہوا۔

ہر علم و فن میں کام کر کے مسلمانوں نے اسلام کی کامیاب تبلیغ کی ہے۔ اور اس علمی وسعت کا اندازا قرآن مقدس کے اس درس سے ہوتا ہے:’’اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہترہو‘‘ (سورۃالنحل:آیت۱۲۵)

مسلمانوں نے اچھی نصیحت اور حکمت و موعظت سے اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کیا۔ جبھی دنیا متاثر ہوئی۔ موجودہ عہد میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف اسلام مخالف مشنریوں (جن میں یہود و انگریز کے علاوہ زعفرانی میڈیا بھی شامل ہے) نے پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا، تشدد کی حمایت کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ صرف اسلام سے دلوں کو دور کرنے کے لیے کیا گیا تا کہ کوئی اسلام کے حسن سے متاثر نہ ہو جائے۔ تجزیاتی مطالعہ اس پروپیگنڈے کی اس رُخ سے دھجیاں بکھیرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں گرچہ ایک طبقہ اسلام سے نفرت کے جذبات سے بھر گیا لیکن جستجو اور تحقیق کے متوالے قرآن کے مطالعہ پر مائل ہوئے کہ اس مذہب کی مخالفت کے لیے اس قدر ہنگامہ آخر کیوں ہے؟ اس مطالعہ نے اس حقیقت کو اجاگر کر دیا کہ:’’بے شک اﷲ کے یہاں اسلام ہی دین ہے‘‘ (سورۃآل عمران:آیت۱۹)اس لیے بغیر عناد و تعصب کے جو مطالعہ کرتے ہیں وہ آخر میں اسلام کے دامن میں ہی عافیت پاتے ہیں۔

ایک پہلویہ بھی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں شدت ہے جب کہ اس کی فطری تعلیمات میں نرمی ایسی ہے کہ اس کی دعوت کے لیے بھی اسلام نے تشدد کو ممنوع قرار دیا۔ اس کی اشاعت فطری انداز میں کی جائے گی۔ جس سے انسانیت کے لیے فائدہ ہے۔ جہاں فائدہ اور نجات ہو انسان وہاں آسانی سے مائل ہو جاتا ہے، کتنا دل نشیں ہے قرآن کا یہ اسلوب:’’کچھ زبردستی نہیں دین میں بے شک خوب جدا ہو گئی ہے نیک راہ گم راہی سے‘‘ (سورۃالبقرۃ:آیت۲۵۶)دین کی اشاعت میں نرم روی ہی کار آمد ہو گی۔ سختی کی ضرورت وہاں آتی ہے جہاں بات آسانی سے تسلیم کرنا دشوار ہو۔ دین تو ہر انسان کے لیے دعوتِ حق ہے اس لیے اس میں سب احکام واضح ہیں، سب باتیں عقل میں آسانی سے آنے والی ہیں ، اس میں آسانی ہی آسانی ہے۔ نرمی ہی نرمی ہے۔ ضرورت غور و فکر کی ہے۔قرآن نے اس سلسلے میں یہ اسلوب دیا کہ:
(۱)’’اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ کہیں تمہیں عقل ہو‘‘ (سورۃ البقرۃ:آیت۷۳)
(۲)’’اوراس لیے کہ وہ جان لیں کہ وہ ایک ہی معبود ہے اور اس لیے کہ عقل والے نصیحت مانیں‘‘ (سورۃ آل عمران:آیت۱۹۰)

عقلی اسلوب میں دعوتِ دین کے امکانات کو پیش نظر رکھ کر مسلمانوں نے دعوتِ دین کے لیے سرگرمی دکھائی، عقلاے مغرب نے یہ منصوبہ بنایا کہ ۱۷؍ویں صدی صدی عیسویں میں یورپ نے جو صنعتی انقلاب برپا کیا اور اس کے نتیجے میں سائنسی مطالعہ کا رجحان بڑھا تو اب اسلام اس عقلی تحریک کے سامنے نہیں ٹک سکے گا۔ لیکن ان کا یہ زعم بہت جلد ڈھے گیا، اس لیے کہ قرآن مقدس نے جو پیش گوئیاں مستقبل سے متعلق کی ہیں، اور عقلی زاویے سے سائنسی مطالعہ کی افادیت پر زور دیا ہے وہ منفرد بھی ہے اور قرآن کا فیصلہ تو اس کے نزول کے ساتھ ہی واضح ہو گیا تھا لیکن ان کی جلوہ سامانی ہم اپنی آنکھوں سے موجودہ دور میں دیکھ رہے ہیں۔ قرآن مقدس نے عقلی سطح کے پیش نظر جو تعلیم دی اس میں مثبت فکر نہاں و مستورہے۔ اس کے مقابل یورپ نے جو کچھ موشگافی کی اس میں انسانی لہو کی ارزانی اور انسانیت کی بربادی ہے۔ جوہر سے بم بنانے کا کام لیا گیا، دفاعی قوت کا مقصد آبادیوں کو نیست و نابود کرنا ٹھہرا، جمہوری اقدار کی بحالی کے نام پر عام جانوں کا اتلاف کیا گیا۔ اقوامِ مغرب کی چودھراہٹ کے نتیجے میں دنیا کے امن پسند ایسے انسان شمن عناصر(صہیونیوں) سے نفرت کرنے لگے۔ اس کا فائدہ راست اسلام کو یہ ملا کہ اسلام کے لیے جو پروپیگنڈہ کیا گیا تھا اس کا زور اہلِ دیانت افراد کے یہاں کچھ کم ہوا۔وہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ آخر کیوں اسلام کی ہی مخالفت کی جا رہی ہے۔

عقلی لحاظ سے اسلامی عقائد کی حکمت عملی سمجھنے کے لیے ایک مثال پیش کیے دیتا ہوں، مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی تلمیذ رشید مولانا احمد رضا محدث بریلوی نے جارج برنارڈشا سے ۱۹۳۶ء میں ممباسا میں ایک مکالمہ کیا جس میں برنارڈشا نے یہ اعتراض کیا:’’مجھے یہ معلوم کر کے بھی تعجب ہوا تھا کہ آپ نے نیروبی میں ’’اسلام اور سائنس‘‘ (Islam and Science)کے موضوع پر تقریر کی ۔ میرے لیے یہ سمجھنا دُشوار ہے کہ آپ قرآن کی روشنی میں ایسے لوگوں کے سامنے جنت اور دوزخ کا تصور کیسے پیش کرتے ہیں جو سائنس سے شغف رکھتے ہیں اور اُن کے ذہن بغیر دیکھے اور محسوس کیے کسی بات کو قبول نہیں کرتے ۔‘‘ (مبلغ اسلام اور جارج برنارڈشا،ص۱۲،طبع نوری مشن مالیگاؤں)اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ اب جیسا کہ قانون ہے کہ ہر چیز آگے بڑھ رہی ہے اور مائل بہ ترقی ہے تو اس ترقی کو بھی لا محالہ کوئی معراج ہونا چاہیے جہاں یہ رُک جائے اور مزید ترقی کا امکان ختم ہوجائے ۔ آرام و خوشی اور تکلیف و رنج ایسی دو چیزیں ہیں جن کا سابقہ دُنیا میں انسان کو پڑتا رہتا ہے ۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ان دونوں حالتوں کا کوئی انتہائی مقام ہو ۔ خوشی کی معراج[جنت] اور تکلیف و اُداسی کی انتہا دوزخ کہلاتی ہے ۔ جس طرح دُنیا میں کچھ مادّی ذرائع ایسے ہیں جو یا تو خوشی کا باعث بنتے ہیں یا نقصان پہنچاتے ہیں اسی طرح ایسے ذرائع بھی یقینی ہونے چاہئیں جو دوسری دُنیا میں مسرت اور غم کی کیفیت کو دوبارہ پیدا کر سکیں…… خوشی پہنچانے والے ذریعے کا نام ’’جنت‘‘ اور تکلیفوں کے مسکن کا نام ’’دوزخ‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ انسان کا وجود جسم و روح ، اس کی سرگرمیوں کا ذمہ دار ہے ۔ لہٰذا روح اور جسم مل کر دوسری دُنیا میں اپنے کیے کا بدلہ پائیں گے ۔‘‘ (نفس مصدر،ص۱۳)

اس تمثیل کا مقصد یہ ہے کہ دعوت و تفہیم دین کے لیے ضروری ہے کہ حالات و تقاضے کا لحاظ رکھ کر دین کی اشاعت کی جائے۔ اس سلسلے میں اگر عقلی دلائل سے بھی کام لینا پڑے تو قرآنی اسلوب میں اسے بھی برتا جائے تا کہ فکر و نظر کی اصلاح کے ساتھ ہی عقائد اسلامی کی تربیت ہو اور اسلام کا روشن و اُجلا چہرہ کھل کر سامنے آئے۔ اندھیروں میں بھٹکنے والے دین کی وادیِ زرخیز میں آکر ایمانی بہار سے آشنا ہوں۔

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281449 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.