اُردو زبان کے شہرہ آفاق افسانہ نگار منٹو کے افسانے
’’نیا قانون‘‘ کا منگو کوچوان ہم سب کو یاد ہے۔ منگو کوچوان بھولا بھالا
آدمی ہے جو انگریزوں کے بنائے نئے قانون کو انقلاب کی نوید سمجھ بیٹھتا ہے
اور اسی زعم میں ایک انگریز افسر سے اُلجھ پڑتا ہے کہ اب رعایا اور حاکم کا
مقام برابر ہو چکا ہے۔ اور پھر جس طرح اُسے پولیس والے اُس کی اوقات یاد
دلاتے ہیں، اُس کے خوابوں کا محل دھڑام سے زمین بوس ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا
ہی حال عوام کا ہونے والا ہے۔ دہائیوں سے کرپشن کے باعث افلاس و تنگدستی
میں زندگی بسانے والی مظلوم و محکوم عوام کو اس وقت غیر جانبدار عدلیہ اور
فعال جے آئی ٹی سے بہت زیادہ توقعات ہو چکی ہیں۔ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں کہ
پاناما لیکس کا کیس شریفوں کے اقتدار کا بوریا بسترا ہمیشہ کے لیے گول کر
دے گا۔ یقینا اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ اور جے آئی ٹی بہت درست سمت میں
تحقیقات کو لے کر جا رہے ہیں۔ مگر ان باتوں سے توقعات وابستہ کرنے والے
احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ہماری بھولی عوام نواز شریف کی تجارت کی مہارت
کو نہیں جانتے۔ نواز شریف وہاں تک پہنچتا ہے جہاں تک کسی کا وہم و گمان بھی
نہیں پہنچتا۔ نواز شریف اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر اُن حدوں کو پھلانگ
سکتا ہے جس کا کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اندر کھاتے کیا کیا سودے
بازیاں چل رہی ہیں، کہاں کہاں خرید و فروخت کی منڈیاں کھُلی ہیں، اگر یہ
حقائق منظرِ عام پر آ جائیں تو لوگ انگشت بدنداں رہ جائیں۔ حیرانی کے مارے
اُن کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ یہ صرف پرویز مشرف جیسا جرّی سپہ سالار ہی
تھا جو شریفوں کی بدمعاشی کے آگے ڈٹ گیا، اُن کی ہوسِ اقتدار کی خاطر
اداروں کو ملیامیٹ کرنے کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن گیا۔ اب ان کو ٹکر
دینے والا اُس جیسا کوئی نہیں۔ اب تو یہ حالت ہے کہ
گلیاں ہو جان سُنجیاں، تے وچ مرزا یار پھرے
اس وقت جے آئی ٹی کو آخری حدوں تک ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور اسے ہراساں
کرنے کی خاطر پانچ سات لغو گوؤں اور زبان درازوں کا گروپ اپنی ہی تمام تر
بدتمیزیوں اور اخلاقی حدوں کی پامالی کے ہر روز ریکارڈ توڑتا اور نئے قائم
کرتا جا رہا ہے۔ اس جے آئی ٹی کے ممبران کے ضمیروں کا سودا مہنگے داموں
کرنے کے لیے بھرپور دباؤ ڈالا گیا۔ ایک ریاستی انٹیلی جنس ادارے کے ذریعے
ہراساں کرنے کی کوشش ہوئی اوراب تک کے آخری حربے کے طور پر جے آئی ٹی والوں
کو ’دہشت گردوں‘ کی جانب سے باقاعدہ سنگین نتائج کی دھمکیاں ملنے کی
اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اگر جے آئی ٹی کو متنازعہ بنا کر کام کرنے سے
روکنے کی چالیں کارگر ثابت ہوتی دکھائی نہ دیں تو مختلف محکموں میں شریف
برادران کے اثاثوں کے حوالے سے موجود انکوائری رپورٹس کو راتو رات بدلنے کی
کوشش کی گئیں۔ سو جے آئی ٹی کی تفتیش کو غیر موثر بنانے کے لیے اتنا کچھ
کیا جا رہا ہے اس صورت میں شریفوں کے خلاف فیصلہ آنا بہت مشکل ہے۔ بالفرض
اگر عدالت نے شریفوں کے خلاف فیصلہ سُنا بھی دیا تو بھی ان کا کچھ زیادہ
بگڑنے والا نہیں۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کروانا عدالت کے لیے قطعاً آسان
نہیں ہو گا۔جے آئی ٹی کی تفتیش کے اس اہم موڑ پر ایف آئی اے کے ایک ڈپٹی
ڈائریکٹر انعام الرحمان سحری کی دبنگ انٹری ہوئی ہے جنہوں نے بڑی بہادری
اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شریف خاندان کی کرپشن کے تمام
کچے چٹھے جے آئی ٹی کے سامنے بیان کرنے کو تیار ہیں،بشرطیکہ اُن کو جان کا
تحفظ دیا جائے کیونکہ گاڈ فادر اپنی کرپشن کا معاملہ دبانے کی خاطر کسی وقت
بھی اُن کی جان لے سکتا ہے۔ قارئین کرام اگر نواز شریف کی خصلت کو بھول گئے
ہوں تو اُن کی یاد دہانی کے لیے بتاتے چلیں کہ جنرل آصف نواز کو کس طرح
مبینہ طور پر زہر دے کر راہ سے ہٹایا گیا، جسٹس سجاد علی شاہ کا حال بھی سب
کے سامنے ہے، جنرل جہانگیر کرامت کو ایک بیان کی پاداش میں زبردستی استعفیٰ
دینے پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح کے کئی درجن کردار ہیں جو شریفوں کے
استبدادی ہتھکنڈوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اگر عدالت نے اپنی ذمہ داری پُوری
طرح نبھائی تو انعام الرحمن سے حاصل ہونے والے حقائق اور دستاویزات شریفوں
سے دائمی چھٹکارے میں کلیدی کردار نبھا سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر نواز شریف ہر
طرح سے معاملات کو اپنے رنگ میں موڑنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
نواز شریف کو اپنی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے ابھی کئی آپشن موجود ہیں۔ سب
سے پہلا آپشن تو پارلیمنٹ کا ہے جہاں پر ایک نیا این آر او لا کر عدالتی
فیصلوں کی بے توقیری کی جائے گی۔ پارلیمنٹ کی ڈھال کے پیچھے چھُپ کر یہ خود
کو بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ثابت کیا جائے گا کہ وزیر اعظم کو استثنیٰ
حاصل ہے اس باعث اُس کے خلاف عدالتی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
ایک دوسرا آپشن جو کہ ان کا بڑا پسندیدہ ہے ، وہ ہے اپنی جماعت کے گلو بٹوں
کے ذریعے بڑے پیمانے پر احتجاج ، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کروانا۔ نواز
شریف کو مُلک کا مقبول لیڈر اور عوام کے دِلوں کی دھڑکن ثابت کرنے کی خاطر
غنڈہ گرد عناصر خون خرابا برپا کر کے لاء اینڈ آرڈر کی ایسی صورتِ حال بنا
دیں گے جس کے باعث عدلیہ پر بھرپور دباؤ آ جائے گا اور بحران ایسی صورت
اپنا لے گا جس میں سپریم کورٹ مجبورِ محض بن کر رہ جائے گی اور مرزا یار
کھُل کر کھیلے گا۔ مُلک کو خانہ جنگی کے منہ میں دھکیلنے کی خاطر ان کی
معاون کالعدم تنظیمیں بھرپور طریقے سے اپنا کردار نبھائیں گی۔ فرقہ ورانہ
بنیادوں پر قتل و غارت اور دہشت گردی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو
جائے گا۔
اپنی کرپشن اور شہنشاہیت کی بقاء کی اس جنگ میں ان کے بیرونِ ملک موجود خاص
الخاص دوست بھی ہر طرح سے ان کی مدد فرمائیں گے۔ ان کا یارِ خاص مودی آڑے
وقتوں میں ان کی مدد کو آئے گا اور بارڈرز پر کشیدگی بڑھا کر بیرونی خطرات
میں اُلجھانے کا پروگرام بھی تیار ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت میں کوئی دہشت
گردی کا کوئی واقعہ کروا کے اس کا الزام پاکستان پر تھوپا جائے گا اور پھر
بڑی تعداد میں بھارتی فوجوں کو سرحدوں پر تعینات کر کے جنگ کا ماحول بنایا
جائے گا۔ سو ایسے وقت میں قوم کو یہ باور کرایا جائے گا کہ مُلک کی سالمیت
کو جو خطرات لاحق ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے انتشار کی سیاست کو زیادہ
دیر تک روا نہیں رکھا جا سکتا۔ سواس جواز کی آڑ میں تمام تر مخالفین جن میں
اپوزیشن پارٹیاں اور عدلیہ و دیگر محکمے شامل ہیں، ان کو کچل کر رکھ دیا
جائے گا۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ شریفوں کے پاس ڈبل پاسپورٹس ہیں۔ یہ حالات ناسازگار
دیکھ کر مُلک سے فرار ہونے میں عافیت جانیں گے۔ انہوں نے حفظِ ماتقدم کے
طور پر ایک دو عرب مُلکوں سے سیاسی پناہ کی خاطر انتظامات کروا رکھے ہیں۔
سو دُہری شہریت کے حامل ہونے کے باعث انہیں احتساب کے کٹہرے میں لانا مشکل
ہو جائے گا۔
یاد رکھیں اگر نواز شریف پاناما کیس سے بچ نکلا، جس کے واضح امکانات نظر
آتے ہیں تو پھر ان کی نسلیں مزید اگلے دس پندرہ سال تک پاکستان کی عوام کی
کمائی کو جونکوں کی طرح چمٹ کر چوستی رہیں گی۔ عمران خان کی سیاست مکمل طور
پر ماضی کا قصّہ بنا دی جائے گی۔ زرداری کی حکومت صرف سندھ تک محدود ہو
جائے گی اور ویسے بھی زرداری اپنی کرپشن بچانے کی خاطر نہ اب نواز لیگ کے
خلاف کھڑا ہوا ہے اور نہ مستقبل میں اس سے کوئی اُمید رکھنی چاہیے۔ بدعنوان،
کبھی دُوسرے بدعنوان کا احتساب نہیں کرسکتا، ان کے درمیان صرف ڈیل ہوتی ہے،
خاموش رہنے کا سمجھوتہ ہوتا ہے۔ ان کے لیے 2018ء کے الیکشن کے دوران میدان
بالکل صاف ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن ان کے ہاتھ کی چھڑی ہے۔ موجودہ الیکشن
کمیشن کے ہوتے ہوئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ غیر جانبدارانہ اور شفاف
انتخابات کا قیام ممکن ہو سکے۔ ان کے مطیع بدنامِ زمانہ الیکشن کمیشن نے
پچھلے انتخابات کے دوران بھی کُل ووٹر لسٹوں سے دُگنی تعداد میں بیلٹ پیپرز
چھاپ کر انہیں بے حساب فائدہ پہنچایا۔ حالانکہ ووٹرز کی گنتی کا تقریباً 50
فیصد ووٹ ہی کاسٹ ہوا۔ باقی کے بیلٹ پیپرز پر جعلی مہریں لگا کر ان کے ہارے
ہوئے اُمیدواروں کو راتوں رات ’بھاری اکثریت‘ سے جتوایا گیا۔ شریف زادے اس
وقت پُورے مُلکی نظام کو آکاس بیل کی طرح چمٹ گئے ہیں۔ طاہر القادری کا یہ
بیان انتہائی فکر افروز ہے کہ ان کے مقابلے میں اس وقت علامہ اقبال اور
قائد اعظم بھی آ جائیں تو وہ بھی کرپٹ نظام کے باعث ان سے جیت نہیں پائیں
گے۔ قطری شہزادے کے ایک خط کا احسان اُتارنے کی خاطر قطری شاہی خاندان
والوں پر ٹھیکوں کی بارش کی جا رہی ہے۔ کروڑوں اربوں کے پراجیکٹس ان کی
جھولی میں ڈالے جار ہے ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کی خرید کا بازار بھی کھُل پڑا ہے۔
ایک دومخصوص میڈیا گروپ پر تو اشتہارات کا جیسے ہُن برس پڑا ہے اور بدلے
میں ان کے کرتا دھرتا اور اینکرز شریفوں کی حمایت اور مخالفین کے بخیے
اُدھیڑنے کی خاطر پُوری طرح ننگے ہو کر ناچ رہے ہیں۔ بودی دلیلوں اور زرد
صحافت کا ایسا کھیل رچایا جا رہا ہے جس کی شرمناکی کو لوگ کئی دہائیوں تک
نہیں بھُلا پائیں گے۔دُنیا کی سیاسی تاریخ میں ان سے زیادہ مکروہ اور
بدطینت حکمران کہیں نہیں ملیں گے جوکہ عوام سے لوٹا ہوا پیسہ بچانے کی خاطر،
عوام کی محنت کی کمائی کو ہی بے دریغ لُٹا کر اپنے شرمناک سیاسی وجود کی
بقاکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عوام کے لیے یہ وقت ٹی وی سیٹس پر نظریں جما کر
تبصرے اور خبریں سُننے اور دیکھنے کا نہیں بلکہ مستقبل کے منظر نامے کو
بھانپتے ہوئے خود کو شریفیہ استعمار کے خلاف عملی جدوجہد کے لیے تیار رکھنے
کا ہے۔ اگر عوام اب نہ جاگی تو پھر ان کے لیے مستقبل قریب میں یہی کہنا پڑے
گا
جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا
|