ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے ٗ اسی طرح اﷲ تعالی
بھی روزوں کی سختیوں کے بعد اپنے بندوں کو عید الفطر کی خوشیاں عطاکرتاہے ۔عید
پر ہم اپنے اور اپنے بیو ی بچوں کے لیے نئے کپڑے اور جوتے خریدتے ہیں۔ اچھے
سے اچھے کھانے پکائے جاتے ہیں ٗ دوستوں احباب کو خوشیوں میں شریک کیاجاتاہے
۔لیکن انسان کو عید کی حقیقی خوشیاں اس وقت حاصل ہوتی ہیں جب اس کے بچے اور
پوتے پوتیاں نئے کپڑے پہن کر اسے عید مبارک کہتے ہیں ۔ مغرب میں رشتوں کی
بے توقیری نے معاشرے کو غیر انسانی بنا دیا ہے جہاں خوشی کے تہوار پر ہی
بچے والدین اور بزرگوں کوملنے کے لیے اولڈ پیپلز ہوم کا رخ کرتے ہیں ۔ ابھی
ملاقات کی خوشیاں عروج پر ہوتی ہیں کہ جدائی کے صدمے حائل ہوجاتے ہیں پھر
نئی امیدوں پر زندگی کٹنے لگتی ہے اور کٹتے کٹتے موت کی وادی میں انسان جا
سوتا ہے ۔ اقبال احمد قرشی تہذیب یافتہ گھرانے اور قرشی انڈسٹریز کے مالک
ہیں۔ وہ شفائے الملک محمد حسن قرشی کے فرزند ہیں ۔ ایک بار وہ امریکہ سے
واپس پاکستان آرہے تھے ۔جہاز میں ساتھ والی نشست پر ایک بزرگ انگریز خاتون
بیٹھی تھیں ۔ جب انہیں پتہ چلا کہ آپ کا تعلق پاکستان سے ہے تو اس نے پوچھا
کہ پاکستان میں بزرگوں کا مقام کیا ہے ۔ اقبال قرشی نے بتایا ۔پاکستان میں
بزرگ خاندان کے سربراہ کہلاتے ہیں ۔غمی خوشی اور رشتے بھی انہی کی مرضی سے
طے پاتے ہیں۔یہ سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اس نے ٹھنڈی سانس
لی اور کہا کاش میں بھی پاکستان میں پیدا ہوئی ہوتی۔نہ جانے کس کی نظر لگ
گئی ہے کہ اب پاکستان میں بھی بزرگوں کو گھر کا سربراہ سمجھنے کی بجائے
اولڈ پیپلز ہوم کی زینت بنایا جارہا ہے ۔ یقینا یہ بہت تکلیف دہ عمل ہے ۔
میں اس وقت خود بھی ریٹائر منٹ لائف گزار رہا ہوں ۔ ماشا اﷲ میرے دو بیٹے
ہیں اور دونوں ہی صاحب اولاد ہیں پوتے پوتیوں کی شرارتیں اور شور شرابے کی
بازگشت میری زندگی کی علامت ہے ۔ان میں سے جب بھی کوئی ننھیال چلا جاتا ہے
تو میں اس کے بغیر اداس ہوجاتاہوں ۔ اس لیے میں نے اپنی بہوؤں کو یہ کہہ
رکھا ہے کہ اس گھر میں آنے کی اجازت تو ہے لیکن واپس جانے کی اجازت میں
نہیں دے سکتا۔سحری کا وقت ہو یا افطاری کا محمد عمر ٗمحمد موسف ٗ فریسہ ٗ
رومیسہ اور شرمین فاطمہ کی شرارتیں عروج پر ہوتی ہیں ۔بزرگوں کے لیے بچوں
کی شرارتیں ہی روح کی غذا تصور ہوتی ہیں۔ یہی حقیقی اوراصل محبت ہے جو
مشرقی معاشرے کی حقیقی عکاس ہے ۔ بڑھاپا تونام ہی بیماریوں کا ہے ۔ ابھی
ایک ختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع ہوجاتی ہے۔ جس گھرمیں پوتے پوتیاں نہیں
ہوتیں اسے میں گھر نہیں کہتا ۔ سوشل میڈیا کی ثقافتی یلغار نے معاشرتی
رویوں کو بے حدمتاثر کیا ہے لیکن جس گھرمیں دینی ماحول قائم رہتا ہے وہاں
والدین اور بزرگوں کا احترام ہر حال میں برقرار رہتا ہے ۔ممی ڈیڈی گروپ اور
غیر اسلامی ماحول میں پروان چڑھنے والے بچوں کی نظرمیں والدین کی کوئی قدر
نہیں ہوتی ۔ ایک نیک سیرت نوجوان ملک ریاض نے بہت خوب بات کہی کہ" والدین
کے پاس بیٹھنے کے دو فائدے ہیں ایک یہ کہ انسان کبھی بڑا نہیں ہوتا اور
دوسرا فائدہ والدین کبھی بوڑھے نہیں ہوتے "۔ شام ڈھلے والدین کے پاؤں دبانے
والے زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوتے ۔ مجھے ایک اولڈ پیپلز ہوم جانے کا
اتفاق ہوا۔ جہاں عید کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔وہاں سب نے ایک ہی بات کہی۔
بے شک ہمارا یہاں بہت خیال رکھا جاتاہے اورہماری ہر ضرورت کوپورا کیا
جاتاہے ۔پھر بھی گھر اور بچوں کی یاد بہت ستاتی ہے ۔ جی آر اعوان نوائے وقت
میگزین میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اولاد کا ناخلق
ہونا کوئی عجیب بات نہیں ۔یہ روش بھی حضرت آدم علیہ السلام کے گھر سے شروع
ہوئی اور آج تک موجود چلی آر ہی ہے ۔ قابیل نا خلف نہ ہوتا تو آدم علیہ
السلام کو ہابیل کے قتل کا صدمہ نہ اٹھانا پڑتا۔ کنعان کی نافرمانی حضرت
نوح علیہ السلام کو رنجیدہ نہ کرتی ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کے
لگائے ہوئے زخموں کے باعث برسوں حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں آنسو
نہ بہاتے ۔ جی آر اعوان کی تحقیق اپنی جگہ لیکن ایک غلطی خود ہم سے بھی
سرزد ہورہی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر انجینئر اور سرکاری افسر بنانے کے
لیے توکرپشن تک بھی کرتے ہیں لیکن عالم دین ٗ حافظ اور قاری نہیں بناتے ۔
کیکر کے درخت پر آم نہیں لگاکرتے ۔مذہب سے لگاؤ رکھنے والا نوجوان والدین
کی نہ صرف بڑھاپے میں نگہداشت کرتا ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی پنجگانہ نماز
پڑھ کے بخشش کااہتمام بھی کرتا ہے ۔ دنیا کا کوئی عالم دین ٗ قاری اور حافظ
قرآن ایسا نہیں ہوگا جس نے اپنے والدین اولڈ پیپلز ہوم میں جمع کروائے ہوں
۔ اس وقت جتنے بھی بزرگ اولڈ پیپلز ہوم میں موجود ہیں ان کے گھر وں کا
ماحول مذہبی نہیں دنیاوی اور خالصتاغیر اسلامی ہوگا ۔جب باپ بیٹے کے سامنے
بیٹھ کر سگریٹ اور شراب پیئے گا تو بیٹا سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے کیسے
محفوظ رہے گا ۔ باپ اگر کبھی مسجد نہیں جائے گا تو بیٹا کیسے متقی اور
پرہیز گار ہوسکتا ہے۔ اﷲ اور اس کے پیارے رسول ﷺ سے ڈرنے والے بچے کبھی
والدین کے نافرمان نہیں ہوتے ۔انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ والدین کی
نافرمانی کی سزا جہنم کی آگ میں جلنا ہے ۔اس لیے وہ مشکل ترین معاشی حالات
میں بھی نافرمانی سے پہلو تہی کرتے ہیں اور بزرگوں کو خاندان کا بڑا
تصورکرکے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ایک اچھے راستے کا تعین کرتے ہیں ۔
عیدکی حقیقی خوشیاں تب ہی ملتی ہیں جب گھر کے تمام افراد ایک ہی چھت کے
نیچے موجود ہوں۔میں ایسے لوگوں کو بدقسمت ہی کہوں گا جو اپنے والدین کو
اولڈ پیپلز ہوم میں داخل کرواکر یہ بھول جاتے ہیں کہ خودانہوں نے کبھی
بوڑھاہونا ہے۔ |