عید سعید: یاسیت کی شام یا امید کی صبح- عظیم ورثے کی طرف پر عزم مراجعت ضروری

اسلامی نظام کا ہر ہر پہلوحکمت و تدبر سے پُر اور فوز و فلاح سے مرصع ہے۔ روزہ تطہیرِ قلب ونگاہ کا سامان فراہم کرتا ہے؛ جسمانی نظام کی تعمیر کرتا ہے، اس کے روحانی فوائد بھی کثیر ہیں۔ رضاے الٰہی کے پاکیزہ جذبات کے تحت اختیاری طور پر کھانے، پینے اور خواہشات سے مکمل کنارہ کشی روزے کا روحانی پہلو ہے، جس سے بشری خوبی و صلاحیت نکھرتی ہے، درجات میں بلندی واقع ہوتی ہے، اور ایک مہینے کی اس اصلاحِ نفس وروح کا انعام ’’عید‘‘ کی صورت میں عطا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ روحانی امتحان کا بہترین نتیجہ جب عید ہے تو؛ عید میں بھی یقینی طور پر روحانی تطہیر اور اخروی انعام ہونا ہے۔

ساعتِ عید باعثِ فلاح: عید- منتہائے خوشی کا نام ہے۔ عید- امتِ مسلمہ کواتحاد کی کڑی میں پرو کر مسرتوں کے گل و لالہ بکھیرنے کا نام ہے۔ عید تو وہی ہے جو جائز طریقے سے خوشیاں بانٹ کر منائی جائے۔ وہ عید نہیں! جو غریبوں اور مظلوموں کی حق تلفیسے منائی جائے۔ مذاہبِ عالم کا جائزہ لیجیے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے افکار کے نتیجے میں جو -تہوار- یا لمحاتِ مسرت تشکیل پائے ان میں انسانی حقوق کی پاس داری عنقا ہوتی ہے۔ ظلم و جبر کے ساتھ مال و دولت جمع کرنے والے آہوں اور نالوں کے سِروں پر خوشیوں کے جشن مناتے ہیں۔ کتنے ہی دامنِ عصمت تار تار کر کے خوشیوں کے دیپ جلاتے ہیں۔ یہ عید نہیں، یہ خوشی نہیں، یہ جشن نہیں، یہ حیوانیت ہے، ظلم و جبر ہے۔ اسلام ایسے طرزِ مسرت کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ عصبیتوں کے سوداگر انسانی قبا کو تار کر کے دُنیا کو خوشیوں سے نہیں بھر سکتے۔ ایسے نظام کے بطن سے ظلم و جبر اور تشدد کو راہ ملتی ہے۔اسلام کا نظامِ خوشی فوز و فلاح کی کلید ہے۔

تشدد کی فضائے مسموم: تشدد، دہشت، عصبیت، افتراق؛ ایسی اصطلاحیں ہیں جن سے دُنیا کی بربادی کا مزاج تشکیل پاتا ہے۔ سرمایہ درانہ نظام نے مدتوں دُنیا کو اپنی گرفت میں رکھا۔ جس کے ذریعے دبے کچلے افراد کو انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ خوشی منانا صرف صاحبِ مال کا حق سمجھا گیا، آسودگی رؤسا کا حصہ سمجھی گئی۔ غریبوں، مزدوروں کے لیے رنج و غم اور کلفت ہی متصور تھے۔ اسلام نے غریبوں کو سینے سے لگایا۔ کونین کے تاج دار صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدائی عطا سے اپنے عظیم اختیارات کے ذریعے دبے کچلے افراد کو خوشی تقسیم کی۔ ظلم و دہشت سے دوچار افراد کو عظیم حقوق دے کر انھیں اعلیٰ مقام سے نوازا۔ پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم نے تشدد کے شکار افراد کی داد رَسی وفریاد رَسی کی۔ دہشت زدہ انسانیت کو دہشت گردی سے نجات دلا کر محبت و شفقت کی فضاے خوش گوار فراہم کی۔ جہاں آزادی، عدم تشدد اور رواداری کو فروغ ملا۔ ؂
وہ عہدِ ظلم و جہالت کے دل نما پتھر
نبی سے ملتے رہے آئینوں میں ڈھلتے رہے

حقوق کی پاس داری: ہر ذی حیثیت کو چاہیے کہ وہ اپنے زیرِ دست لوگوں کا جائزہ لے۔ یہ دیکھے کہ کن کن لوگوں کے کون کون سے حقوق اس کے ذمہ ہیں۔ سیٹھ- مزدور کا حق ادا کرے۔ مالک- نوکر کا حق ادا کرے۔ امیر- غریب کا حق دے۔ اولاد- والدین و بزرگ افراد کے تقاضے پورے کرے۔ جن کا کچھ مال لیا یا کھایا ہو اسے فوری ادا کیا جائے۔ کسی سے قرض لیا ہو تو اسے اﷲ کی رضا کی خاطر چُکا دیا جائے؛ تب کہیں حقوق کی پاس داری کی فکر توانا ہوگی۔ ایک دوسرے سے اس کے مقام و منصب کے مطابق سلوک کیا جائے۔ اس طرح کا طرزِ عمل برتنا رمضان و عید کی حقیقی مسرتیں عطا کرنے کا موجب بنے گا۔

اے گنبد خضریٰ کے مکیں وقتِ مدد ہے: کئی دہائیاں گزریں، امتِ مسلمہ زخموں سے نڈھال، مصائب و آلام کا شکار ہے۔ جتنی باطل قوتیں ہیں سب متحد ہیں۔ مقصد مسلمانوں کو ہر اعتبار سے شکست دینا ہے۔ تہذیبی و تمدنی و معاشرتی لحاظ سے پوری دُنیا میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کئی ممالک کی تاراجی کے بعد اندرونی فتنوں کی مدد سے اسرائیل کو طاقت ور بنایا جا رہا ہے۔ اُبھرتے ہوئے مسلم ممالک کو دہشت گرد گروہوں کی تشکیل کر کے مسلسل تباہی کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ لاکھوں مسلم زندگیاں داؤ پر لگیں، سہاگ اُجڑے، بچے یتیم ہوئے، عزیز جدا ہوئے، کتنے ہی مفلوج ہوئے، جو بچے وہ افلاس کا شکار بنے۔ جو قوم دُنیا کی امامت کر رہی تھی وہ داغِ شکست لے کر غربت کی دہلیز پر سسک رہی ہے۔ اتنے زخموں سے دوچار ہونے کے بعد بھی غافلہے۔ دُشمن سے بے خبر ہے۔ دینِ عظمت کے حامل اور دُنیا کو شعورِ جہاں بانی عطا کرنے والے کس قدر سوئے سے ہیں۔ یارسول اﷲ! آپ سے فریاد ہے۔ اے گنبد خضریٰ کے مکیں وقتِ مدد ہے۔ پھر وہ صبح نمودار ہو جس کی روشنی میں انسانی عصمتوں کے دُشمن خائب ہوں اور اسلام کی بادِ بہاری سے دلوں کی کلیاں کھلیں اور اخلاق کی عظمت سے مسرتوں کے ہزاروں دیپ طاقِ دل پر روشن ہوں۔

قابلِ فخر ورثے کی طرف لوٹیے: سب سے بڑی صداقت و سچائی کا نام اسلام ہے۔ عقائدِاسلام کے حامل ہونے کی حیثیت سے ہمیں بگڑی تہذیبوں اور زوال پذیر تمدن کی طرف للچائی نظروں سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ بلکہ اپنے عظیم و تاریخی ورثے کی طرف لوٹ آنا چاہیے تاکہ مایوس فضاؤں میں اُمید کی کرنیں بر آمد ہوں۔ قوم کے نحیف بدن میں صداقت وسچائی کی حرارت دوڑ جائے۔ یورپ و مغرب نے اسلام پر کئی طرح کے حملے کیے ان میں ایک حملہ مسلمانوں کے اعتماد کا خاتمہ تھا۔ یاسیت کے اندھیروں میں ہمیں دھکیل دیا گیا۔ جو قوم اپنے قابلِ فخر ورثے پر نازاں تھی؛وہ بے یقینی کا شکار ہو بیٹھی۔ یقیں کی منزل سے ہم کنار ہونا اور عزم و حوصلے کے ساتھ بیداری کا مظاہرہ کرنا یہ ہمارے فطری تقاضوں کے عین مطابق ہے؛ جس کی کوشش کرنی چاہیے۔

فرقہ پرستانہ نظریات کی اُپج: ہند میں اسلام تجار/اولیاء اﷲ سے پھیلا۔ جنھوں نے شرک زدہ وادی میں توحید و رسالت کے نغماتِ دل آویز کی صدائیں بلند کیں، استقامت کا مظاہرہ کیا، حق تعالیٰ پر ایمانِ کامل کا اظہار کیا اور دل و نگاہ کو معبودِ حقیقی کی بارگاہ میں جھکایا۔ اس طرح یہاں اسلام کے کارواں میں شامل ہونے والے امن و یقیں کے شناور بنے؛ محبت واُلفت کے ساتھ دین متین کی قدروں کی حفاظت بھی کی اور اسلام کے دعوتی کاز کو عملاً آگے بڑھایا۔ گرچہ ایک مدت تک مسلم سلاطین کا اقتداررہا۔ لیکن دلوں پر حکمرانی اولیاء اﷲ کی رہی، جن کے ذریعے اسلام کی اشاعت ہوئی۔ جب مسلم اقتدار سمٹا، انگریز حاکم ہوئے تو مسلمانوں کو ظلم و جور کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلمان جہاں بانی کے لائق نہ رہیں اس کی طرف توجہ کی گئی۔ اس میں انگریز کی سب سے زیادہ معاونت مشرکین ہند نے کی جن کی فرقہ پرستی سے ایک صدی قبل ہی اعلیٰ حضرت نے [المحجۃالمؤتمنۃفی آیۃالممتحنۃ لکھ کر]پردہ اُٹھایا تھا، اور ہنود سے اتحاد و وِداد کی مخالفت میں کئی فتاوے صادر کیے تھے۔ پھرآزادی کے بعد اقتدار پر فرقہ پرست ذہنیت کے حامل قابض ہوئے۔ مسلمان پچھڑتے گئے۔ ستم کا نشانہ بنائے گئے اور مظلوم ہوتے ہوئے بھی ظالم قرار دیے گئے۔دہشت زدہ کیے گئے اور دہشت گرد قرار دیے گئے۔ یہ المیہ ہے۔ یہ ٹریجڈی ہے۔ اس کا ازالہ ضروری ہے۔ ازالہ یہی ہے کہ اسلامی احکام پر سختی سے گامزن ہوجائیں۔ اپنی تہذیب سے محبت کریں۔ اپنے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کریں۔اپنی عقیدتوں کا رشتہ محبوبِ رب العالمین سے استوار کریں۔ انھیں کی پیروی میں نجات ہے۔ انھیں کی راہ چلنے میں عید کی خوشیاں ہیں اور اپنی شناخت بھی۔

معاشرتی برائیوں کا سد باب کیجیے: فی الوقت مصائب و آلام کی مسلسل یلغار کے کئی اسباب ہیں۔ شہری سطح پر حالات کا تجزیہ کیجیے۔ الاماشاء اﷲ! لوم میں پِک میں کمی بیشی، پالسٹر میں لکوِڈ کے ذریعے وزن بڑھانا، جھوٹے حیلوں کی آڑ میں نقد یاکیش کی شرط پر مزدور کا تقرر، کاروبار میں دھوکہ دہی، تعلیمی اداروں میں رشوت ستانی، عوامی فلاح کے کاموں میں گھپلہ، اپنے منصب سے کوتاہی، اساتذہ کی عدم محنت سے تعلیمی نقصان، اخلاق سوز ماحول، واٹس ایپ، فیس بک وغیرہ کے ذریعے غیر شرعی چیٹنگ و تعلقات، ناپ تول میں کمی، تجارت میں جھوٹ کا عمل دخل اوران جیسے عوامل سے معاشرہ گندہ ہوتا جا رہا ہے۔ اربابِ سیاست کا جھوٹے وعدوں کی خیرات بانٹنا، اپنی سیاست کے لیے دینی عنوانات قائم کرنا……خدا را! ان کا سدِ باب کیجیے، ورنہ خدائی گرفت سے بچ نہ سکیں گے۔ معاشرتی تباہی کے ان اسباب سے نہ معلوم کتنے تباہ کن حالات میں ہم گھر چکے ہیں۔ بارانِ رحمت کا روٹھ جانا، ماحولیاتی نظام کی بربادی، اوژون کی کم زوری،پانی کے زیر آب ذخائر میں کمی، یہ شامتِ اعمال کے نتائج ہیں۔ ان عوامل کے پیش نظر ہمیں اپنی/معاشرتی اصلاح کی ضرورت کو محسوس کرنا ہو گا۔ معاشرتی خرابیوں کا علاج کرنا ہوگا۔ توبہ و ندامت کے ساتھ مستقبل کو متذکرہ برائیوں سے پاک کرنا ہوگا، تب رحمتوں کی فضا ہم وار ہوگی اور عید کی حقیقی و واقعی خوشیاں دامن کو امید و یقیں کے گل و لالہ سے بھر دیں گی۔؂
انھیں کی بو مایۂ سمن ہے، انھیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں انھیں کی رنگت گلاب میں ہے
٭٭٭
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281830 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.