ایک زمانہ تھا جب اردو فکشن، خصوصاً اردو ناول پر جمود
کی سی کیفیت طا ری تھی۔ جدیدیت کے زمانے میں ایک طویل عرصے تک کوئی عمدہ
ناول شا ئع نہیں ہوا تھا تو نا قدین اور دانشوران ِ ادب میں ناول کے مستقبل
کو لے کر خاصی مایوسی تھی۔ یوں بھی یہ عہد علا متوںSymbolism کا عہد تھا جب
کہ ناول تو ضیح و تشریح اور تفصیل کی نمائندہ صنف ہے۔ ایسے میں جب دو گز
زمین(عبد الصمد) فا ئر ایریا( الیاس احمد گدی)، مکان(پیغام آفاقی)، پانی(
غضنفر) ،بولو مت چپ رہو(حسین الحق) وغیرہ کی اشا عت نے ناول کی صنف کو حالتِ
نزع میں آکسیجن پہنچا نے کا کام کیا اور اس کے بعد اردو ناول نے پیچھے مڑ
کر نہیں دیکھا۔ یکے بعد دیگرے متعدد ایسے ناولوں کی اشاعت ہوئی جس نے اردو
ناول کو ایک بار پھر مضبوط و مستحکم کیا__اردو ناول کو استحکام و استناد
اور انفراد بخشنے وا لے چند اہم ناول نگاروں میں پرو فیسر یعقوب یاور کا
نام خاصا اہم ہے۔
یعقوب یاور کے اب تک تین ناول دل من(1998)،عزا زیل(2001) اور جہاد(2013) شا
ئع ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک ناول ہندی میں ترجمہ ہو کر بھی شا ئع ہو
چکے ہیں۔ یہی نہیں یعقوب یاور نے دیگر زبانوں کے اہم نا ولوں کے ترا جم بھی
کیے ہیں۔ جن میں سدھارتھ ،رقص اجل، شب گزیدہ، زہراب نیل،ڈا کٹر ژ وا گو،
درۂ خیبر کے اس پار وغیرہ نے کا فی شہرت حاصل کی۔ یعقوب یاور نے اپنے ترا
جم سے اردو میں بطور مترجم اپنی شناخت کو مستحکم کیاہے۔
ٍ جہاں تک یعقوب یاور کی ناول نگاری کا تعلق ہے تو اس میں دو رائے نہیں کہ
یعقوب یاور ناول نگاروں کی کی نئی نسل میں انفرادیت کے حامل ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے
بعد ناول نگاروں کا ایک قافلہ اردو میں داخل ہوا۔ اقبال مجید، ساجدہ زیدی
،عبد الصمد، صلاح الدین پرویز، غضنفر،حسین الحق، پیغام آ فاقی، شموئل احمد،
،نور الحسنین، سید محمد اشرف، مشرف عالم ذوقی، احمد صغیر، محمد علیم، وغیرہ
کے قافلے میں یعقوب یاور کی شناخت سب سے الگ ہے۔ اس پورے قا فلے میں صرف
نور الحسنین ہیں جو تاریخی ناول نویسی کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ یعقوب
یاور نے تاریخی ناول نگاری میں بھی نئی راہ نکالی اور نیم تاریخی ناول
تحریر کیے۔ نیم تاریخی ناول نگاری میں منظر اور پس منظر تاریخی ہوتے ہیں
لیکن قصہ ناول نگار کا اپنا ہوتا ہے۔یہ تاریخ کا ہو بہو واقعہ یا شخصیت کی
تصویر کشی نہیں ہوتی بلکہ ناول نگار اپنی ذہنی اختراع سے قصے گڑھتا ہے اور
اسے تاریخی پس منظر میں استعمال کرتا ہے۔ یعقوب یا ور کے دو ناول’’ دل من‘‘
اور’’ عزا زیل‘‘ اس کی بہترین مثال ہیں۔ یعقوب یاور نئی نسل میں اس بحر کے
اکیلے شناور ہیں۔
’عزا زیل‘ ان کا مقبول و معروف ناول ہے۔ یہ ناول2001ء میں اشا عت پذیر ہوا۔
اشاعت کے بعد ہی ناول نے اپنے مو ضوع کے حوالے سے اردو والوں کو چونکایا
تھا۔ عزازیل یعنی ابلیس کو موضوع بنا کر یعقوب یاور نے ناول کے دا من کو
وسیع کیا ہے۔ عزا زیل کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ خدا کا ایک نا
فرمان بندہ تھا۔ ایسا بندہ، ایسی مخلوق جس نے اﷲ کا حکم ماننے سے انکار
کرتے ہوئے آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا۔اس کا سبب یہ تھا کہ وہ خود کو آ دم سے
بہتر مانتا تھا۔ وہ خدا سے بحث کرتا ہے اور بالآخر خدا کے در بار سے مردود
ہو کر ہمیشہ کے لیے در بدر ہو جاتا ہے۔یہ واقعہ قرآن میں بھی مذکور ہے۔ یہ
در اصل اس دنیا کا ابتدا ئی مرحلہ یعنی وقت آ غاز تھا۔ خدا کے دربار سے
نکالے جانے کے بعد ابلیس نے اپنا مشن، خدا کے بندوں کو راہِ راست سے
بھٹکانا، گناہ کی طرف مائل کر نا اور انسانوں کو دوزخ کے ایندھن کے لیے
تیار کرنا، بنا لیا۔ یہ سب ابلیس یعنی عزا زیل کی زندگی کا ایک رخ ہے جس سے
زیادہ تر لوگ واقف ہیں لیکن عز ازیل خدا کی نا فرمانی کے اس واقعے سے قبل،
خدا کے مقرب فرشتوں میں شا مل تھا۔ یعقوب یاور نے ’’عزازیل‘‘ میں ابلیس کی
زندگی کے اس دور کو قلم بند کر کے ایک اہم کا ر نامہ انجام دیا ہے۔ حقیقت
یہ ہے کہ عزازیل کی اس زندگی کی معلو ما ت کو دنیا کے مختلف مذا ہب کی
کتابوں اور دیگر رسا ئل سے جمع کر نا اور پھر اسے ناول کا رنگ دینا کوئی
معمولی کام نہیں تھا۔ یعقوب یاور نے عمدگی سے ناول کا قصہ بنا ہے۔یہی نہیں
انہوں نے اس تصور کو بھی ختم کیا ہے کہ قیامت ایک بار آ ئے گی اور دنیا
ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی، بلکہ قیامتیں تو آ تی رہی ہیں اور خدا ئے
بزرگ و برتر نئی نئی دنیا ئیں آ باد کرتا رہتا ہے۔ ناول میں ایسی ہی ایک
قیامت کا ذکر موجود ہے۔ جس کے بعد عزازیل خدا کے بندوں کو راہِ راست پر
لانے کے لیے دل و جان سے منہمک ہو جاتا ہے۔ قیا مت اور نئی دنیا کے وجود
میں آ نے کے تعلق سے ناول کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں:
’’ دنیا کا خا تمہ ایک نئی دنیا کی تخلیق کے لیے ضروری ہو تا ہے۔ ہر نئی
دنیا ایک متعین عمر لے کر آ تی ہے اور جب اپنی معینہ مدت طے کرنے کے بعد اس
دنیا کو تباہ کردیا جاتا ہے تو وقت کا ایک متعین وقفہ بغیر کسی نئی مخلوق
کے گزرتا ہے۔ اس مدت کے گزرنے کے بعد خدائے کائنات پھر اپنی قوت تخلیق کا
مظا ہرہ کرتا ہے اور ایک نئی مخلوق کے وجود میں آنے کے اسباب بہم ہو نے
لگتے ہیں۔‘‘[عزازیلP-24]
درج بالا اقتباس سے ظا ہر ہے کہ خدا ئے لم یزل نئی نئی دنیا ئیں بساتا رہتا
ہے اور قیا متیں آ تی رہتی ہیں۔ ناول نگار نے اپنے خو بصورت بیا نیہ سے
ناول کا ایسا تانا با نا بنا ہے کہ انتہائی خشک مو ضوع میں بھی دلچسپی،
تحیر، تجسس جیسے عناصر در آ ئے ہیں۔ یہی نہیں ناول کا بڑا وصف تصادم بھی
ہے۔ اکثر ناول کے قصوں میں خیر و شر، حق و باطل، تیر گی و روشنی، ظالم و
مظلوم، حاکم و محکوم وغیرہ کے درمیان تصادم اور رسہ کشی جاری رہتی ہے۔ اس
سے ناول میں قاری کی دلچسپی بنی رہتی ہے۔ یہاں بھی تصا دم خیر و شر، آ بادی
و بر بادی کے درمیان جاری ہے۔ عزا زیل، خیر کا، نیکی کا نما ئندہ ہے۔ وہ اﷲ
کے مقرب فرشتوں میں سے ایک ہے جو دنیا میں امن و امان اور اﷲ کے دین کو عام
کر نے کے لیے ہر لمحہ کو شاں رہتا ہے جو خدائے لم یزل کی عبادت و ریاضت میں
کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ سیارہ اردبان۔ ہنگامۂ اخریٰ سے تباہ و برباد ہو چکا
ہے۔’عزازیل‘ بستی سے دور ایک غار میں بیٹھا غم زدہ، عبادت و ریاضت میں
مشغول و مصروف ہے:
’’ یہ نیک خو بزرگ بھی دوسرے لوگوں کی ہی طرح، جن کی سانسیں ابھی چل رہی
تھیں ۔ایک غار کے منہ سے بڑی پر امید نگاہوں سے آسمان کی جانب دیکھ رہا
تھا۔ اس بزرگ کا آسمان کی طرف دیکھنا دوسرے لوگوں کی طرح نہیں تھا۔ اس کے
لب پر دعائے طلب تھی اور دل میں خدا کا خوف۔ رفتہ رفتہ اس کے چہرے کا جلال
بڑھتا جارہا تھا۔ جلد ہی وہ دنیا مافیہا سے بے خبر ہو گیا۔ اس پر ایک عجیب
غنودگی طاری ہو گئی۔ اب نہ اسے اردبان کی تبا ہی کا غم تھا اور نہ اپنے
انجام کی پروا۔ آسمان پر جہاں اس کی نگا ہیں مرکوز تھیں وہاں ایک شگاف
نمودار ہوا، روشنی کا ایک قافلہ بر آ مد ہوا اور اردبان کی جانب آنے لگا۔
یہ فرشتوں کا لشکر تھا جو خدائے قادر کے حکم سے اردبان کو نیست و نابود
کرنے کے لیے آرہا تھا۔ اس کی کمان خدا کے سب سے مقرب فرشتے جبرئیل کے ہاتھ
میں تھی اور جبرئیل اس ہستی بزرگ کا دوست تھا جو اس وقت بے یارو مدد گار
غار کے منہ پر بیٹھا بڑی بے چارگی سے آسمان کو گھو رے جارہا تھا اور اس
تاریکی میں اپنی زندگی کی کرن تلاش کرنے کی کوشش میں لگا تھا۔‘‘
[عزازیلP-25]
عزازیل کے بالمقابل شر کے نمائندے ہیں جن کا کام سیارے میں فساد بر پا
کرنا، اپنی من مانی کرنا، سیارے کو اپنا غلام سمجھنا، خود کوبادشاہ ہی نہیں
خدا سمجھنا، زندگی و موت کا مالک سمجھنا، شر کی اس سب سے بڑی طا قت کا نام
شا طون اعظم ہے۔ وہ سیارہ اردبان یعنی اس دنیا کا حاکم ہے ۔سب کچھ اس کے
حکم سے ہو تا ہے۔ سیا رے کا ہر فرد اس کا تابع ہے۔ اسے جب کچھ کہنا ہوتا ہے
تو وہ اپنے محل سے بو لتا ہے اور سیارے کے ہر فرد کی سماعت اس کی آ واز
سنتی ہے۔ اس کا ہر اعلان اسی طرح ہوتا ہے ۔جب وہ اپنے جاہ و جلال میں ہو تا
ہے تو سننے وا لے کانپنے لگتے ہیں۔ یعقوب یاور نے بڑی عمدگی اور فنی مہارت
سے اس کردار کو ڈھالا ہے۔ اس کی زبان کو، اس کے مرتبے، رتبے، جاہ جلال، رعب
داب کے عین مطابق استعمال کیا ہے۔ شا طون اعظم کا ایک اعلان ملا حظہ کریں۔
اس سے شاطون اعظم کی شخصیت کی ایک جھلک ضرور سامنے آ ئے گی۔
’’ اعلیٰ مرتبت،دریائے علوم ارض و سما، شعلۂ مقدس مشیر شا طون لائق صد
احترام اجنان، حضرات عزازیل سحر بیان جہاں کہیں بھی ہوں، اگر یہ آواز ان کی
سماعت کو چھو رہی ہو تو وہ سن لیں کہ وارث تخت طارہ نوث ذی شان، ہمدم
آسمان، والیٔ سقرو جنان، جابر مہر بان، خدائے خدا یان اردبان، شہنشاہ کل
جہان، قدرت مجسم، شاطون اعظم ان سے ملا قات اور مشاورت کے خوا ہاں ہیں۔آثار
بالائے اردبان ظا ہر کرتے ہیں کہ گہوارہ علم و بیان، رشک جنان، سیارۂ امن و
امان، اردبان پر کوئی عذاب سماوی حملہ آ ور ہونے پر آ مادہ ہے۔ اس سے پہلے
کی آل حضرت طارہ نوث کسی مشکل میں مبتلا ہوجائے، اس سے پہلے کہ عرش اعظم کے
مکیں ہماری غفلت کا فائدہ اٹھائیں، اس سے پہلے کہ ہماری بے احتیاطی کسی
انہونی کا سبب بن جائے، وہ شہر مریخا کے میدان شاہی کے باب خاص میں حاضر
ہوں اور سایۂ آ فتاب کے سہ چند ہوتے وقت ہونے والی مخصوص مجلس مشاورت میں
شر کت کریں جو مسائل حاضرہ سے نبر آزمائی کے لیے طلب کی گئی ہے۔‘‘
[عزازیلP-34-35,]
شر کے نمائندے اور بھی ہیں جو اپنی اپنی بستی میں دوسروں پر حکو مت کر نے
اور ظلم و ستم میں مصروف ہیں۔ ہر طاقتور اور ظالم اسی تلاش میں سر گرداں ہے
کہ کوئی غیر آ باد سیارہ مل جائے جہاں وہ اپنی حکمت اور قوت تخلیق سے اپنی
پسند کی مخلوق پیدا کرے اور انہیں آ داب بندگی سکھا کر ہمیشہ کے لیے ان کا
خدا بن کر رہے۔ ایسے ہی ایک شر کے نما ئندے کا نام بوتار ہے۔ جو نسلاً
شینانی ہے اور زیر زمین شہر نخاشخی کا باشندہ ہے، جس کے با شندے اور ہم
مرتبہ زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی سیارے کے خدا تسلیم کیے جاتے تھے۔ بوتار نے
اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دو تکاشی پیدا کیے تھے جن کے نام دافن اور یک چشم
تھے۔ یہ دو نوں اسے آ قا مانتے تھے اور ہر وقت اس کے ساتھ رہتے اور اس کا
ہر حکم بجا لاتے۔ یہ تینوں کسی ایسے سیارے کی تلاش میں تھے جہاں وہ قبضہ کر
کے اپنی مخلوق آباد کرسکیں اور بو تار وہاں کا خدا بن سکے۔ جب ایک دن اچانک
انہیں ایک ایسا سیارہ ملا تو ان کی خوشی کا ٹھکا نا نہ رہا:
’’ وہ مستقبل کی خدائی کے خواب دیکھ رہا تھا کہ اچا نک دافن چیخ پڑا۔
’’وہ دیکھئے آ قا، اس رو شن سیارے کی جانب۔ شاید یہی آپ کی منزل ہے۔‘‘
’’شاید تمہارا اندازہ درست ہے دافن‘‘ بو تار نے غور سے اس سیارے کا جائزہ
لیتے ہوئے کہا۔فوراً ہی بوتار نے اپنے ذہن کے ایک مخصوص حصے پر زور ڈا لا۔
ان تینوں کے جسم سے روشنی پھوٹی اور اگلے ہی لمحے وہ تینوں اس سیارے پر
تھے۔ یہاں کا منظر دیکھ کر بو تار کی خو شی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ چاروں طرف
دلفریب سبزہ زار تھا۔ بڑے بڑے خوبصورت درخت تھے، ایک صاف شفاف رواں دریا
اور برف پوش پہاڑی سلسلے اپنی عظمت اور بلندی کے ساتھ نظروں کی حدود میں
اپنے وجود کا اعلان کررہے تھے۔انہوں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دور دور تک
کوئی ذی روح انہیں دکھائی نہ دیا۔‘[عزازیلP-32]
ناول نگار نے فنی مہا رت کا ثبوت دیتے ہو ئے ناول میں کردار، مقامات اور
جگہوں کے نام رکھے ہیں۔ نیم تاریخی ناول کی خوبی ہوتی ہے کہ ناول کے ایک آ
دھ کردار یا مقام کا تاریخ سے سچا اور گہرا تعلق ہو تا ہے۔ اس ناول میں بھی
ناول نگار نے بعض کردار اور واقعات تاریخ سے اخذ کیے ہیں اور دیگر اسماء
تاریخ، ماحول اور عہد کے مطابق استعمال کیے ہیں۔ سیارہ اردبان کے تعلق سے
بتاتے ہیں کہ وہاں تین طرح کے با شندے تھے، ایک’ نوشی ‘ کہلا تی تھے۔ یہ وہ
تھے جنہیں خدا نے تخلیق کیاتھا۔ یہ لوگ خود کو ابو الجن، حضرت طارہ نوث
اعظم کی اولاد اور وارث تسلیم کرتے تھے ۔ ان کے سر چھوٹے اور بالوں سے عا
ری، کان لمبے اور آنکھیں بڑی بڑی ہو تی تھیں اور یہ لوگ سیارے کی بیرو نی
سطح پر رہا ئش پذیر تھے۔ دوسری قسم ’’شینانی ‘‘ تھے۔ ان کے سروں سے مغز
نکال کر مصنو عی اذہان لگائے گئے تھے۔ ان کی ذہانت مشہور تھی۔ ان کے سر پر
دو آ ہنی سینگ ہو تے تھے، جو ان ک شناخت تھے۔ باقی جسم’نوشی‘ کی طرح ہی تھا
۔تیسری قسم ’تکاشی‘ تھی۔ یہ لوگ مکمل طور پر مصنوعی تھے۔ ان کے پاس عقل
تھی، سفر کر سکتے تھے۔ ان کے بھی سینگ تھے۔ یہ طویل سفر تنہا نہیں کر سکتے
تھے۔ یہ کسی شینانی کے ما تحت ہوتے تھے۔
ناول بہت سے نشیب و فراز سے گذرتا ہوا محو سفر ہے۔ سیارہ اردبان پر ناجائز
طور پر شاطون اعظم کی حکو مت ہے، حکو مت ہی نہیں وہ خود کو اردبان کا خدا
سمجھتا ہے، جو بھی اس کے خلا ف ہو تا ہے، وہ موت کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔
بوتار نے جب شا طون کو اسی کی مجلس مشاورت میں للکا را تو پھر بوتار کو موت
کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پورے سیارے میں صرف عزازیل تھا، جس پر شاطون کا زور
نہیں چلتا تھا۔ در اصل عزازیل نے اپنی عبادت و ریاضت سے علم و عرفان کے اہم
راز پا لیے تھے اور وہ رو حانی اعتبارسے بہت طا قتور تھا۔پھر جبرئیل اس کا
جگری دوست تھا۔
ناول میں شر کے بڑے نمائندے کے طور پر اہرمن کا بھی کردار ہے۔ یہ ایسا
کردار ہے جو ہزاروں برسوں کے بعد ایک بعد، دوسرا اور پھر تیسرا جنم لے کر
بھی شر کی اشاعت میں مصروف ہے۔ اہر من کے عہد میں طارہ نوٹ نام کا خیر کا
نمائندہ بھی ہے جو اپنی غلطی پر پچھتانے اور خدائے لم یزل سے معافی مانگنے
اور اس کی عبادت میں ہزاروں برسوں سے مصروف عمل ہے۔
ناول میں عزازیل کے والدین تبلیث اور شاسین کا بھی تفصیلی ذکر ہے ساتھ ہی
شاطون کی بہن تلبا نیخ کا کردار بھی خاصا اہم ہے۔ یعقوب یاور کے قلم کی داد
دینی ہو گی کہ انہوں نے ایسے خشک مو ضوع ناول میں بھی رو مان کی دنیا آباد
کی۔ ناول میں طارہ نوث اور ایوات اور شاشین اور تبلیث کا رو مان عمدگی سے
پیش ہوا ہے ۔ایوات اور طارہ نوث کی محبت کی جھلک دیکھیں:
’’اونچے اونچے پہاڑتھے، دریا تھے، جن میں حرارت بخش نیم گرم پانی ہمیشہ
رواں رہتا تھا، ہر لمحہ ہوا چلتی رہتی تھی۔ جو تھکے ہوئے بدن کو سکون دیتی
اور نیند پر اکساتی۔ آنکھیں بند ہونے کے بعد جو غنود گی طاری ہوتی اس کے
بعد تھکن کا نام و نشان نہ بچتا اور ان سب سے بڑھ کر ایوات تھی جو بحسن و
خوبی اس کی رفاقت کا حق ادا کررہی تھی۔ اسے حیرت تھی کہ اس دلفریب سر زمین
کا یہ حسن اسے پہلے کیوں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایوات کی رفاقت ملتے ہی
اسے ایسا محسوس ہوا تھا کہ جیسے جو بوجھ وہ عرش سے لیے ہو ئے اترا تھا، اس
سے اسے نجات مل گئی ہے وہ اس بوجھ کو ایک ساتھی مل جانے کی خوشی پر محمول
کررہا تھا اور اسے خدا وند کریم کا عطیہ سمجھ رہا تھا۔‘‘[عزازیلP-90]
یہی نہیں ناول میں ایک آ دھ جگہ جنس کا ذکر بھی ہے لیکن یہ نہ تو منٹو کے
افسا نوں جیسا ہے اور نہ ہی عصمت اور واجدہ تبسم کے بعض نا ولوں جیسا، بلکہ
یہاں بھی یعقوب یاور نے اپنی انفرادیت قائم رکھی۔ انہوں نے ایسی زبان کا
استعمال کیا ہے جس سے واقعات بیان تو ہوتے ہیں، جنسیت کا احساس بھی ہو تا
ہے لیکن جنسی لذتیت جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ شا طو ن اعظم کی بہن تلبا نیخ
اور عزازیل کے درمیان کا ایک منظر دیکھیں جس میں تلبا نیخ، عزازیل کو اپنے
حسن کے دام میں گرفتار کر لیتی ہے:
’’تلبا نیخ کے لیے وہ دن نا قابل فرا موش تھا جب اس نے پہلی بار عزازیل کو،
عزازیل مقدس کو اپنے جسم کے تصرف پر آمادہ کرلیا تھا۔ یہ کامیابی اسے آسانی
سے نہیں ملی تھی۔ طویل عرصے تک مسلسل اس نے اس کے لیے کوشش کی تھی۔ لیکن جب
عزازیل تیار ہو گیا تو وہ ساری کوفت بھی دور ہوگئی جو نا کامی کی پیدا کردہ
تھی۔ یہ صحبت اس کی توقع سے کہیں زیادہ لذت بخش، مسرت انگیز اور توا نائی
دینے وا لی ثا بت ہوئی تھی۔ اس نے عزازیل کو چند لمحوں کے لیے دنیا و
مافہہا سے بے خبر کردیا تھا۔ اس پر دیوانگی طاری ہو گئی تھی اور تلبا نیخ
نے ان لمحات کا پورا فائدہ اٹھایا تھا۔ اس کے حسن میں جادو ہے۔ وہ جانتی
تھی لیکن یہ حسن تقدیس شکن بھی ہے۔ اس کا اندازہ اسے اب ہوا تھا۔ یہ سلسلہ
تصرف تا دیر چلا تھا۔ عزا زیل کے چہرے پر تسکین کی طمانیت
تھی۔‘‘[عزازیلP-125]
ہزا روں، لاکھوں برسوں پر محیط ناول سیارہ اردبان کی تباہی، شا طون اعظم
اور اس کی خد ائی کے خا تمے سے گذرتا ہے۔ عزازیل اپنے مشن میں کامیاب ہوئے
ہیں۔ عرش پر عزا زیل کی عزت افزا ئی ہو رہی ہے۔ جبرئیل اسے خدا کے پاس لے
جاتے ہیں۔ اسے بڑا مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے۔ وہ ہر وقت خدا کی یاد میں مگن
رہتا ہے۔ بلند مرتبے اور علم و عرفان کی کامیابی عزازیل کے اندر ’انا‘ پیدا
کرتی ہے۔ وہ اپنے متعلم فرشتوں سے خود کو بر تر سمجھتا ہے اور پھر وہ وقت آ
جاتا ہے جب خدا ئے کائنات، رب دو جہاں ایک نئی دنیا آباد کرنا چاہتا
ہے۔پہلے آ دم کا پتلا بنایا جاتا ہے۔ اسے ہر طرح کا علم سکھایا گیا اور پھر
آ دم سے فرشتوں کے سامنے اس کا اظہا کرایا جاتا ہے۔ سبھی فرشتے آ دم کے علم
سے متاثر ہوتے ہیں، پھر سبھی کو آ دم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم ہوتا ہے۔
سبھی سجدہ ریز ہیں۔ عزازیل اپنے مرتبے، اپنی تخلیق اور علم کی بنا پر تکبر
کا شکار ہو جاتا ہے اور سجدہ کر نے سے انکار کر دیتا ہے:
’’ عزازیل تمہیں تنبیہ کی جاتی ہے۔ تم قہر خدا وندی کو دعوت دے رہے ہو اور
منشا
ئے خدا وندی کی تو ہین کے مرتکب ہو رہے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہیں عزازیل کے
مرتبے
سے گرا کر ابلیس قرار دیا جائے۔‘‘
عزا زیل کا سارا بدن کانپ رہاتھا۔ خدا وند قا ہر و جابر کا یہ لہجہ اس نے
اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ اسے لگا کہ اس نے خاموش رہنے کا جو تہیہ کیا
تھا اس پر ثا بت قدم نہیں رہ سکا۔ اسے کوشش بہر حال جاری رکھنی چاہئے۔ وہ
اپنے لہجے میں نرمی اور شیرینی گھول کر خدا سے کچھ کہنے ہی جا رہا تھا کہ
یکا یک اس کی نظر آدم پر پڑی جو اب بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
یہ دیکھ کر وہ غصے سے کھول گیا۔ اس کے ذہن و دل کا تعلق ایک بار پھر اس کی
زبان سے ٹوٹ گیا۔ خدا وند قاہر کی غضب ناک آواز عزازیل کے کانوں میں گو نج
رہی تھی۔ بالآخر عزازیل نے زبان کھو لی۔’’عزازیل آدم کو سجدہ نہیں کرے
گا۔‘‘[عزازیلP-164]
ناول کا اختتام ابلیس کے بہکاوے میں آکر، حوا اور آدم کا شجر ممنو عہ کا
پھل کھانے کے سبب جنت سے نکالے جانے اور دنیا میں ایک دوسرے کی تلاش میں سر
گرداں ہونے پر ہو تا ہے۔
ناول میں قصہ، پلاٹ، کردار،تصادم، مکا لمے، منظر کشی، جذبات نگاری الغرض
تمام ضروری اجزاء موجود ہیں۔ زبان کا کیا کہنا۔ یعقوب یاور نے عمدہ زبان کا
استعمال کیا ہے۔ یہ زبان اور اسلوب ہی تو ہے جس نے ایک خشک اور ناقابل یقین
مو ضوع کو بھی دلچسپ اور حیران کن بنا دیا ہے۔موضوع کا جہاں تک تعلق ہے تو
اردو میں یہ پہلا انو کھا موضوع ہے۔ اس پر اردو میں کوئی ناول نہیں ملتا(
میری معلومات کی حد تک) ناول میں کرداروں کی بھر مار ہے۔ ایسے ایسے نام جو
کبھی نہ پڑھے نہ سنے۔سائنس، کمپیوٹر، رو بوٹ کا ایسا استعمال کہ قاری انگشت
بدنداں ہے۔ تاریخ کی ہلکی ہلکی جھلکیاں،سائنسی آلات، سیاروں کی دوریاں،
حجم، مہ و سال کا حساب، جاسوسی رنگ، نفرتیں، رو مانس،جنسیت، خدا بننے کا
جنون جیسے بے شمار ضمنی مو ضو عات ہیں، جن کے سبب ناول اہمیت اختیار کر گیا
ہے۔ اسے اردو ناول کی روا یت میں ایک اضا فہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ |