جنت کی زندگي -حصہ دوم

(نوٹ۔نئے قارئین کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ اس حصے کا مطالعہ کرنے سے پہلے مضمون کے پہلے حصے کا مطالعہ کر لیں)

یوں گھنے سرسبز باغات میں پانی، دودھ ، شہد، اور شراب کی نہروں اور چشموں میں جنتیوں کی قیام گاہیں ہوں گی اور ہر جنتی اپنے جنت والے گھر سے بخوبی آگاہ ہوگا:

سیدنا ابو سعید خدریؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :’’قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے کہ ہر شخص اپنے گھر (مسکن) کو جنت میں اس سے زیادہ پہچان لے گا جس طرح وہ اپنے مسکن کو دنیا میں جانتا تھا۔ ‘‘(صحیح بخاری)

انسانوں نے بھی ڈیزائننگ کی ہے لیکن جیسا مصور خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے ویسا کوئی اور کہاں؟ پھولوں کی بناوٹ پر ہی غور کر لیجیے، بعض پرندوں اور تتلیوں کے پروں پر رنگوں کا کمال نفاست بھرا حسین امتزاج جو انسان کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتا ہے۔۔سوچیے یہ کس کا کمال ہے؟ آزمائش کے درجے میں ایسا حسن بکھیرنے والا جب اپنی نعمت سجائے گا تو کون ہے جو اس کاریگر کی کاریگری کے کمال کا تصور بھی کر سکے۔ ہیرے، موتیوں، یاقوت و زمرد، سونے چاندی سے بنے ہوئے ان گھروں اور ان کے نقشوں کے بارے میں ہمارا خیال بھی ان کے حسن کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا۔ جنت کے مقابلے میں دنیا کتنی حقیر ہے ملاحظہ ہو:

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
"تم میں سے کسی کی بہشت میں کمان بھر جگہ یا چابک بھر جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔"
(صحیح بخاری براویت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ)

غرض یہ وہ جنت ہے جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ:
سورة الإنسان ( 76 )
وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا {20}
وہاں جدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سروسامان تمہیں نظر آئے گا۔

•جنت کا موسم

اور اس عظیم سلطنت کا موسم ایسا معتدل ہے کہ :

سورة الإنسان ( 76 )
۔۔۔ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا {13}
نہ انہیں دھوپ کی گرمی ستائے گي نہ جاڑے کی ٹِھر۔

•نہ محنت و مشقت نہ تھکاوٹ

جنت کی زندگی ایسی فارغ البالی کی زندگی ہے کہ جس میں نہ تو کسی قسم کی محنت و مشقت و تھکاوٹ ہے، نہ ہی کسی قسم کا کوئی رنج و تکلیف اور نہ ہی بڑھاپا و بیماری۔ غرض ایسی کوئی چیز نہیں جو انسان کی پر سکون زندگی میں کوئی خلل ڈالے یا کسی چیز کےحصول کے لیے مشقت اٹھانی پڑے یا کسی نعمت کے چھن ہی جانے کا کوئی ڈر ہو:

سورة الحجر ( 15 )
لاَ يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ {48}
انہیں نہ وہاں کسی مشقت سے پالا پڑے گا اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔

سورة فاطر ( 35 )
لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ {35}
(جنتی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ)اب یہاں نہ ہمیں کوئی مشقت پیش آتی ہے اور نہ تکان لاحق ہوتی ہے۔

کچھ احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ (جنت میں)ایک پکارنے والا پکارے گا کہ (اے اہل جنت)تمہارے لیے یہ مقرر ہو چکا ہے کہ تم صحت مند رہو گے کبھی بھی بیمار نہیں ہوگے، تم زندہ رہو گے کبھی بھی نہیں مرو گے، تم جوان رہو گے کبھی بھی بوڑھے نہیں ہو گے، تم عیش وآرام میں رہو گے کبھی بھی رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہو گے۔(صحیح مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ ہی سے روایت کردہ ایک اور حدیث مبارکہ کچھ اس طرح ہے۔ نبیﷺنے فرمایا کہ جو شخص جنت میں داخل ہو جائےگا وہ ہمیشہ عیش میں رہے گا، اسے کوئی رنج و تکلیف نہیں پہنچے گی۔ نہ اس کے کپڑے پرانے ہوں گے اور نہ ہی اس کا شباب فنا ہوگا۔(صحیح مسلم)

•جنت کی وسعت

نعمتوں بھری اس جنت کی وسعت کے بارے میں قرآن حکیم ہمیں یہ بتلاتا ہے عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ کہ اس کی وسعت زمین و آسمانوں جیسی ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ محض ہماری معلوم کائنات میں ہی کتنا زیادہ مادہ ہے اور یہ سب کس کا ہے؟ تنہا ایک ہی سورج میں 13 لاکھ زمینیں سما سکتی ہیں۔ سورج محض ایک سیارہ ہے اور اس سے بہت بہت زیادہ بڑے ستارے موجود ہیں اور صرف ہماری کہکشاں(ملکی وے) میں ہی ایک اندازے کے مطابق دو سو بلین سے چار سو بلین تک ستارے ہیں۔ ہماری کہکشاں کے قریب ترین کہکشاں(Andromeda Galaxy) 2500000نوری سال کے فاصلے پر ہے (ایک نوری سال 6 کھرب میل کا فاصلہ ہے)اور ایسی کہکشائیں بھی ہیں جن کی روشنی کو ہماری کہکشاں تک پہنچنے کے لیے اربوں نوری سال درکار ہیں۔ یہ کہکشائیں کوئی سو یا ہزار نہیں بلکہ سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق اربوں کی تعداد میں ہیں۔ اربوں کہکشائیں ، ان میں اربوں کھربوں ستارے، اور نجانے کتنے ہی ستارے ایک ایک نظام شمسی ہیں جن کے گرد چکر لگاتے ستارے اور ستاروں کے گرد گھومتے چاند ۔۔۔سوچیے یہ سارے فاصلے اور خزانے کس کے ہیں اور کتنا ہی میٹیریل ہے اللہ کے ان خزانوں میں۔۔۔اور اس پر بھی غور کیجیے کہ ہماری زمین بھی تو اسی میٹیریل کے ٹھنڈا کیے جانے سے ہماری زندگی کے لیے سازگار بنائی گئی ہے۔ کیا وہ قادر مطلق جس نے زمین کو ہمارے لیے گھروندا بنا دیا اور جو ان کہکشاؤں میں موجود اس سارے مادے یا میٹیریل کا مالک ہے وہ انہی کو زمین کی طرح ہماری زندگی کے لیے سازگار جنت میں نہیں بدل سکتا یا کیا اس کے پاس صرف یہی ذخائر ہیں؟ یہ مادہ تو اس نے اپنی نشانیوں کے طور پر ہمارے اردگرد پھیلا دیا ہے وگرنہ اس کے خزانے تو بے حد و حساب ہیں جنہیں خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سوچیے جس نے یہ زمین پیدا کر کے اس پر ہمیں آزمائش کے لیے بھیجا وہ اس جیسی یا اس سے بہت بہتر پیدا نہیں کر سکتا؟ جس نے کھربوں ستارے پیدا فرمائے ہیں وہ کھربوں زمینیں پیدا نہیں کر سکتا ؟ کیوں نہیں وہ تو زمین و آسمانوں سی وسعت والی جنت کو پیدا فرما چکا ہے۔جس کے ایک درجے سے دوسرا درجہ ایسا بلند ہے کہ جیسے ہمارے مقابلے میں وہ ستارے ہیں جنہیں ہم آسمان پر دیکھتے ہیں۔اور اسی عظیم الشان سلطنت کو پانے کے لیے ہمیں قرآن میں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ" اس کی طرف دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے نکلنےکی کوشش کرو" جو وسعت و کشادگی میں زمین وآسمانوں جیسی ہے:

سورة آل عمران ( 3 )
وَسَارِعُواْ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ {133}
دوڑ کر چلو اُس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ پرہیزگار لوگوں کے لیے مہیّا کی گئی ہے ۔

سورة الحديد ( 57 )
سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاء وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ {21}
دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے ، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔

اتنی ہی وسعت والی جنت ہو گی جس میں ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کے جنتی کو بھی دنیا سے کئی گنا بڑی جنت عطا فرمائی جائےگی۔ اس کے بارےمیں یہ حدیث مبارکہ بھی پڑھ لیجیے:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خداﷺنے فرمایا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ یہ ایک ایسا شخص ہو گا جو اوندھے منہ دوزخ سے نکلے گا۔ پھر اللہ اس سے فرمائے گا کہ جا کر جنت میں داخل ہوجا۔ پس وہ جنت کے پاس آئے گا تواس کا یہ خیال ہوگا کہ یہ تو بھری ہوئي ہے۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ جائے گا اور عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئي پایا اس پر اللہ تعالی فرمائے گاجا کر جنت میں داخل ہوجا۔پھر وہ اس کی طرف آئے گا تواسے یہی خیال گزرے گا کہ جنت بھری ہوئي ہے۔ پس وہ جا کر پھر عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئي پایا اس پر اللہ تعالی (تیسری بار)فرمائے گاکہ جا کر جنت میں داخل ہوجا،تیرے لیے تو وہاں دنیا کے برابر جگہ ہے اور اس سے دس گنا زیادہ ہے۔(اس یقین نہ آئےگااوروہ سمجھے گا کہ شاید اس سے مذاق کیا جا رہا ہے) چنانچہ وہ عرض کرےگا کہ اے خدا تو بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کر رہا ہے(اس حدیث کے راوی بتاتے ہیں کہ) پھر میں نے رسول خداﷺکو دیکھا کہ آپ ﷺہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺکےدندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ (راوی یہ بھی بتاتے ہیں کہ )کہا جاتا تھا کہ یہ شخص اہل جنت میں سب سے کم رتبے والا ہو گا۔(بخاری)

اب تک ہم نے جنت کے باغات،چھاؤں، نہروں، چشموں اور قیام گاہوں ، موسم اور وسعت کے بارے میں کچھ آیات اور احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا۔اب چلیے کھانے پینے کی کچھ اورنعمتوں کے بارے میں جانتے ہیں۔

•جنت کی شراب اور اس کی خاصیت

ہم نے پڑھا کہ جنت میں صاف شفاف پانی، دودھ، شہد اور قسم قسم کی شراب کی نہریں اور دریا بہتے ہیں اور چشمے پھوٹتے ہیں۔ اب یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ جنت کی شراب دنیا کی شراب سے کس قدر مختلف ہے۔اس بات کی وضاحت اتنی ضروری تھی کہ اللہ نے قرآن حکیم میں اس کی خصوصیات کا تذکرہ فرمایا تاکہ ان کج فہم لوگوں کی غلط فہمی دور کر دی جائے جوچھانٹے ہوئے بہترین انسانوں کے پاکیزہ معاشرے یعنی جنت کو دنیا کے کسی شراب خانے کی مانند سمجھتے ہیں جہاں کچھ شرابی پی کر جھوم رہےہیں اور غل غپاڑہ مچا رہے ہیں۔

جنت کی شراب کی قرآنی وضاحت حسب ذیل ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ وہ شراب پھلوں اور غلوں کو گلا سڑا کراور قدموں تلے روند کر کشید کی گئی بدبودار اور سڑاند والی شراب نہیں بلکہ اللہ کی قدرت سے نہروں اور چشموں کی شکل میں جاری ہے اورایسی صاف ستھری اور نفیس کہ چمکتی ہے اور یہ حسین نہریں جنتیوں کی قیام گاہوں اور جنت کے باغوں کے نیچے بہتی ہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔

دوسری بات یہ کہ جنت کی شراب صحت و عقل کے لیے مضر نہیں ہوگی کہ اس سے آدمی کی صحت خراب ہویاسر چڑھ جائے اور اس سے درد سر لاحق ہو یا پھر آدمی بہک جائے ، ہوش گوش سے بیگانہ ہو جائےاپنے گھر والوں کو پہچاننے سے بھی قاصر ہواور اول فول بکنے لگے۔جنت کی شراب میں ان میں کوئی بھی خرابی نہ ہوگی۔دنیا میں تولوگ شراب کی لذت کے لیے یہ سارے نقصانات برداشت کرتے ہیں، جنت کی شراب میں ان میں سے کوئی بھی نقصان اور قباحت تو نہیں ہو گی لیکن لذت و سرور میں دنیا کی شراب اور جنت کی شراب میں کوئی نسبت ہی نہیں۔اس ضمن میں کچھ آیات ملاحظہ فرمائیے:

سورة الصافات ( 37 )
يُطَافُ عَلَيْهِم بِكَأْسٍ مِن مَّعِينٍ {45} بَيْضَاء لَذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ {46} لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ {47}
شراب کے چشموں سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے۔ چمکتی ہوئي شراب ، جو پینے والوں کے لیے لذّت ہو گی ۔نہ اُن کے جسم کو اُس سے کوئی ضرر ہو گا اور نہ ان کی عقل اس سے خراب ہو گي۔

سورة الطور ( 52 )
يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ {23}
وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے جس میں نہ بےہودگي ہوگی نہ بد کرداری۔

سورة الواقعة ( 56 )
عَلَى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ {15} مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ {16} يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ {17} بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ {18} لَا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنزِفُونَ {19}
مرصع تختوں پر تکیے لگا ئے آمنے سامنے بیٹھیں گے ۔ اُن کی مجلسوں میں اَبدی لڑکے شرابِِ چشمۂ جاری سے لبریز پیا لے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑ تے پھرتے ہونگے جسے پی کر نہ اُن کا سر چکرائے گا نہ اُن کی عقل میں فتور آئے گا۔

•جنت کے پھل
جنت کے گھنے سرسبز باغات اور گھنی چھاؤں کے بارے میں تو ہم پڑھ آئے ہیں اب کچھ تذکر ہ جنت کے پھلوں کا بھی ہو جائے ۔ اس بارے میں قرآن ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ جنت کے پھل کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں، وہ ہر وقت جنتیوں کے بس میں ہوں گے اور بلاروک ٹوک ملتے رہیں گے۔جنت کے درخت ان پھلوں سے ایسے لدے ہوئے ہوں گے کہ ان کی ڈالیاں جھکی جاتی ہوں گی اورجنتی لوگ جو پھل چاہیں گے حاضر کر دیا جائے گا۔ قرآن حکیم میں بہت سے پھلوں کا نام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مثلا انگور، کھجور، انار، کیلے، بیر وغیرہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے پھل جنتیوں کو کھانے کو دیے جائیں گے:

سورة المرسلات ( 77 )
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ {41} وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ {42} كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ {43} إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنينَ {44}
متقی لوگ آج سایوں اور چشموں میں ہیں اور جو پھل وہ چاہیں (اُن کے لیے حاضر ہیں)۔کھاؤ اور پیو مزے سےاپنےاُن اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔

سورة الحاقة ( 69 )
فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ {22} قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ {23} كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ {24}
عالی مقام جنت میں،جس کے پَھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں گے۔(ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ اور پیو اپنے اُن اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں۔

سورة البقرة ( 2 )
وَبَشِّرِ الَّذِين آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ هَـذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِهِ مُتَشَابِهاً وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ {25}
اور اے پیغمبرؐ، جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں، انہیں خوشخبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اُن باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائےگا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ اُن کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔

سورة الإنسان ( 76 )
وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَالُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا {14}
جنت کی چھاؤں ان پر جھکی ہوئی سایہ کر رہی ہوگی، اور اس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے(کہ جس طرح چاہیں انہیں توڑ لیں)۔

سورة الواقعة ( 56 )
وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُونَ {20}
اور وہ(خدمتگار) ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چن لیں ۔

سورة الرحمن ( 55 )
فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ {68}
ان میں بکثرت پھل اور کھجوریں اور انار ۔

سورة الرحمن ( 55 )
فِيهِمَا مِن كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ {52} فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ {53} مُتَّكِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ {54}
دونوں باغوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ جنتی لوگ ایسے فرشوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے جن کے استردبیز ریشم کے ہوں گے ، اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑ رہی ہوں گی ۔

سورة الواقعة ( 56 )
وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ {32} لَّا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ {33}
اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھل۔

• جنت کا گوشت
جنتیوں کی خدمت میں صرف پھل ہی نہیں پیش کیے جائیں گے بلکہ ان کی خدمت میں پرندوں کے اور دیگر ہر قسم کے گوشت بھی پیش کیے جائیں گے تاکہ جو گوشت وہ پسند کریں کھائيں۔

سورة الواقعة ( 56 )
وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ {21}
اور(خدمتگار جنتیوں کی خدمت میں) پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں۔

سورة الطور ( 52 )
وَأَمْدَدْنَاهُم بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ {22}
ہم ان کو ہر طرح کے پھل اور گوشت ، جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا، خوب دیے چلے جائیں گے۔

•جنتیوں کا لباس
ایک نظر جنتیوں کے لباس پر بھی ڈال لیجیے کیونکہ کھانے پینے کے بعد اہم ترین ضرورت لباس ہی ہے۔جنت میں لباس اور دیگر پہننے کی چیزیں بھی اللہ ہی کی طرف سے عطا فرمائي جائیں گي۔دنیا میں اللہ کی اس نعمت کی ایک چھوٹی سی مثال ہمارے کپڑوں کے علاوہ ہمارے سر ، ابروؤں، پلکوں وغیرہ کے وہ بال بھی ہیں جن کا کوئي نعم البدل نہیں، جن لوگوں سے یہ لباس چھن جاتا ہے اس نعمت کی قدر انہی سے پوچھئے۔اس طرف بھی نگاہ جائے کہ اسی دنیا میں رنگ برنگے پرندوں، درختوں اور پھولوں کو کیسا حسین لباس رب نے پہنایا ہے۔جنت تو نعمتوں بھری بہت بڑی سلطنت ہے جس کو پانے والا ہر جنتی ایسی بہترین زندگی گزارے گا کہ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی سلطنت کا بادشاہ بھی اس کا تصوربھی نہیں کر سکتا۔جنتی لوگ ریشم اور اطلس ودیبا کے لباس پہنیں گے اور انہیں سونے چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گےاور ہیرےموتیوں سے آراستہ کیا جائے گا۔اسی لیے نبیﷺنے فرمایا کہ جس مرد نے دنیامیں ریشم اور سونا پہن لیا وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔

جو لباس اور پہننے کی چیزیں جنتی استعمال کریں گے اس کاقرآنی تذکرہ پڑھیے اورچشم تصور میں لانے کی کوشش کیجیے کہ جو چیزیں ان کو اللہ کی طرف سے انعام میں پہننے کو ملیں گي وہ کیسی ہی شاندار ہو ں گي:

سورة الحج ( 22 )
إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ {23}
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اُن کو اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہريں بہہ رہی ہوں گی۔ وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیے جائیں گے اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔

سورة الكهف ( 18 )
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا {30} أُوْلَئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا {31}
وہ لوگ جومان لیں اور نیک عمل کریں، تو یقینًاہم نیکو کارلوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ ان کے لیے سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے، باریک ریشم اوراَطلس و دِیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اور اونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے، بہترین اجراوراعلیٰ درجے کی جائے قیام!

سورة فاطر ( 35 )
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ {33}
ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا، وہاں ان کا لباس ریشم ہوگا۔

سورة الدخان (44)
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ {51} فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ {52} يَلْبَسُونَ مِن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَقَابِلِينَ {53}
خدا ترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں، حریرو دیباکے لباس پہنے، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

سورة الإنسان ( 76 )
عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ ۔۔۔ {21}
اُن کے اوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس ودیبا کے کپڑے ہوں گے، ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار
(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

(جاری ہے)
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 49217 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.