ترجیحات میں تبدیلی!

 مغرب کے کچھ دیر بعد گھر سے باہر جانے کا اتفاق ہوا، اندرونِ شہر کے باہر سے گھومتی دورویہ سڑک کے درمیان لگے کھمبے اور پودے بجلی کے قمقموں سے جگمگ جگمگ کر رہے تھے۔ تمام پودوں کو بھی روشنیوں کا لبادہ پہنا دیا گیا تھا، کھمبوں کے اردگرد بھی لڑیاں لپیٹ دی گئی تھیں۔ کھمبوں کے درمیانی فاصلے کو روشنی والی جھالر سے مزین کیا گیا تھا۔ مقامی حکومت نے یہ اہتمام عید کے موقع پر کیا تھا، تاکہ عوام کو عید کی خوشیوں میں بھر پور طریقے سے شامل کیا جاسکے۔ ابھی چونکہ عید کو کچھ دن دیر تھی، اس لئے روشنی کے یہ انتظامات ابھی کسی حد تک ادھورے تھے۔ ادھورے ہونے کے باوجود سڑکوں پر یہ روشنی عوام نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ عوام یقینا روشنیوں کے اس سیلاب سے ضرور متاثر ہونگے، اسے دیکھ کر ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں گے، ممکن ہے ان کے بچوں کی خوشی کے مارے چیخ ہی نکل جائے، نوجوان بھی اسے بے حد پسند کریں گے، خواتین بھی اس سے لطف اندوز ہونگی۔ یہ فطری بات ہے کہ وسائل کو جب ترتیب سے کسی کام پر لگایا جاتا ہے تو لوگوں کو خوشگوار حیرت ہوتی ہی ہے۔ ان روشنیوں کے قریب ہی ایک ماڈل بازار بھی پایا جاتا ہے، جو پاکستان کے حکمران بھائیوں کی دسیوں قد آدم تصاویر سے مزین ہے۔ وہاں صارفین کو سرکاری طور پر طے شدہ قیمتوں پر اشیاء دستیاب ہیں، گویا یہی وہ چار دیواری ہے، جہاں حکومت کی رٹ قائم ہے ، یہ الگ بات ہے کہ یہاں بھی اربوں روپے کی سبسڈی دے کر قیمتیں کم کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔

دوسری طرف بدقسمتی سے عید کے قریب آکر خود کشیوں کی خبروں میں کمی واقع نہیں ہو سکی۔ بات اٹک سے شروع ہوئی، جہاں ایک خاتون نے اپنے بچوں سمیت کنویں میں چھلانگ لگا دی، دو معصوم بچے موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک باپ بھی پھانسی لے کر درخت سے جھول گیا، خودکشیوں کی خبریں روزانہ کی بنیادوں پر آرہی ہیں۔ یہ تو انتہائی اقدام ہے، ورنہ عید کے موقع پر کپڑے جوتی نہ ملنے پر عام گھروں میں بھی لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، اورغریب کی تو بات ہی کیا کہ جن کا روزانہ کا خرچہ مشکل سے پورا ہوتا ہو، وہ عید کی خوشیاں کیسے خرید سکتا ہے؟ حکمران چونکہ ارب پتی ہوتے ہیں، اس لئے وہ عام آدمی کے مسائل سے بخوبی آگاہ نہیں ہوتے، غربت کے آلام کا تو تصور بھی کرنا محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں حکومت اپنے بجٹ کو عام آدمی کے لئے بہترین قرار دیتی ہے، اور یہ بتاتی ہے کہ لگائے جانے والے ٹیکسز اور مہنگائی وغیرہ کا اثر عام آدمی پر نہیں پڑے گا۔ دوسری طرف ہر اپوزیشن وقت کے وزیر خزانہ کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ اپنی مقرر کردہ حدود میں ایک غریب آدمی کے گھر کا بجٹ بنا کر دکھائے۔ سیاستدانوں کا یہ چکر چلتا رہتا ہے، اور عوام متاثر ہوتے رہتے ہیں۔

رمضان المبار ک میں عام لوگ بھی اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں، یہ خرچ خواہ صدقہ خیرات کی صورت میں ہو یا گھر میں افطاریوں اور عیدوں پر ۔ دونوں صورتوں میں کھلے دل سے خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی روایت بھی عام ہے۔

رمضان المبارک میں اپنے معاشرے کا ایک اور کربناک رخ بھی دیکھنے کو ملتا ہے، وہ یہ کہ جرائم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، قتل و غارت گری بھی جوں کی توں ہے، اغوا اور تشدد کے واقعات میں بھی کمی نہیں ہوئی، لڑائی جھگڑے بھی جاری ہیں، چوری چکاری اور ڈکیٹی کی وارداتیں بھی جاری ہیں، رشوت ستانی اور کرپشن کے دیگر معاملات میں بھی کوئی کمی نہیں۔ سب کچھ ہو رہا ہے۔ حالات کا سدھار ناممکن نہیں، بس مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ مقامی حکومتیں صرف قمقموں اور عارضی مصنوعی روشنیوں اور اسی قسم کے دیگر اقدامات پر خرچ ہونے والی رقم کو غریبوں کی فلاح پر لگا دیں تو بہتری آسکتی ہے، جن مضافاتی آبادیوں میں ہزاروں بچے یا تو چائلڈ لیبر پر مجبور ہیں، یا آوارہ گردی کر رہے ہیں یا پھر گندگی کے ڈھیروں سے کچرا چننے میں مصروف ہیں، ان کے لئے سکول قائم کیا جاسکتا ہے، ایسے علاقوں میں ہسپتال کی بھی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ بنیادی ضرورتیں پوری ہو جانے کے بعد جیسے بھی روشنیاں بکھیری جائیں،جیسے بھی چوکوں کو سجایا جائے، جیسے بھی آرائش کا سامان کیا جائے کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ مگر بھوکے عوام کے سینے پر مونگ دلنے کی روایت میں تبدیلی کا انتظار ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427117 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.