گرمیوں کی لمبی اور تپتی دوپہروں میں نیند آنکھوں سے
کوسوں دور ھو.اورچیز پر عجب ویرانی کا سماں ھو.تب کسی بہت ھی اپنے کی یاد
دل سے چین اور سکون رخصت کرنے کا باعث بنتی ھے.مگر ان یادوں سے جڑی اچھی
باتیں.اور ا ن باتوں سے آتی خوشبو..روح تک کو مسحور کر دیتی ھے.بات ہو رھی
ھے گرمیوں کی.میری زندگی میں گرمی اور گرمی کی دوپہروں کی بڑی اہمیت ھے .انہی
دوپہروں نے میراکتاب سے بہت مضبوط رشتہ جوڑا .جب سب گھر والے خوابِ خرگوش
کے مزے لیتے.میں اپنے گھر کی تنگ سیڑھیوں میں دنیا و مافیاسے بے خبر رسالہ
پڑھنے کی دھن میں مگن.پسینہ بہنے کی پرواہ کیے بغیر کہانی مکمل کرنے کے چکر
میں یہ تک بھول جاتی کہ امی سے ٹھیک ٹھاک ٹھکائی بھی متوقع ہو سکتی
ھے.اورکئی بار یہ شرف حاصل کیا بھی مگر وہ شوق ھی کیا جو پابند ِ سلاسل کیا
جا سکے.
آپکی بدولت آج گرمیوں سے جڑی بچپن کی بے پناہ یادیں آنکھوں کی کھڑکی پر
دستک دیتی چلی آرھی ھیں .تپتی دوپہروں میں نمک مرچ پانی میں ملا کر باسی
روٹی کے ساتھ کھانا کچی کیریوں کو قاسم انکل کے باغ سے چوری کرنا.پھر ا نکے
کتے کے بھونکنے سے ڈر کر گھر کی طرف دوڑ لگانا .پھر بیتحآشہ ھنستے ھویچھینا
جھپٹی کرتے ھوے ان کیریوں کو چٹخارے لے لے کر کھانا.سفیدے کے اونچے اونچے
درختوں کی لٹکتی ھوئی ٹہنیوں کے ساتھ جھولتے رھنا یہ ساری سرگرمیاں گرمیوں
کی چھٹیوں می نئے گھر سے وابستہ وہ یادیں ھیں جو دھوپ میں چھاؤں کا احساس
دلاتی ھیں. چار کنال پہ محیط نیا گھر مضافات میں واقع تھا جو کہیں سے بھی
نیا نہی لگتا تھا. میرے دادا دادی کی قائم کردہ جنت کا دوسرا نام تھا نیا
گھر .نئے گھر کی سب سے بڑی خاصیت تھی اسکا بڑا سارا باغ جو گرمی کی لمبی
دوپہروں میں ھماری توجہ کا خاص مرکز بنتا .جہان پھلدار درخت اور پھول دار
پودے ھماری تسکین کا باعث بنتے.غٹآ امی.یعنی دادی اماں کی محنت اور محبت
ایک ایک پودے اور درخت سے عیاں ہوتی تھی.بظاہر کچی مٹی سے بناگھر اپنے اندر
بے پناہ راحتیں سمیٹے ھوئے تھا. غٹآ امی کو گرمی بہت ستاتی تھی.ساری دوپہر
ہم انکے لیے باری باری ھینڈ پمپ چلاتے اور وہ اپنی گرمی سے نجات پانے کی تگ
و دو میں کپڑوں سمیت نہانے میں مصروف رہتی.
مرغیوں کا دڑبہ بھی ھماری توجہ سمیٹے رکھتا .کیوں کہ بہت ساری مرغیوں کے
انڈوں کو جمع کرنا بھی ایک مشغلہ ہوتا .اور بابا جی یعنی دادا ابو کی غلیل
کے لیے بنٹے بنانا تو اور بھی دلچسپ کام ٹھہرتا.بابا جی وقتاً فوقتاً اپنی
غلیل سے کوؤں کو اڑاتے رہتے جو مرغیوں کا دانہ منٹوں میں ھڑپ کر جاتے
تھے.تب باباجی غلیل انکو اڑانے کے لیے ہر دم تیار رہتی۔ نیا گھر اور گرمیاں
ہمارے لیے لازم و ملزوم ھی رھے ھمیشہ……کیوں کہ گرمیوں کی چھٹیں میں وہ
ھمارے لیے پکنک سپاٹ سے کم نہ تھا .نیا گھر دو بوڑھے لوگوں کی جنت تھا جہاں
ان کے بچے کبھی کبھی پکنک پوائنٹ سمجھ کر وقت گزارنا تو پسند کرتے مگر مگر
مستقل رہنا انکے بس سے باہر ھی تھا.آج یہ سب لکھتے ہوے مجھے وہاں
گزاراہواھر پل بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے جس نے میری بنجر آنکھوں سے سیلِ
رواں جاری کر دیا ہے۔
گرمیوں کے وہ بیتے پل اب کبھی میری زندگی میں نہی آسکتے ...کیوں کہ اب نہ
نیا گھر باقی رھا اور نہ ھی وہ محبت سے لبریز وہ نا تواں ھاتھ جو ھمیں
سمیٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے.ان پیارے اپنوں کے نام .
ع کوئی مجھ سا کہاں سے آئے گا
میں تو گزرے ھوے وقت کی مانند ھوں
جو لوٹ کے پھر نہیں آئے گا۔
|