کرسچین کے شادی اور طلاق کے مروجہ قوانین اور لاہور ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ

 لاہور ہائیکورٹ نے مسیحی میرج ایکٹ میں طلاق کے مروجہ طریقہ کار کو آئین سے متصادم قرار دینے اور اس میں تبدیلی کیلئے دائر درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو کہ بعد ازاں اب جاری ہوا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست پر سماعت کی جس میں مسیحی میرج ایکٹ میں طلاق کے طریقہ کار کی تبدیلی کی استدعا کی گئی ہے۔ سماعت کے دوران وفاقی وزیر کامران مائیکل اور صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو، چرچ رہنما، سیاسی شخصیات اور مسیحی عمائدین عدالت میں پیش ہوئے۔ وفاقی وزیر کامران مائیکل نے کہا کہ مروجہ قانون الہامی احکامات کی روشنی میں تشکیل پایا ہے اور الہامی قانون کو کسی صورت تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ تمام چرچز سے مشاورت کے بعد آفاقی احکامات کی روشنی میں موقف پیش کیا ہے۔ بنیادی حقوق کے نام پر الہامی قانون میں تبدیلی مذہبی اصولوں کے منافی ہے۔ ملک بھر کے بشپ کے ساتھ مل کر قانون میں موجود سقم دور کرنے کے حوالے سے سفارشات مرتب کی جا رہی ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ خواتین کا تحفظ ہو۔ تاہم مسیحی مذہب میں خواتین کے طلاق کا نقطہ طے ہو چکا ہے۔ رکن پنجاب اسمبلی میری گل نے یہ نکتہ اٹھایا تھاکہ مسیحی خواتین کو مسیحی میرج ایکٹ کے تحت برابری کے حقوق حاصل نہیں۔ مسیحی قانون طلاق واضح طور پر امتیازی قانون ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے فاضل عدالت کو آگاہ کیا کہ مسیحی قانون طلاق بنیادی حقوق اور اخلاقیات کے عالمی قوانین سے متصادم ہے۔ انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مسیحی قانون طلاق کے تحت کوئی بھی عیسائی اس وقت تک اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا جب تک اس پر بد چلنی کا الزام لگا کر اسے ثابت نہ کر دے۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دئیے تھے کہ پوری دنیا میں مسیحی خواتین کی شادی اور طلاق کے قوانین تبدیل ہو چکے ہیں عدالت مسیحی برادری بالخصوص خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہے۔ عدالت نے پاکستان کے آئین کو ملک میں نافذ کرنا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ الیاس بھٹی کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے لیکن مسیحی طلاق کے قانون کے تحت بیوی پر بدکاری کا الزام نہیں لگانا چاہتا۔ لہٰذا فاضل عدالت اس قانون کو آئین سے متصادم قرار دے کر تبدیل کرنے کا حکم دے۔یوں اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے دے دیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نیمسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ سات کو بحال کر دیا ہے جس کے تحت مسیحی خواتین کو طلاق لینے کے لیے آئندہ بدچلنی جیسے الزام کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔طلاق لینے کے لیے عام وجوہات کو بھی بنیاد بنایا جا سکے گا، تاہم بعض مسیحی حلقوں نے عدالت کے اس حکم کو ناپسند کیا ہے۔مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ سات پاکستان کے سابق صدر ضیا الحق کے دور حکومت میں ختم کی گئی تھی جس کے خلاف ایک مسیحی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سابق صدر ضیا الحق نے مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ سات حذف کر دی تھی جس کے بعد مسیحی جوڑوں میں علیحدگی کے لیے صرف ایک ہی دفعہ موجود ہے جس کے تحت صرف بدچلنی کی بنیاد پر ہی طلاق دی جا سکتی ہے،گھریلو ناچاقی یا کسی اور وجہ سے طلاق نہیں دی جا سکتی جو بنیادی انسانی حقوق اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔ کیس کی سماعت مکمل ہونے پر جسٹس سید منصور علی شاہ نے سوموار کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ آئین کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مسیحی طلاق ایکٹ سے دفعہ سات کا حذف کیا جانا آئین کے آرٹیکل نو اور 14 کے تحت دیے گئے بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔عدالت عالیہ نے مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ سات کو بحال کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کے لیے پاکستانی مسیحی جوڑے سنہ 1869 کے برطانوی قانون کے تحت ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ جس کے تحت طلاق کے لیے عام وجوہات کو بھی بنیاد بنایا جا سکے گا۔عدالتی معاون حنا جیلانی نے بھی مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ سات کی بحالی کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ’عدالت عالیہ کے فیصلے سے مسیحی خواتین کو بدچلنی جیسے قبیح الزام سے چھٹکارا مل جائے گا۔‘
دوسری جانب کچھ مسیحی حلقوں کو عدالتی فیصلے پر تحفظات ہیں۔ لاہور کے مسیحی صحافی نعیم قیصر کا کہنا ہے کہ ’مسیحی مذہب میں طلاق کو برا سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ طلاق کے لیے انتہائی قلیل اور ناگزیر توجیہات پر اکتفا کیا گیا ہے۔لاہور کے شاہد معراج نے عدالتی فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کے مذہب میں ایک بیوی کا ہی تصور ہے اور طلاق کو ناپسند کیا گیا ہے اس لیے حتی الامکان اس کے وقوع پذیر ہونے کو ناممکن بنایا گیا ہے۔ان کے مطابق طلاق کے لیے معدوم امکانات کی وجہ سے غلط الزامات کا سلسلہ بھی جاری تھا اور طلاق کے لیے بدچلنی کے جھوٹے الزامات لگائے جا رہے تھے جس کی روک تھام کے لیے قانون سازی بھی ضروری ہے تاکہ کوئی بھی شخص طلاق کے لیے صرف بدچلنی کا الزام نہ لگائے اور دیگر وجوہات کے بنا پر باعزت علیحدگی اختیار کر سکے۔شاہد معراج نے بتایا کہ سابق صدر ضیا الحق نے مشاورت کے بغیر ہی مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ سات کو ختم کیا تھا اور عدالت کی جانب سے اسے بحال کیا جانا خوش آئند ہے۔

کرسچن میرج ایکٹ 1872 کے مطابق کرسچن وہ ہے جو کرسچن مذہب پر قائم ہو ۔ سیکشن 23 اور 37 میرج ایکٹ کے تحت ایسے مقامی افراد جو کہ برصضیر پاک و ہند کے رہائشی ہیں اور کرسچین ہیں یا انھوں نے کرسچین مذہب قبول کیا ہے شادی بیاہ کے حوالے سے کرسچین برطانوی یا پاکستانی شہریت کے حامل اینگلو پاکستانی جو کہ پاکستان میں مقیم ہیں۔جانشینی کے حوالے سے ایسا پاکستانی رہائشی شخص کرسچین ہے جو کے اِن گُڈ فیتھ یہ بات کلیم کرتا ہے کہ وہ کرسچین ہے ۔کرسچین کے پیشے کے حوالے سے امر یہ ہے یہ کسی بھی کرسچین کا ذاتی فعل ہے اس بات کا چرچ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ کرسچین والدین کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ بادی النظر میں کرسچین ہی ہو گا۔تاوقتیکہ وہ اس امر کا اعلان عوامی طور پر کرئے کہ وہ کرسچین نہ رہا ہے ۔اُس وقت تک وہ کرسچین ہی تصور ہوگا۔عام طو پر یہ ہی مانا جاتا ہے کہ جو مذہب باپ کا ہے وہی مذہب بچے کا ہے۔ یہاں تک کہ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ بچے کی کافی عرصہ تک پرورش کسی اور مذہب میں ہوئی ہو۔ اگر کرسچین والد مذہب تبدیل کر لیتا ہے تو یہ ہی تصور ہوگا کہ بچے کا مذہب بھی تبدیل ہوگیا ہے یہاں تک کہ یہ ثابت نہ ہوجائے کہ بچے کی پرورش ماں نے کرسچین مذہب کے تحت کی ہے۔اگر کوئی مسلمان عیسائیت قبول کرلیتا ہے تو وہ بطور گارڈین اپنی اولاد جو کہ مذہب تبدیل کرنے سے پہلے کی ہے کا گارڈین رہے گا جبکہ بچے صرف اس بناء پر کرسچین نہ ہوں گئے کہ اُن کے والد نے مذہب تبدیل کر لیا ہے۔رومن کھیتولک چرچ شادی کو ایک مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں ۔اینگلیکن اور دوسرے پروٹیسٹینٹ چرچ شادی کو ایک مستقل بندھن مانتے ہیں جو کہ رب کی مرضی سے ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کی شادی کے لیے بلوغت کی عمر 18 سال ہے اور دوسرے کرسچین یعنی کہ برٹش وغیرہ کے لیے عمر 21 سال ہے۔ دولہا کو 16 سال سے زیادہ عمر کا اور دلہن کو 13 سال کی عمر سے زیادہ کا ہونا چاہیے۔ اگر کسی کی بھی عمر 18 سال سے کم ہو تو اُن کے والدین یا گارڈین کی رضا مندی ضروری ہے ایسا کرنے کی ضرورت یعنی رضامندی کی ضرورت منسٹر آف چرچ آف انڈیا ، پاکستان، برما سیلون،یا چرچ آف روم یا چرچ آف سکاٹ لینڈ میں نہ ہے۔

نا بالغان کے درمیان شادی تاہم void نہ ہے۔ اگرچہ وہ گارڈین کی مرضی کے بغیر بھی کی گئی ہو۔consanigunity affinity کے ضمن میں ہونے والی شادی غیر قانونی ہے۔ consanguinity سے مراد خون کا رشتہ اور affanity سے مراد خاوند یا بیوی کے ذریعہ سے رشتہ ۔ پاکستانی شہریت کے حامل رومن کیتھولک کو اپنی مرحومہ بیوی کی بہن سے شادی سے نہیں روکا گیا ۔ اگرچہ اْس مرد نے پوپ یا پوپ کے نمائندے سے شادی کی اجازت لے لی ہو۔ بے شک عورت ایسی شادی کرنے کی اہل نہ ہے۔ انگلینڈ میں مرحومہ بیوی کی بہن سے شادی deceased wife act 1907 کے تحت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ قانون ابھی تک پاکستان میں رائج نہیں ہوا۔ ایک عورت اپنے باپ، بیٹے ، بھائی باپ کے باپ، بیٹے کے بیٹے، بیٹی کے بیٹے، ماں کے خاوند، خاوند کے باپ کے باپ، خاوند کی ماں کے باپ ، خاوندکی بیٹی کے بیٹے، خاوندکے باپ، خاوندکے بیٹے، ماں کے خاوند، بیٹی کے خاوند، باپ کی ماں کے خاوند، بیٹے کی بیٹی کے خاوند، بیٹی کی بیٹی کے خاوند، باپ کے بھائی ، ماں کے بھائی ، بھائی کے بھائی، بہن کے بھائی سے شادی نہیں کر سکتی ۔ مرد کو اِن سے شادی کو مندرجہ ذیل میرج ایکٹ 1904 کے تحت شادی کرنے سے ممانعت ہے۔ مرحومہ بیوی کی بہن ، مرحوم بھائی کی بیوی ، مرحومہ بیوی کے بھائی کی بیٹی سے ، باپ کے مرحوم بھائی کی بیوی سے ، ماں کے مرحوم بھائی کی بیوی سے یعنی ممانی سے مرحومہ بیوی کے باپ کی بہن سے، بھائی کے مرحوم بیٹے کی بیوی سے، بہن کے مرحوم بیٹے کی بیوی سے شادی کی اجازت ہے۔ عورت کو میرج ایکٹ 1949کے تحت مندرجہ ذیل سے شادی کی ممانعت نہیں ہے۔ مرحومہ بہن کے شوہر سے، باپ کی مرحومہ بہن کے خاوند سے ، ماں کی مرحومہ بہن کے خاوند سے، مرحوم خاوند کی بہن کے بیٹے سے، بھائی کی مرحوم بیٹی کے خاوند سے، بہن کے باپ کے بھائی سے، مرحوم خاوند کی ماں کے بھائی سے شادی کرنے میں ممانعت نہیں ہے۔ بھائی اور بہن سے مراد بھائی اور بہن آف ہالف بلڈ ہیں ۔

طلاق یافتہ کب شادی کر سکتے ہیں :جب طلاق کی ڈگری جاری ہو جائے تو دونوں میاں یا بیوی اور شادی کر سکتے ہیں ۔ اگر اپیل کا حق نہ ہو یا پہلی شادی کا خاتمہ مرد یا عورت کے فوت ہو جانے سے ہو ا ہو۔ اور اگر کوئی اپیل پیش نہ ہو ئی ہو تب بھی دوبارہ شادی کی جا سکتی ہے۔ یا جیسے ہی اپیل کرنے کی مدت ختم ہو جائے یا اپیل پیش ہونے کے بعد مسترد ہو جائے تو پھر فوراً دوسری شادی کی جا سکتی ہے۔ سیکشن 5 کرسچن میرج ایکٹ کے مطا بق (۱)۔ ہر اْس شخص سے شادی کی جا سکتی ہے جس نے چرچ کی روایت اور رولز کے حوالے سے چرچ کے منسٹر سے اجازت لی ہے۔ (۲)۔ کسی بھی cleregymanآف چرچ سے شادی کی جا سکتی ہے۔ جو کہ چرچ آف سکاٹ لینڈ کی رویات قوانین پر عمل پیرا ہو ۔ (۳)۔ اِس قانون کے تحت مذہب کے منسٹر سے جس نے شادی کرنے کا لائسنس ، اجازت نامہ لیا ہو۔ (۴)۔ اِس ایکٹ کے تحت میرج رجسٹرار کے ذریعے یا اْسکی اجازت سے شادی کی جا سکتی ہے۔ (۵)۔ مقامی کرسچن کے درمیان شادی کے لیے جس شخص نے بھی شادی کے لیے جس شخص نے بھی اِ س ایکٹ کے تحت لائسنس ، اجازت لی ہے۔
AIR 1918 LAW BUR83 ایک خاص اجازت نامہ کے تحت جب ایک شخص جو کہ کرسچن ہے اور قانونی طور پر ایک عورت کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھا ہوا ہے اور اگر وہ کسی اور عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ تعلق صرف (جسمانی تعلق) concubinage ہو گا۔ اْس سے پیدا ہونے والی اولاد قانونی طور پر جائز تصور نہ ہوگی۔ سیکشن 6 کے مطابق کوئی بھی صوبائی یا مرکزی حکومت اپنی علاقائی حدود میں سرکاری طور پر نوٹیفیکیشن کے ذریعے مذہبی منسٹر کو شادی کی اجازت دینے یا شادی کروانے کا لائسنس ، اجازت دینے یا اْس اجازت نامہ کو منسوخ کر سکتی ہے ۔ سیکشن 7 کرسچن میرج ایکٹ 1872 کے مطابق صوبائی حکومت کسی بھی ایک یا اْس سے زیادہ کرسچنز کی حیثیت سے کسی بھی ضلع میں انتظامی حدود کا میرج رجسٹرار مقرر کر سکتی ہے۔ اگر کسی ضلع میں ایک سے زیادہ شادی رجسٹرار
ہوں تو پھر اْن میں سے ایک کو بطور سینیئر رجسٹرار مقرر کر سکتی ہے۔ جب کوئی بھی میرج رجسٹرار پورے ضلع میں صرف ایک ہو اور وہ رجسٹرار اْس ضلع میں سے غیر حاضر ہو یا بیمار ہو جائے یا کسی بھی وجہ سے اْس کا عہدہ عارضی طور پر خالی ہو تو اْس ضلع کا مجسٹریٹ اِس عرصے کے دوران میرج رجسٹرار کے طور پر کام کرے گا۔ سیکشن 8 کرسچن میرج ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت سرکاری نوٹیفیکیشن کے ذریعے کسی بھی کرسچن کو بطور خاص نام یا کسی بھی acceding state کے اندر کسی کو بھی رجسٹرار مقرر کر سکتی ہے۔ وفاقی حکومت اِس طرح کی تقرری کو نوٹیفیکیشن کے ذریعے ختم بھی کر سکتی ہے۔ سیکشن 9کرسچن میرج ایکٹ 1872 کے تحت صوبائی حکومت کسی بھی کرسچن کو بطور خاص نام کے ذریعے سے یا کسی عہدے دار کی حیثیت سے وقتی طور پر آبائی کرسچن (native christion) کو شادی کرنے کا اجازت نامہ دینے کا اختیار دے سکتی ہے۔ اور اِس طرح نوٹیفیکیشن کے ذریعے اِس اختیار کو روک یا ختم بھی کر سکتی ہے۔ سیکشن 10 کے تحت اس قانون کے مطابق شادی صبح 6 بجے سے شام سات بجے کے دوران میں ہوگی۔ لیکن مندرجہ ذیل پر اطلاق نہ ہوگا۔ (۱)۔ چرچ آف انگلینڈ کا سیلرجی جو کہ خاص اجازت نامہ کے تحت صبح چھ اور شام سات بجے کے علاوہ کسی بھی وقت اینگلیکن بشپ آف کمشنری کے signatures اور مہر کے تحت شادی کرسکتا ہے۔2) ( Clergyman جسکا تعلق چرچ آف روم سے ہو وہ صبح چھ اور شام سات بجے کے درمیان کیتھولک بشپ آف ڈائیس یا جس کو انھوں نے اجازت دے رکھی ہو (3) سکاٹ لینڈ چرچ کا سیلرجی مین، چرچ آف سکاٹ لینڈ کے قانون ،رسوم ،تقریبات کے تحت شادی کرسکتا ہے۔

سیکشن 11 کے مطابق چرچ آف انگلینڈ کے پیروکار چرچ آف انگلینڈ کے علاوہ عام طور پر جہاں عبادت کی جاتی ہے وہاں شادی کر سکتے ہیں۔اُس وقت تک کہ ایسا کوئی چرچ مختصر راستے کے ذریعے بھی پانچ میل دور اور اُس وقت جب شادی کرنے والوں نے انگلیکن بشپ آف ڈائیکوس یا اُس کی کمشنری کے دستخط اور مہر کے ذریعہ سے اجازت نامہ لیا ہو خاص اجازت نامے کے لیے رجسٹرار آف ڈائی کوس اضافی فیس طلب کرسکتے ہے۔ سیکشن 12 میرج ایکٹ کے تحت کوئی شادی جو کہ منسٹر آف Religion
کے ذریعے ہونی ہو اور جس کا اجازت نامہ اُس کے پاس ہے جو شادی کا خواہاں ہے تو وہ فرسٹ شیڈوول کے تحت ایک نوٹس منسٹر آف Religion کو دے جس میں مرد یا عورت شادی کرنے کا اظہار کرئے گی اور اُس میں وہ عورت یا مرد بیان کریں گئے(a) نام، پیشہ دونوں افراد کے جو کہ شادی کے خواہشمند ہیں۔) (b دونوں کا رہائشی مقام (c) وقت جب دونوں موجودہ رہائشی مقام پر مقیم ہوئے) (d چرچ یا نجی رہائش جہاں پر شادی ہوگی۔ اگر عورت یا مرد میں سے کوئی بھی نوٹس میں دئیے گئے مقام پر ایک ماہ سے زائد عرصہ پہلے رہائش پذیر ہوا ہو تو وہ مرد/ عورت اُس نوٹس میں یہ تحریر کرئے گی۔ڈائی وورس ایکٹ 1869 کے تحت کوئی بھی خاوند سول کورٹ میں پٹیشن دائر کرسکتا ہے اور یہ درخواست کرسکتا ہے کہ اُس کی بیوی بدکاری کی مرتکب ہوئی ہے اس لیے شادی کی تنسیخ کی جائے اِسی طرح بیوی بھی اپنے خاوند کے خلاف ڈسٹرکٹ کورٹ یا ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرسکتی ہے کہ اُسکے خاوند نے کرسچینٹی کے پروفیشن کو کسی اور مذہب کے پروفیشن میں بدلا ہے یا مسلسل بدکاری میں مبتلا ہے یا پہلی شادی کے موثر ہونے کے باوجود دوسری شادی کر لی ہے یا مرد نے مرد کے ساتھ یا جانوروں کے ساتھ بدکاری کی ہے پٹیشن میں یہ درخواست کی جائے گی کہ فطرتی تقاضوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے اس ایکٹ کے سیکشن 10 کے مطابق عدالت اگر مطمن نہ ہو تو شوا ہد کی بناء پر پٹیشن کو ڈسمس کر سکتی ہے۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب منصور علی شاہ نے حالیہ دنوں میں ایک تفصیلی فیصلہ اِس بابت دیا ہے کہ آئین پاکستان کے بنیسید حقوق کے آرٹیکل کے منافی ہے کہ صرف طلاق کے لیے بیوی یا شوہر پر بدکاری کا الزام لگایا جائے۔ اُنھوں نے سیکشن 14 ڈائی وورس ایکٹ 1869 کے مطابق عدالت اگر مطمن ہو تو طلاق کی ڈگری جاری کردے گی۔ سیکشن 15 ڈائی وورس ایکٹ 1869ء کے مظابق عورت یا مرد کو عدالت شواہد کی بناء پر ریلیف دے سکتی ہے کہ بدکاری کی گئی ہے۔ سیکشن 18 کے تحت کوئی بھی خاوند یا بیوی سول کورٹ میں پٹیشن دائر کر سکتے ہیں کہ اُس کی شادی کو null and void قرار دئے دیا جائے۔ سیکشن 19 ڈائی وورس ایکٹ1869ء کے مطابق اس طرح کی ڈگری مندرجہ ذیل بنیادوں پر جاری کی جائے گی۔ (a) یہ کہ ریسپاونڈینٹ شادی کے وقت یا کیس دائر کرنے کے وقت بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ تھا۔ (b) یہ کہ دونوں خاوند یا بیوی کا آپس میں prohibited decrees کا رشتہ بنتا ہے۔(c) دونوں یا خاوند اور بیوی میں سے ایک شادی کے وقت پاگل تھا۔(d) جب شادی ہوئی تو مرد اپنی پہلی بیوی یا عورت اپنے پہلے خاوند کے ساتھ رہ رہے تھے اور اُس وقت تک اُن کی پہلی شادی قائم تھی۔

ہائی کورٹ ان قوانین میں تبدیلی کرسکتی ہے اور وقت کے ساتھ جو بھی قانون ضروری ہو اُسکی تشریع و تو ضیع کر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430380 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More