بہت خوبصورت میعار ہے پنجاب حکومت کا، منتخب کرنے ہیں
وائس چانسلراور کمیٹی کے چیر مین ہیں جناب رانا ثنا اﷲ۔ کوئی کبڈی ٹیم
سلیکٹ کرنا ہوتی، کہیں پہلوانوں کا انتخاب ہوتا، کہیں مخالفوں کو دبانے کے
لئے گلو بٹوں کی ضرورت ہوتی ، یقیناً رانا صاحب اس طرح کے انتخاب کے لئے
بہترین آدمی ہیں ۔ مگر تعلیم اور تعلیمی اداروں کو رانا صاحب کا کیا سروکار۔
مجھے لگتا ہے حکومت موجودہ وائس چانسلرز کی جگہ کسی گلو بٹ کی تعیناتی کے
لئے کوشاں ہے ۔ اسی لئے رانا صاحب کی خدمات کی ضرورت پڑی ہے۔ شنید ہے کہ
وزیر اعلیٰ نے مستقل وائس چانسلرز کے لئے انٹرویو نما جھلک یا جھلک نما
انٹرویو سے کچھ لوگوں کو فیض یاب کر دیا ہے اور اب صرف فیصلہ باقی ہے ۔ اس
پوسٹ کے اہل لوگوں کے انتخاب کے لئے انتخاب کرنے والے کا بہت پڑھا لکھا
ہونا ضروری ہے اور وہ فہم اور اہلیت اس حکومت کیاور کسی حکومتی عہدیدار کے
پاس نہیں اس لئے یہ حکومت زیادہ تر لوگوں کا انتخاب سونگھ کر ہی کرتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ جب یہ سطور آپ تک پہنچیں تاج کسی سر پر سج چکا ہو۔ اﷲ کرے
کوئی فیصلہ ہو جائے اور فیصلہ سیاسی نہ ہواور پنجاب یونیورسٹی اور انجینئر
نگ یونیورسٹی ملتان کو اچھے وائس چانسلر میسر آ جائیں۔ ویسے میرے خیال میں
موجودہ قحط الرجال میں اس وقت کے قائم مقام وائس چانسلروں سے بہتراشخاص
ملنا بہت مشکل ہے۔مگر حکومت کی اپنی سیاسی مصلحتیں ہیں۔ویسے اگر چند دن میں
فیصلہ نہ ہوا تو انشا اﷲپھر فیصلہ آنے والی حکومت ہی کرے گی۔
انجینئیرنگ یونیورسٹی ملتان کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر سے میں
ذاتی واقف نہیں مگر وہ کیمیکل انجینئرنگ کے شعبہ پولیمرمیں ایک معروف نام
ہیں اور جانے پہچانے انجینئر ہیں۔ پاکستان میں جانے پہچانے پولیمر گروجناب
پروفیسر ڈاکٹرطاہر جمیل بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔پنجاب یونیورسٹی
کے قائم مقام وائس چانسلر ظفرمعین ناصراگر چہ کم گو او رخشک مزاج ہیں۔ مگر
انتہائی محنتی اور دیانتدار آدمی ہیں۔ان کی کارکردگی کا اندازہ ان چند
مہینوں کے کام سے ممکن ہی نہیں اسلئے کہ پنجاب یونیورسٹی ایک بڑی یونیورسٹی
ہے ،اس یونیورسٹی کے پانچ (5)کیمپس، تیرہ (13)ففیکیلیٹیز،ہیلی کالج اور
اوریئنٹل کالج سمیت دس (10)کالجز اور تہہتر (73) ڈیپارٹمنٹ ہیں ۔گیارہ
(1100) سو سے زیادہ کل وقتی اساتذہ اور اس سے بھی زیادہ جز وقتی اساتذہ کام
کر رہے ہیں ۔ یونیوسٹی میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد چالیس (40) ہزار سے
کچھ کم ہے۔ اس تعداد کا یونیورسٹی سے منسلک چھ سو (600) سے زائد کالجوں میں
موجود طلبا کی تعداد سے کوئی تعلق نہیں۔ یونیورسٹی کے ملازمین کی تعداد بھی
ہزاروں میں ہے اٹھائیس (28) ہوسٹل ہیں جن میں چھ ہزار کے قریب طلبا مقیم
ہیں۔نئے وائس چانسلر کو اس سارے گورکھ دھندے کو سمجھنے کے لئے اک مدت درکار
ہوتی ہے۔
یونیورسٹی کے کل وقتی اساتذہ اور ملازمین کی ایک بڑی تعداد میرٹ کی بجائے
سیاسی طور پر بھرتی کی گئی ہے۔ ان سب لوگوں نے اک مافیہ کی طرح یونیورسٹی
میں ہر جگہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ ہر نئے آنے والے وائس چانسلر کو یہ مافیہ
پہلے کھلاتا ہے ، خراب کرتا ہے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کچھ جھگڑے کراتا
ہے پھر صلح صفائی کے لئے اپنی خدمات پیش کرتا اور اپنا لوہا منواتا ہے۔
حکومت کے اپنے مفادات ہیں،وہ اپنے پالتو لوگوں کی حمایت کرتی ہے۔یہ لوگ بھی
وائس چانسلر کے لئے اک امتحاں ہوتے ہیں۔منافع بخش چیزیں ،کینٹین اور زراعت
کے لئے خالی زمین، یہ سب حاصل کرنے کے لئے بہت سے سیاسی اور صحافتی لوگ
اپنی زور آزمائی میں مصروف ہوتے ہیں۔ سابق وائس چانسلر نے ایک صحافی کو ایک
نئی کینٹین بنا کر پیش کی تھی ،وہ مزے سے چلا رہا ہے۔ بعض سیاسی شخصیات
چالیس پچاس سال سے کچھ کینٹینوں پر قابض ہیں۔ساری زیر کاشت زمینیں بھی
سیاسی عناصر کے پاس ہیں کوئی نیلامی یا کوئی قانون ان پر لاگو نہیں ،جووائس
چانسلر پوچھے گا وہ خطرے میں ہو گا۔
انتظامیہ میں خاندانی نظام اس قدر مضبوط ہے کی ایک کرپٹ شخص کو بدلنا چاہیں
تو پتہ چلتا ہے کہ دوسرے نمبر پر اس کا بھائی یا کزن موجود ہے، تیسرے اور
چوتھے نمبر پر بھی اس کے بھتیجے اور بھانجے ہیں۔ایک جتھہ ہے کس کس پر ہاتھ
ڈالا جائے۔ایک ہی خاندان کے بہت سے بندے مختلف شعبوں میں کام کرتے نظر آئیں
گے۔ بھرتی کے وقت ان خاندانی لوگوں کے سوا یونیورسٹی کے ساختہ میرٹ پر کوئی
دوسرا پورا ہی نہیں اترتا۔ اساتذہ میں بھی صورت حال کچھ اچھی نہیں۔سیاسی
اور سفارشی بھرتی یہاں بھی بہت نمایاں ہے۔ تدریس اور ریسرچ سے وابستہ لوگ
بڑے مصروف ہوتے ہیں۔ مگر یہاں زیادہ تراساتذہ پڑھانے میں بھی فارغ اور
ریسرچ میں بھی ہر طرح فارغ ہیں۔ریسرچ پیپر البتہ ساری دنیا کی طرح کسی طرح
چھپوا ہی لیتے ہیں۔ سیاسی میرٹ پر کسی نہ کسی طرح بھرتی کی وجہ سے اﷲرب
العزت نے روزگار کا بندوبست کیا ہوا ہے۔کھاتے بھی ہیں اتراتے بھی ہیں۔سیاست
کرتے اور سینئرز کو گھورتے ہیں۔حقیقت میں تدریس اور ریسرچ کے کلچر کو ان
لوگوں نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
سیاسی بھرتیوں کا بھی کوئی معیار ہونا چاہیئے مگر کوئی نہیں ۔ ایک صاحب ایک
مضمون میں لیکچرر بھرتی ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد کسی دوسرے مضمون میں اسسٹنٹ
پروفیسر کی آسامی پر اپنی کاسہ لیسی کے سبب منتخب ہو جاتے ہیں۔ مضمون سے
تعلق نہ ہونے کے سبب ڈیپاٹمنٹ میں کوئی انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔
وہ ایڈمنسٹریشن سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ کئی سال افسری کے مزے لوٹتے ہیں۔
نئے وائس چانسلر کو وہ قابل قبول نہیں ۔ ڈیپار ٹمنٹ اور مضمون سے عملاً ان
کا کوئی تعلق نہیں اس لئے ڈیپارٹمنٹ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ زبردستی
ڈیپارٹمنٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ مضمون ان کو آتا نہیں کیا کریں۔ سیاست
کرتے ہیں ۔ ایڈ منسٹریشن میں لمبا عرصہ رہنے کے سبب صحافیوں سے بہت تعلق
ہوتاہے۔ کوئی جھوٹی سچی خبر لگوا کر اپنی طاقت کا اظہار کرتے اور وائس
چانسلر کو بلیک میل کرتے ہیں۔ یہ کوئی ایک شخص نہیں ایسے ملتے جلتے بہت سے
لوگ ہیں۔حکومت قائم مقام وائس چانسلر کو دستانے پہنانے کے بعد ہاتھ باندھ
کر رنگ میں بھیج دیتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ صرف اپنابچاؤکر سکتا ہے اور
کرتا ہے کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
میری حکومت سے گزارش ہے کہ جسے بھی وائس چانسلر تعینات کرے تو اسے (Hire
and Fire) کے مکمل اختیارات دے۔اور ان اختیارات کی پاسبانی بھی کرے۔ گند
صاف کرنے کے لئے ہر وائس چانسلر کو ہمت کے ساتھ ساتھ حکومت کی مکمل حمایت
کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ جزا اور سزا کے تصور کے بغیر
لوگوں کا راست کام کرنا محال ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے موجودہ حالات کچھ بہت
زیادہ اچھے نہیں۔ مالی اور اخلاقی طور پر یہ شدید انحطاط کا شکار ہے ۔ جس
غلط شخص کے بارے انتظامیہ ایکشن کا سوچے، بلیک میلنگ کرنے لگتا ہے اوراس
کام کے لئے اس کے پیچھے کسی سیاسی قوت کا سہارہ ہوتا ہے۔ ان حالات کو
سنوارنے کے لئے آہنی ہاتھوں کی ضرورت ہے اور یہ حکومت ہی ہے جو وائس چانسلر
کے ہا تھوں کو آہن فراہم کرتی ہے۔ امید ہے حکومت تعینات ہونے والے نئے وائس
چانسلر کو مکمل اختیارات کے ساتھ اخلاقی مدد بھی فراہم کرے گی کہ ملک کی اس
عظیم جامعہ کو عظیم تر بنایا جا سکے۔
|