اسلامی نظام تعلیم ایسا نظام تعلیم ہے کہ جس کی بنیاد پر
دنیا بھر میں فوجیں بنی ہیں اسلامی نظام تعلیم میں مسلمانوں کے لیے سب سے
اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کا علم حاصل کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے
انسانوں کو کیاکیا احکامت دے رکھے ہیں اور ان پرعمل درآمد کیسے کرنا ہے
تاکہ ہم اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اور پوری انسانیت کو شیطان کے
جالوں پھنس کر تباہ ہونے سے بچا سکیں اور اس بات کا علم حاصل کر سکیں کہ
شیطانی قوّتوں کو شکست دے کر دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکیں مگر ہمارے ملک
کے نام نہاد مسلمان حکمران شیطان کے جالوں میں اپنے بہن بھائیوں اور عزیز
رشتے داروں کو پھنسا کر خود سب سے بہتر بننا چاہتے ہیں
یہ ایک پرانی بیماری ہے جو شیطان کمزور ایمان والے لوگوں میں ڈال دیتا ہے
ان کو اس بات پر آمادہ کر لیتا ہے کہ وہ میرے پیچھے لگ کر اپنے بہن بھائیوں
اور عزیز رشتے داروں کو نیچا دکھا دیں اس کے شیطان بادشاہت اور عیش وآرام
اور ہمیشہ کی زندگی کے خواب دکھاتا ہے اور اکثر لوگ اس کی باتوں میں
آکرکبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اپنے زیر کفالت لوگوں کو نقصان
پہنچا بیٹھتے ہیں حدیث میں آیا ہے کہ ایسا انسان گنہگار اور مجرم ہے یعنی
انسان کے بدترین مجرم اور گنہگار ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے زیر
کفالت افراد مین سے کوئی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر گمراہ ہو جائے اور
حرام کھا لے اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے جس انسان کی غفلت سے اس کا
کوئی زیر کفالت انسان یا جانور خوراک کی قلّت کا شکار ہوکر بھوکا پیاسا مر
جائے
اللہ کی پناہ مگر ہمارے معاشرے میں کم علمی کی بنیاد پر اپنے زیر کفالت
لوگوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور اس کی بے بسی
اور مفلسی سے تڑپنے پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس کو اتنا محتاج کر
دیا جاتا ہے کہ جب چاہیں اس کو جوتے ماریں جب چاہیں اس کو ذلیل رسوا کریں
اور بے بسی کی وجہ سے ہمارے آگے آنکھ ااٹھا نے کی بھی جرآت نا کر سکے اس
بات کی تعلیم حاصل کی جانی چاہیے کہ جس کو ہم نے محتاج بنا رکھا ہے اور اس
کے ساتھ جانوروں والا سلوک کیا جاتا ہے اللہ نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کرنے
کا حکم دیا ہے اللہ تعالی نے اپنے بہن بھائیوں اور عزیز رشتے داروں کے ساتھ
حسن سلوک کا حکم دیا ہے حسن سلوک کہتے ہیں کہ ان کو جیسے انسان اپنی جسم
وجان کی خوراک لباس اور رہائش اور تعلیم تربیّت کا انتظام کرتا ہے ایسے ہی
اپنے بہن بھائیوں رشتے داروں کی عزّت وآبرو کی حفاظت اور جسم وجان کے لیے
خوراک لباس رہائش اور تعلیم و تربیّت کا اپنی طاقت کے مطابق انتطام کرنا
چاہیے
اور ان سے بدلے کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ سے اجر کی
امید رکھنی چاہیے اور جس کے ساتح احسان کیا جاتا ہے اس کے لیے بھی اللہ نے
حکم دے رکھا ہے وہ بھی اپنے محسن کے احسان کا اچھا بدلہ دے اور ہمیشہ احسان
کو یاد رکھے ناشکری نا کرے اللہ تعالیٰ ناشکری کرنے والوں کو پسند نہیں
فرماتا اور جو بندوں کا شکر نہیں ادا کر سکتا وہ اللہ کا شکر بھی نہیں ادا
کر سکتا ہوسکتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ احسان نا کیا جاتا تو وہ زندہ ہی نا
رہتا
اس لیے اپنے محسن کے احسانکو نہیں بھولنا چاہیے یہ اللہ کا حکم ہے مگر
ہمارے معاشرے میں شیطان کے بہکاوے میں آکر احسان کو یاد رکھنے والوں کو
کتّا کمینہ اور منحوس کہا جاتا ہے اس بات سے صاف پتا چلتا ہے کہ کس طرح
شیطان نے لوگوں کو اللہ کا نافرمان بنا رکھا ہے اللہ تعالیٰ نے تو احسان
کرنے والے کو حکم دے رکھا ہے کہ احسان کرکے جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر
اپنے احسان کو ضائع مت کر بیٹھو اور ثواب کمانے کی بجائے گناہ میں نا پڑ
جاو کہ احسان جتلا کر تکلیف پہنچانا اور ذلیل کرنا کبیرہ گناہ ہے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو بندہ کسی کاہن کے پاس
گیا اور جو اس کاہن نے بتایا اس پر یقین کرلیا اس نے میں محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی شریعت کا انکار کیا کاہن کون ہوتا ہے کاہن وہ ہوتا ہے جس کے
پاس شیاطین اور جنّات آسمان سے آئندہ کی خبریں چرا کر لاتے ہیں اور کاہن
اور اس کے چیلے آسمان سے چرائی ہوئی خبروں میں اٹکل پچّو ملا کر جھوٹ اور
بہتان کی آمیزش کرکے لوگوں کو بیان کرتے ہیں جس سے لوگ دین حق سے گمراہ ہو
جاتے ہیں کہ اس کاہن نے تو پہلے پیش گوئی کی تھی جو بلکل سچ ثابت ہو گئی ہے
لہٰذا یہ بندہ تو بہت علم والا ہے اس کو اپنا رہنما بنانا چاہیے اور دین
اسلام کی دعوت دینے والے علماء کرام کو کم علم اور بہروپیے قرار دے کر ان
کو ٹھکرا دیا جاتا ہے اور علمائے حق تو اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں ان
کی دعوت کو ٹھکرانا زیادتی ہے اور کاہنوں کی باتوں میں آکر شیطان کی پوجا
کرنایا گمراہ ہوجانا اور اللہ کی عبادت اور اس کی نازل کردہ شریعت سے منہ
موڑلینا یہ چیزیں انسان میں نا چاہتے ہوئے بھی سرایت کر جاتی ہیں
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہنوں کے پاس جانا اور ان کی
بتائی ہوئی باتوں پر یقین کرنا منع کیاہے اور فرمایا کہ ایسا کرنے سے انسان
کو اتنا گناہ ہوتا ہے کہ جتنا اس شخص کو ہوتا ہے جو اللہ کی نازل کردہ
شریعت سے انکار کردیتا ہےاللہ کی پناہ ایسے برے فعل سے جس طرح کوئی انسان
کسی بازارو عورت کے ساتح رات گزارتا ہے وہ جتنا بھی چاہے لوگوں کو یقین
دلانے کی کوشش کرے گا کہ میں نے اس عورت کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے مگر
انسان اس کی نحوست کا شکار ہوجاتا ہے سب اچھے برے لوگ اس کے کردارا پر شک
کرنے لگ جاتے ہیں ویسے بھی کسی نامحرم عورت کے ساتھ ایک چھت کے نیچے رات
گزرانا کہ کمرے میں عورت اور مرد کے علاوہ کوئی نا ہو حرام ہے تو بازاروں
عورت کے ساتھ تنہائی کے لمحات گزارنا تو اس سے بھی بڑا گناہ ہے اسی طرح سے
کاہنوں کے پاس جاکر انسان عقیدے کے لحاظ سے بدکردار ہو جاتا ہےاور گمراہ ہو
جاتا ہے لیکن آج کے دور میں نام نہاد دانشور کہتے ہیں کہ علم علم ہی ہوتا
ہے چاہے جادو کا علم ہو یا کاہنوں والا علم چاہے علم نجوم ہو چاہے شرکیہ
اور فحاشی و عریانی اور ناچ گانے والے علوم ہوں چاہے ڈراموں اور فلموں میں
اور ناولوں میں کام آنے والے علوم ہوں اور چاہے دجّالی طاقتیں حاصل کرنے
والے علوم ہوں
حالانکہ اللہ نے تو اس بات کا علم حاسل کرنے کی تلقین فرمائی ہے کہ اس بات
علم حاصل کرو کہ عبادت کے لائق صرف اللہ پاک ہے اور اللہ کے دین کو دنیا
میں کیسے نافذ کرنا ہے اور باطل ادیان کا خاتمہ کیسے کرنا ہے لیکن ہمارے
تعلیم یافتہ لوگ اتنی جسارت کر جاتے ہیں کہ دین اسلام ملاّوں کا کلچر ہے
اور ہمارا کلچر جدید کلچر ہے لہٰذا ملوانوں کو ان کا پرانا مذہب مبارک ہو
ہمیں تو اپنے جدید کلچر کو عام کرنا ہے اور یوں دوسرے لفظوں میں اس بات کا
اعلان کر دیا جاتا ہے تاکہ پوری دنیا سے اللہ کے دین کا خاتمہ کر دیں اور
انسانوں کے بنائے ہوئے دین اور کلچر کو نافز کر دیں اور اپنی مرضی کی
ترمیمیں کرتے رہیں اور ظلم و زیادتی اور دھوکے سے لوگوں سے ہتحیائے ہوئے
مالوں سے اپنی تجوریاں اور اکاونٹ بھرتے رہیں اور شیطان کے کہے ہوئے الفاط
کو پورا کرنے میں شیطان کے مددگار بن جائیں
ہمارے میڈیا والے یہ باقائدہ اعلان کرتے ہیں کہ جو کفر اختیار کرے اس کے
لیے جدید سہولتیں فراہم کی جانی چاہییں اور ملوانوں کو تمام جدید سہولیات
اور ایجادات سے محروم کر دینا چاہیے لیکن ان عقل کے اندھے نام نہاد
دانشوروں کو یہ علم نہیں ہے کہ جو اللہ کے دین کو اختیار کرے اورباطل ادیان
کا انکار کرے اس کے لیے ساری سہولتیں ہونی چاہییں اور اموال اور جائیدادوں
کے مالک توحید پرستوں کو بنایا جانا چاہیے یہ لوگ تو بات کرتے ہیں جدید
سہولیات اور ایجادات تو الگ بات ہے جیتے جاگتے انسان نوکری چاکری دیکھ بھال
حفاظت کرنے کے لیے مال غنیمت میں پیش کیے جاتے تھے جو جوان اور باصلاحیت
ہونے کے باوجود اپنے توحید پرست مالکوں کی وفاداریاں کرتے تھے دھوپ میں
سایہ فراہم کرتے تھے گرمی میں پکھیاں چھلتے تھے گھروں کی صفائی کرتے تھے
بچووں کی نگہداشت کرتے تھے کھانا پکاتے کپڑے دھوتے اور کھیتوں اور باگوں
میں کام کاج کرتے تھے اور اپنے مالکوں سے اپنے باپ داداوں سے زیادہ پیار
کرتے تھے اور ان کو زندگی کا ایک مقصد مل گیا تھا ان کو یہ احساس دلایا گیا
تھا کہ جس کافرانہ ماحول میں وہ غلام بننے سے پہلے جیتے تھے اس میں اپنے
سگے بہن بھائی اور رشتے ناطے والے مال جان اور عزّت کے لٹیرے تھے ان سے
کوئی چیز محفوظ نا تھی کسی بھی وقت دوست نما دشمن حملہ کرکے زندگی کا خاتمہ
کر دیتا
لیکن اہل سلام کی غلامی میں آکر ان کو اپنے آقاوں سے محبّت ملی ان کو عزّت
ملی ان کو مال جان اور عزّت محفوظ رہنے کی گارنٹی ملی اور سب سے بڑھ کر
ایمان کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سازگار ماحول ملا اور اس بات کا پتا چلا
کہ انسان تو اللہ کی عبادت کے لیے پیدا ہوا ہے جب ان غلاموں نے اپنے
کافرانہ معاشرے سے ایمان والوں کے معاشرے کا موازنہ کیا تو دیکھا کہ ہم لوگ
تو خونکوار جانوروں والی زندگی گزار رہے تھے اور مار دھاڑ لوٹ مار قتل
وغارت عزّتوں کی پامالی اور سب کچھ سہنے کے لیے زندگی کا زہر پینا پڑتا تھا
اور جرم بن کر دلّا بن کر جیو یا خود کشی کرو ایسا کافرانہ ماحول تھا دنیا
میں جس کا خاتمہ اسلام کرتا ہے ان کو غلامی میں ایسا سکون ملا جو ان کو
اعلیٰ عہدوں اور ٹھاٹھ باٹھ میں بھی نہیں ملا تھا تو انھوں نے غلامی میں رہ
کر اپنی قدرتی صلاحیّتوں کو بروئے کار لا کر حق حلال کا لقمہ کھانے کا
موقعہ ملا اور پھر انھوں نے حلال کی کمائی کما کر آزادی حاصل کی اورحلال کی
کمائی کما کر ترقیّ حاصل کی اور اللہ کی عبادت کرنے اور اللہ کی شریعت پر
عمل کرنے کے مواقع ملے تو وہ ایک کامیاب اور نیک انسان بن کر جینے لگے اور
اپنے آقاوں کی خدمت کرتے رہے اور ان کو پتا تھا کہ ہم نے اپنے آقاوں کا مال
جان اور عزّت ان سے چھیننا نہیں ہے بلکہ ان چیزوں کی حفاظت کرنی ہے اور اس
خدمت اور حفاظت کی مزدوری جو ملے گی وہ ہمارے لیے حلال ہوگی تو جتنی دیکھ
بھال انسان کر سکتے ہیں مشینیں تو نہیں کر سکتی ہیں جدید سہولیات تو نہیں
کر سکتی ہیں
تو اس وقت جو غلام ہوتے تھے وہ اپنے آقاوں کے اموال کہلاتے تھے اور جیتے
جاگتے انسانوں کے آقا وہ ہی بن سکتے تھے جو توحید پرست بلند اخلاق متقی
پرہیزگار اور عدل و انصاف کرنے والے ہوتے تھے تو مشینوں اور ٹیکنالوجیوں کی
کیا حیثیت ہے اور دوسری طرف جو لوگ کریمینل تھے ان کے لیے تو سخت سزائیں
تھیں کوڑوں کی اور قیدو بند اور جلا وطنی کی اور حتّی کہ ہاتھ پاوں کاٹنے
کی اور گردنیں کاٹنے کی تاکہ کرپشن کا ٹوٹلی خاتمہ کیا جاسکے اور امن و
امان کی صورت حال کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکے ہمارے دانشور الٹے مشورے دے
دے کر حکمرانوں اور عوام بلکہ پورے معاشرے کو خراب کر رہے ہیں جن لوگوں کو
سزائیں دینے کا حکم ہے ان کو مراعات دینے کی بات کرتے ہیں اور جن لوگوں کو
نقصان پہچانے سے اللہ کی طرف سے رسول اللہ کی طرف سے منع کیا گیا ہے حتّی
کہ جن سے نفرت کرنے کو بھی اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا
ذریعہ قرار دیا گیا ہے ان کو ہر قسم کے فوائد اور مراعات سے محروم کر دینے
کی بات کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ساری چیزیں تو انگریزوں نے تخلیق کی
ہیں لہٰذا جو انگریزوں کے دین کو جو اس وقت سیکولرازم ہے اور عیسائیت ہے اس
کو اختیار کرنے کی بات کی جاتی ہے اور ساری کی ساری فتوحات اور کامیابیوں
کا سہرا انگریزوں کے سر باندھ دیا جاتا ہے اور دنیا کے امن کے ٹھیکیدار ان
کو قرار دے دیا جاتا ہے جو اس دین کا انکار کرنے والے ہیں جس دین کے ماننے
والوں کی غلامی کو اپنے لیے خوش قسمتی سمجھتے تھے جی ہاں اسلام وہ دین ہے
جس کے ماننے والوں کی غلامی کرنا ہی دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام کے لیے
زندگی کو پا لینے کے مترادف ہے
بھال اور حفاظت اور پرورش کی جانی چاہیے جیسے اپنے بچوں کی کی جاتی ہے اپنے
پیاروں سے بڑھ کر ان کو پیار اور تعاون دیا جانا چاہیے کیونکہ ہمارے بچّے
تو ہمارے پیارے ہیں مگر اہل اسلام اہل توحید نیک متقی پرہیزگار لوگ اللہ کے
پیارے ہوتے ہیں اور جو انسان اللہ سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ اللہ والوں سے
زیادہ سے پیار کرے تو درست بات ہوگی ورنہ غلط بات ہوگی میں سیکولر دانشوروں
سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا انگریز اور ہندو سیکولر اللہ سے سب سے زیادہ
پیار کرتے ہیں جو ان کے ساتھ وفاداری کی اور ان کی شکر گزاری کی دہائی دی
جاتی ہے نہیں بلکہ مسلمان ملکوں میں جو ابتر حالات ہیں کرپشن ہے نفرتیں ہیں
مفاد پرستی ہے قتل وقتال اور مال جان اور عزّتوں کا لوٹنا ہے اور اللہ کی
حرمتوں کا پامال کرنا ہے اس کے ذمّہ دار انگریز ہیں وہ ماسٹر مائنڈ ہیں
ہمارے ملکوں کا سارا ریکارڈ نقشے شجرہ نسب کاروبار کی تفصیلات ان کے پاس
ہیں اور وہ ہمیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتے ہیں اور وہ ہمارے مسائل کو حل
کرنے کی بات ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی اپنی فتوحات تسلیم کراتا ہے اور باقی
سب کچھ سہی بیان کیا جاتا ہے مگر حل الٹا بیان کیا جاتا ہے ہمارے دانشور ان
کی ترجمانی کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بڑے خیر خواہ ہیں نہیں میرے بھائیو ایسا
ہر گز نہیں ہے میں یہاں ایک مثال دے کر بات گوش گزار کرنے کی کوشش کرتا ہوں
جیسے ہمارے دانشور یہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو خریدا جارہا ہے
مسلمانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچایا جارہا ہے مسلمانوں کی نئی نسلوں کو
بگارا جا رہا ہے ان کی جسنی جسمانی ذہنی صلاحیتوں کو ویسٹ کیا جارہا ہے ان
کے اموال کو تباہ کیا جارہا ہے
فیملی یونٹ کو کرچی کرچی کیا جارہا ہے تہذیب وتمدّن کو مسخ کیا جارہا ہے یہ
اور اس رح کی ساری نشان دہیاں تو ٹھیک ٹھیک کی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی
فتوحات کے جھنڈے گاڑ سکیں مگر ہمدد بن کر ان معاملات کی اصلاح کے طریقے جان
بوجھ کر الٹے بیان کیے جاتے ہیں تاکہ یہ قوم اور زیادہ پستیوں میں چلی جائے
اور ہمارے مسلمان دانشور ان کو اپنا مخلص خیر خواہ سمجھ کر ان کے مکّارانہ
مشوروں اور پالیسیوں کو رائج کرا دیتے ہیں اور ان کے اندازے سے زیادہ ہماری
مسلمان قوم پستیوں میں چلی جاتی ہے
میں بات یہ بیان کر رہا تھا کہ حکمرانی کا اہل مسلمان اور نیک لوگوں کو
بنانا چاہیے کیوں کہ یہ اللہ کا حکم ہے ناکہ منکروں بے دینوں اور دہریوں کو
حکمرانی کا اہل بنایا جائے اور اموال کا مالک بنانا چاہیے اللہ کا حکم تو
یہ ہے کہ متقّی پرہیز گار لوگوں کو اپنا حمران بناو ان کو اموال اور
جائیدادوں کا نگران بناو اور بے دینوں اور اللہ کے نازل کردہ دین کا انکار
کرنے والوں کو ان کے اموال اور جائیدادوں اور اثاثوں سے محروم کردو ان کو
قیدوبند اور جلاوطنی اور ذلّت کی مار مارنے کی سزائیں دو لیکن ہمارے تعلیمی
نظام نے سب کچھ الٹ پلٹ کرکے رکھ دیا ہےاور کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل
کردہ دین کے وفاداروں کو سب قسم کے اموال سے جائیدادوں اور اثاثوں اور
حکمرانیوں سے محروم کردو اور منکروں اور کافروں اور دین دشمنوں کو اموال
اور اثاثوں کا مالک بنا دو تاکہ وہ پوری دنیا سے اللہ کے دین کاخا تمہ کر
دیں اور انسانوں کے بنائے ہوئے دین اور کلچر نافز کر دیں اور اپنی مرضی کی
ترمیمیں کرتے رہیں اور ظلم و زیادتی اور دھوکے سے لوگوں سے ہتھیائے ہوئے
مالوں سے اپنی تجوریاں اور اکاونٹ بھرتے رہیں
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ دین اسلام جس دور کا ہے اس دور میں تو کاریں بسیں
ٹرینیں ہوائی جہاز سیل فون ٹیلی ویژن کیبل انٹر نیٹ کیمرے اور روبوٹ نہیں
ہوا کرتے تھے گھڑیاں بھی نہیں ہوا کرتی تھیں اور جدید اسلحہ نہیں ہوا کرتا
تھا وہ تو اونٹوں اورخچروں کا دور تھا تیر اور تلواروں کا دور تھا وہ تو اس
زمانے کے مقابلے میں پتھر کا زمانہ تھا مٹّی کے برتنوں کا زمانہ تھا بقول
ان کے اب جدید دور کے جدید تقاضے ہیں اور جدید قانون سازیاں بھی ناگزیر ہیں
میں ان سے کہتا ہوں کہ جتنی بھی سہولیات ہیں سب کی سب اموال میں اثاثوں میں
شامل ہیں اور اللہ کا حکم ہے کہ اموال اور اثاثوں اور جایدادوں اور عہدوں
کا مالک متّقی پرہیزگار لوگوں کو بناو مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی مشہور و معروف حدیث ہے کہ جو لوگ ایمان لانے کے بعد نماز قائم
کرتے ہیں اور زکوٰہ ادا کرتے ہیں اور اس بات کی دل سے شہادت دیتے ہیں کہ
عبادت کے لائق صرف اورصرف اللہ وحدۃ لاشریک ہے اور شہادت دیتے ہیں کہ محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور آخری پیغمبر ہیں اور دین حق
سے وفاداری کرتے ہیں ان کے اموال اور اثاثے ہم اہل اسلام سے محفوظ ہیں
دوسروں کے اموال اور جائیدادیں اور اثاثے ہم چھین کر بیت المال میں شامل
کرنے کا حق رکھتے ہیں تاکہ وہ اسلامی مملکت کے لیے نقصان کا باعث نا بن
جائیں اور ایسے خطرناک لوگوں کو قیدوبند خراج کی ادائیگی اور اثاثوں سے بے
دخلی اور جلاوطنی کا سامنا کرنا ہوگا ذلّت کی مار کا سامنا کرنا ہوگا تاکہ
وہ ملک دشمن اور اسلام دشمن سرگرمیوں میں ملوّث نا ہو جائیں اور اسلام کا
تختہ الٹنے کی سازشوں میں نا لگ جائیں لیکن یہ بے دین لوگ ہمارے ملک کے
اقتدار پر کئی دہائیوں سے پنجے جمائے ہوئے ہیں اور ملک توڑ چکے ہیں اور
تختہ الٹ چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو ملک وقوم کے بڑے وفادار ہیں اور
خیر خواہ ہیں کفر کی اجارہ داری انہی لوگوں نے مسلّظ کر رکھی ہے
|