عقيدۂ توحيد دينِ اسلام کي اساس اور بنياد ہے، اِس کي صحت
کے بغير انسان اللہ تبارک و تعاليٰ کي رحمت اور حضور نبي اکرم صلي اللہ
عليہ وآلہ وسلم کي سچي محبت اور شفاعت کا مستحق نہيں ہو سکتا- توحيد تمام
عقائد کي جڑ اور اصل الاصول ہے اور اعمالِ صالحہ دين کي فرع ہيں- درخت کي
بقا فروع سے نہيں اصل سے ہوتي ہے- شاخوں اور پتوں سے درخت قائم نہيں رہتا-
جس طرح دل و دماغ انسان کي اصل ہے اور آنکھ، ناک، کان، زبان، ہاتھ اور پاۆں
فروع ہيں اِسي طرح دين اِسلام کي اصل عقائد ہيں اور اعمالِ صالحہ اس کي
شاخيں ہيں- دين اِسلام کا پہلا اور بنيادي عقیدہ اور رکن توحيد ہے- اللہ
تعاليٰ اپني تمام صفاتِ اُلوھيت اور کمالاتِ حقيقيہ سے متصف ہے اور اپني
اُن صفات و کمالات ميں يکتا اور واحد و لاشريک ہے-
اب ہم ديکھتے ہيں کہ توحيد کا معني اور مفہوم کيا ہے ؟ توحيد ’وحدت‘ سے بنا
ہے جس کا معني ہے : ايک ماننا اور ايک سے زيادہ ماننے سے انکار کرنا- آئمہ
لغت نے توحيد کي تعريف اس طرح کي ہے :
التوحيد تفعيل من الوحدة، وهو جعل الشيء واحداً، والمقصود بتوحيد الله
تعالي اعتقاد أنه تعالي واحد في ذاته وفي صفاته وفي أفعاله، فلا يشارکه
فيها أحد ولا يشبهه فيها أحد.
’’توحيد ’الوحدۃ‘ سے باب تفعيل کا مصدر ہے- اس سے مراد کسي چيز کو ايک قرار
دينا ہے- اللہ تعاليٰ کي توحيد سے مرادیہ ہے کہ اس چيز کا اعتقاد رکھنا کہ
اللہ تعاليٰ اپني ذات، صفات اور افعال ميں واحد و يکتا ہے ان ميں اس کا
کوئي شريک نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئي مشابہ ہے‘‘
جب توحيد کے شرعي اور اصطلاحي مفہوم پر غور کيا جاۓ تو يہ بات سامنے آتي ہے
کہ شريعت کي اصطلاح ميں يہ عقيدہ رکھنا توحيد ہے کہ’’ اللہ تعاليٰ اپني
ذات، صفات اور جملہ اوصاف و کمالات ميں يکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئي
ساجھي يا شريک نہيں، اور کوئي اس کا ہم پلہ يا ہم مرتبہ نہيں-‘
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خود ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے
کہ ہم اپنے دین اور اپنی آخرت کے بارے میں سوجھ بوجھ اور معلومات حاصل کر
سکیں یا تحقیق کر سکیں اور جان سکیں کے ہمارا دین اور ہمارا پروردگار ہم سے
کیا چاہتا ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم دین اور شریعت کے متعلق
جاننے کے لئے ان لوگوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جنہیں خود پتا نہیں ہوتا کہ ان
کا دین کیا ہے اور علم اور حقیقت سے ان کا دور کا بھی کوئی رشتہ نہیں ہوتا،
کیونکہ ہم میں مسجد اور مکتب تک جانے کی ہمت نہیں ہے اور ہماری پہنچ زیادہ
سے زیادہ یا تو کسی جلسے ، مجلس یا محفل میں مدعو کئے گئے ان اشخاص تک ہوتی
ہے جو محفل کو سرور بخشیں اور چار چاند لگا دیں یا پھر سوشل میڈیا تک ۔
اور یہ دونوں راستے پوری کوشش سے گمراہی پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں اگر اپنے
آپ کو اور اپنے بچوں کو توحید اور آخرت کی طرف راغب کرنا ہے تو پلیز ان
علماء کی طرف رجوع کریں جن کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ انہوں نے واقعا
علم دین پڑھا ہے
خداوند ہم سب کو اپنی حقیقی معرفت عنایت فرمائے اور آخرت میں محمد و آل
محمد علیہم السلام کی شفاعت نصیب فرمائے۔ آمین
|