عینا، مینا طلسمی محل میں

از قلم:دیا خان بلوچ، لاہور
عینا اور مینا ،دو پیاری سی مچھلیاں ہیں ،جو کہ سمندر کے گہرے پانی میں رہتی ہیں۔دیکھنے میں یہ جتنی چھوٹی سی، معصوم سی ہیں،پر ہیں آفت کی پرکالائیں۔ہر دم نت نئی شرارت کرنے کو تیاررہتی تھیں۔یہ پچھلے دنوں کی بات ہے جب انہوں نے سنہری مچھلی کی مدد کی تھی۔سنہری مچھلی سمندر میں موجود موتیوں کی رکھوالی کرتی تھی۔چند دن پہلے کیا ہوا کہ اس کے موتی چوری ہونے لگے۔سنہری مچھلی بہت پریشان ہوئی،جانتی تھی کہ سب اس سے ڈرتے ہیں،پھر نجانے کون ہے جس میں اتنی ہمت آگئی تھی۔اس نے عینا مینا کو بلایا تو انہوں نے معاملے کی جانچ پڑتال کی۔معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے بعد وہ دونوں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہی تھیں۔سنہری مچھلی بولی: عینا مینا! کیا ہوا؟کچھ مجھے بھی تو بتاؤ نا۔کون ہے چور؟؟؟
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ،کچھ کہنے کو لب کھولے،لیکن انہیں پھر سے ہنسی کا دورہ پڑا تو وہ ہنس ہنس کر بے حال ہوگئیں۔
سنہری مچھلی کو بہت غصہ آیا۔وہ بولی:
اگر تم دونوں نے مجھے نا بتایا تو میں تم دونو ں کو اس نیلے پنجرے میں بند کر دوں گی۔سنہری مچھلی کی دھمکی کام کر گئی تھی،وہ دونوں ڈر کے مارے ہنسنا بھول گئیں۔مینا بولی:
پیاری مچھلی! اصل میں بات ہی ایسی ہے کہ ہماری ہنسی رک ہی نہیں رہی تھی۔مجھے یقین ہے آپ بھی سنیں گی تو ہنسیں گی۔کیوں عینا۔مینا نے اس کی تائید چاہی۔
اچھا پر بتاؤ تو سہی،چورکون ہے؟سنہری مچھلی نے بے تابی سے پوچھا۔
عینا بولی: اصل میں موتی چوری نہیں ہو رہے ،سنہری مچھلی ،بلکہ انہیں کوئی کھا جاتا ہے۔
ہیں ؟؟؟کھا جاتا ہے ،پر کون؟
اب کی بار مینا بولی: وہاں جو لال دیوہیکل مچھلی موجود ہے وہ کھا جاتی ہے۔اصل میں اسے رنگ برنگے موتی بہت اچھے لگتے ہیں اور وہ انہیں رات کی تاریکی میں کھا جاتی ہے۔اس لئے چور تو کوئی نہیں،بلکہ رکھوالن ہی کھا رہی ہے موتی۔یہ کہہ کراس نے عینا کی طرف دیکھایہ اشارہ تھا کہ بھاگ چلیں۔
اچھا سنہری مچھلی ،اب ہمیں اجازت دو۔یہ کہہ کر وہ دونوں تیزی سے غوطہ لگا تی آگے نکل گئیں تھیں۔
اب بہت دن ہوئے عینا مینا نے کوئی شرارت نہیں کی تھی۔کافی سکون سے دن گزر رہے تھے۔اچانک انہیں پتہ چلا کہ سمندر کی تہہ میں ایک طلسمی محل ہے جس میں بہت نایاب سے ہیرے اور موتی رکھے ہیں۔لیکن آج تک کوئی ان کو حاصل نہیں کر سکا تھا۔کہا جاتا ہے کہ آج تک جو بھی اس محل میں گیا بھول بھلیوں میں پھنس کر رہ گیا ہے۔واپسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب جب سے ان دونوں نے اس طلسمی محل کا سنا تھا تو ان کی روحیں بے چین ہوگئی تھیں۔وہ ہر حال میں اس محل کی سیر کرنا چاہتی تھیں۔اس کے لئے انہوں جل ککڑے سے ایک میٹنگ رکھی۔
جل ککڑے بھیا،جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہمیں ہمیشہ نئے نئے تجر بات کرنے کی عادت ہے اور ہم اس سب کے بناء رہ بھی نہیں سکتے،تو اب آپ ہی ہماری رہنمائی کریں کہ ہم کس طرح اس طلسمی محل میں داخل ہوسکتے ہیں۔
ارے !تم دونوں کو کیا ہوگیا ہے؟ کیوں اپنی ننھی سی جان کی دشمن بن گئی ہو۔وہاں جانے کا سوچا بھی کیسے تم دونوں نے؟جل ککڑے نے غصے سے کہا۔
جل ککڑے بھیا!آپ کو پتہ ہے اﷲ تعالیٰ نے یہ کائنات اور اس میں موجود تمام اشیاء کو تسخیر کرنے کے لئے بنایا ہے۔ہم میں بھی حس پائی جاتی ہے کہ ہم اس پورے سمندر کی سیر کریں اور دیکھیں کہ اﷲ نے کتنا پیارا سمندر اور کتنی خوبصورت چیزیں بنائی ہیں۔اس لئے ہم نے سوچا ہے کہ ہم اس طلسمی محل کی سیر کریں گے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک واحد آپ ہی ہماری مدد کر سکتے ہیں۔کیوں کہ آپ کے دادا نے اس محل کی سیر کی ہے اور وہ زندہ سلامت واپس آگئے تھے۔آپ تو جانتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد اورو ں کے کام آنا ہے تو آپ ہماری مدد کر دیں نا۔
ان کی بات سن کر جل ککڑا مسکرانے لگا،پھر بولا:اچھا تو پوری تیاری کے ساتھ آئی ہو تم دونوں۔اب تو مدد کرنے کو دل کرتا ہے ۔لیکن ایک بات یاد رہے بلکہ وعدہ کرو کہ جو کچھ میں تم لوگوں کو بتاؤں گا تم دونوں کبھی اس کا کسی سے ذکر نہیں کرو گی۔
جی ،بالکل پکا وعدہ،ہم کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے۔عینا اور مینا نے سچے دل سے کہا۔
اچھا تو پھر سنو۔۔۔۔یہ کہہ کر جل ککڑا چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگیا پھر بولا:
طلسمی محل میں داخل ہونے کا ایک راستہ ہے اور وہ ہے محل کے اوپر بنے ہوئے پھول میں۔وہاں جا کر تم دونوں آسانی سے محل میں داخل ہو سکتے ہو۔لیکن واپسی۔۔۔۔جل ککڑے نے ایک گہری سانس لی۔
واپسی کیا۔۔۔۔عینا اور مینا نے ایک ساتھ پوچھا۔
اس طلسمی محل سے صرف وہ لوگ واپس آئے ہیں جنہوں نے لالچ نہیں کی۔میرے دادا زندہ واپس لوٹ آئے تھے کہ انہوں نے وہاں موجود ہیروں اور دوسرے جواہرات کو چوری کرنے کا نہیں سوچا تھا۔اگر کوئی ایسا کرے تو پھر وہ واپسی کا راستہ بھول جاتا ہے۔طلسمی محل کی بھول بھلیوں میں ایسا گم ہوتا ہے کہ اس کا نشان مٹ جاتا ہے۔
اوئی۔۔عینا اور مینا دونوں ڈر کے مارے ایک دوسر ے لپٹ گئیں۔
ان کی حالت دیکھ کر جل ککڑا ہنسا اور بولا:
دیکھا ،ڈر گئی نا۔چھوڑو بس یہ تم لوگوں کا کام نہیں۔
ارے واہ ایسے کیسے۔۔۔اب ایک بار ٹھان لیا ہے تو جائیں گے ضرور۔بس آپ ہمیں اس پھول تک پہنچا دیں۔ہم دونوں چند گھنٹوں کی سیر کر کے واپس آجائیں گے۔
اچھا تو پھر چلو۔جل ککڑا بولا۔
جی چلو۔جل ککڑا آگے آگے اور عینا ،مینا پیچھے پیچھے تھیں۔آدھے گھنٹے بعد وہ طلسمی محل کے اس پھول پر موجود تھے جہاں سے وہ محل کے اندر داخل ہوگئے۔جل ککڑا انہیں الوداع کہتا آگیا تھا۔اسے ڈر بھی تھا کہ اگر وہ واپس نا آئیں تو۔۔۔یہ سوچ کر اس پر خوف طاری ہونے لگا تھا۔
عینا ،مینا جیسے ہی محل میں داخل ہوئیں،وہ اپنی آنکھیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔انہیں ایسا لگا جیسے وہ روشنیوں کے محل میں آگئی ہوں۔طلسمی محل،جیسا نام تھا ویسا ہی اندر سے تھا۔ ان کو سمجھ ہی نہ آیا کہ کس سمت جائیں اور کس جگہ کو پہلے دیکھیں۔خیر پھر دونوں نے ادھر ادھر گھومنا شروع کیا اور پھر دیکھتی ہی چلی گئیں۔ہر طرف خوبصورت رنگوں کے موتی بکھرے تھے۔در و دیوار شفاف موتیوں سے سجے تھے۔عینا نے دیکھا مینا ایک دم اداس ہوگئی ہے۔
کیا ہوا پیاری بہنا؟عینا نے پوچھا۔
اتنا پیارا محل ہے اور کسی نے دیکھا ہی نہیں تو کیا فائدہ۔۔۔
ارے میری بھولی سی بہنا،اس محل کو دیکھنے کے لئے بہت ہمت چاہیے ،دیکھو اپنے آس پاس ۔یہ اتنے سارے بیش قیمت موتی اور ہیرے یہاں موجود ہیں۔ان سب کو دیکھ کر کون چاہے گا کہ وہ یہاں سے کچھ نہ لے جائے یا صرف دیکھ کر ہی دل کو خوش کر لے۔اگر ہم نے بھی دوسروں کی طرح غلطی کی اور کوئی بھی موتی چرایا تو ہم بھی یہاں سے کبھی پلٹ کر نا جاسکیں گے۔اس دنیا کی عجب ہی کہانی ہے مینا،ہماری سمجھ سے باہر۔۔۔عینا گہری سانس لے کر بولی۔
ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ہم اپنا وعدہ یاد رکھیں گے ۔مینا نے کہا، آؤ اس کی تہہ میں جاتے ہیں دیکھیں تو وہاں کیا ہے۔ارے ہاں چلو۔پھر
دونوں برق رفتاری سے تہہ خانے کی بڑھیں۔وہاں انہوں نے عجیب ہی منظر دیکھا۔تہہ خانہ کھلا تھا،وہاں سے کسی کے رونے کی آواز آرہی تھی۔پہلے تو وہ گھبرا گئیں۔لیکن پھر ہمت کر کے آگے بڑھیں تو دیکھا ایک پیاری سی جل پری رسیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔رونے کی آواز اسی کی تھی۔عینا اور مینا تیزی سے اس کی جانب بڑھیں،کیوں کہ مصیبت زدہ کی مدد کرنا ان کا اولین شوق تھا۔
ارے پیاری جل پری تمہیں یہاں کس نے قید کر رکھا ہے؟عینا نے پوچھا۔
جل پری نے انہیں اپنے نزدیک آتے دیکھا تو وہ فوراً اپنے اصلی روپ میں آگئی۔وہ ایک ڈراؤنی سی چڑیل تھی ۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔آج اتنے دنوں بعد کوئی مزے کا شکار آیا ہے ،میں تم دونوں کو کھا کر اپنی بھوک مٹاؤں گی۔یہ سننا تھا کہ عینا اور مینا تھر تھر کانپنے لگیں۔
عینا ،سوچو اب ہم کیا کریں ،کیسے یہاں سے فرار ہوں؟مینا نے اپنے بجتے دانتوں پر بمشکل قابو پاتے ہوئے کہا۔
میں کیا سوچوں؟؟؟؟اس نے مینا کے پیچھے چھپتے ہوئے کہا۔دونوں سوچنے لگیں کہ کیا کریں۔عینا کی نظریں اوپر اٹھیں تو ایک دم اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
اگر ہم اس فانوس کو اس چڑیل پر گرا دیں تو۔۔۔۔اس نے سوالیہ نظروں سے مینا کی طرف دیکھا۔
ارے ہاں ،کیا یہ ممکن ہے؟مینا بولی۔
سب کچھ ممکن ہے ،بس ہمیں تھوڑی ہمت سے کام لینا ہوگا۔عینا جوش سے بولی۔
اچھا بتاؤ ہمیں کیا کرنا ہو گا اس کے لئے۔
دیکھو میں یہاں سے اوپر کی طرف جاؤں گی،تم وہ باریک سی ڈوری دیکھ رہی ہو اسے میں کاٹوں گی اور یہ فانوس اس چڑیل پر گرے گا ،جب تک وہ اس کے حصار سے نکلے گی تب تک ہم اس کی پہنچ سے دور جا چکے ہوں گے۔بس تم نے اس کی آنکھوں کے سامنے رہنا ہے ،اور اسی طرح ڈرتے رہنا ہے۔عینا نے آہستہ سے کہا۔
اس کے بعد عینا نے اپنے منصوبے پر عمل کرنا شروع کر دیا۔تھوڑی سی جدو جہد کے بعد وہ اس فانوس کی تار کو کاٹنے میں کامیاب ہو گئی تھی،جیسے ہی فا نوس اس چڑیل پر گرا ،وہ درد سے چلانے لگی۔اسی لمحے عینا اور مینا اس تہہ خانے سے فرار ہوگئیں۔تہہ خانے سے باہر نکلتے ہی دونوں نے گہری سانس لی ۔پھر ایکدوسرے کو شاباس دی،اور پھر وہ واپس جانے والے راستے کی جانب بڑھ گئیں۔چند لمحوں بعد وہ اس طلسمی محل سے باہر تھیں۔تھوڑی دیر وہ ایک جگہ سستانے کو رکیں۔
عینا ،یہ طلسمی محل ہے تو پیارا پر کسی کام کا نہیں،مینا بولی۔
اچھا ،وہ کیسے؟اس نے پوچھا۔
دیکھو نا،ہم نے اتنا کچھ دیکھا،سب کچھ دل و نظرکو بھانے والا تھا پر سکون کہیں نہیں تھاعینا۔ایسا لگتا تھا جیسے کسی قید میں آگئے ہوں۔سب جادو تھا۔ہمارا گھر سادہ سا ہے، پر سکون تو ہے نا۔
ہاں مینا،تم ٹھیک کہتی ہو۔اپنا گھر بہت پیارا ہے۔اور۔۔۔اپنا گھر ،امی ابو۔۔۔۔مینا ہمیں بہت دیر ہو گئی ہے گھر سے غائب ہوئے ،سب پریشان ہو رہے ہوں گے۔چلو ہم لوٹ چلتے ہیں اس پہلے کہ سب ہماری تلاش کو نکلیں۔یہ کہتے ہی وہ دونو ں تیزی سے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1021285 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.