اور پھر خواب ٹوٹ گیا

تحریر: آسیہ پری وش، حیدرآباد
سیف الرحمان کا دل پڑھائی میں بالکل نہیں لگتا تھا۔ اس کا ہر وقت جی چاہتا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کمپیوٹر پہ گیمز کھیلتا یا ٹی وی پر کارٹون دیکھتا رہے۔ پڑھائی کے معاملے میں اسے اپنی امی بہت ظالم لگتی تھیں کیونکہ وہ اسے اپنے سامنے بیٹھا کے سارا ہوم ورک کرواتی اس سے پہلے وہ اسے اٹھنے ہی نہیں دیتی تھیں۔ اس دن بھی وہ ماں کی سخت نظروں اور ڈانٹ کے شکنجے میں سارا ہوم ورک کرکے گھر سے باہر نکل رہا تھا کہ دیوار پہ بیٹھی ایک چڑیا پر اس کی نظر پڑگئی اور وہ ایک حسرت سے اسے دیکھنے لگا۔

آہ !کتنے خوش نصیب ہیں یہ پرندے۔ ان کا تو کوئی اسکول ہی نہیں۔ ان کی ماں بھی ان کو نہیں ڈانٹتی ہوں گی۔ ان کا جب دل چاہتا ہوگا، جہاں دل چاہتا ہوگا یہ اڑ کر وہاں پہنچ جاتے ہوں گے۔ کاش میرے بھی پر ہوتے تو میں بھی پھرررر کرکے اسکول سے اڑ کر اپنی پسندیدہ جگہوں پر پہنچ کر خوب مزے کرتا۔ اپنی اسی حسرت کو سوچتا وہ گھر سے باہر نکل گیا۔ راستے میں فٹ پاتھ پر اسے ایک بیمار بے چارہ سا بزرگ نما بوڑھا شخص بیٹھا نظر آیا۔ کچھ سوچ کر وہ اس بوڑھے شخص کے پاس جاکر بولا۔ ’’کیا بات ہے بابا؟ ایسے کیوں بیٹھے ہیں؟ ’’بیٹا طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ یہاں تک تو آگیا ہوں لیکن اب اتنی ہمت نہیں ہو پارہی کہ یہ سڑک پار کرکے اس اسپتال تک جاؤں۔‘‘ بوڑھے شخص نے کمزور آواز میں سیف الرحمان کو بتایا۔

’’آئیں بابا میں آپ کو اسپتال تک پہنچادیتا ہوں۔‘‘ سیف الرحمان اس بوڑھے شخص کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ سڑک پار کروا کر اسپتال کے گیٹ تک پہنچا۔ ’’ بس بیٹا۔ تم بہت اچھے بچے ہو۔ تمہاری کوئی خواہش ہو تو مجھے بتاؤ۔ میں وہ پوری کردوں گا۔‘‘ بوڑھے شخص کی اس بات پر سیف جس کا دھیان ابھی بھی اسی حسرت میں اٹکا ہوا تھا تبھی اپنی دیرینہ خواہش ‘‘ ۔ سیف الرحمان کی خواہش زبان پر آگئی۔ ’’بابا میں چاہتا ہوں میرے پر نکل آئیں اور میں بھی ان پرندوں کی طرح اڑنے لگوں۔‘‘بابا اس کی اس بچکانہ خواہش پہ مسکرادیے اور کچھ پڑھ کر اس پر پھونک ماری تو دیکھتے ہی دیکھتے سیف الرحمان کے پر نکل آئے۔ اپنے پر دیکھ کر وہ بہت حیران اور خوش ہوا۔

سیف الرحمان کو بے پناہ خوش دیکھ کر وہ بوڑھا شخص مسکرا کر غائب ہوگیا۔ اس شخص کو غائب ہوتا دیکھ کر سیف الرحمان ڈر تو گیا لیکن پروں کی موجودگی کی خوشی زیادہ تھی تبھی وہ بابا کے غائب ہونے کو بھلا کر پروں کو ہلاتا آہستہ آہستہ اڑنے لگا۔ اڑنے میں اسے بہت مزہ آرہا تھا ۔اپنی پرواز اور رفتار بڑھا کر آسمان پہ گول گول اڑنے لگا۔ تھوڑی دیر یوں ہی اڑنے کے بعد اس نے اپنا رخ گھر کی طرف موڑا۔ گھر کے دروازے سے داخل ہونے کے بجائے وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے اندر داخل ہوا اور جلدی جلدی ادھر ادھر بکھری اپنی سب کتابیں، کاپیاں، پین، پینسل اسکول کی تمام چیز ڈھونڈ کر بستے میں ڈالیں اور بستہ لے کر کھڑکی کے راستے ہی گھر سے نکل آیا۔ اڑتے ہوئے گھر سے تھوڑا ہی دور موجود دریا کے اوپر پہنچ کر خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے وہ بستہ دریا میں پھینک دیااور خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہوئے خوشی سے یاہو کہہ کر وہاں سے اڑان بھری۔

سیف الرحمان ابھی کچھ ہی آگے گیا تھا کہ اسے ایک میدان میں کچھ لڑکے کرکٹ کھیلتے نظر آئے۔ اپنا پسندیدہ کھیل کھیلنے کے لیے اس کا دل بھی مچلنے لگا۔ وہ نیچے اتر کر ان لڑکوں کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ ’’مجھے بھی کرکٹ کھیلنی ہے۔‘‘ کرکٹ کھیلتے لڑکوں نے اپنے میچ سے دھیان ہٹا کر اس آواز کی طرف دیکھا تو سامنے ہی ایک پروں والے لڑکے کو کھڑے دیکھ کر وہ سب خوفزدہ ہوگئے۔ انہوں نے تو کبھی پروں والا انسان نہیں دیکھا تھا سوائے جنوں بھوتوں کے ڈراموں کے۔ تو کیا سامنے کھڑا یہ پروں والا لڑکا کوئی جن بھوت ہے۔

نہیں! وہ سب بچے چیختے ہوئے وہاں سے بھاگنے لگے۔ ان کو یوں خود سے ڈر کر بھاگتے دیکھ کر سیف الرحمان پریشان ہوگیا، بہت یقین دلانے کے باوجود کوئی اس کے قریب تو کیا اس کی بات سننے کے لیے بھی نہیں رکا، سب وہاں سے بھاگ گئے اور وہ اکیلا کھڑا رہ گیا۔ اب اسے خود کے پر عجیب سے لگنے لگے تھے۔ اسے اپنے میتھ کے استاد سر واحد بخش نظر آئے۔ سر واحد بخش کے بھائی مولا بخش (ڈنڈا) اور زوردار قسم کی چماٹوں کی وجہ سے اس سمیت ساری کلاس ان سے ڈرتی تھی۔ اسی ڈر کی وجہ سے وہ ساری کلاس ان کا کام پہلے اور وقت پر مکمل کرنا اپنا اولین فرض سمجھتی تھی۔ خود سے ڈر کر ان کھیلتے بچوں کا بھاگنا اور سر واحد بخش کو دیکھ کر سر سے اپنے ڈر کا انتقام لینے کا ایک چھوٹا سا منصوبہ اس کے ذہن میں گھوما اور اس کی آنکھوں اور ہونٹوں پر بڑی شرارتی سی ہنسی آگئی۔

وہ نیچے اتر کر سر کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا اور سر کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بڑی معصومیت سے بولا ’’سر مجھے آپ سے میتھ کا ایک حساب سیکھنا تھا۔‘‘ سر جو اپنے کسی خیال میں جارہے تھے۔ اپنے پیچھے کسی شاگرد کو سمجھتے ہوئے غصے سے پیچھے مڑے۔ سر کو غصے سے پیچھے مڑتے دیکھ کر سیف الرحمان کی اپنی سٹی گم ہوگئی کہ کہیں سر اسے پہچان نہ لیں اور اس کو اس کے ان پروں سمیت توڑ مروڑ کر نہ رکھ دیں۔

پیچھے مڑ کر اپنے شاگرد کو پہچاننے کے بجائے پروں والے لڑکے کو دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہوگئے۔اس وقت ان کے مولا بخش کی وہ گونج، کرارے چماٹ اور خستہ سی ڈانٹ سب ان کے حواسوں کی طرح ہی کہیں رفوچکر ہوگئے اور وہ بھوت بھوت چلاتے ہوئے وہاں سے بھاگنے لگے۔ سر واحد بخش کی حالت دیکھ کر سیف الرحمان کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔ بہت مزا آیا کا نعرہ لگا کر وہ ایک بار پھر اڑنے لگا۔ اسے اپنا آج کا دن بہت مزیدار محسوس ہورہا تھا جس کو مزید مزیدار بنانے کے لیے وہ رانی باغ چلا آیا۔ یہاں سب بڑوں بچوں کو ڈرا بھگا کر مفت میں خوب جھولے لیے۔ اپنی پسندیدہ چیزیں دل بھر کر کھائیں پیں۔ ابھی وہ کچھ اور بھی گھومنا اور اڑنا چاہتا تھا۔ وہ قریب ہی ایک میوزیم میں پہنچا اور وہاں کی پر رکھی چیزوں سے کھیلنے لگا، اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا۔ کچھ چیزیں اس نے وہاں سے چرائیں اور اپنے ساتھ لے کر گھر کی طرف اڑان بھردی۔

چوری کے سامان کا بوجھ سیف الرحمان کے پر برداشت نہیں کرپارہے تھے تبھی میوزیم سے تھوڑا آگے جاکر ہی اس کے پروں نے اڑنے سے جواب دے دیا۔ سیف الرحمان دھڑڑڑڑڑااااام سے نیچے زمین پر آگرا۔ زمین پر گرنے سے سیف الرحمان کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکل گئی اتنے میں اس کی آنکھ بھی کھل گئی۔ سامنے کھڑی ہنستی ہوئی امی اور خود کو اپنے ہی کمرے میں بیڈ سے نیچے گرا دیکھ کر اسے خواب سے حقیقت کی دنیا میں آنا مشکل لگا۔’’آہ۔۔۔۔۔ کیا یہ خواب تھا؟ شکرہے اﷲ کا کہ وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ اگر سچ ہوتا تو پتا نہیں وہ اسپتال ہوتا۔۔ اس خواب کی حقیقت سے اب خوف آنے لگا تھا۔ سیف الرحمان نے آئندہ پڑھائی سے بھاگنے اور پرندوں کی طرح اڑنے جیسی خواہشات سے توبہ کرلی تھی۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.