یہ حادثات و سانحات!

 پے درپے حادثات نے قوم کو چکرا کر رکھ دیا ہے، عید کے پہلے اور بعد میں ہونے والے واقعات کے تسلسل سے پوری قوم ذہنی طور پر دباؤ کا شکا ر ہو چکی ہے۔ کوئٹہ حملے، پارا چنار ہلاکتیں، احمد پور شرقیہ آتشزدگی، مری چیئر لفٹ، سڑکوں پر ہونے والے ذرا کم نوعیت کے حادثات ۔ بے تدبیری کی حد ہے، بے احتیاطی کا مسئلہ ہے، غفلت کا شاخسانہ ہے، غربت کے قصے ہیں، جہالت کی کہانی ہے، حکومتی نااہلی ہے، انتظامیہ کی غفلت ہے، آخر کوئی تو وجہ ہے کہ آئے روز حادثات و سانحات نے یہاں ڈیرے ڈال دیئے ہیں، کوئی روز خالی نہیں جاتا، جب بہت سے گھروں کے چراغ گل نہیں ہوتے، کسی کا کفیل گیا، کوئی خاتون بیوہ ہوئی، کچھ بچے یتیم ہوئے، اور کچھ لوگ اولاد جیسی نعمت سے ہی محروم ہوگئے۔ حادثہ کے بعد ہنگامہ سا برپا ہو جاتا ہے، ذمہ داریاں مختلف لوگوں پر ڈالنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، مگر فیصلہ کم ہی ہوا کرتا ہے، کہ اصل قصور وار یا ذمہ دار کون تھا؟

حادثہ کی صورت میں ذمہ دار آخر کوئی نہ کوئی تو ضرور ہوتا ہے، چونکہ یہ طے ہے کہ ذمہ دار کا تعین ہوتا نہیں، اس لئے آئندہ کے لئے وہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، کچھ ہی عرصہ میں ویسا ہی حادثہ دوبارہ رونما ہو جاتا ہے، اور وہی پِٹ سیاپا جو پہلے حادثے پر ہوا تھا، دوبارہ بھی ہو جاتا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ اب حادثات معمول بن گئے ہیں، یہ ایک صدمہ کی بجائے ایک خبر کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں، بس ایک واقعہ ہوا، کچھ رونا دھونا، کچھ احتجاج، کچھ ٹاک شو، کچھ کالم اور بس کہانی ختم۔ عام حادثات تو مندرجہ بالا مقامات تک بھی نہیں پہنچتے، بس خبر بنی اور ختم ہوئی۔ وہ تو اﷲ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ پاکستان میں پاک فوج کی کوششوں سے پہلے ’’ضربِ عضب‘‘ اور اب ’’ردالفساد‘‘ سے دہشت گردی اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے، دشمن کی کمر ٹوٹ رہی ہے، اس کا خاتمہ ہو رہا ہے، ورنہ تو یہ صدمات پاکستانی قوم پر ایک عذاب کی صورت نازل تھے، آئے روز دسیوں، بیسیوں لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے، مساجد اور بازار بھی محفوظ نہیں تھے، بے گناہ لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے تھے۔ اب حادثات میں بھی مرنے والے ہوتے تو بے گناہ ہی ہیں، مگر اِ ن حادثات کو کم کیا جاسکتا ہے، اس کے لئے کچھ نہ کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔

احمد پور شرقیہ میں ہونے والے حادثے کی انکوائری جاری ہے، کہا گیا ہے کہ بائیس ٹائر والا ٹینکر چودہ ٹائر کے ساتھ سفر کر رہا تھا، ڈرائیور بھی ایک ہی تھا۔ موٹروے پولیس نے لوگوں کو جائے حادثہ سے دور کیوں نہ رکھا؟ دوسری پولیس کو طلب کیوں نہ کیا گیا؟ انتظامیہ نے اپنے کردار ادا کیوں نہ کیا؟ صرف پانچ کلومیٹر پر تحصیل ہیڈ کوارٹر احمد پور شرقیہ کا شہر تھا، وہاں سے انتظامیہ اور پولیس کیوں نہ آئی؟ یہ سوالات بعد کے ہیں، مگر آئندہ اِ ن اداروں سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟ یہ ادارے سانپ کے گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے قائل ہیں، اور یہ فرض بہت احسن طریقے سے نبھایا کرتے ہیں۔ مری والے حادثے کو دیکھ لیں، دیسی ساخت کی لفٹ تو ویسے بھی خطرناک ہی ہوتی ہے، نہ جانے کتنے سالوں سے یہ لوگوں کا بوجھ اٹھائے آر پار جاتی تھی، مگر لفٹ والوں کی لالچ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ چند روپوں کی خاطر اوور لوڈنگ کرتے ہیں اور لوگوں کو موت کے جھولے میں ڈال کر لے جاتے ہیں۔ یہاں صرف لفٹ والوں کو ہی قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، آخر ان مسافروں کا قصور بھی اتنا ہی ہے، جو زبردستی جگہ نہ ہونے کے باوجود سفر پر اصرار کرتے ہیں۔ یہ معاملہ لفٹ کا ہی نہیں، عام گاڑیوں کا بھی ہے، اوور لوڈنگ میں دونوں طرف سے لوگ قصور وار ہوتے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ حکومت کسی حادثے پر امداد دینے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے اور کسی حادثے پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتی۔ کسی حادثے پر مرنے والوں کے لئے پانچ لاکھ فی کس اور کسی پر بیس لاکھ فی کس اور کسی حادثے پر صرف ’’ذمہ داروں‘‘ کی معطلیاں اور برہمی کا اظہار، مرنے والوں کے لواحقین سے اظہارِ ہمدردی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب کوئی حادثہ ہوا، اس کی وجوہات کا تعین کیا جائے، اور آئندہ اس سے بچنے کا بندوبست کیا جائے، نہ کہ لاکھوں روپے امداد یا برہمی سے کام چلایا جائے اور حادثے اپنی جگہ قائم رہیں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472779 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.