سانحات روکنے کی حکمت عملی وضع کی جائے

کراچی سے آنے والا ایک آئل ٹینکر صبح چھ بجے احمد پور شرقیہ کے قریب ٹائر پھٹ جانے کے باعث الٹ گیا ۔ قریبی بستیوں کے لوگوں کو جب ٹینکر سے بہنے والے ہزاروں لیٹرتیل کی خبر ملی توگھروں سے برتن اٹھا کرلوگ اس مقام پر پہنچے جہاں تیل زمین پر بکھرا ہوا تھا ۔ وہاں موجود ایک بدبخت شخص نے جیسے ہی سگریٹ سلگایا تو آگ بھڑک اٹھی۔ یہ آگ اس قدر تیزی سے پھیلی کہ کسی کو بھی بھاگنے کا موقع بھی نہ ملا اور دیکھتے ہی دیکھتے 153 افراد زندہ جل گئے اب تک ہلاکتوں کی تعداد 184 ہوچکی ہے ۔کچھ لوگ اسے غربت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں کہ غربت انسان کو اس قدراندھا کردیتی ہے کہ وہ سب کچھ جاننے کے باوجود موت کی جانب قدم بڑھا نے سے گریز نہیں کرتا ٗ لیکن کچھ اور لوگ اس سانحے کو ذہنیت کا نام بھی دیتے ہیں۔ ان کے بقول لوٹ مار ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ امیر ہو یا غریب ٗ لیڈر ہو یا کارکن ۔ہر کوئی ہر وقت لوٹ مار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا۔ ایسے خیالات کے حامل افراد کا موقف ہے۔مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے لیے ہمیں اپنے قومی مزاج اورنیشنل کریکٹر کو تبدیل کرنا اور اس کا آغاز اپنے گھر سے کرنا ہوگا ۔ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بتانا ہوگا کہ جو چیز ہماری نہیں اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا جانی و مالی نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔یاد رہے کہ قومی تاریخ میں یہ پہلا ہولناک سانحہ نہیں ہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ چند سال پہلے ضلع جھنگ میں بھی رونما ہوچکا ہے وہاں بھی پٹرول اکٹھا کرنے والوں کے ہجوم میں ایک بدبخت شخص نے سلگتا ہوا سگریٹ پھینک کر ایسی آگ لگائی کہ اس آگ نے نہ صرف انسانوں کو زندہ جلا یا بلکہ جہاں جہاں بھی پٹرول بالٹیوں میں بھر کر لے جایا گیا تھا ان گھروں کوبھی راکھ کا ڈھیر بنا دیا ۔ حکمران مرنے والوں اور زخمیوں کے لیے امدادی رقم کا اعلان کرکے پھر سکون سے سو گئے ۔ا بھی احمد پور شرقیہ کے سانحے کی بازگشت کم نہیں ہوئی تھی کہ بھکرمیں بھی ایک آئل ٹینکر کے لیک ہونے کی خبر ملی اور لوگ احمد پور شرقیہ کے اعصاب شکن سانحے کو بھول کر ایک بار پھر گھر وں سے برتن لے کر لیک ہونے والے پٹرول کو اکٹھا کرنے اس مقام پر جا پہنچے ۔ خوش قسمتی سے ریسکو کے عملے نے مقامی لوگوں کو ٹینکر تک پہنچنے نہیں دیا وگرنہ کوئی نہ کوئی سگریٹ پینے والا مکروہ شخص وہاں بھی موت کا رقص شروع کرسکتا تھا ۔ بہرکیف ایسے سانحات پوری قوم کے لیے عبرت کا باعث ہیں ۔ وزیر اعلی پنجاب نے شہر سے شہر تک مریضوں کی فری سفری سہولتوں کے لیے ایمبولنس سروس کا آغاز تو کردیا لیکن تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں برن ایمرجنسی سنٹر ہارٹ ٗ ڈیلیسز ٗ برین اور ٹی بی سنٹرز بھی قائم کرنے اور وہاں جدید ترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ احمد پور شرقیہ کا حادثہ ایک مثال ہے ۔ آگ کہیں بھی لگ سکتی اور کہیں بھی انسانی جسم آگ سے جھلس سکتے ہیں ۔ اس لیے سیاسی تقریریں اور مفادات حاصل کرنے اور تعصب آمیز بیانات جاری کرنے کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ علاوہ ازیں ضلعی انتظامیہ ٌ پٹرول کی نقل و حرکت کے نگران اداروں اور بطور خاص میڈیا کو اپنا کردار انجام دینا ہوگا ۔ بدقسمتی سے ہمارا قومی مزاج دوسروں پر تنقید بن گیا ہے کوئی بھی شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں ہے ۔ وہ شخص جو روزانہ دودھ میں زہریلا کیمیکل ملاتا ہے وہ بھی دوسروں پر تنقید کرتا ہے جو مرچوں میں اینٹوں کا برادہ ڈالتا ہے وہ بھی خودکو فرشتہ اور دوسروں کو مجرم تصور کرتا ہے ۔تحریک انصاف ٗ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے سرکردہ رہنما ایسے سانحات پر تنقید تو بہت کرتے ہیں لیکن جہاں جہاں بھی ان کی اپنی حکومتیں ہیں وہاں ایسا کوئی کام کرنے کو تیار نہیں جس کا وہ پنجاب میں مطالبہ کرتے ہیں۔ یہی حال ہمارے الیکٹرونکس میڈیا کا ہے وہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے والوں اور پاکستان کی قومی وحدت کو اپنے زہریلے بیانات دے کر پارہ پارہ کرنے والوں کو کوریج تو فراہم کرتا ہے لیکن احمد پور شرقیہ جیسے سانحات سے کیسے بچنا ہے ۔ ٹریفک حادثات سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے ۔ اس کی جانب میڈیا کی کوئی توجہ نہیں ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ دور حاضر کے میڈیا نے پاکستانی قوم کو ایک منتشر افراد میں تبدیل کر دیاہے ۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات اور غیر ضروری موضوعات پر طویل مذاکرے انسانی ذہنوں کو مفلوج کررہے ہیں ۔ اب ہم سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بات کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود کہ سگریٹ نوشی ہی ہولناک سانحات کا باعث بن رہی ہے پھر خود بھی سگریٹ پینے والا پھپھڑوں کے کینسر اور سانس کی موذی بیماریوں میں مبتلا ہوسکتا ہے لیکن ان تمام تر خدشات کے باوجود سگریٹ نوش اپنے غیر ذمہ دارانہ رویوں پر غور کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ جھنگ اور احمد پور شرقیہ کے سانحات سگریٹ نوشی کا ہی نتیجہ ہیں لیکن اس سانحے کے بعد بھی ہزاروں سگریٹ نوش پٹرول پمپوں ٗ چلتے ہوئے رکشوں ٗکاروں اور موٹرسائیکلوں پر سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ لوگ نہ صرف اپنی جان کے دشمن ہیں بلکہ ہزاروں انسانوں کے قاتل بھی ہیں ۔ اگر سگریٹ پینے کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنے گھر یا کسی علیحدہ جگہ پر بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے لیکن عوامی سطح پر سگریٹ نوشی اور بطور جہاں جہاں پٹرول سے بھری ہوئی ٹینکیاں موجود ہوں ٗ وہاں سگریٹ نوشی کرنا انتہائی خطرناک جرم ہے ۔ کچھ یہی عالم ہمارے ہاں ویلڈنگ کرنے والوں کا بھی ہے جو آدھی سڑک کو روک کر گزرتی ہوئی ٹریفک کے قریب ویلڈنگ کی چنگاریاں پھینکتے نظر آتے ہیں ۔ مرنے والوں کو تو کوئی واپس نہیں لاسکتا لیکن جو زندہ ہیں انہیں تو اپنی زندگی کا احساس ضرورکرنا چاہیئے اور آگ جیسی اذیت ناک موت سے خود کو محفوظ کرنا چاہیئے ۔ قصہ مختصر ایسے سانحات کو روکنا اور مفاد عامہ کے اقدامات کی تشہیر کرنا میڈیا کابھی فرض بنتا ہے ۔ میڈیا جتنا جلد یہ فرض نبھانا شروع کردے اتنا ہی اچھا ہے ۔حکومت کو پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر سختی سے پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ تمام ضلعی ہسپتالوں میں برن ایمرجنسی سنٹر سمیت اہم ترین بیماریوں کے شعبہ جات قائم کرنے کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے چاہیئیں تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جاسکے۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 661451 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.