’’جمشید اب میں اس ملک میں نہیں
رہ سکتی۔ اب ہمیں کسی ویسٹرن کنٹری میں شفٹ ہوجانا چاہیے ۔‘‘
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی ہوئی ھما نے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو برش کرتے
ہوئے کہا۔ جمشید بیڈ پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’تم نے سنا جمشید میں نے کیا کہا؟‘‘
’’یس میں نے سن لیا۔ لیکن میرا پورا خاندان یہاں ہے ۔ میں انھیں چھوڑ کر
کیسے جاؤں ؟‘‘
’’بالکل ویسے ہی جیسے تم ان کا گھر چھوڑ کر میرے ساتھ الگ ہو چکے ہو۔‘‘
’’یہاں کی بات اور ہے ۔ میں ہفتے میں ایک دفعہ جا کر ان سے مل تو لیتا ہوں
۔ دوسرا یہ کہ فارن ٹرپ تو ہم ہر سال کر ہی لیتے ہیں ۔ پھر ہمیں باہر شفٹ
ہونے کی کیا ضرورت۔‘‘
’’نہیں اب بچے بڑ ے ہورہے ہیں ۔ میں چاہتی ہوں کہ ان کی پرورش باہر ہی ہو۔‘‘
’’لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے بچے میرے ماں باپ کی صحبت کا فائدہ
اٹھائیں ۔ میں تو اپنے ماں باپ کی نیکی کا کوئی حصہ نہیں پا سکا، لیکن کم
از کم میری اولاد تو نیک ہو۔‘‘
’’انہی کی صحبت سے تو میں اپنی اولاد کو بچانا چاہتی ہوں ۔ میرے ایک بچے کو
بھی اپنی ددھیال کی ہوا لگ گئی تو اس کی زندگی خراب ہوجائے گی۔‘‘
اس کے ساتھ ہی فون کی گھنٹی بجی۔ جمشید نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف سے کچھ
کہا گیا۔ جمشید نے اچھا کہہ کر ریسیور نیچے رکھ دیا اور ھما کو مخاطب کر کے
کہا:
’’تمھارے پاپا ہمیں نیچے بلا رہے ہیں ۔‘‘، پھر ھما کی بات کا جواب دیتے
ہوئے بولا:
’’تم آخر میرے ماں باپ کے بارے میں اتنی نیگیٹو کیوں ہو؟ انہوں نے میری
خوشی کی خاطر تمھیں بہو کے طور پر قبول کیا۔ حالانکہ تمھارے انداز و اطوار
انھیں بالکل پسند نہ تھے ۔ تم مجھے لے کر الگ ہوگئیں تب بھی انہوں نے برا
نہیں مانا۔ ۔ ۔ ‘‘
’’بس بس رہنے دو۔‘‘، ھما تنک کر بولی۔
’’انھیں میرے انداز و اطوار ناپسند تھے ۔ مگر تم میرے عشق میں دیوانے ہورہے
تھے ۔ اس لیے انھوں نے مجبوراً تمھیں مجھ سے شادی کی اجازت دی۔ تم ان سے
الگ ہوکر یہاں زیادہ اچھی زندگی گزار رہے ہو۔ پاپا کے بزنس میں شریک ہو۔
کروڑوں میں کھیلتے ہو۔ جمشید مجھ سے شادی کر کے تم سراسر فائدے میں رہے ہو۔
تم نے کوئی نقصان نہیں اٹھایا۔‘‘
’’پتہ نہیں کیوں تمھاری باتیں سن کر کبھی کبھی ابو کی یاد آ جاتی ہے کہ نفع
نقصان کا فیصلہ آخرت کے دن ہو گا۔‘‘
’’یار یہ فضول مذہبی باتیں ختم کرو۔ مجھے ان سے چڑ آتی ہے ۔ کوئی قیامت
وغیرہ نہیں آنی۔ لاکھوں برس سے دنیا کا سسٹم ایسے ہی چل رہا ہے ۔
If you are smart, powerful and wealthy you are the winner. All the
others are losers and idiots. And you know this judgment day is nothing
but rubbish.
’’ویسے فار یور کائنڈ انفارمیشن، میرے پاپا نے اپنے پیر صاحب سے یہ گارنٹی
لے رکھی ہے کہ قیامت میں وہ انہیں بخشوا دیں گے ۔ ان کو بہت پیسہ دیتے ہیں
میرے پاپا۔‘‘
’’ہاں ہم جس طرح ناجائز منافع خوری، قانون کی خلاف ورزی اور دیگرحرام ذرائع
سے پیسہ کماتے ہیں ، اس کو کہیں تو پاک کرنا ہو گا۔ مجھے سب معلوم ہے ۔
تمھارے پاپا اور چودھری مختار صاحب کئی بزنس میں پارٹنر ہیں اور دو نمبر کے
ہتھکنڈوں سے پیسہ کماتے ہیں ۔‘‘
’’اچھا۔ ۔ ۔ اتنا ہی حلال حرام کا خیال ہے تو چھوڑ دو پاپا کا بزنس۔‘‘
’’بزنس تو چھوڑ دوں ، مگر تمھیں کیسے چھوڑوں ۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کے بعد
جاب کرنے سے نہ تمھارے خرچے پورے ہوں گے اور نہ میں تمھارا لیونگ اسٹینڈرڈ
مینٹین کرسکوں گا۔ تمھارے عشق نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑ ا۔ وگرنہ میں جس
خاندان سے ہوں وہاں حلال اور حرام ہی سب کچھ ہے ۔‘‘
’’اسی لیے اتنی مڈل کلاس زندگی گزار رہے ہیں وہ لوگ۔ اچھا ہوا تم میرے ساتھ
آ گئے وگرنہ اپنے بھائیوں کی طرح موٹر سائیکل پر گھومتے یا 800 سی سی گاڑی
چلاتے اور کسی فلیٹ میں سڑی ہوئی زندگی گزار کر مرجاتے ۔‘‘
’’زندگی اچھی گزاریں یا بری، مرنا تو ہمیں ہے ۔ پتہ نہیں آخرت میں ہمارے
ساتھ کیا ہو گا؟‘‘
’’بے فکر رہو کچھ نہیں ہو گا۔ وہاں بھی ہم ٹھاٹ سے رہیں گے ۔ میرے پاپا کے
پیر صاحب کے سامنے تو تمھارے اللہ میاں بھی کچھ نہیں بول سکتے ۔‘‘
’’کلمۂ کفر تو مت بکو۔ اور اللہ میرا کہاں رہا ہے ۔ جب میں اللہ کا نہیں
رہا تو وہ میرا کیسے رہے گا۔‘‘
یہ جملہ کہتے ہوئے جمشید کا لہجہ بھرا گیا اور اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔
مگر ھما اس کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو نہیں دیکھ سکی۔ اس کا سارا دھیان آئینے
کی طرف تھا۔ اب وہ اپنے میک اپ سے فارغ ہو چکی تھی، اس لیے ڈریسنگ ٹیبل کے
سامنے سے اٹھتے ہوئے بولی:
’’اچھا چھوڑ و یہ فضول باتیں! نیچے چلو، پاپا انتظار کرہے ہوں گے ۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صالح نے دوبارہ اشارہ کیا اور منظر ختم ہو گیا۔ لیکن ساتھ ہی ھما کی ہر
امید کو بھی ختم کرگیا۔ صالح نے اسی سفاک اور قاتل لہجے میں سختی کے ساتھ
کہا:
۔۔’’تم نے دیکھا! تمھاری زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ریکارڈ کر لیا گیا
ہے ۔ تو جاؤ ھما بی بی اپنے پیر صاحب کو ڈھونڈو جو تمھیں بخشوا سکتے ہیں
اور جن کے سامنے اللہ تعالیٰ بھی۔ ۔ ۔
‘‘
صالح نے جملہ تو ادھورا چھوڑ دیا، مگر ھما کے الفاظ دہراتے وقت اس کے لہجے
میں جو غضب آ گیا تھا، اس سے میں خود دہل کر رہ گیا۔ ھما بھی بری طرح خوف
زدہ ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ صالح کچھ اور کہتا وہ روتی چیختی ہوئی وہاں سے
بھاگ گئی۔
اس منظر میں جمشید کو دیکھ کر میری حالت پھر ڈانوا ڈول ہو چکی تھی۔ ظاہر ہے
کہ ھما کی طرح وہ بھی اس سختیوں بھرے میدان میں پریشان حال پھر رہا ہو گا۔
میں سوچ رہا تھا کہ جمشید اسی حال میں میرے سامنے آ گیا تو میں کیا کروں
گا۔ میں اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ صالح نے میری کمر تھپتھپا کر کہا:
’’آؤ چلتے ہیں ۔‘‘
نجانے اس تھپکی میں کیا بات تھی کہ میں نے محسوس کیا کہ میرے اوپر طاری
ہونے والی پریشانی کی کیفیت بہت ہلکی ہوگئی ہے ۔ میں قدرے بشاشت سے اس کے
ساتھ چلنے لگا۔ اردگرد پھر وہی پریشان اور وحشت زدہ لوگوں کی ہلچل تھی۔ ہم
کچھ ہی دور آگے چلے تھے کہ سامنے سے چودھری مختار صاحب آتے نظر آئے ۔ انہوں
نے شاید مجھے دیکھ لیا تھا اور میری ہی طرف آ رہے تھے ۔ چودھری صاحب میرے
بیٹے جمشید کے سسر کے بزنس پارٹنر تھے ۔ اس حیثیت میں میری ان سے رسمی
واقفیت تھی۔ میرے قریب آتے ہی انہوں نے مجھ سے گلے ملنے کی کوشش کی جسے
صالح نے ہاتھ آگے بڑھا کر یہ کہتے ہوئے ناکام بنادیا کہ:
’’دور رہ کر بات کرو۔‘‘
اس کا لب و لہجہ اتنا درشت تھا کہ مجھے بھی اس سے اجنبیت محسوس ہونے لگی۔
اپنی اس رسوائی کے باوجود چودھری صاحب کے جوش میں کمی نہ آئی۔ وہ کہنے لگے
:
’’مجھے یقین تھا عبداللہ صاحب! آپ مجھے ڈھونڈتے ہوئے ضرور آئیں گے ۔ آپ کو
یاد ہے عبداللہ صاحب! میں نے ایک مسجد تعمیر کرائی تھی جس میں آپ بھی نماز
پڑھا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ بھی میں غریبوں مسکینوں کی مدد کیا کرتا
تھا۔‘‘
’’مجھے یاد ہے چودھری صاحب۔‘‘، میں نے دھیرے سے انہیں جواب دیا۔
’’بس تو اب آپ میری سفارش کر دیجیے ۔ میں بہت دیر سے پریشان گھوم رہا ہوں ۔
یہاں تو جس کو دیکھو اپنی ہی پڑی ہے۔ نہ کوئی کچھ بتاتا ہے نہ سیدھے منہ
بات کرتا ہے ۔‘‘
یہ آخری بات کہتے ہوئے انہوں نے بے اختیار صالح کی طرف دیکھا۔ میں نے بھی
گردن گھما کر صالح کی طرف دیکھا۔ اس نے لمحے بھر کے لیے مجھے دیکھا اور پھر
چودھری صاحب کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے بولا:
’’آپ نے مسجد ضرور بنوائی تھی، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں بلکہ اپنی نیک
نامی کے لیے ۔ جب پیسے اللہ کو دیے جاتے ہیں تو گردن جھکی ہوتی ہے ، ہاتھ
بندھے ہوتے ہیں ، لہجہ پست ہوتا ہے اور دل میں عاجزی اور خوف ہوتا ہے ۔ مگر
آپ کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ آپ اپنا نام چاہتے تھے ۔ سو دنیا میں نام
ہو گیا۔ اب تو آپ کو حساب دینا ہو گا کہ یہ پیسہ کمایا کس طرح تھا۔
اور ہاں ۔ ۔ ۔ اچھے کاموں پر تو آپ کبھی کبھار ہی پیسے خرچ کیا کرتے تھے ۔
یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ملک کی ایک مشہور اداکارہ کا قرب خریدنے کے لیے آپ
نے کروڑوں روپے خرچ کر دیے تھے ۔ آپ کے کھاتے میں زنا کا گناہ ہے ۔ ایک
دفعہ کا نہیں بلکہ بار بار کا گناہ۔ الگ الگ عورتوں کے ساتھ زنا کا گناہ۔
ملک کی مشہور اداکاراؤں اور فیشن ماڈلز کے ساتھ آپ کے تعلقات تھے ۔ خرچ کو
تو چھوڑیے آپ کی تو آمدنی میں بھی رزق حرام کی وافر ملاوٹ تھی۔ آپ ملاوٹ
کرتے تھے ۔ ذخیرہ اندوزی کرتے تھے ۔ لوگوں کو حد سے زیادہ منافع لے کر
چیزیں فروخت کرتے تھے ۔ بجلی چوری، دھوکہ دہی، ملازمین کے حقوق میں ڈنڈی
مارنا، یہ آپ کے کاروبار کے بنیادی اصول تھے ۔ اپنی ترقی کی انتہا پر پہنچ
کر آپ نے ایک میڈیا گروپ بنالیا تھا جس کے ایک ٹی وی چینل پر آپ لوگوں کو
خوش کرنے والے مذہبی پروگرام دکھاتے اور دوسرے پر آرٹ اور انٹر ٹینمنٹ کے
نام پر معاشرے میں حیا باختہ رویے عام کرتے تھے ۔ آپ جانتے تھے کہ دنیا میں
کامیابی کا راز لوگوں کو خوش کرنا ہے ۔ کاش آپ یہ جان لیتے کہ دنیا و آخرت
میں کامیابی کا راز لوگوں کو نہیں خدا کو خوش کرنا ہے ۔‘‘
صالح بے تکان بول رہا تھا اور الفاظ اس کی زبان سے تیر بن کر نکل رہے تھے ۔
ان کا سامنا کرنا چودھری صاحب کے لیے ممکن نہ تھا، مگر ان کے لیے کوئی جائے
فرار نہ تھی۔ وہ گردن جھکائے سنتے رہے ۔ صالح کے لب و لہجے کی سختی نے
چودھری صاحب کے چہرے پر تاریکی پھیلادی تھی۔ مگر اس نے اسی پر بس نہیں کیا
اور کہنے لگا:
’’ذرا پیچھے دیکھیے چودھری صاحب آپ کے پیچھے آپ کی محبوبہ بھی کھڑ ی ہے ۔‘‘
چودھری صاحب گھبرا کر پیچھے پلٹے ۔ میں نے بھی نظر اٹھا کر چودھری صاحب کے
پیچھے دیکھا۔ سامنے ایک انتہائی مکروہ شکل و صورت کی بوڑ ھی عورت کھڑ ی تھی
جس کے جسم سے بدبو کے بھپکے اٹھ رہے تھے ۔ صالح نے میری پشت پر ہاتھ رکھا
جس کے بعد مجھے یہ ناقابل برداشت بدبو آنا بند ہوگئی، لیکن چودھری صاحب کے
لیے یہ بدبو ابھی تک باقی تھی۔ وہ بدشکل بڑ ھیا چودھری چودھری کہتے ہوئے
آگے بڑ ھی۔ اس بڑ ھیا کے قرب سے خوفزدہ ہوکر چودھری صاحب پیچھے ہٹنے لگے
اور پھر بے اختیار بھاگنے لگے ۔ وہ عورت یا بلا جو کچھھ بھی تھی ان کے
پیچھے ہاتھ پھیلا کر دوڑ نے لگی۔
’’یہ عورت کون تھی؟‘‘، ان کے دور جانے کے بعد میں نے صالح سے پوچھا۔
’’ یہ چودھری صاحب کی وہ داشتہ اور تمھارے زمانے کی مشہور اداکارہ، رقاصہ
اور ماڈل چمپا تھی۔‘‘، صالح نے اس بدشکل عورت کا تعارف کرایا تو میں نے
حیرت سے کہا:
’’چمپا؟ مگر وہ تو بہت خوبصورت تھی اور لوگ اُس کے حسن کی مثالیں دیا کرتے
تھے ۔‘‘
’’ہاں مثالیں دینے کے علاوہ اسے اپنا آئیڈیل بھی بناتے تھے ۔ اب دیکھھ لو
لوگوں کے اس آئیڈیل کی شکل کیسی ہو چکی ہے ۔ یہ عورت اپنے بھڑ کیلے اور نیم
عریاں رقصوں سے معاشرے میں فحاشی پھیلاتی تھی۔ اب خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ
جن دلوں پر راج کرتی تھی، جہنم میں انہی لوگوں پر اسے عذاب بنا کر مسلط کر
دیا جائے ۔‘‘، صالح نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
میں دل میں سوچنے لگا کہ میرے زمانے میں فحاشی شاید انسانی تاریخ میں سب سے
زیادہ بڑ ھ چکی تھی۔ ٹیلوژن نے گھر گھر اس طرح کی اداکاراؤں کے جلوے
بکھیردیے تھے ۔ اس دور کے تمام معاشروں نے فحاشی اور عریانی پھیلانے والی
ایسی خواتین کو عزت کے بلند ترین مقام پر بٹھادیا تھا۔ فلمی اداروں اور ٹی
وی چینلز کے مالکان کے نزدیک وہ عورتیں مال کمانے کا سب سے سستا اور آسان
ذریعہ تھیں جن کے فحش رقصوں ، دلربا اداؤں اور کم لباسی کو بیچ کر یہ لوگ
اپنی دولت میں اضافہ کیا کرتے تھے ۔ نوجوان ان کے دیوانے تھے اور اپنی ہونے
والی بیویوں میں ان کی صورتیں اور نخرے تلاش کرتے تھے ۔ لڑ کیاں انہی کے
انداز و لباس کی کاپی کر کے خود کو سنوارا کرتی تھیں ۔ انہی کی وجہ سے شریف
مگر عام شکل و صورت والی کتنی ہی لڑ کیاں معاشرے میں بے وقعت ہوگئی تھیں ۔
ان میں سے کتنی تھیں جو اپنے آنگن میں بہاروں کی راہ تکتے تکتے سفید بالوں
کی خزاں رت تک جاپہنچتیں اور کتنی تھیں جو معاشرے کی ناقدری کے داغ کو اپنی
شرافت کی چادر میں چھپائے دنیا سے رخصت ہوجاتی تھیں ۔
میرے چہرے پر دکھھ کے آثار واضح تھے ۔ یہ آثار صالح نے پڑ ھ لیے تھے ۔ وہ
میرا ہاتھ تھامے خاموشی سے ایک طرف بڑ ھنے لگا۔ پھر کچھھ دیر بعدایک جگہ
ٹھہر کر بولا:
’’ خدا نے تمھارے دکھوں کو دور کرنے کا ایک انتظام کیا ہے ، مگر بہتر ہو گا
کہ اسے دیکھنے سے قبل گزری ہوئی دنیا کا یہ منظر بھی دیکھ لو۔‘‘
اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ میرے سامنے ایک منظر فلم ا سکرین کی
طرح چلنے لگا۔ مجھے لگا کہ میں اس منظر کا ایک حصہ ہوں اور بیان ہوئے بغیر
بھی ہر حقیقت سمجھ رہا ہوں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صبح کی روشنی کھڑ کی پر پڑ ے پردوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کمرے کے اندر
داخل ہونے لگی تھی۔ کالج جانے کا وقت ہورہا تھا، مگر شائستہ کی ہمت نہیں
ہورہی تھی کہ اس سردی میں بستر سے نکلے اور کالج جانے کی تیاری کرے ۔ وہ
عام طور پر فجر کی نماز پڑ ھ کر کچھھ دیر مطالعہ کرتی تھی اور پھر کالج کی
تیاری، مگر آج وہ نماز پڑ ھ کر دوبارہ بستر میں لیٹ گئی تھی۔ کل رات ہی سے
اس کی طبیعت ناساز تھی۔
’’نہیں! مجھے کالج جانا ہو گا۔ ورنہ اسٹوڈنٹس کا بہت نقصان ہو گا۔ ۔ ۔ اور
پھر امی ابو کے لیے ناشتہ بھی تو بنانا ہے ۔‘‘
اس نے دل میں سوچا اور ہمت کر کے بستر سے اٹھ گئی۔ دھیرے سے چلتے ہوئے وہ
برابر والے کمرے کی طرف گئی جو اس کے والدین کا تھا۔ اس نے آہستہ سے دروازہ
کھول کر دیکھا۔ وہ دونوں گہری نیند سورہے تھے ۔ اس کے چہرے پر ایک اطمینان
بخش مسکراہٹ آ گئی۔
شائستہ نے اپنی ساری زندگی اپنے گھرانے کے نام کر دی تھی۔ اس کے والد اس کے
بچپن ہی میں معذور ہوگئے تھے ۔ وہ تین بہنوں میں سب سے بڑ ی تھی۔ والدہ نے
سلائی کر کے بمشکل تمام انہیں پڑ ھایا تھا۔ تعلیم مکمل کر کے اس نے پہلے ا
سکول اور پھر ایک پرائیوٹ کالج میں پڑ ھانا شروع کر دیا۔ وہ اس کے خواب
دیکھنے کے دن تھے ۔ وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی، لیکن نوجوانی خود ایک حسن
ہوتی ہے ۔ مگر اس کی زندگی میں نوجوانی کا مفہوم بس ایک ذمہ داری تھا جس
میں خوابوں اور خواہشوں کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ گھر کا خرچہ، والد کا علاج،
مکان کا کرایہ اور چھوٹی بہنوں کی تعلیم۔ دونوں چھوٹی بہنیں خوش شکل تھیں ۔
بڑ ی ہوئیں تو آنے والے ہر رشتے کا رخ انہی کی طرف تھا۔ شائستہ راہ کی
دیوار نہیں بنی اور خوشی خوشی بہنوں کو ان کے گھر آباد کر دیا۔ یہ ذمہ
داریاں پوری کرتے کرتے اس کی جوانی ڈھلتی چلی گئی۔ اور اب وہ اپنے بوڑ ھے
والدین کا بوجھ اٹھانے کے لیے تنہا رہ گئی تھی۔
ان حالات میں اس کا سہارا خدا کی ذات تھی۔ اسے خدا سے بہت شدید محبت تھی۔
اتنی محبت کہ زندگی کی کسی محرومی نے اس کے اندر تلخی نہیں آنے دی۔ وہ نماز
روزہ کی پابند تو بچپن سے تھی، مگر خدا کی محبت کی یہ مٹھاس اسے اس کے
روحانی استاد عبداللہ صاحب کی کتابیں پڑ ھ کر ملی تھی۔ ۔ ۔ اور اب یہ اس کی
زندگی کا مشن تھا کہ وہ خدا کی بندگی اور محبت کی یہ مٹھاس اپنے نوجوان
طلبا تک منتقل کرے ۔ وہ ایک بہترین استاد تھی اور اس کے طلبا اس کی بہت عزت
کرتے تھے ۔ اسی لیے وہ اس کی باتیں ہمیشہ توجہ سے سنتے اور شائستہ شوق سے
انھیں پڑ ھاتی تھی۔
مگر آج نجانے کیوں اس کا دل بہت اداس تھا۔ شاید طبیعت کی خرابی کا اثر تھا
کہ وہ ڈپریشن کی کیفیت میں تھی۔ ناشتے سے فارغ ہوکر وہ آئینے کے سامنے کھڑ
ی کالج جانے کے لیے تیار ہورہی تھی۔ اس نے اپنے چہرے کو غور سے دیکھا۔
ڈھلتی جوانی کے سارے اثرات اب ظاہر ہورہے تھے ۔ وہ ایک کرب کے ساتھ مسکرائی
اور خود کو مخاطب کر کے دھیرے سے بڑ بڑ ائی:
’’شائستہ! تم ہار گئی۔ تمھارے حصے میں تنہائیوں کے سوا کچھ نہیں آیا؟‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کر لیں ۔ شاید یہ اس کا اعتراف شکست تھا۔
مگر اسی لمحے استاد عبداللہ کی ایک بات اس کے کانوں میں گونجنے لگی:
’’جو خدا سے سودا کرتا ہے وہ کبھی نقصان نہیں اٹھاتا۔‘‘
ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس نے آنکھیں کھولیں اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی:
’’دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ دیکھ لیں گے ۔ ۔ ۔ اب وقت ہی کتنا بچاہے ۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
منظر ختم ہو گیا۔ میں نے صالح کی سمت دیکھھ کر کہا:
’’میں تو اس لڑ کی کو نہیں جانتا۔‘‘
’’اب جان لو گے ۔ ویسے تم جو کچھ لکھتے تھے ، وہ بہت دور تک جاتا تھا۔‘‘
صالح نے جواب دیا اور ساتھ ہی میرا ہاتھ تھامے ایک سمت آگے بڑ ھنے لگا۔
تھوڑ ی دیر بعد ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں ویسے ہی سخت گیر فرشتے نظر آئے
جیسے عرش کی سمت عام لوگوں کو بڑ ھنے سے روکنے کے لیے کھڑ ے تھے ۔ مگر صالح
کو دیکھ کر انہوں نے ہمارا راستہ چھوڑ دیا۔ ذرا دور چل کر ہمارے سامنے ایک
دروازہ آ گیا۔ صالح نے دروازہ کھولا اور میرا ہاتھ تھامے اندر داخل ہو گیا۔
یہ دروازہ ایک دوسری دنیا کا دروازہ تھا۔ کیونکہ اس کے دوسری طرف حشر کے
پریشان کن ماحول کے برعکس منظر پھیلا ہوا تھا۔ میں بے اختیار بولا:
’’صالح! ہم واپس نبیوں کے کیمپوں کی طرف تو نہیں آ گئے ؟‘‘
اس نے مسکرا کر کہا:
’’ہاں ۔ ۔ ۔ تمھار ا دکھھ تو یہیں آ کر دور ہو سکتا ہے ۔‘‘
ہم چلتے ہوئے ایک شاندار خیمے کے قریب پہنچے ۔ اس کے دروازے پر ایک انتہائی
باوقار اور پرنور چہرے والے ایک صاحب کھڑ ے تھے ۔ یہ میرے لیے بالکل اجنبی
تھے ۔ قریب پہنچ کر صالح نے ان سے میرا تعارف کرایا:
’’یہ عبد اللہ ہیں ۔ محمد رسول اللہ کی امت کے آخری دور کے امتی۔ یرمیاہ آپ
انہی سے ملنا چاہ رہے تھے نا؟‘‘ ، یہ آخری جملہ اس عظیم ہستی سے میرا تعارف
بھی تھا اور یہ وضاحت بھی کہ میں یہاں کیوں موجود ہوں ۔
’’آپ یرمیاہ ہیں ؟ مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ لیکن
آپ مجھے کیسے جانتے ہیں ؟‘‘، میں نے پرجوش لہجے میں کہا اور ان کے جواب کا
انتظار کیے بغیر اپنی بات جاری رکھی۔
’’آپ کے حالات اور زندگی میں میرے لیے ہمیشہ بڑ ی رہنمائی رہی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میرے ذہن میں بنی اسرائیل کے اس عظیم پیغمبر کی زندگی گھوم
رہی تھی۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں بنی اسرائیل بدترین اخلاقی انحراف کا شکار
تھے اور اسی بنا پر اپنے زمانے کی سپر پاور عراق کے حکمران بخت نصرکے
ہاتھوں سیاسی مغلوبیت کے خدائی عذاب میں مبتلا ہو چکے تھے ۔ مگر ان کے
لیڈروں نے قوم کی اصلاح کرنے کے بجائے ان کے ہاں سیاسی غلبے کی سوچ عام کر
دی۔ یرمیاہ نے بنی اسرائیل کو ان کی اخلاقی اور ایمانی گمراہیوں پر متنبہ
کیا اور انھیں سمجھایا کہ وقت کی سپر پاور سے ٹکرانے کے بجائے اپنی اصلاح
کریں ۔ قوم کو تباہی سے بچانے کے لیے انھوں نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ یہاں
تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر شادی بھی نہ کی۔ مگر ان کی قوم نے اپنی اصلاح
کرنے کے بجائے انہیں کنویں میں الٹا لٹکادیا اور پھر بخت نصر کے خلاف بغاوت
کر دی۔ اس کے بعد بخت نصر عذاب الٰہی بن کر نازل ہوا اور اس نے یروشلم (بیت
المقدس) کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ چھھ لاکھ یہودی قتل ہوئے اور چھھ لاکھ کو
وہ غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گیا۔
میں اسی سوچ میں تھا کہ انھوں نے میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’اس کا سبب یہ ہے کہ آپ کے زمانے میں آپ کی قوم کے اعمال اور رویے بالکل
میری قوم جیسے تھے ۔‘‘
’’لیکن آپ ایک نبی تھے اور میں ایک عام آدمی تھا۔‘‘
’’یہی قوموں کا اصل المیہ ہوتا ہے ۔‘‘، انھوں نے میری بات کے جواب میں کہا۔
’’ہر قوم کو اپنے زمانے کا بڑ ے سے بڑ ا آدمی، چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو،
ایک عام اور معمولی سا آدمی لگتا ہے ۔ وہ اس کی تکذیب کر دیتے ہیں ۔ یہ الگ
بات ہے کہ اگلی نسلیں اس نبی یا مصلح کو تقدس کے اس آسمان پر بٹھادیتی ہیں
، جہاں وہ خدا سے بھی زیادہ محترم ہوجاتا ہے ۔‘‘
’’اقوام کی نفسیات کا کتنا خوبصورت تجزیہ کیا ہے آپ نے ۔ مگر آپ نے یہ نہیں
بتایا کہ آپ مجھے کیسے جانتے ہیں اور مجھ سے کیو ں ملنا چاہ رہے تھے ؟‘‘
میری اس بات کے جواب میں وہ مسکراتے ہوئے بولے :
’’آپ سے میں اپنی ہونے والی بیگم کے رشتے سے ملنا چاہتا تھا۔ آپ سے ملانے
کے لیے انہوں نے مجھے اعراف سے یہاں نیچے بلوالیا ہے ۔ وہ آپ سے ملنے کی بے
حد خواہشمند ہیں ۔‘‘
یہ کہتے ہوئے انہوں نے خیمے کی طرف رخ کر کے کسی کو آواز دی:
’’ذرا باہر آنا! دیکھو تو تم سے کون ملنے آیا ہے ؟‘‘
میں نے پرجوش انداز میں ان سے مصافحہ کیا اور پھر اس لڑ کی کو دیکھنے لگا
جو خیمے سے نکل کر ان کے برابر آکھڑ ی ہوئی تھی۔ یہ لڑ کی اپنے حلیے سے
کوئی شہزادی اور شکل و صورت میں پرستان کی کوئی پری لگ رہی تھی۔ اس لڑ کی
نے گردن جھکا کر مجھے سلام کیا اور مجھے مخاطب کر کے کہا:
’’آپ مجھے نہیں جانتے ۔ مگر میرے لیے آپ میرے استاد ہیں اور اس رشتے سے میں
آپ کی روحانی اولاد ہوں ۔ میرا نام شائستہ ہے ۔ گمراہی کے اندھیروں میں خدا
کے سچے دین کی روشنی میں نے آپ کے ذریعے سے پائی تھی۔ خدا سے میرا تعارف آپ
نے کرایا تھا۔ خدا کے ساتھ انسان کا اصل تعلق کیا ہونا چاہیے ، یہ میں نے
آپ ہی سے سیکھا تھا۔ آج دیکھیے ! خدا نے مجھ پر احسان کیا اور اب میں ایک
نبی کی بیوی بننے جا رہی ہوں ۔‘‘
تھوڑ ی دیر قبل صالح نے اسی لڑ کی کو مجھے دکھایا تھا۔ مگر اب اس کی حالت
میں جو انقلاب آ چکا تھا اسے دیکھھ کر میں دنگ رہ گیا۔ لیکن اسے اس طرح
دیکھھ کر مجھے جتنی خوشی ہوئی، اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں
نے شائستہ سے کہا:
’’میری طرف سے آپ دونوں دلی مبارکباد قبول کیجیے ۔ امید ہے کہ آپ مجھے اپنی
شادی میں بھی یاد رکھیں گی۔‘‘
’’کیوں نہیں ۔ آپ کو تو بلانے کا مقصد ہی یرمیاہ کو یہ بتانا تھا کہ میرے
میکے والے کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں ۔‘‘، اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
’’پھر تو آپ نے غلط شخص کا انتخاب کیا ہے ۔‘‘
میں نے فوراً جواب دیا۔ پھر اپنا رخ یرمیاہ نبی کی طرف کرتے ہوئے کہا:
’’ لیکن شائستہ کی بات بالکل درست ہے ۔ ان کے میکے کے لوگ معمولی نہیں ۔
اور ہوبھی کیسے سکتے ہیں ۔ شائستہ امت محمدیہ میں سے ہیں ۔ نبی عربی کی
نسبت کے بعد ان کا میکہ معمولی نہیں رہا۔‘‘
یرمیاہ نے بھی اس بحث میں شکست نہ کھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ کہنے لگے :
’’مگر وہ تو نبی ہونے کی حیثیت میں میرے بھائی ہوئے ۔ وہ آپ کی طرف سے کیسے
آ سکتے ہیں ؟ البتہ شائستہ کی بات ٹھیک ہے ۔ ان کے میکے کے لوگ واقعی
معمولی نہیں ہیں ۔‘‘
اس موقع پر صالح نے مداخلت کی اور کہا:
’’آپ لوگوں کی مرتبہ و منصب کی اس بحث کا فیصلہ بعد میں ہوتا رہے گا۔ سر
دست مجھے عبداللہ کو واپس لے کر جانا ہے ۔ اس لیے ہمیں اجازت دیجیے ۔‘‘، اس
کے ساتھ ہم دونوں وہاں سے رخصت ہوگئے ۔واپسی پر صالح مجھ سے بولا:
’’ہو گیا نا تمھارے دکھھ کا مداوا؟‘‘
میں نے خدا کی اپنے بندوں پر عنایات کا جو مشاہدہ ابھی کیا تھا اس نے میری
قوت گویائی سلب کر لی تھی۔میں خاموش رہا ۔ صالح نے اپنی بات جاری رکھی:
’’ یہ لڑ کی اپنے صبر کی وجہ سے اس مقام تک پہنچی ہے ۔ خدا نے اس لڑ کی کو
سخت حالات اور معمولی شکل و صورت کے ساتھ آزمایا تھا۔ مگر اس نے محروم ہونے
کے باوجود صبر، شکر اور سچی خدا پرستی کی راہ اختیار کی تھی۔ اور آج تم نے
دیکھھ لیا کہ جو پچھلی دنیا میں پانے سے محروم رہ گئے ، ان کا صبر آج انھیں
کس بدلے کا مستحق بنا رہا ہے ۔‘‘
میں چلتے چلتے رکا۔ اپنی نظریں اٹھا کر آسمان کو دیکھا، آسمان والے کو
دیکھا اور پھر اپنی گردن جھکا دی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |