بے یقینی ام المسائل

وزیر اعظم نواز شریف جس طرح سے مکمل طور پر گھیرے میں لائے جارہے ہیں۔ان کا بچ جانا آسان نہیں۔وہ اکثر بچ نکلنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ممکن ہے اب بھی وہ کسی طریقے سے نکل جائیں۔مگر بظاہر ان کے گرد شکنجہ پوری طرح کس لیاگیاہے۔ایک دو طر ف سے نہیں بلکہ درجن بھر کے قریب ان کے رقیب اور بدخواہ اپنی اپنی تدبیریں کررہے ہیں۔اگر وہ پھر بھی بچ گئے تو معجزہ ہی ہوگا۔مگر ایسا کب تک چلے گا۔کب تک ہم معجزوں پر تکیہ کیے رہے گے۔ہمارے معاملات کب تک ہمارے ہاتھ سے نکل کر ہوا کے دوش پر سفر کرتے رہیں گے۔اس سفر کی منزل کیا ہوگی۔کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔بس اسی وقت منزل کا پتہ لگتاہے۔جب وہ دکھائی دیتی ہے۔ اکثر ہماری منزل ہماری توقعات کے خلاف ہوتی ہے۔بجائے کچھ آرام اور سکون ملنے کے یہ منزل ہمارے لیے کسی نئے سفرکا آغاز بھی بن جاتی ہے۔ایسی منزلیں ہمارا مقدر ہی ہیں۔مگر یہ بے سبب نہیں۔ہمارے معاملات بھی تو کسی طور طریقہ یا ضابطے کے بغیر چل رہے ہیں۔کون چور ہے کون سادھ کچھ تعین نہیں ۔کون اچھا ہے۔کون بر کچھ اندازہ نہیں کب الیکشن ہونگے کون جیتے گا۔کو ن آؤٹ ہوگا۔کچھ خبر نہیں ۔وزیر اعظم نواز شریف کی پکڑ اور بچت بھی اسی بے یقینی کے ماحول کی دین ہوگی۔اگرپکڑے گئے تو حیرت نہ ہوگی۔اگر نکل گئے تو تعجب نہ ہوگا۔جب کوئی سسٹم نہ ہو تو اسی قسم کی صورتحال جنم لیتی ہے۔
پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف کی طرف اڑان بھرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔پہلے پارٹی کی اعلی قیادت جناب آصف علی زرداری صاحب نے اس معاملے پر اپنی خفگی دکھائی تھی۔بولے کہ جانے والوں کو منانے کی کوشش نہ کی جائے۔اب نوجوان قیادت جناب بلاول بھٹو بھی گلے کررہے ہیں۔مگر دونوں نے پارٹی کو اس حال تک پہنچنے کے اسباب جانے کی کوشش کی نہ ان اسباب کو دور کرنے کی کوئی ضرورت سمجھی۔دونوں پارٹی کو اپنے اپنے ڈھنگ سے چلانے کی سوچ رکھتے ہیں۔سابق صدر آصف زرداری اپنے مفاہمتی فارمولے پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں۔جبکہ بلاول کو کسی نئے نسخہ کیمیا ء کی تلاش رہتی ہے۔وہ پارٹی میں اگاڑ پچھاڑ سے اپنی الگ سوچ کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔کہاجاتاہے کہ آزاد کشمیر کے الیکشن کمییئن بلاول سوچ کاپرتوتھی۔سندھ کابینہ میں ہونے والی تبدیلیاں بھی ان کی تجویز تھی۔اور سب سے بڑھ کر وزیر اعلی سندھ کی تبدیلی کو خاص کر بلاول سٹریٹجی قرار دیا جاتاہے۔اگر بلاول بھٹو کو کچھ مجبوریاں نہ ہوتیں تو اب تک وہ پارٹی کو بالکل نئی شناخت دے چکے ہوتے۔مگر سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے میدان نہ چھوڑنے کے سبب انہیں کئی بار پیچھے ہٹنا پڑا۔کئی بار لمبی چپ اختیا رکی ۔اور کئی باروطن سے باہربھی چلے گئے۔ان دونوں کی اپنی اپنی مرضی پر قائم رہنے کے سبب ہی پارٹی کو موجودہ حالات کا سامنا ہے۔بدقسمتی سے دونوں اب بھی نہ تو ایک دوسرے کے لیے جگہ چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔اور نہ ہی کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کرنے پر اتفاق ہوپایا۔حالیہ دنوں میں پارٹی چھوڑنے ولوں کو مخاطب کرتے ہوئے بلاول کا کہنا تھاکہ کچھ انکلز نے میری ماں کو چھوڑا اور کچھ اب میرا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔پارٹی کو چھوڑنے والے سن لیں۔ان کی حیثیت محض پارٹی کے باعث ہے۔پارٹی چھوڑنے کے بعد وہ زیرو ہونگے۔

بے یقینی کا دوردورہ ہے۔کچھ پتہ نہیں لگ رہاکہ اگلے الیکشن میں کون سی پارٹی کیا حکمت عملی اپنائے گی۔کون سا رہنما کون سی پارٹی کا پرچم تھامے نظر آئے گا۔بے یقینی کے اس ماحول نے قوم کے لیے نئی صبح کا راستہ روک رکھاہے۔ہمارے مسائل تو وہی ہیں۔جو پانچ برس پہلے تھے۔یا بیس برس پہلے مگر ان کو حل کرنے والوں کی بے ثباتی کے سبب یہ جوں کے تو ں رہ گئے۔قوم کی فیاضی دیکھے کہ وہ جلد ہی معاف کردیتی ہے۔ایک شخص کل کو بھٹو کی پوجا کررہاتھا۔اب وہ بھٹو کو لتاڑنے والوں کے گروپ میں چلا گیا۔مگر قوم شاید اسے پھر سے سینے سے لگالے۔بدقستمی تو یہ ہے کہ وہ شخص متواتر بھٹو خاندان پر کیچر اچھالنے کے بعد سات آٹھ سال بعد پی پی میں واپس آنا چاہے تو پارٹی کی اعلی قیادت اس کا ریڈ کارپٹ استقبال کرتی ہے۔ایسے شخص کو بجائے صحرا انوردی ملنے کے اگر آؤ بھگت ملے گی تو بھلا کیوں کر عبرت پائے گا۔پیپلز پارٹی سے جانے والے ایک نئی گریٹ گیم کی نوید بھی دے رہے ہیں۔بظاہر تحریک انصاف کی حالت پتلی ہے۔اگر قانون اور قاعدے کی بات کی جائے تو اس وقت تحریک انصاف کی قیادت خو د بھی وہی کھڑی ہے۔جہاں وو تمام تر محنت کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کو کھینچ کرلائی ہے۔قوم نے اگر گناہ گارکا احتساب کرنا ہے۔تو اس معاملے میں خاں صاحب پر بھی وہی چارجز اور الزامات عدالت میں لگ رہے ہیں میاں صاحب کے جوابات سے اگر عدلیہ مطمئین نہیں تو خاں صاحب بھی عدالت کومطمئن نہیں کرپارہے۔منی لانڈرنگ۔آف شور کمپنیاں ۔فلیٹ اور بنی گالا رہائش سمیت وہ تمام الزامات میں تحریک انصاف کے جواب اتنے ہی نامکمل ہیں۔جتنے شریف فیملی کے۔اس کے باوجود اگر کچھ لوگ پی پی چھوڑکر تحریک انصاف کا رخ کررہے ہیں تویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی اڑان کسی اصول کی بجائے یا تو کوئی فون کال ہے۔یاشیخ رشید جیسے کسی میسنجر کا کوئی کارنامہ ۔ ایک بار پھر بے یقینی او ربے ثباتی کے ماحول کی دلالت ہورہی ہے۔ پی پی کی تما م تر کرپشن اور ہیرا پھیریوں کے باوجود ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ اسے مضبوط کرتاہے۔زرا سی پلاننگ اس پارٹی کو باآسانی اگلا الیکشن جتوا سکتی تھی۔مگر اب ہوائیں کچھ اور ہی خبر دے رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی بہ نسبت مضبوط پوزیشن کے باوجود اس پارٹی سے نکلنے والوں کی معقول تعدا د حیران کن ہے۔بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ کچھ پتہ نہیں چل رہا۔کل کیا ہوگا۔وہ قوتیں ایک بار پھرپوری طرح متحرک ہوچکی ہیں۔جو من پسند سیٹ اپ قائم کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ایسا تابع سیٹ اپ جو عوام کے لیے بھی قابل قبول ہو۔اور ان کے مفادات کا تحفظ کرپائے۔یہی قوتیں انتشار اور خلفشار پیدا کرتی ہیں۔اس افراتفری اور بے یقینی کے ماحول ہی میں ان کے ناجائز ۔غیر قانونی اور غیر آئنی مفادات پھلتے پھولتے ہیں۔بے یقینی کا دور دورہ ہے۔اور یہ ہمارے لیے ام المسائل سی بن چکی ہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.