گذشتہ ایام کےمقابل آج لوگوں نے اس قدر ترقی کے زینے طے
کر لئے ہیں کہ موبائیل ،ٹیب لیٹ،لیپ ٹاپ اور کمپوٹر کی صور ت میں دنیا مٹھی
میں سمٹ کر آگئی ہے۔دور حاضر کا انسان روزانہ صبح سویرے اٹھتے ہی اخبار کا
مطالعہ کرتاہے ۔جس میں ظلم ،ظالم ،مظلوم ،اور قتل ،قاتل ،مقتول کے نت نئے
چہرے نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔ان تمام واقعات کی مشترکہ روداد غم یہ
ہوتی ہے کہ ان میں معصوم مسلمان مردو عورت اور بچوں کو ظلم کو نشانہ بنایا
جانا واضح طور پر دکھائی دیتاہے۔قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس سفاکانہ کارنامے
کو بروئے کار لانے والے دشمن عناصرنے مسلمانوں کاحلیہ اپنالیا ہے اور اپنی
شناخت ایک متدین اور حقیقی مسلمان کی حیثیت سے کراتے ہیں۔جس کا واحد مقصد
یہ ہے کہ سانپ بھی مرجائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے!
جب ان مجرموں کو اپنے کئے کی سزا نہ ملی اور مسلمان دشمن نہیں بلکہ انسان
دشمن ایجنسیوں نے ان کی جنگی اسلحہ اور دیگر تمام وسائل زندفی فراہم کئے تو
ان کی جسارتیں اور جوان ہوگئیں ۔جس کے چلتے ان درندہ صفت لوگوں نے مسجد ،مندر
،گرجا گھر،عزاخانہ ،مقدس روضوں اور مذہبی مقامات کی برملا توہین کرکے عالم
انسانیت کے زخموں پر نمک چڑھک دیاہے۔
آج سے تقریبا ً90 برس قبل 8 شوال المکرم 1344ھ بمطابق 1926ء میں آل سعود نے
بنی امیہ وبنی عباس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خاندان نبوت وعصمت کے لعل و
گہر کی قبروں کو جنت البقیع (مدینہ منورہ )اور اسی سال جنت المعلی(مکہ
معظمہ )میں ویران کرکےاپنے اس بغض و عداوت کا ثبوت دیاجو صدیوں سے ان
کےسینوں میں کڑوٹیں لے رہا تھا۔چوری کے بعد سینی زوری کا عالم یہ ہو اکہ ان
کے زرخرید غلاموں نے یہ فتویٰ صادر کیا کہ قبر پر سائباں ،چھت ،گنبد ،مینار
اور قبور وحرم بنانا اور اس کی زیارت کرنا حرام ہے۔جبکہ قرآن مجید کی صریحی
بیان ہےکہ :ومن یعظم شعائراللہ فانھا من تقو ی القلوب "اورجو بھی اللہ کی
نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کےدل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگا۔(حج 32)
ام قیس بنت محض کابیان ہےکہ ایک دفعہ میں رسول خدا کے ہمراہ بقیع پہونچی تو
آپ نے فرمایا:اس قبرستان سے ستر ہزار افراد محشورہوں گے جو بغیر حساب و
کتاب داخل بہشت ہوں گے ۔نیز ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کے مانند دمک
رہے ہوں گے۔(صحیح بخاری جلد 4حدیث4 ،سنن نسائی جلد 4 حدیث 91سنن ابن ماجہ
جلد 1 صفحہ 493)
اگر بفرض محال مذکورہ فتویٰ کو تسلیم کرلیں تو اس کا یہ مطلب ہوگاکہ 1115ھ
سے پہلے جہاں جہاں بھی قبورکی زیارت ،احترام ،تعمیر و مرمت ہوئی وہ سب کفر
و شرک کےزمرے میں شامل تھا۔یعنی اس کا کھلاہوا مفہوم یہ ہوا کہ محمدابن
عبدالوہاب سے قبل گذشتہ تمام علماء اسلام غیر اسلامی و حرام افعال میں ملوث
تھے جبکہ بات ازلحاظ عقل و منطق بالکل بعید نظر آتی ہے ۔آل سعود کی یہ
کارستانیاں کہ عراق اورشام سے حج و عمرہ کی انجام دہی کی خاطر تشریف لانے
والوں پر پابندی عائد کرنا اور سعودی عرب میں مقیم حضرات پر یہ دباؤ کہ
وہابیت قبول کرو ورنہ جلاوطن کر دیئے جاؤگے ۔جس کے باعث ہزاروں مسلمان ان
کےمظالم سے تنگ آکر حجازکو الوداع کہنے پر مجبورہو گئے۔
مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کرنا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاہ
کارنامے صدیوں کا سفر کر چکے ہیں۔لیکن چونکہ آج میڈیا کا دور آچلا ہے اس
سبب سے اگر دنیا کےکسی بھی گوشہ و کنار میں دہشت گرد انہ واردات ہوتی ہیں
تو اس کی خبریں لمحوں میں جنگل کی آگ کے مانند پھیل جاتی ہے۔مثلاً 2013 ء
میں صحابی رسول اکرم جناب حجر ابن عدی کی قبر مطہر کو سلفی گروہ نے مسمار
کرکے جب ان کے ترو تازہ جسم اطہر کی تصویریں سوشل میڈیاپر شائع کیں تو
لمحوں میں اس دردناک خبر نے پوری دنیا میں غم وآلام کی فضا قائم کردی
۔لوگوں نےان کےاس وحشیانہ عمل پر صدائے احتجاج بلند کرکے رسول اعظم اور ان
کےاصحاب باوفا سےاظہار محبت کا ثبوت پیش کیا۔اسی طرح 2014 ء میں جب ان سلفی
وہابی گروہ نے انبیاء ما سبق جناب یونس اور جناب شیث علیہماالسلا م کے
مزارات پر دہشت گردانہ حملہ کیا تو اس المناک واقعہ کی خبر پورے عالم میں
جاپہونچی ۔پوری دنیاکےحریت پسند افراد نے اس شیطانی عمل کی سخت الفاظ میں
مذمت کی اور مسلم و غیر مسلم نے ایک عظیم پیمانہ پر احتجاجی جلوس بھی نکالا
۔
المختصر! یہ سلسلہ روز ازل سے جاری وساری ہے مگر جس کر وفر سے اس ظالمانہ
روش کو اختیار کیاگیا اسی شد ت سے مظلومیت میں نکھار پیدا ہوتاگیا اور پھر
ان مظالم کااختتام ظالم کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی جس کے بعد ظلم و
ظالم د ونوں پور ی دنیا میں رسوائے زمانہ ہوئے۔اور یہ ہونا ہی تھاکیوں کہ
ظلم پھر ظلم ہےبڑھتاہے تو مٹ جاتاہے ۔ |