ہم انسان بے شمار زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہوتے ہیں. ان میں
سے کچھ زنجیریں ہمارے زہنوں سے بندھی ہوتی ہیں. جن سے چھٹکارا وقت کے ساتھ
ساتھ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا چلا جاتا ہے. کیونکہ ہم ان زنجیروں سے
خود کو آزاد کروا ہی نہیں سکتے یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود کو آزاد
کروانا ہی نہیں چاہتے. یہ سب ہمارے ماضی میں ہوئے تجربات کا حاصل ہوتا ہے
اور پھر ہم اس لگی بندھی routine کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں. اسکی مثال ایسی
ہی ہے کہ چڑیا گھر میں جب ہاتھی کے بچے کو لایا جاتا ہے تو اس کے پائوں میں
ایک زنجیر باندھ دی جاتی ہے حفاظت کے لیئے ، جیسے جیسے ہاتھی کا بچہ بڑا
ہوتا جاتا ہے تو اس زنجیر کا سائز تھوڑا بڑھا دیا جاتا ہے اور آخر کار ایک
ایسا وقت بھی آتا ہے جب وہ زنجیر ہاتھی کے پائوں سے اتار دی جاتی ہے لیکن
ہاتھی آزاد ہونے کے بعد بھی نہیں بھاگتا، جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ وہ زنجیر
بچپن سے ہی ہاتھی کے پائوں سے نہیں ہاتھی کے زہن سے بندھ جاتی ہے. اسی طرح
بہت ساری منفی باتیں ہمارے زہنوں میں اس طرح بسیرا کرتی ہیں کہ زہن میں
جالے لگ جاتے ہیں لیکن ہماری سوچ تبدیل نہیں ہوتی ، ہم ہر چیز کے منفی پہلو
نکالنے میں ماہر ہو چکے ہوتے ہیں ، یہ سب ہم اپنے ماحول ، دوستوں، خاندان
سے ہی سیکھتے ہیں اور پھر مرتے دم تک ان منفی سوچوں ، منفی رویوں ، ڈر خوف
، دنگے فساد ، غیبت ، جلنا کڑھنا ، ان سب کو اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں.
لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم ساری زندگی ایسی گزاریں ، انسان خود کو نہیں
پہچاننتا اسی لیئے ناکامی اسکا مقدر بن جاتی ہے. جس چیز کو ہم نہیں بدل
سکتے ہمیں سب سے پہلے اس سوچ سے چھٹکارا پانا چاہیئے ، چھٹکارا ایسے مل
سکتا ہے کہ جو نہیں بدلا جا سکتا اس کو totally طور پر اللہ کے سپرد کر
دینا چاہیئے اور اللہ سے یہ ضرور کہنا چاہیئے کہ : اے میرے مالک میں نے
اپنا %100 دیا اپنی ساری قوت طاقت صلاحیت استعمال کی لیکن اے میرے مالک اگر
اس کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہو رہا تو اے میرے مالک میں سب کچھ تیرے حوالے
کرتا ہوں تو کارساز ہے تو کائنات کا مالک ہے تو چاہے تو کیا نہیں ممکن لیکن
تو نہ چاہے تو کیا کرسکتا ہے انسان ". اس زات کا شکریہ ادا کرنا بہت ضروری
ہے کیونکہ جب ہم شکر ادا نہیں کرتے تو ہمیں ان نعمتوں کا احساس تک نہیں
ہوتا جو ہمیں حاصل ہوتی ہیں ، ہم انہیں لاحاصل تمنائوں کا رونا رو رو کر
اور شکوے شکایات کر کر کے اپنے اس مالک سے دور ہو جاتے ہیں جو اس دو جہاں
کا مالک ہے جس کی مٹھی میں ہماری جان ہے جو "کن" کہ دےتو ہم اگلی سانس نہیں
لے سکتے.اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا تاکہ وہ اپنے اچھے
برے کی پہچان کر سکے اور اپنے لیئے بہتر سے بہترین راستوں کا متلاشی ہو
لیکن انسان اس فانی دنیا کے حصول کے لیئے اس لافانی زات کو نظر انداز کرتا
کرتا اس حد تک دور نکل جاتا ہے کہ واپسی کے راستے اس کے لیئے بند ہوتے چلے
جاتے ہیں. اللہ ہم سب کو اللہ سبحان وتعالی کا فرمانبردار اور انسانیت کا
احترام کرنے والے بندوں میں شامل کر لے. آمین ! |