کبھی کسی نے آپ سے کہا کہ چھوڑو یار، یہ کام تمہارے بس سے
باہر ہے۔ یا پھر یہ کہ تم اس کام کے لیے نہی بنے، کچھ اور سوچو؟
اور اگر آپ نےاس وقت کچھ اور بھی سوچا ہوتا تو یقیناً آپ کو 'کچھ اور' ہی
سوچنے کا مشورہ ملتا،
سوچنے کی بات ہے کہ آخر لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ وہ کو نسے محرکات ہیں جو
ہمیں اس قدر بے حس بنا دیتے ہیں کہ ہمیں اپنےالفاظ کی بد صورتی کا احساس تک
نہیں ہو پاتا؟
لیکن بابا اقبال کا یہ شعر انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔
تندئ باد مخالف سےنہ گبھرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانےکے لئے
ہم میں سے ایک بہت بڑی تعداد، زندگی میں کئ کام اور فیصلے "خوف" کے ماتحت
ہو کر کرتی ہے، کچھ کھو جانے کا خوف ہمیں خطرہ/risk مول لینے سے دور رکھتا
ہے۔ ٹھکرائے جانے کا خوف محبت کے اظہار سے روک دیتا ہے۔ناکامی کا خوف، کچھ
نیا کرنے کے رستے میں آکھڑا ہوتا ہے۔ ایک جھوٹ کھل جانے کا خوف ، ایسے کئ
اور جھوٹ کو جنم دیتا ہے،
بالکل اسی طرح انسان کا احساس کمتری اور کسی کا اس سے آگے بڑھ جانے کا خوف
، وجہ بن جاتا ہے اس رویے کی، جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔
مقام حیرت ہے کہ ہماری تمام تر کوشش اور بھاگ دوڑ صرف اس دنیاوی دوڑ میں
آگے نکل جانے تک محدود کیوں ہے؟ خیر یہ یہ ایک الگ ہی بحث ہے۔
ہر وہ انسان جو زندگی کی تمام تر آزمائشوں اور لوگوں کے اختلافات اور حوصلہ
شکنی کے باوجود کسی مقام پر پہنچ پایا 'لیس آلاانسان الا مع سعی' کی عملی
دلیل ہے۔
اس بات سے کیونکر انکار ممکن ہے کہ جو چیز آپ کے نصیب میں لکھ دی گئ ہے ،
وہ نہ صرف آپ کو مل کر رہے گی بلکہ باْذن اللہ اس کا حصول بھی آپ کے لئے
آسان بنا دیا جائے گا
بس کوشش شرط ہے!
تلاش شرط ہے!
یقین شرط ہے!
اور...پرواز شرط ہے!
انسان اگر مستقبل میں بہت دور تک دیکھ پاتا تو شاید حیران بھی ہوتا اور
پریشان بھی۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی لا پروائی میں کہی گئ بات ، آپ کے
اپنے ہی ارادوں کی تکمیل میں رکاوٹ بن جائے۔
غیب کا علم، اور کس انسان کو کس لیئے پیدا کیا گیا ہیے، اور قدرت کو اس سے
کیا کام لینا مقصود ہے؟ میرے یا آپ کے گمان اور قیاس کی رسائ وہاں تک
بہرحال ممکن نہیں۔ لہذَا اس سےاحتراز كرنا ہی بہتر ہے۔
الفاظ بہت ہی طاقتور چیز ہیں، جہاں تک ہو سکےان کا استعمال مثبت أنداز میں
کرنا چاہیے، تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے اپنےالفاظ کسی نہ کسی طور، اور کسی نہ
کسی موڑ پہ ہمارے سامنےآ کھڑے ہوتے ہیں، اور حساب مانگتے ہیں۔۔
اس دنیا میں ہمارا کردار، ایک انسان اور بالخصوص ایک مسلمان ہونے کی حیثیت
سے ایک دوسرے کی داد رسی، ہمت افزائ اور بقول بابا اقبال اخوت کی جہانگیری
اور محبت کی فراوانی کا مظہر ہونا چاہئے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ طاعت کے لئے کم نہ تھے،کرو بیاں |