ماہِ شوال المکرم (جسے حج کا پہلا مہینہ کہا جاتا ہے)
اسلامی تقویم کے حساب سے دسواں مہینہ شمار کیا جاتا ہے ۔ اِس ماہ کے چھ
مخصوص روزے ہیں، جن کے رکھنے کی احادیث مبارکہ میں بڑی ترغیب اور فضیلت
وارد ہوئی ہے ۔
چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ رسول ِ پاکؐ نے ارشاد فرمایا
کہ : ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ (نفلی) روزے شوال کے
مہینہ میں رکھے تو ایسا ہے گویا کہ اُس نے ساری زندگی کے روزے رکھے ۔‘‘ (صحیح
مسلم)
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی ایک دوسری روایت میں یہ آیا ہے کہ : ’’میں نے
رسول اﷲ ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال
کے چھ روزے رکھے تو گویا اُس نے پورے سال کے روزے رکھے۔‘‘(مسند احمد)
حضرت ابو ایوب انصاریؓ ہی سے ایک تیسری روایت اس طرح بھی مروی ہے کہ :
’’نبی پاک ؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس ک بعد
شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے (یعنی سال بھر) کے روزے ہیں ، میں
نے نبی کریم ؐ نے دریافت کیا کہ ہر ایک دن دس (دن کے روزوں کے ثواب ) کے
برابر ہے ؟‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’جی ہاں! ( ہر ایک دن دس دن کے روزوں کے
ثواب کے برابر ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی)
امام ترمذیؒ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں
کہ : ’’یہ حدیث حسن صحیح ہے ، اور اس حدیث کی وجہ سے علماء کی ایک جماعت نے
ماہِ شوال کے ان چھ روزوں کو مستحب قرار دیا ہے۔‘‘(جامع ترمذی)
اسی طرح آنحضرتؐ کے ایک آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ
ؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اور (اس کے بعد) شوال
کے چھ روزے رکھے تو (گویا) اُس نے پورے سال کے روزے رکھے۔‘‘ (صحیح ابن حبان)
حضرت ثوبانؓ ہی سے ایک دوسری روایت اس طرح بھی مروی ہے کہ : ’’رسول اﷲؐ نے
ارشاد فرمایا کہ : ’’رمضان کے مہینے کے روزے دس مہینوں کے (روزوں کے اجر و
ثواب) کے برابر ہیں ، پس یہ (دونوں قسم کے روزے ) پورے سال کے روزوں کے
برابر ہیں ۔‘‘ (السنن الکبریٰ للنسائی)
اسی طرح ایک تیسری روایت حضرت ثوبانؓ ہی سے اس طرح مروی ہے کہ انہوں نے
رسول اﷲؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’اﷲ تعالیٰ نے نیکی کو دس نیکیوں کے
برابر کردیا ہے ، پس (رمضان کا ) ایک مہینہ دس مہینوں کے (اجر و ثواب کے )
برابر ہے ، اور عید الفطر کے بعد چھ دن (کے روزے ملاکر ) پورے سال کے برابر
(اجر و ثواب ) ہے۔(بحوالہ بالا)
اور ’’مستخرج ابی عوانہ‘‘ میں حضرت ابوہریرہ ؓکی روایت ہے کہ نبی اکرم ؐ نے
ارشاد فرمایا کہ : ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ
روزے رکھے تو یہ (ثواب کے اعتبار سے) پورے زمانے (یعنی سال بھر ) کے روزوں
(کے برابر) ہیں ۔‘‘ (مستخرج ابی عوانہ)
صحاحِ ستہ کی مشہور کتاب سنن ابن ماجہ میں ہے کہ : ’’جس نے عید الفطر کے
بعد چھ روزے رکھے تو یہ (رمضان کے روزوں کے ساتھ مل کر اجر و ثواب میں)
پورے سال کے ( روزہ رکھنے کے اجر و ثواب کے ) برابر ہوجائیں گے ، جو شخص
ایک نیکی لے کر آئے گا اُسے اُس کا دس گنا اجر و ثواب حاصل ہوگا ۔‘‘ (سنن
ابن ماجہ )
حضرات محدثین نے لکھا ہے کہ رمضان کے فرض روزے رکھنے کے بعد شوال کے مہینہ
میں ان چھ نفلی روزوں کو وہی نسبت اور مقام حاصل ہے جو فرضوں کے ساتھ سنت و
نفل نماز کو حاصل ہے ، چنانچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز فرض
نماز کے اندر اگر کوئی چھوٹی موٹی ، کمی کوتاہی ہوگی تو وہ سنت و نفل
نمازوں سے پوری کی جائے گی ، لہٰذا جو لوگ صرف رمضان کے روزے رکھ کر اس کے
پورے فوائد و برکات حاصل نہیں کرپاتے وہ فوائد شوال کے چھ روزے رکھ کر حاصل
ہوجاتے ہیں۔ ( شوال اور عید الفطر کے فضائل و احکام)
چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ امام شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ کا قول نقل
کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ’’ان روزوں کی مشروعیت کا راز یہ ہے کہ یہ روزے
ایسے ہیں جیسے نمازِ پنج گانہ کے ساتھ سنتیں مقرر کی گئی ہیں ، جن کی وجہ
سے اُن لوگوں کو پورا فائدہ ہوجاتا ہے جو اصل نماز سے پورا فائدہ حاصل نہیں
کرتے ، ان روزوں کی فضیلت میں یہ بات( کہ ان کی وجہ سے آدمی کو ہمیشہ روزے
رکھنے کے برابر ثواب ملتا ہے ) اس واسطے مخصوص کی گئی ہے کہ یہ قاعدہ مقرر
ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر ملتا ہے اور ان چھ روزوں سے یہ
حساب پورا ہوسکتا ہے (یعنی تیس رمضان کے روزے اور چھ شوال کے ملاکر چھتیس
ہوئے اور چھتیس کو دس سے ضرب دینے سے تین سو ساٹھ ہوجاتے ہیں اور ایک سال
میں بھی تین سو ساٹھ د ن ہوتے ہیں تو حساب برابر ہوگیا۔)(فتح الملہم شرح
صحیح المسلم)
یہ فضیلت اور ثواب تو اُن لوگوں کے حق میں تھا کہ جنہوں نے رمضان کے تیس
روزے پورے رکھے ہوں، اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے ذمہ رمضان کے روزے
قضاء باقی ہوں اور وہ شوال کے نفلی روزے رکھنا چاہے تو اُس کا کیا حکم ہے ؟
تو فقہاء نے لکھا ہے کہ ایسے شخص کے لئے اگرچہ شوال کے یہ چھ نفلی روزے
رکھنا جائز ہیں، لیکن بعض علماء کے نزدیک ان چھ روزوں کی فضیلت حاصل کرنے
کے لئے پہلے رمضان کے روزوں کی تعداد مکمل کرنا ضروری ہے ، ورنہ ان روزوں
کا مکمل طور پر ثواب حاصل نہیں ہوگا۔تاہم بعض علماء کے نزدیک رمضان کے روزے
اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے قضاء ہوئے ہوں تو اس صورت میں شوال کے ان چھ
روزوں کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔اس لئے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی کے
ذمہ رمضان کے روزے قضاء باقی ہوں تو پہلے وہ ماہِ شوال میں ان قضاء روزوں
کو اداء کرے ، اس کے بعد شوال کے باقی ماندہ دنوں میں شوال کے چھ روزے رکھے
، اس صورت میں شوال کے چھ روزوں کی فضیلت اسے حاصل ہوجائے گی۔ (مغنی
المحتاج الیٰ معرفۃ الفاظ المنہاج بحوالہ شوال اور عید الفطر کے فضائل و
احکام)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں رمضان کے قضاء روزوں کی نیت
کرلینے سے دونوں قسم کے روزے ادا ہوجاتے ہیں ، یہ خیال صحیح نہیں ، اس لئے
کہ علماء نے تصریح کی ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں رمضان کے روزوں کی قضاء
کی نیت کرنے سے ان چھ روزوں کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی ۔
چنانچہ مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے لکھا ہے کہ : ’’ حدیث مسلم( ترجمہ:رسول
اﷲؐ نے فرمایا کہ : ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد چھ (نفل)
روزے ماہِ شوال میں رکھے تویہ ایسا ہے گویا کہ اس نے ساری زندگی کے روزے
رکھے)سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چھ روزے غیر رمضان کے مراد ہیں ، نیز صیام دہر
کے ثواب کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہر نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے ،
اس حساب سے رمضان کا مہینہ دس ماہ کے قائم مقام ہوا ، پورے سال سے دو ماہ
رہ گئے ، اس کی تکمیل کے لئے شوال کے چھ روزے ہیں جو ساٹھ روز (دوماہ) کے
قائم مقام ہیں ، اس سے بھی یہی ثابت ہوا کہ نفل روزے مراد ہیں ، ان ایام سے
قضاء روزوں سے یہ فضیلت حاصل نہ ہوگی۔‘‘ ( احسن الفتاویٰ )
شرح نقایہ میں لکھا ہے کہ : ’’ماہِ شوال کے چھ روزے نہ تو عید الفطر کے
اگلے دن سے فوراً رکھنا ضروری ہیں اور نہ ہی ان کو مسلسل رکھنا ضروری ہے
بلکہ عید الفطر کا دن چھوڑ کر ماہِ شوال میں جب چاہے اور جس طرح چاہے یہ چھ
روزے رکھ لے ، تاہم بعض علماء کے نزدیک عید کے دوسرے دن سے ہی مسلسل ان چھ
روزوں کا رکھنا فضیلت کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘(شرح نقایہ)
چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ امام شافعیؒ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے
ہیں کہ : ’’شوال کے چھ روزے مسلسل رکھے جائیں اور اِن چھ دنوں کے درمیان
کوئی روزہ ترک نہ کیا جائے ۔ہمارے نزدیک اور امام محمدؒ کے نزدیک عام ہے
چاہے مسلسل رکھے چاہے غیر مسلسل۔ نیز امام محمد ؒ نے لکھا ہے کہ : ’’غیر
مسلسل روزے رکھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے اور نصاریٰ (عیسائیوں) سے مشابہت
بھی نہیں ہوتی۔‘‘ (ماثبۃ بالسنۃ فی احکام السنۃ)
آج کل بعض حضرات شوال کے ان چھ روزوں کو اپنی کم علمی کی بناء پر فقہ کی
بعض عبارات کے حوالہ سے مکروہ کہہ دیتے ہیں ، دلائل کی رُو سے ان کا یہ
کہنا بالکل درُست نہیں ، احادیث مبارکہ ، حضرات تابعین ، ائمہ مجتہدین ،
فقہائے کرام اور جمہور مشائخ عظام رحمہم اﷲ تعالیٰ کی تعلیمات کی رُوشنی
میں راجح اور مضبوط بات یہ ہے کہ یکم شوال یعنی عید الفطر کے بعد ماہِ شوال
کے چھ روزے رکھنا مکروہ نہیں بلکہ مستحب ہیں ۔اور بعض کتابوں میں امام ابو
حنیفہؒ اور امام مالک ؒ کی طرف ان روزوں کے مکروہ ہونے کی جو نسبت کی گئی
ہے ،وہ نسبت علیٰ الاطلاق نہیں کی گئی ،بلکہ بعض مخصوص شرائط کے ساتھ وہ
مقید ہے ، اس لئے کہ ان حضرات نے شوال کے ان چھ روزوں کو مطلقاً مکروہ نہیں
قرار دیا ، بلکہ بعض خاص صورتوں میں مکروہ قرار دیا ہے ، مثلاً یہ روزے اس
صورت میں مکروہ اور ممنوع ہیں جب کوئی شخص عید کے دن بھی روزہ رکھے (حالاں
کہ عید کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں) یا پھر یہ کہ ان روزوں کو رمضان کا حصہ
اور رمضان کی طرح ضروری سمجھے ،کیوں کہ ایسی صورتوں میں اسلامی احکام میں
فساد اور خرابی لازم آنے کا اندیشہ باقی رہتاہے ، اس لئے اس قسم کی صورتوں
میں شوال کے ان چھ روزوں کو مقید کرکے مکروہ کہا گیا ہے، مطلق طور پر مکروہ
نہیں کہا گیا۔ (دُرّمختار بحوالہ شوال اور عید الفطر کے فضائل و احکام بحذف
و تغیر)
لہٰذا مختار اور راجح قول یہ ہے کہ یکم شوال یعنی عید الفطر کے بعد ماہِ
شوال کے چھ نفلی روزوں کو مکروہ یا غلط قرار دینا نہ صرف یہ کہ خود غلط ہے
بلکہ یہ قول غیر مفتی بہ ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد مستند کتب حدیث و فقہ نیز
جمہور محدثین اورفقہاء کی تصریحات کے بھی عین خلاف ہے۔
|