سی پیک کی سب سے زیادہ جلن بھار ت کو ہورہی ہے۔اصل میں یہ
منصوبہ اس قدر قبولیت پارہاہے۔جس کی توقع نہ تھی۔اگر چہ یہ کوئی نیا منصوبہ
نہیں اس پر پاکستان کی تقریبا تمام حکومتوں نے کام کیا۔گوادر سی پورٹ کے
معاملے پر سبھی حکمرانوں کی دلچسپی تاریخ کا حصہ ہے۔البتہ نواز شریف نے
قدرے زیادہ توجہ دے کر اس کاغذی منصوبے کو عملی جامہ پہنادیا۔ان کی خوش
قسمتی کہ اس وقت عالمی منظر نامہ ایسا بنا ہواہے۔کہ دوست دشمن سبھی ممالک
کسی نہ کسی انداز میں اس منصوبے کی پبلی سٹی کا سبب بن گئے۔جس سے یہ منصوبہ
اب عالمی سطح پر دلچسپی کا سامان بنا ہواہے۔پاکستان کے ہمسائے ممالک تو
اپنے اپنے فائدے کے لیے اس منصوبے میں حصے دار بننا چاہتے ہیں۔مگر کچھ
پڑوسی ممالک اس منصوبے کی کامیابی کے نتیجے می پاکستان کو طاقتور بنتا دیکھ
کر جلن میں مبتلا ہیں۔بھارت او راس کے ہم نوا ممالک اس منصوبے کو ناکام
بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔پچھلے کچھ برسوں سے بھارت اور اس کے ساتھیوں نے
پاکستا ن میں بد امنی اور خلفشار کے لیے جتنی سرمایہ کاری کی ہے۔اس کی مثال
نہیں ملتی۔مگر قسمت یاوری کررہی ہے۔اس لیے جاسوس پکڑے جارہے ہیں۔اور سی پیک
کو ناکام بنانے کے منصوبے ناکام ہورہے ہیں۔
سی پیک پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پراجیکٹ بننے جارہا ہے۔اس لحاظ سے اس
کے خلاف مزاحمتیں بھی اسی لیول کی ہیں۔نواز شریف حکومت کو اس بڑے کام کے
نتیجے میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرناپڑارہاہے۔وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز
کی جے آئی تی میں پیشی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔انہیں پانامہ کیس کے
فیصلے میں بننے والے جے آئی ٹی میں طلب کیا گیاتھا۔وہ اپنے بیٹے شوہر اور
بھائی کے ساتھ جے آئی ٹی میں پیش ہوئیں۔ان کی پیشی وزیر اعظم نوازشریف کے
مخالفین کی ایک کامیابی ہے۔یہ لوگ نوازشریف پر دباؤ بڑھانے کے لیے متواتر
کوشش میں ہیں۔جے آئی ٹی میں ا ن کے بیٹے ۔حسن اور حسین کے بعد ان کے
دامادکیپٹن صفدر۔کزن شفیع بھائی وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف ۔اور خوددوزیر
اعظم نواز شریف پیش ہوچکے ہیں۔ان سبھی پیشیوں کے موقع پر مخالفین کی طرف سے
تضحیک آمیز بیانات اور تبصرے آتے رہے۔مگر شاید مریم نواز کی پیشی کے بعد اب
یہ سلسلہ باقی نہ رہے گا۔ایک تو جے آئی ٹی کو حاصل مدت دس جولائی کو ختم
ہورہی ہے۔دوجے مریم بی بی کے بعد شریف خاندان میں کوئی اور ایسا فرد باقی
نہیں بچا۔جس کو کٹہرے میں لانے کی مخالفین کی تمنا ہو۔محترمہ کلثوم نواز
ااور ا ن کی دوسری بیٹی سے متعلق مخالفین کی جانب سے کبھی کوئی بیان نہیں
آیا۔اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ جے آئی ٹی کے ساٹھ دنوں کے دور انیے میں
جو آئے دن مہم جوئیاں ہورہی تھی۔اب بند ہوجائیں گی۔مریم نواز کی پیشی پر
خاتو ن ہونے کے ناطے مخالفین کے پاس کچھ تلخ بیانیاں تو نہ ہوسکیں۔مگر ان
کو ایک اعلی پولیس افیسرکی طرف سے سیلوٹ کیے جانے پر تحریک انصاف کی اعلی
قیادت بے حد سیخ پا ہوئی۔
وزیر اعظم کو وطن کے اندر اور باہر دونوں محازوں پر مخالفین کا سامناہے۔مگر
وہ دائیں بائیں دیکھے بنا آگے بڑھتے رہنے کی ٹھانے ہوئے ہیں۔لیگی حلقے
وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تحریک کو پاکستان کے خلاف تحریک قراردے رہے
ہیں۔مگر ان کا موقف زیادہ وزنی نہیں معلوم ہوتا۔یہاں شاید ہی کوئی ایسی
حکومت گزری ہو۔جس کے خلاف احتجاجی تحریکیں نہ چلائی گئی ہوں۔بالخصوص جمہوری
حکومتوں کے خلاف تحریکیں تو عام سی بات ہے۔فوجی آمروں کے خلاف بھی تحریکیں
چلیں تو ضرور مگر عموما ان کے دور کے آخری برسو ں میں ورنہ ان کے پہلے پانچ
چھ سال تو بڑے مزے کے گزرے۔التبہ جمہوری حکومتوں کو یہ مصیبت پہلے سال ہی
سر پر سوار ہوئی۔نواز شریف دور کی یہ احتجاجی تحریک کوئی پہلی تحریک
نہیں۔نہ ہی اسے کوئی آخری تحریک سمجھناچاہیے۔یہ ہمارے سسٹم کا ایک حصہ
ہے۔اس سے مفر ناممکن سا ہوگیاہے۔لیگی حلقوں کا گلہ بالکل غلط ہے۔اگر ان
تحریکوں سے حکومت کی یکسوئی متاثر ہوئی ہے۔تو اس کی وجہ مخالفین کی قوت
نہیں بلکہ اسے وزیر اعظم نواز شریف کی کمزورحکمت عملی سمجھنا چاہیے۔وزیر
اعظم نوازشریف کو تیسری بار وزارت عظمی ملی ہے۔انہیں اس میدان میں آنے والی
تمام رکاوٹوں سے آگہی ہوجانی چاہیے۔ اپنی وزارت عظمی کے تیسرے دور میں بھی
اپنے انداز سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لانے کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔لیگی
حلقے اپنی محرومیوں کا رونا رونے کی بجائے اپنی جماعت کی کوتاہیوں پر بھی
نظر ڈالیں۔موٹر وے۔اور نج ٹرین اور اس طرح کے درجنوں کارناموں کو حاصل
سمجھنے والے یاد رکھیں قوم نواز شریف کو ایک لیجنڈ تصور کرتی ہے۔وہ ان سے
کچھ بڑ اکرنے کی امید لگائے ہوئے ہے۔اسے تو سی بیک سے بھی کچھ غرض نہیں
۔اسے تو جس کی لاٹھی ا س کی بھینس کے قانون کا خاتمہ چاہیے ۔اس نے دوہزر
تیرہ کے الیکشن میں ایک محتسب جان کر ووٹ دیے تھے۔جو پچھلی دو نوں کرپٹ او
ربے ایمان حکومتوں کا حساب لے گا۔جو ایک ایک گناہ گار کو کیفر کردار تک
پہنچائے گا۔لیگی حلقے اگر موٹروے ۔اورنج ٹرین او رسی پیک پر مطمئن ہیں۔تو
قوم کو جنگل کے قانون کے اندر رہتے ہوئے ۔اس طر ح کی سہولتو ں سے کچھ غرض
نہیں۔اسے تو ڈنڈے کے زور پر بار بار آئن توڑنے والے کو نشان عبرت بنتے
دیکھنے کی تمنا ہے۔اسے تو عیار او رمکار ٹولے کو نیست ونابود ہوتے دیکھنے
کی ھسرت ہے جو قبروں اور مگر مچھ کے آنسوؤں سے اپنا شیطانی کھیل کھیلتے
ہیں۔نواز شریف کا یہ دور حکومت بھی ختم ہورہا ہے۔ بد قسمتی سے اس بار بھی
کچھ کمال نہیں دکھاپائے۔ |