انصاف کی اپیل

کوہِ نور مل لاہور میں رائیونڈ روڑ پر موجود ہے کچھ عرصہ قبل کوریا سے ایک انجینئر ملازمین کو پلانٹ میں ہنگامی صورتحال سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کی ٹریننگ کروانے کی غرض سے آیاسارادن ٹریننگ کرنے کے بعد رات کو ہوٹل میں چلا جاتا تھا ایک دن ٹریننگ کروانے کے بعد واپسی پر ایسا ہوا کہ سڑک کے کنارے ایک جوہڑ تھا اور اس میں سے ایک کچھوا نکل کر سڑک پر آگیا ڈرائیور نے گاڑی کچھوے کے اوپر سے گزار دی کورین انجینئر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا کورین نے ڈرائیورکو فوری گاڑی روکنے کا حکم دیا جیسے ہی ڈرائیور نے گاڑی روکی انجینئر کچھوے کی طرف بھاگا اور دیکھا کہ کچھوا مر گیا ہے وہ واپس گاڑی میں آیا اور بیگ میں سے شاپنگ بیگ نکال کر لایا اور کچھوے کی باقیات اس میں ڈال کر گاڑی کی ڈگی میں رکھوادی اور ڈرائیور کو ہدایت کی کہ اس کو گاڑی میں ہی رہنے دے ڈرائیور سارے ماجرے کو دیکھ کر حیران تھا ۔اگلی صبح انجینئر جب مل میں پپہنچا تو اس نے ڈگی سے کچھوے کی باقیات والالفافہ ساتھ لیا اور ڈرائیور کو اپنے ساتھ آنے کا حکم دیا ڈرائیور پریشان تھا کیونکہ یہ روز کے معمول سے ہٹ کر بات تھی خیر جیسے ہی وہ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں گیا اس نے کہا کہ اس ڈرائیور کو پاکستان کے سب سے اچھے آئی سپشلسٹ سے چیک اپ کروایا جائے اور رپورٹ مجھے دی جائے عملہ فوراََ حرکت میں آیا اور ڈرائیور کو چیک اپ کروا کہ اسکی رپورٹ لایا اور رپورٹس کے مطابق ڈرائیور کی آنکھیں بالکل ٹھیک تھیں۔اب سارے عمل سے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ پریشان تھاکورین انجینئر نے سارا قصہ سنایا اور آخر میں ایچ آر ڈیپارٹمنٹ سے کہا کہ آپ اس ڈرائیور کو تین ماہ کی تنخواہ اور اسکے تمام بقایاجات دے کر نوکری سے فارغ کر دیں ڈرائیور نے بہت منت سماجت کی مگر اس کو معافی نہ ملی کیونکہ کورین کی نظر میں ڈرائیور نے بہت بڑا جرم کیا تھا ۔

20جون2017کوپاکستان کے شہر کوئٹہ میں حاجی عطااللہ سب انسپکٹر ٹریفک پولیس اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے کہ ایک تیز رفتار گاڑی نے انکو کچل ڈالا اور وہ اسی لمحے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے شروع میں تو یہ اک حادثہ مانا گیا اور ایک نامعلوم شحص کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا مگر سوشل میڈیا پر اور نیوز چینل میں فوٹیج چلنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ گاڑی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی مجید خان اچکزئی کی گاڑی ہے جس پر مجید خان اچکزئی کو پولیس نے گرفتا ر کر لیا پہلے تو مجید خان اچکزئی یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ میری گاڑی ہے بعد میں بیان دیاکہ گاڑی تو میری ہے پر چلا پتہ نہیں کون رہا ہے جب فوٹیج کو قریب سے دیکھاگیا تو واضح ہوگیا کہ گاڑی تو مجید خان اچکزئی خود ڈرائیو کر رہا ہے مگر مجید خان اچکزئی کو گرفتار کرنے کے باوجود نہ تو ہتھکڑی لگائی گئی بلکہ حوالات میں بھی شاہی پروٹوکول دیا گیا انویسٹی گیشن کے دوران انکشاف ہو ا کہ مجید خان اچکزئی دہشت گردی کے مختلف واقعات میں اشتہاری اور مطلوب ہے ۔ یہا ں پر اگر ایم این اے جمشید دستی کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی پانی کے معاملے کو لے کر جمشید دستی کو ہتھکڑی لگا کر گرفتا رکیا گیا اور جیل میں ظالمانہ سلوک برتا گیا اتنا بڑا امتیازی سلوک محکمہ پولیس کے لیے سوالیہ نشان ہے دوسری جانب سب انسپکٹر حاجی عطا ء اللہ کے لواحقین غم سے نڈھال ہو رہے تھے عید کے دنوں میں کوئی اپنا اس طرح سے جدا ہو جائے تو اس گھر میں قیامت کا سماء ہو جاتا ہے۔ مجید خان اچکزئی نے زیارت کے ڈپٹی کمشنر کو حاجی عطاء اللہ کے لواحقین کے پاس بھیجا تاکہ کچھ لے دے کہ معاملے کو ختم کیا جائے اور ایک اقرار نامہ تیار کروایا گیا مگر جیسے ہی حاجی عطاء اللہ کے لواحقین کو مجید خان اچکزئی کے ناپاک ارادوں کا علم ہوا تو انہوں نے صلح کرنے سے انکار کر دیا اور عدالت و حکومت سے انصاف کی اپیل کی ہے۔قارئین کرام! آج پاکستان اس لیے بھی پیچھے رہ گیا ہے کہ یہاں پر انصاف کا خون ہو جاتا ہے غریب اور امیرکے لیے ایک جیسا قانون نہیں ہے عالم یہ ہے کہ ایک طرف جانور کے مر جانے سے کورین انجنیئرکی روح تک کانپ جاتی ہے اور دوسری جانب مجید خان اچکزئی جیسے طاقت کے نشے میں چورانسان جو کہ دہشت گردی کے مقدمات میں مطلوب ہے دوسرے انسان کو کچھوے کی طرح کچل دیتا ہے مگر اس کے باوجود اس کو پروٹوکول دیا جاتا ہے مجید خان اچکزئی کو اپنے کئے پر کوئی پچھتاو انہیں ہے اور نہ ہی اس کا ضمیراس کو ملامت کر رہا ہے میری عدلیہ،پولیس اور حکومت سے التماس ہے کہ حاجی عطا ء اللہ کے خاندان کو انصاف دیا جائے اور ملزم مجید خان اچکزئی سے کسی قسم کی کوئی رعایت نہ برتتے ہوئے قرارداد واقع سزا دی جائے ورنہ ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور کئی حاجی عطاء اللہ کے خاندان برباد ہوتے رہیں گے ۔

Karamat Masih
About the Author: Karamat Masih Read More Articles by Karamat Masih: 36 Articles with 23872 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.