الحمدللہ رب العالمین والصلوۃوالسلام علی رسو لہ الکریم ۔امابعد
اللہ رب العا لمین کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ اس نے ہم انسان کو اس
دنیا میں ایک خاص مقصد کے تحت بھیجاہے اور عموما سال کے بارہ مہینوںاور
خصوصا حرمت والے مہینوں میں جنگ وجدال اور بدعت وخرافات سے منع کیا ۔وہ
حرمت وادب والے چارمہینے ہیں۔جن میں سے ایک مہینہ محرم الحرام کا بھی ہے۔جن
میں گناہوں کا درجہ مزید بڑھ جاتا ہے ۔
ماہ محرم جو اسلامی اور ہجری سال کے اعتبار سے عربی کا پہلا مہینہ ہے ۔
جسکی قرآن وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید
میں حرمت والے مہینوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کیــــــــــــــــ
:ان عد ۃالشھور عنداللہ اثناعشرا شھرفی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض
منھا اربعۃحرم ذالک الدین القیم فلا تظلموا فیہن انفسکم:ـ(سورہ التوبۃ:۳۶)
ترجمہ :۔بے شک مہینو ں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ کی ہے ۔ اسی دن سے جب سے
آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ۔ ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں ۔یہی
درست دین ہے ۔ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔
مزکورہ آیت میں :فی کتاب اللہ :سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الہی ہے۔یعنی
ابتداء افرینش سے ہی اللہ تعالی نے بارہ مہینے مقررفرمائے ہیں ۔جن میں چار
مہینے حرمت والے ہیں ۔جن میں قتال وجدال کی بالخصوص ممانعت ہے ۔ اس کے
علاوہ نبی کریم ﷺنے اسی بات کو اسطرح نیان فرمایاکہ :زمانہ گھوم کر اسی
حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا ۔ جب اللہ تعالی نے زمین وآسمان
کی تخلیق فرمائی ۔ اور سال بارہ مہینوں کا ہو تاہے ۔جن میں چار مہینے حرمت
والے ہیں ۔ تین پے درپے(۱)ذوالقعدہ (۲)ذوالحجہ(۳)محرم الحرام (۴)رجب
المرجب۔جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان ہے۔(احسن البیان ۔التوبہ
:۳۶؛بحوالہ ؛
صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ التوبہ وصحیح مسلم کتاب القسامۃباب تغلیظ
تحریم الدماء)
اس طرح سے ماہ محرم کی حرمت وفضیلت مذکورہ دلائل سے واضح اور ثابت ہے ۔ اس
لئے ہم تمام مسلمانوں کو ان مہینوں کا پاس ولحاظ رکھنا چاہیئے ۔ جب کہ ان
مبارک وحرمت والے مہینوں کا خیال زمانہء جاہلیت میں بھی رکھاجاتا تھا ۔ اور
لوگ ان مہینوں میں قتل وغارت گری اور خون خرابے سے دور رہتے ۔ اور اجتناب
کرتے تھے۔لیکن جب کفار ومشرکین پر شیطان کا غلبہ زیادہ ہوجاتاتھاتو وہ اس
میں بھی سر کشی اور جنگ وجدال سے پرہیز کرتے تھے ۔اور وہ مہینوں کی ترتیب
کو الٹ دیتے اور اس میں سرکشی کو جائز ومباح ک لیتے تھے ۔جس پر اللہ تعالی
نے ان کی سرزنش کی اور پھٹکار لگاتے ہو ئے کہا کہ ایسا کرنا کفرکی زیادتی
اور کبیرہ گناہ ہے ۔
اس لیئے ہمیں کفارومشکین کی طرح مہینوں کی ترتیب بدلنے اور ان میں قتل
وغارت گری سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ لیکن آج کے اس مادہ پرستی دور میں نام
و نہاد مسلمانوں نے ان مبارک مہینوں میں ایسے ایسے بدعات وخرافات ایجاد
کرلئے ہیں جن کو سن کر اور دیکھ کر کلیجہ منھ کو آجاتاہے۔
مسلمانو اسی ماہ محرم میں لوگوں نے تعزیہ بنانا ،نوحہ وماتم کرنا،یا حسن
یاحسین کا نعرہ لگانا ، گریبان چاک کرنا ،سینہ کوبی کرنا اور اس کے علاوہ
نہ جانے کتنے بدعات وخرافات ایجاد کرلئے ہیں ۔جن کا قرآن و حدیث اور اسلام
سے کوئی واسطہ نہیں ہے
حالانکہ ان تمام امور سے اللہ کے رسولﷺنے سختی سے منع فرمایاہے۔اور نوحہ
وماتم کرنے کے سلسلے میں آپ ﷺنے ادشاد فرمایا کہ:وہ شخص ہم میں سے نہیں
(یعنی مسلمان نہیں ہے )جس نے رخساروںپرطمانچہ مارے گریبانوں کو چاک کیا
جاہلیت کی پکار پکارا اور مصیبت کے وقت ہلاک اور موت کو پکارا۔ (صحیح بخاری
،ح،۱۲۹۴۰)اور اس کے علاوہ اس مبارک ومقدس مہینے میں صحابہء کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کو برا بھلا کہتے ہیں (۔نعوذبا اللہ )ان کو گالیاں دیتے ہیں
،ان کو غاصب کہتے ہیں اور ان کی طعن وتشنیع کر تے ہیں ۔ جب کہ اللہ تعالی
نے ان لوگوں( صحابہ کرام)کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت دیتے ہوئے ارشاد
فرمایا کہ :رضی اللہ عنہم ورضوعنہ،یعنی اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے
راضی ہے ۔اور اللہ کے رسول ﷺنے صحابہ ء کرام رضی اللہ عنہم کو برابھلا کہنے
سے منع فرمایا کہ،لاتسبوااصحابی،، میرے صحابہ کو گالی مت دو ۔ اور دوسری
جگہ فرمایا کہ :لاتسبوااصحاب محمد فلمقام احدہم ساعۃ خیرمن احد کم
عمرہ(صحیح ابن ماجہ للاالبانی ۱۔۳۲۔۱۳۳)
ترجمہ :۔محمد کے اصحاب کو برابھلا مت کہنا ۔ کیونکہ ایک گھڑی کیلئے ان کا
رسولﷺکے ساتھ کھڑاہونا تمہاری پوری زندگی کے عمل سے بہتر ہے ۔یہ وہ فضائل
ہیں صحابہ کرام کے کہ ان کا ایک لمحہ ہماری پوری زنگی کے عمل سے بہتر ہے جب
کہ آج کا بد بخت ،ناہنجار اور نام ونہاد مسلمان ان صحابہ کرام پر
کیچراچھالتا ہے ۔اور انہیں ظالم وغاصب کہتاہے ۔(نعوذبا للہ من ذلک)
مسلمانوں:۔محرالحرام کا یہی وہ مبا رک مہینہ ہے جسکی احادیث میں بڑی فضیلت
بیان کی گئی ہے ۔ جس میں ہمیں بدعات و خرافات سے پر ہیز کرتے ہو ئے زیادہ
سے زیادہ ذکرو اذکار کرنا چاہیئے۔نفلی روزوں اور خاص طورسے عاشورہ(دس محرم
)کے روزے کا اہتمام کرناچاہیئے۔جس کے تعلق سے اللہ کے حبیب دوجہاںکے سردار
اور محمدعربیﷺنے ارشاد فرمایا کہ صیام یوم عاشوراء انی احتسب علی اللہ ان
یکفر السنۃالی قبلہ ،،اوردوسری روایت میں ہے کہ یکفرالسنۃ الماضیۃ (مسلم
:۱۱۶۲)یعنی یوم عاشوراء کا روزہ ایک سال کے پچھلے گناہ کو مٹادیتاہے۔
اس کے علاوہ اور بہت ساری احادیث صوم عاشوراء کی فضیلت کے متعلق وارد ہیں ۔
حضرت ابو ہیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا کہ
رمضان کے بعد کونسا روزہ افضل ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا شھراللہ المحرم اللہ
تعالی کے ماہ محرم کا (مسلم ۱۱۲۳)
اس طرح احادیث میں محرم کے روزوں کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔لیکن
عاشوراء کے روزوں کے تعلق سے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ عاشوراء کا
روزرہ رکھتے ہوئے ہمیں یہود ونصاری کی مخالفت بھی کرنی ہے ۔اس لئے کہ اللہ
کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا
کہ خالفواالیہود وصومواالتاسع الیاسر ترجمہ تم لوگ یہود ونصاری کی مخالفت
کرو ۔اور نو ،دس محرم کا روزہ رکھو۔(بیہقی :۴:۲۷۸اسناد صحیح )اس لیئے کہ
دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا کہ فاذاکان العام القبل ان شاء
اللہ صمنا الیوم التاسع (مسلم ۱۱۳۴)
ترجمہ :۔آئندہ سال آئیگا تو ہم نو محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔لیکن اگلا
سال آنے سے پہلے ہی آپﷺاس دنیاسے کوچ کر گئے ۔لیکن بعض علماء نے کہا کہ
نو اور دس کا روزہ نہ رکھ سکے تو اسکو چاہیئے کہ وہ دس اور گیارہ محرم کا
روزہ رکھے۔
مذکورہ تمام دلائل وبرہین کی روشنی میں ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کے
روزوں کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے ۔اس مبارک و حرمت والے
مہینے(محرالحرام )میں ہمیں زیادہ سے زیادہ ذکر و اذکار ، نفلی عبادات ، اور
خاص طور سے عاشوراء کا روزہ خود رکھے اپنے اہل وعیال اور دوست واحباب کو
رکھنے کی تلقین کر نا چاہیئے اسلیئے کہ اللہ کے رسولﷺخود اس دن کا روزہ
رکھتے تھے اور صحابہ ء کرام کو بھی حکم دیتے تھے ۔روایت ہے فلماہاجرالی
المدینۃ صامہ و امر بصامۃ(بخاری ۲۰۰۱،۲۰۰۳،مسلم ۱۱۲۵)
ترجمہ :۔ جب آپ ﷺنے مدینہ کے طرف ہجرت کیا تو آپ خود اس دن کا روزہ رکھتے
اور صحابہ ء کرام کو بھی حکم دیتے تھے اس لیئے ہم کو بھی روزے کا اہتمام
کرنا چاہیئے ۔
اللہ رب العا لمین سے دعاء ہے کہ مو لا ئے کریم ہم تمام مسلما نوںکو سچا
پکا مومن و موحد بنائے اور زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کر نے ارو خاص طور سے
اس مبارک وحرمت والے مہینے میں عاشوراء کا روزہ رکھنے کی تو فیق عطافرمائے
۔اور معاشرہ وسماج میں پھیلے ہوئے بدعات وخرافات سے دور رہنے اور اجتناب
کرنے کی توفیق عطافرما ئے ۔ آمین
|