بچوں بالخصوص نومولود کی غذائی ضروریات کا خیال
رکھنا ماں کا اولین فریضہ تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ عام طور پر بچہ رو کر
اپنی بھوک کا اظہار کرتا ہے اور اسے کسی مخصوص ٹائم ٹیبل کے مطابق غذا نہیں
دی جا سکتی لہذا اس بارے میں ہر وقت محتاط رہنا پڑتا ہے۔۔ نومولود کی صفائی
ستھرائی کا خیال رکھنا بھی ایک اہم ذمہ داری تصور کی جاتی ہے کیونکہ ایک
صاف ستھرا بچہ ہی صحت مند رہتا ہے اور صحت مند بچے عام طور پر والدین کو
بیجا تنگ نہیں کرتے۔ نومولود کی نگہداشت کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ماں
کو بچے کی چھوٹی چھوٹی تکلیف کا اچھی طرح علم ہو۔ چھوٹے بچوں میں پیٹ کا
درد،اور دستوں کی بیماریاں عام ہوتی ہیں جو کہ بچہ کی بے چینی کا باعث ہو
سکتی ہیں ۔چھوٹے بچوں کو جہاں تک ممکن ہو چوٹ سے بچانا بھی ایک اہم مسئلہ
ہوتا ہے کیونکہ نوزائیدہ کیلئے ہلکی سی چوٹ بھی مہلک ثابت ہو سکتی ہے ۔عام
طور پر بچہ کو ایک الگ پالنے یا جھولے میں لٹایا جاتا ہے جہاں سے گرنے کا
اندیشہ نہیں ہوتا ۔ تاہم ماؤں کی ایک بڑی اکثریت محبت سے مجبور ہوکر انہیں
اپنے ہمراہ بستر پر ہی لٹا کردونوں اطراف تکیہ رکھ کر رکاوٹ لگا دیتی ہیں
تاکہ بچہ لڑھک کر نیچے نہ گر جائے۔ عام طور پربچے کو سونے کیلئے آرام دہ
بستر مہیا کیا جاتا ہے اور اس بات کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ شور شرابہ نہ
ہو کیونکہ اس طرح بچے ڈسٹرب ہو جاتے ہیں اور ایک مرتبہ نیند ٹوٹ جائے
توانہیں دوبارہ سلانے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ تاہم ایکسپرٹ یہ بتانے سے
قاصر ہیں اگر تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود بچہ کو ماں کاسونا پسند نہ
ہو تو اس کا کیا علاج ہو سکتاہے۔
برطانوی روزنامہ ڈیلی میل آن لائن کے مطابق امریکی ریاست ٹیکساس اس وقت
ماہرین اطفال کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے جہاں کے ایک شہری کی بیٹی کو ایک
لمحہ کے لئے بھی یہ گوارہ نہیں کہ اس کی ماما اس کی موجودگی میں اپنی تھکن
اتارنے کے لئے کچھ وقت کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لے۔ایستھر اینڈرسن کی
نومولود بیٹی کو یہ قطعی پسند نہیں کہ اس کی ماں ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے
جسم کو آرام دے لے۔وہ اپنی ماں کی آنکھ لگ جانے کی صورت میں ہر وہ جتن کرتی
ہے جس سے اس کی ماں نیندسے بیدار ہو جائے۔ وہ ماں کو اٹھانے کے لئے اپنی
دانست میں ہر طریقہ اختیار کرتی ہے جن میں ماں کی ناک میں انگلی
ڈالنا،تھوڑی پر بوسے لینا اور آنکھ میں انگلی چبھوناجیسے تکلیف دہ طریقوں
کا استعمال شامل ہے ۔ ماہرین اطفال نے اس غیر معمولی عادات کی بچی کی وڈیو
2دسمبر کو آن لائن جاری کی تھی۔اس ویڈیو کو اب تک 900,000 کے لگ بھگ افراد
دیکھ چکے ہیں ۔یہ صورت حال برطانیہ میں اس طرز کے بچوں کے بارے میں لوگوں
کی انتہائی دلچسپی کی عکاسی کر رہی ہے۔وڈیو آن لائن جاری ہونے سے اخبار میں
اس آرٹیکل کی اشاعت کے صرف پانچ روزمیں لاکھوں افراد کی جانب سے اسے دیکھا
جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یا تو برطانیہ میں یہ کوئی انوکھا واقعہ ہے یا پھر
لوگوں کو بھی اسی طرز کے مسائل کا سامنا ہے اور وہ اس مسئلے سے نمٹنے کا حل
جاننا چاہتے ہیں۔کون ہے جو بچوں سے محبت نہیں کرتا۔سنجیدہ طبیعت کے افراد
بھی ننھے منے بچوں کی معصوم شرارتوں پر مسکرائے بنا نہیں رہ پاتے۔تاہم
ورکنگ ویمن ہونے کے ناطے اینڈرسن کو اپنی بچی کے رویئے کی جانب سے شدید
پریشان کن صورت حال کا سامنا ہے۔
اینڈرسن نے ’’وہائی کو سلیپنگ از نو سلیپنگ ‘‘(why co-sleeping is no
sleeping)( بچے کے ہمراہ سونے سے نیند کیوں پوری نہیں ہو سکتی) کے عنوان سے
چسپاں کی گئی وڈیو میں اپنی دوستوں اور ساتھیوں سے درپیش مسئلے کے حل میں
مدد کی اپیل کی ہے۔ یو ٹیوب کیپشن میں اینڈرسن نے لکھا ہے کہ میں روزانہ
صبح میں خود سے سوال کرتی ہوں کہ میں اپنی بچی کو اس کے پالنے میں واپس
بھیجنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو پاتی ؟ ان کا کہنا ہیکہ میں سمجھتی ہوں کہ
اس طرز کے مسئلے کا سامنا کرنے والی میں واحد ماں نہیں ہوں۔ وہ بتاتی ہیں
کہ بچی مجھے سوتا دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہے اور مجھے اٹھانے کے لئے کبھی
ناک،کبھی آنکھ اور کبھی کان میں انگلیاں چبھو تی ہے۔ اینڈرسن نے میل آن
لائن کو بتایا کہ جب کبھی انہیں زیادہ نیند آرہی ہو اور وہ بچی کی کوشش کو
نظر انداز کرنے کی کوشش کریں تو وہ مجھے اٹھانے کے لئے میرے منہ پر اپنا
پورا وزن ڈالنے کے لئے اوندھی لیٹ جاتی ہے تاکہ جب میرے لئے سانس لینا مشکل
ہو جائے تو میں آٹھنے پر مجبور ہو جاؤں۔انہوں نے بتایا کہایک دفعہ جب میں
انتہائی نیند کے غلبہ میں تھی اور تھوڑی دیر کے لئے مزید آنکھیں بند رکھنے
کی خواہشمند تھیتو بچی کو اپنا میک اپ بکس تھما دیاتاکہ وہ تھوڑی دیر اس سے
کھیل میں لگی رہے اور مجھے مزید سونے کا موقع مل جائے۔ تا ہم بچی بہت شاطر
ہو گئی ہے کیونکہ اس نے میک اپ باکس سے کھیلنے کی بجائے اسے اپنی ماں
کانیند سے بیدار کرنے کے لئے ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا اور اسے ماں
کی پیشانی پر مارنا شروع کر دیا ۔
ایستھر اینڈرسن کو اب اپنی نیند سے زیادہ بچی کی سلامتی کے لئے فکر دامن
گیر ہے۔ انہیں ان کے فیملی ڈاکٹر نے بتایا کہ بچی کا ماں پر اوندھے لیٹنے
کے دوران سو جانا اس کے لئے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں ایک
طویل المدت ریسرچ میں شامل ماہرین نے اپنی رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ ایک
سے8 ماہ کی عمر کے بچوں کو الٹا لٹانے سے ان کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر
جیفری کولوین اور ان کے ساتھیوں نے کنساس کے چلڈرن مرسی ہسپتال میں 7934
بچوں کی اموات کی وجوہات جاننے کے دوران تیار کی گئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ
کی 24 ریاستوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر جیفری کی ساتھی ڈاکٹر
بابرا اوسی فائیڈ نے کہا کہ نومولود بچوں کو الٹا لٹانے کے اور بھی بہت سے
نقصانات ہوسکتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ نومولود بچوں کو الٹا سلانے سے ان
کا دم گھٹ کر موت کا سبب بن سکتا ہے اسلئے والدین ایسا کرنے سے گریز
کریں۔گوکہ اینڈرسن اپنی بچی کی غیر معمولی حرکات کو خندہ پیشانی کے ساتھ
برداشت کری ہے تاہم اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عام طور پر ماں باپ
بچوں کی شرارتوں پرانہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے نظر آتے ہیں اور بعض اوقات نوبت
چیخنے چلانے تک آجاتی ہے۔برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق
والدین کا شرارتی بچوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا ان کے رویے کومزید بد تر
بنا دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق شرارتی بچوں کو سزا دینے کے بجائے پیار محبت
کے ذریعے شرارتوں سے باز رکھا جاسکتا ہے۔19ہزار بچوں پر کیے گئے اس سروے
میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ معاشی طور پر مستحکم والدین اپنے بچوں کے
ساتھ ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس معاشی طور پر کمزور
والدین کا رویہ عموما سخت ہوتا ہے۔ |