جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ۷

چوتھا باب: ناعمہ

ہم چلتے چلتے اس دروازے کے قریب آ گئے جہاں سے حشر کا راستہ تھا۔ میں نے صالح سے دریافت کیا:
’’کیا اب ہمیں واپس میدان حشر جانا ہو گا؟‘‘
’’کیوں کیا وہاں جانے کا شوق ختم ہو گیا؟‘‘، اس نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
’’نہیں ایسی بات نہیں ۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہاں آ گیا ہوں تو اپنے گھر والوں سے مل لوں ۔ جب ہم شروع میں یہاں آئے تھے تو تم مجھے براہ راست اوپر لے گئے تھے ۔ اب تو میرے گھر والے امت محمدیہ کے کیمپ میں پہنچ چکے ہوں گے ؟‘‘
صالح نے میری بات پرہنستے ہوئے تبصرہ کیا:
’’تم انسان اپنے جذبوں کو تہذیب کے لفافے میں ڈال کر دوسروں تک منتقل کرنے کے عادی ہوتے ہو۔ کھل کر کیوں نہیں کہتے کہ اپنی گھر والی کے پاس جانا چاہتے ہو۔ یہ بار بار گھر والوں کے الفاظ کیوں بول رہے ہو؟‘‘
صالح کی بات سن کر میں جھینپ گیا۔ وہ مسکرا کر بولا:
’’شرماؤ نہیں یار۔ ہم وہیں چلتے ہیں ۔ یہ خادم تمھاری ہر خواہش پوری کرنے پر مامور ہے ۔‘‘
ہم جس دنیا میں تھے وہاں راستے ، وقت اور مقامات سب کے معنی اور مفہوم بالکل بدل چکے تھے ۔ اس لیے صالح کا جملہ ختم ہونے کے ساتھ ہی ہم اسی پہاڑ کے قریب پہنچ گئے جس کے اردگرد تمام نبیوں اور ان کی امتوں کے کیمپ لگے ہوئے تھے ۔
’’شاید میں نے تمھیں پہلی دفعہ یہاں آتے وقت یہ بتایا تھا کہ اس پہاڑ کا نام ’اعراف‘ ہے ۔ اسی کی بلندی پر تم گئے تھے۔ اور یہ دیکھو امتِ محمدیہ کا کیمپ قریب آ گیا ہے ۔‘‘
ہم پہاڑ کے جس حصے میں تھے وہاں اس کا دامن بہت دراز تھا۔ ا س لیے وہاں بہت گنجائش تھی، مگر وہ پورا مقام اس وقت ان گنت لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ پہاڑ کے اردگرد اس قدر رش شاید کسی اور جگہ نہیں تھا۔
میں نے صالح سے مخاطب ہوکر کہا:
’’لگتا ہے سارے مسلمان یہاں آ گئے ہیں ۔‘‘
’’نہیں بہت کم آئے ہیں ۔ امت محمدیہ کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس لیے اس کے مقربین اور صالحین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ۔ وگرنہ بیشتر مسلمان تو ابھی میدان حشر ہی میں پریشان گھوم رہے ہیں ۔‘‘
’’تو میرے زمانے کے مسلمان بھی یہاں ہوں گے ۔‘‘
’’بدقسمتی سے تمھارے معاصرین میں سے بہت کم لوگ یہاں ہیں ۔ رسول اللہ کی امت کے ابتدائی حصے کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد یہاں موجود ہے ۔ آخری زمانے کے البتہ کم ہی لوگ یہاں آ سکے ہیں ۔
تمھارے زمانے میں تو زیادہ تر مسلمان دنیا پرست تھے یا فرقہ پرست۔ یہ دونوں طرح کے لوگ فی الوقت میدان حشرکی سیر کر رہے ہیں ۔ اس لیے تمھارے جاننے والے یہاں کم ہوں گے ۔ جو ہوں گے ان سے تم جنت میں داخلے کے بعد دربار میں مل لینا۔ یہاں تو ہم صرف تمھارے ’گھر والوں ‘ سے ملا کر تمھاری آنکھیں ٹھنڈی کریں گے اور فوراً واپس لوٹیں گے ۔ خبر نہیں کس وقت حساب کتاب شروع ہوجائے ۔‘‘
’’یہ دربار کیا ہے ؟‘‘
صالح کی گفتگو میں جو چیز ناقابل فہم تھی میں نے اس کے بارے میں دریافت کیا۔
’’حساب کتاب کے بعد جب تمام اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک نشست ہو گی۔ اس کا نام دربار ہے ۔ اس نشست میں تمام اہل جنت کو ان کے مناصب اور مقامات رسمی طور پر تفویض کیے جائیں گے ۔ یہ لوگوں کی ان کے رب کے ساتھ ملاقات بھی ہو گی اور مقربین کی عزت افزائی کا موقع بھی ہو گا۔‘‘
میں اس سے مزید کچھ اور دریافت کرنا چاہتا تھا، مگر گفتگو کرتے ہوئے ہم کیمپ کے کافی نزدیک پہنچ چکے تھے ۔ یہ خیموں پر مشتمل ایک وسیع و عریض بستی تھی۔ اس بستی میں لوگوں کے کیمپ مختلف زمانوں کے اعتبار سے تقسیم تھے ۔ بعض خیموں کے باہر ان کے مالکان کھڑ ے ہوئے گفتگو کر رہے تھے ۔ یہیں مجھے اپنے بہت سے ساتھی اور رفقا نظر آئے جنہو ں نے دین کی دعوت میں میرا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ان کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جوانیاں ، اپنے کیرئیر، اپنے خاندان اور اپنی خواہشات کو کبھی سر پر سوار نہیں ہونے دیا تھا۔ ان سب کو ایک حد تک رکھ کر اپنا باقی وقت، صلاحیت، پیسہ اور جذبہ خدا کے دین کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اسی کا بدلہ تھا کہ آج یہ لوگ اس ابدی کامیابی کو سب سے پہلے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کا وعدہ دنیا میں ان سے کیا گیا تھا۔

یہیں ہمیں امت مسلمہ کی تاریخ کی بہت سی معروف ہستیاں نظر آئیں ۔ ہم جہاں سے گزرتے لوگوں کو سلام کرتے جاتے ۔ ہر شخص نے ہمیں اپنے خیمے میں آ کر بیٹھنے اور کچھ کھانے پینے کی دعوت دی، جسے صالح شکریہ کے ساتھ رد کرتا چلا گیا۔ البتہ میں نے ہر شخص سے بعد میں ملنے کا وعدہ کیا۔
راستے میں صالح کہنے لگا:
’’ان میں سے ہر شخص اس قابل ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھا جائے ۔ تم اچھا کر رہے ہو کہ ان سے ابھی ملاقات طے کر رہے ہو۔ ان میں سے بہت سے لوگوں سے بعد میں وقت لینا بھی آسان نہیں ہو گا۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور محبت آمیز نظروں سے میری طرف دیکھ کر کر بولا:
’’وقت لینا تو تم سے بھی آسان نہیں ہو گا عبداللہ! تمھیں ابھی پوری طرح اندازہ نہیں ۔ اس نئی دنیا میں تم خود ایک بہت بڑ ی حیثیت کے مالک ہو گے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم پروردگار عالم کے معیار پر ہمیشہ سے ایک بہت بڑ ی حیثیت کے آدمی تھے ۔‘‘
یہ کہتے ہوئے صالح رکا اور مجھے گلے لگالیا ۔ پھر آہستگی سے وہ میرے کان میں بولا:
’’عبد اللہ! تمھارے ساتھ رہنا میرے لیے بڑ ے اعزاز کی بات ہے ۔‘‘
میں نے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف بلند کیں اور دھیرے سے جواب دیا:
’’اعزاز کی بات تو خدا کی بندگی کرنا ہے ۔ اس کے بندوں کو بندگی کی دعوت دینا ہے ۔ یہ میرا اعزاز ہے کہ خدا نے ریت کے ایک بے وقعت ذرے کو اس خدمت کا موقع دیا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے احسان مندی کے جذبات سے میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
’’ہاں یہی بات ٹھیک ہے ۔ خدا ہی ہے جو ذرۂ ریگ کو طلوع آفتاب دیتا ہے ۔ تم سورج کی طرح اگر چمکے تو یہ خدا کی عنایت تھی۔ مگر یہ عنایت خدا پرستوں پر ہوتی ہے ، سرکشوں ، مفسدوں اور غافلوں پر نہیں ۔‘‘
ہم ایک دفعہ پھر چلنے لگے اور چلتے چلتے ہم ایک بہت ہی خوبصورت اور نفیس خیمے کے پاس پہنچ گئے ۔ میرے دل کی دھڑ کن کچھ تیز ہوگئی۔ صالح میری طرف دیکھتے ہوئے بولا:
’’ناعمہ نام ہے نا تمھاری بیوی کا؟‘‘
میں نے اثبات میں گردن ہلادی۔ صالح نے انگلی سے اشارہ کر کے کہا:
’’یہ والا خیمہ ہے ۔‘‘
’’کیا اسے معلوم ہے کہ میں یہاں آ رہا ہوں ؟‘‘، میں نے دھڑ کتے دل کے ساتھ پوچھا۔
’’نہیں ۔‘‘، صالح نے جواب دیا۔ پھر ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا:
’’یہ ہے تمھاری منزل۔‘‘
میں ہولے ہولے چلتا ہوا خیمے کے قریب پہنچا اور سلام کر کے اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ اندر سے ایک آواز آئی جسے سنتے ہی میرے دل کی دھڑ کن تیز تر ہوگئی۔
’’آپ کون ہیں ؟‘‘
’’عبدا للہ۔ ۔ ۔ ‘‘
میری زبان سے عبد اللہ کا نام نکلتے ہی پردہ اٹھا اور ساری دنیا میں اندھیرا چھا گیا۔ اگر روشنی تھی تو صرف اسی ایک چہرے میں جو میرے سامنے تھا۔ وقت، زمانہ، صدیاں اور لمحے سب اپنی جگہ ٹھہرگئے ۔ میں خاموش کھڑ ا ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتا رہا۔ ناعمہ کا مطلب روشن ہوتا ہے ۔ مگر روشنی کا مطلب یہ ہوتا ہے یہ مجھے آج پہلی دفعہ معلوم ہوا تھا۔

ہم جب آخری دفعہ ملے تھے تو زندگی بھر کا ساتھ بڑ ھاپے کی رفاقت میں ڈھل چکا تھا۔ جب محبت؛ حسن اور جوانی کی محتاج نہیں رہتی۔ مگر ناعمہ نے اپنی جوانی کے تمام ارمانوں اور خوابوں کو میری نذر کر دیا تھا۔ اس نے جوانی کے دنوں میں بھی اس وقت میرا ساتھ دیا تھا جب میں نے آسان زندگی چھوڑ کر اپنے لیے کانٹوں بھرے راستے چن لیے تھے ۔ اس کے بعد بھی زندگی کے ہر سرد و گرم اور اچھے برے حال میں اس نے پوری طاقت سے میرا ساتھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ موت ہم دونوں کے بیچ حائل ہوگئی۔ مگر آج موت کا یہ عارضی پردہ اٹھا تو میرے سامنے چاند کا نور، تاروں کی چمک، سورج کی روشنی، پھولوں کی مہک، کلیوں کی نازکی، شبنم کی تازگی، صبح کا اجالا اور شام کی شفق سب ایک ساتھ ایک ہی چہرے میں جلوہ گر ہوگئے تھے ۔ برسوں کی اس رفاقت کو میں چند لمحوں میں سمیٹ کر دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ناعمہ کی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی جو اس کے رخساروں پر بہنے لگی۔ میں نے ہاتھ بڑ ھا کر اس کے رخساروں سے نمی پونچھی اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا:
’’میں نے کہا تھا نا۔ تھوڑ ا سا انتظار تھوڑ ا سا صبر۔ یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے ۔‘‘
’’میں نے کب آپ کی بات کا یقین نہیں کیا تھا۔ اور اب تو میرا یقین حقیقت میں بدل چکا ہے ۔۔ مجھے تو بس ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کچھ دیر کے لیے گھر سے باہر گئے تھے اور پھر آ گئے ۔ ہم نے تھوڑ ا سا صبر کیا اور بہت بڑ ی جنگ جیت لی۔‘‘

’’ہمیں جیتنا ہی تھا ناعمہ۔ اللہ نہیں ہارتا۔ اللہ والے بھی نہیں ہارتے ۔ وہ دنیا میں پیچھے رہ سکتے ہیں ، مگر آخرت میں ہمیشہ سب سے آگے ہوتے ہیں ۔‘‘
’’اور اب؟‘‘، ناعمہ نے سوال کرتے ہوئے آنکھیں کھول لیں ۔ شاید وہ تصور کی آنکھ سے جنت کی اس دنیا کا تصور کر رہی تھی جو اب شروع ہونے والی تھی۔
’’ہم نے خدا کا پیغام عام کرنے کے لیے اپنی فانی زندگی لگادی اور اب بدلے میں خدا جنت کی ابدی زندگی کی کامیابی ہمیں دے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میں نے بھی آنکھیں بند کر لیں ۔ میرے سامنے اپنی پر مشقت اور جدو جہد سے بھرپور زندگی کا ایک ایک لمحہ آ رہا تھا۔ میں نے اپنی نوجوانی اور جوانی کے بہترین سال خدا کے دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیے تھے ۔ اپنی ادھیڑ عمر کی صلاحیتیں اور بڑ ھاپے کی آخری توانائیاں تک اسی راہ میں جھونک دی تھیں ۔ میں ایک غیر معمولی باصلاحیت اور ذہین شخص تھا جو اگر دنیا کی زندگی کو مقصود بنالیتا تو ترقی اور کامیابی کے اعلیٰ مقامات تک باآسانی پہنچ جاتا۔ مگر میں نے سوچ لیا تھا کہ کیرئیر، جائیداد، مقام و مرتبہ اور عزت و شہرت اگر کہیں حاصل کرنی ہے تو آخرت ہی میں حاصل کرنی ہے ۔ میں نے زندگی میں خواہشات کے میدان ہی میں خود سے جنگ نہیں کی تھی بلکہ تعصبات اور جذبات سے بھی لڑ تا رہا تھا۔ فرقہ واریت، اکابر پرستی اور تعصب سے میں نے کبھی اپنا دامن آلودہ نہیں ہونے دیا۔ خدا کے دین کو ہمیشہ ایمانداری اور عقل سے سمجھا اور اخلاص اور صدق دل سے اس پر عمل کیا۔ اس کے دین کو دنیا بھر میں پھیلایا اور کبھی اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کی۔ اس سفر میں خدا نے جو سب سے بڑ ا سہارا مجھے دیا وہ ناعمہ کی محبت اور رفاقت تھی جس نے ہر طرح کے حالات میں مجھے لڑ نے کا حوصلہ بخشا۔ اور اب ہم دونوں شیطان کے خلاف اپنی جنگ جیت چکے تھے ۔ مشقت ختم ہو چکی تھی اور جشن کا وقت تھا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ صالح نے کھنکار کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور بولا:
’’آپ لوگ تفصیل سے بعد میں ملیے گا۔ ابھی چلنا ہو گا۔‘‘
اس کے ان الفاظ پر میں واپس اس دنیا میں لوٹ آیا۔ میں نے صالح کا ناعمہ سے تعارف کرایا:
’’یہ صالح ہیں ۔‘‘، پھر ہنستے ہوئے میں نے اپنی بات میں اضافہ کیا:
’’یہ کسی بھی وقت مجھے تنہا چھوڑ نے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔‘‘
ناعمہ نے صالح کو دیکھتے ہوئے کہا:
’’میں انہیں جانتی ہوں ۔ مجھے یہاں پر یہی چھوڑ کر گئے تھے اور اسی وقت آپ کے بارے میں بتا دیا تھا۔ وگرنہ میں بہت پریشان رہتی۔‘‘
میں نے صالح کی طرف مڑ تے ہوئے کہا:
’’تم مجھ سے الگ ہی کب ہوئے ہو جو ناعمہ کو یہاں چھوڑ نے آ گئے تھے ۔‘‘
’’تمھیں غالباً یاد نہیں جس وقت تم اوپر بیٹھے پروردگار کے حضور حشر کے میدان میں گھومنے پھرنے کا پروانہ لے رہے تھے اس وقت میں تمھارے برابر سے اٹھ گیا تھا۔ عبد اللہ! یہ تمھاری کمزوری بھی ہے اور طاقت بھی کہ جب تم خدا کے ساتھ ہوتے ہو تو تمھیں اردگرد کا ہوش نہیں ہوتا۔‘‘
’’ہوش تو مجھے تھوڑ ی دیر پہلے بھی نہیں تھا، مگر اس وقت تو تم ٹلے نہیں ۔‘‘
’’ہاں میں اگر ٹل جاتا تو پھر تم سے اگلی ملاقات یوم حشر کے بعد ہی ہوتی۔ ویسے تم انسان بڑ ے ناشکرے ہو اور بھلکڑ بھی۔ بھول گئے تمھیں کہاں جانا ہے ؟‘‘
’’اوہو، ناعمہ! ہمیں چلنا ہو گا۔ تم یہیں رکو میں کچھ دیر میں آتا ہوں ۔‘‘
’’مگر ہمارے بچے ؟‘‘
’’وہ بھی ٹھیک ہیں ۔ تم انہیں یہاں تلاش کرو۔ قریب میں کہیں مل جائیں گے ۔ وگرنہ میں تھوڑ ی دیر میں سب کو لے کر خود آجاؤں گا۔ ابھی مجھے فوراً میدان حشر میں لوٹنا ہے ۔ ملنا ملانا اس کے بعد عمر بھر ہوتا رہے گا۔‘‘
اس آخری سوال کے بعد یہاں میرے رکنے کی گنجائش ختم ہو چکی تھی۔ کیونکہ مجھے جواب میں ان دو بچوں کے بارے میں بھی بتانا پڑ تا جو یہاں نہیں تھے اور یہ ایک بہت تکلیف دہ کام تھا۔
ناعمہ نے کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں گردن ہلادی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 28513 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.