مقام حدیث و حفاظت حدیث:۔
محترم قارئین ! جب بھی کسی منکر حدیث اور قادیانی سے بات ہوتی ہے تو احادیث
پر سب سے پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ احادیث تو اڑھائی تین سو سال بعد
لکھی گئی ہیں لہذا ہم انہیں نہیں مانتے حالانکہ جس طرح قرآن مجید کلام
الٰہی ہونے کے سبب حجت ہے اسی طرح حدیث رسول بھی فرمان نبوی ہونے کے سبب
حجت ہے۔ کیونکہ قرآن مقدس کی وضاحت اور تشریح جب تک فرمان نبوی سے نہ کی
جائے تو دین اسلام ادھورا رہ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں
رب کائنات نے فرمایا ہے کہ
ثُمَّ اِنَّ عَلَینَا بَیَانَہُo(القیامة 19:)
یعنی پھر اس کو بیان کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
نیز فرمایا
وَاَنزَلنَآ اِلَیکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِم
(النحل44:)
ترجمہ؛ اور ہم نے آپ کی طرف ذکر (قرآن مجید) نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے
واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا۔
حدیث رسول کے حجت ہونے کے بارے میں قرآن مقدس میں ارشاد ہے کہ
وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُولُ وَخُذُوہُ وَمَانَہٰکُم عَنہُ
فَانتَہُوا(الحشر7)
ترجمہ؛ اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاﺅ۔
محترم قارئین! جس طرح رب کائنات نے قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے
ذمہ لی ہے اسی طرح قرآن مجید کی وضاحت یعنی حدیث رسول کی حفاظت کی بھی ذمہ
داری لی ہے یہی وجہ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کے دور میں صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم قرآن مجید کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ احادیث رسول کو بھی حفظ کیا
کرتے تھے اور نبی کریم علیہ السلام کے دور میں ہی کتابت حدیث کا کام بھی
شروع ہو گیا تھا۔ اسی سلسلہ میں حسن بن عمرو روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ
ابو ہریرة رضی اللہ عنہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے گھر لے گئے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کی بہت سی کتابیں دکھائیں اور فرمایا کہ یہ میرے
پاس مکتوب ہے۔
(بحوالہ فتح الباری207/1‘ تحت حدیث 113)
نبی کریم علیہ السلام نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے
فرمایا تھا کہ
”میری حدیثیں لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے
صرف حق نکلتا ہے“
(سنن ابی داﺅد کتاب العلم حدیث 3646)
صحابہ کرام کے تحریری مجموعے ؛
(1) صحیفہ صادقہ؛
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا ہزار احادیث پر مشتمل صحیفہ
صادقہ یہ اب مسند احمد میں مکمل طور پر موجود ہے۔ اس صحیفے کی روایت عمر و
بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاص کے توسط سے پوری طرح منقول ہے۔
اور اکابر محدثین نے اس روایت پر اعتماد کر کے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے
۔ (تاریخ الحدیث والمحدثین ص 210)
(2) صحیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
اس میں صدقات اور زکوٰة کے احکامات درج ہیں امام مالک رحمة اللہ علیہ
فرماتے ہیں میں نے یہ صحیفہ پڑھا ہے عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے جب
تدوین حدیث کا کام شروع کیا تو یہ صحیفہ انہیں عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان
سے موصول ہوا۔ (موطا امام مالک ص 109)
(3) صحیفہ عثمان رضی اللہ عنہ
اس صحیفے میں زکوٰة کے احکام درج تھے اس کے متعلق امام بخاری رحمتہ اللہ
علیہ نے کتاب الجہاد میں واقعہ بیان کیا ہے۔
(4) صحیفہ علی رضی اللہ عنہ
اس میں زکوٰة‘ صدقات‘ دیت ‘ قصاص‘ حرمت مدینہ ‘ خطبہ حجة الوداع اور اسلامی
دستور کے نکات درج تھے۔ یہ صحیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن
حنفیہ کے پاس تھا پھر امام جعفر کے پاس آیا اور انہوں نے حارث کو لکھ کر
دیا۔
(تدوین حدیث برہان دہلی و صحیح بخاری کتاب العلم حدیث 1111)
(5) مسند ابوہریرة رضی اللہ عنہ
اس کے بہت سے نسخے عہد صحابہ میں لکھے گئے تھے اس کی ایک نقل عمر بن
عبدالعزیز کے والد عبدالعزیز بن مروان والئی مصر کے پاس تھی عبدالعزیز بن
مروان نے کثیر بن مرة کو لکھا تھا کہ آپ کے پاس صحابہ کرام کی جتنی مرویات
ہیں وہ ہمیں لکھ کر بھیج دیں مگر ابوہریرة رضی اللہ عنہ کی مرویات بھیجنے
کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہیں۔
(الطبقات الکبریٰ لا بن سعد 448/77)
اس کے علاوہ صحیفہ انس‘ خطبہ فتح مکہ (جو ابو شاہ کے لیے لکھا گیا تھا)
صحیفہ جابر بن عبداللہ‘ مرویات ابن عباس ‘ مرویات عائشہ اور صحیفہ عمر و بن
حزام( جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر مقرر کیا تو انہیں لکھ کر
دیا گیا تھا اس صحیفے میں فرائض‘ سنن‘ صدقات و دیات اور دیگر 21فرامین
نبویہ شامل ہیں) مزید برآں رسالہ سمرہ بن جندب ‘ رسالہ سعد بن عبادہ اور
صحیفہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جس کے بارے میں ان کے بیٹے عبدالرحمن
نے حلفاً کہا تھا کہ یہ ان کے باپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے
ہاتھ سے لکھا تھا۔
(جامع بیان العلم 300/11)
یہ تمام صحیفے رسالے اور کتب صحابہ کرام کی تحریریں تھیں جن میں انہوں نے
مرفوع احادیث جمع کی تھیں۔
|