اﷲ کے اسمائے حسنی اور ان کی معرفت وقواعد

شرعی علوم کی معرفت میں اﷲ کی معرفت سب سے بنیادی اور شرف وعظمت والی ہے، اﷲ تعالی نے اپنی معرفت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔فرمان الہی ہے: فاعلم انہ لاالہ الا اﷲ (محمد:19)یعنی اس بات کی معرفت حاصل کروکہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
اﷲ کی معرفت کے ذریعہ ہی اس کائنات کی تخلیق اور اس کا مقصد معلوم ہوتا ہے،ساتھ ہی ہمیں اس معرفت سے اپنی حقیقت اور اپنی زندگانی کے حقائق ومعارف سے آگاہی ملتی ہے۔اﷲ کی معرفت کا سب سے بڑا فائدہ دنیا وآخرت کی کامیابی ہے اس لئے جو لوگ اﷲ کی معرفت نہیں حاصل کرتے وہ نہ صرف دونوں جہان کی سعادت سے محروم ہیں بلکہ ہرقسم کی ذلت ورسوائی کے مستحق بھی ہیں۔
اﷲ کی معرفت میں اس کے اسمائے حسنی کی معرفت شامل ہے۔ اسمائے حسنی کہتے ہیں اﷲ رب العالمین کے وہ پیارے نام جو اس نے اپنے لئے پسند فرمائے ہیں۔ اﷲ کا فرمان ہے:
وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (الاعراف: 180)
ترجمہ: اور اچھے اچھے نام اﷲ ہی کیلئے ہیں سو ان ناموں سے اﷲ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔
اس آیت میں جہاں اﷲ کو ہی پکارنے کا حکم ہوا ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اس کے اسمائے حسنی کا علم حاصل کریں جن کے ذریعہ ہمیں اسے پکارنا ہے۔ اور یہ جان لیں کہ اسماء وصفات توحید کی ایک قسم ہے جس کا علم توحیدالوہیت اور توحیدربوبیت کے ساتھ ساتھ ضروری ہے۔
یہاں اسماء وصفات کے باب میں بنیادی طور پر یہ بات جان لیں کہ اﷲ کے اسماء وصفات میں اسے یکتا مانا جائے،اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ اﷲ کے اسماء وصفات کی کوئی مثال نہیں یعنی جس طرح سے یہ اسماء وصفات کتاب وسنت میں وارد ہیں انہیں بغیر تحریف،تعطیل، تمثیل اور تکییف کے تسلیم کیا جائے۔
تحریف کہتے ہیں:اسماء وصفات کے جو معانی کتاب وسنت سے معلوم ہوتے ہیں انہیں معانی پر محمول کیا جائے،حقیقی معانی سے ہٹ کر دوسرا معنی بیان کرنا جس کی کوئی دلیل نہیں ہے تحریف میں داخل ہوگا۔
تعطیل: جو بھی اسماء وصفات اﷲ کے لئے ثابت ہیں ان میں سے کسی اسم یا صفت کا انکار کرنا تعطیل کے زمرے میں آتاہے۔
تمثیل: اﷲ کی صفات کو مخلوق کی صفات سے مثال بیان کرنا تمثیل ہے۔
تکییف: اﷲ کی صفات کی کیفیت بیان کرنا تکییف ہے۔ جس طرح اسماء وصفات میں تحریف وتعطیل کرنا منع ہے ویسے ہی صفات کی مثا ل اور اس کی کیفیت بیان کرنا بھی منع ہے۔
ایک امر کی وضاحت:
ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اﷲ کے اسمائے حسنی کون کون سے ہیں تاکہ ان کی معرفت حاصل کی جائے چنانچہ بخاری و مسلم کی روایت میں ہے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ ان رسول اﷲ ﷺ قال : ان ﷲ تسعۃ وتسعین اسما مائۃ الا واحدا من احصاھا دخل الجنۃ (صحیح البخاری : ۲۷۳۶، صحیح مسلم: ۲۶۷۷)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:اﷲ تعالی کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام جس نے یاد کئے جنت میں داخل ہوجائے گا۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اﷲ کے ننانوے نام ہیں اور ایک دوسری حدیث میں جو ترمذی اورابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہے ان ننانوے ناموں کی تفصیل مذکور ہے مگر وہ ضعیف ہے۔ اﷲ کے صرف ننانوے نام نہیں بلکہ لاتعداد ہیں جن میں سے کچھ ہم جانتے ہیں جن کا بیان کتاب وسنت میں ہوا ہے اور بہت کچھ نہیں جانتے ہیں جنہیں اﷲ تعالی نیہمیں نہیں بتلایا ہے۔ اس بات کی دلیل غم کے ازالے سے متعلق اس دعامیں ہے۔
اللھم انی عبدک ، وابن عبدک، وابن امتک، ناصیتی بیدک، ماض فی حکمک، عدل فی قضائک، اسالک بکل اسم ھو لک سمیت بہ نفسک او علمتہ احدا من خلقک ، اوانزلتہ فی کتابک ، اواستاثرت بہ فی علم الغیب عندک ، ان تجعل القرآن ربیع قلبی، ونورصدری، وجلاء حزنی، وذھاب ھمی( السلسلۃ الصحیحۃ:۱۹۹)
ترجمہ: یا اﷲ! میں تیرا بندہ ہوں، اور تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، میری ذات پر تیرا ہی کا حکم چلتا ہے، میری ذات کے متعلق تیرا فیصلہ سراپا عدل و انصاف ہے، میں تجھے تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو توں نے اپنے لیے خود تجویز کیا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا، کہ تو قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور،غموں کیلئے باعث کشادگی اور پریشانیوں کیلئے دوری کا ذریعہ بنا دے۔
بخاری ومسلم میں ننانوے کے حصرکا معنی جیساکہ ابن القیم رحمہ اﷲ نے لکھاہے کہ ان اسماء کو حفظ کیا جائے، ان کے معانی جانیجائیں، ان کا تقاضہ پورا کیا جائے اور ان کے ذریعہ اﷲ تعالی سے دعا کی جائے۔
اسمائے حسنی کے قواعد وضوابط
اب یہاں چند قواعد وضوابط بیان کئے جاتے ہیں جن سے اسمائے حسنی کی تعیین ہوتی ہے۔
(1) اسمائے حسنی توقیفی ہیں اس لئیجوکتاب وسنت سے صراحۃ ثابت ہیں انہیں نام کواسمائے حسنی کے طور بیان کیا جائے گا۔
(2) جو اسماء نقص وعیب سے بالکل پاک ہوں، اس لئے العاجر،الخائن وغیرہ اسمائیحسنی نہیں۔
(3) کچھ اسماء خاص پس منظر اور اخبار کے طور پر وارد ہوئے ہیں یعنی وہ مستقل طور پر نہیں آئے ہیں بلکہ اضافت کے ساتھ ہیں انہیں اسمائے حسنی نہیں قرار دیا جائے گامثلا قابل التوبہ (توبہ قبول کرنے والا)، فالق الحب(دانے کا پھاڑنے والا)۔اسی طرح ذو سے شروع ہونے والے اسماء بھی اسمائے حسنی نہیں جیسے ذوالعرش، ذوالقوۃ، ذوالرحمۃ
(4) بعض اسماء ذاتی صفات پر دلالت کرتے ہیں مثلا الحی(زندہ) اور بعض اسماء افعال سے متعلق ہیں جومشیت سے وابستہ ہیں مثلا خالق (پیداکرنے والا)۔
(5) قرآن وحدیث میں اﷲ کے لئے بہت سے افعال کا ذکر ہے مثلا یفعل، یذکر،تعز، تذل وغیرہ تو ان افعال سے اﷲ کی صفت کی دلیل بنے گی نہ کہ ان کے اسماء کو اسمائے حسنی قرار دیا جائے گا جیساکہ پہلے نمبر پر گزرچکا ہے کہ اسمائے حسنی توقیفی ہیں۔
(6) جو اﷲ تعالی کے افعال کی صفات ہیں وہ بھی اسمائے حسنی میں سے نہیں مثلا شدیدالعقاب(سخت عذاب دینے والا)۔
(7) اسی طرح وہ اسماء جو متساوی المعنی اور مختلف الالفاظ ہوں اور اسمائے حسنی کے طور پر وارد ہوں تو یہ سب الگ الگ مستقل اسمائے حسنی قرار پائیں گے مثلا القدیر، القادر،المقتدر، یہ تینوں الگ الگ اسم الہی ہیں۔
(8) اسمائے جامدہ بھی اسمائے حسنی میں سے نہیں ہیں مثلا الدھر(زمانہ)۔
(9) جواسم تفضیل کے طور پر بغیر اضافت کے آیا ہے وہ اسمائے حسنی میں سے ہے جیسے الاعلی اور جو اضافت کے ساتھ آیا ہے وہ اسمائے حسنی میں سے نہیں ہے جیسے ارحم الراحمین۔ اسی طرح وہ اسمائے صفاتی جو اﷲ کے لئے ثابت ہیں ان کا اسم تفضیل استعمال کرنا بہترہے مثلا الاعظم، الاقوی وغیرہ لیکن وہ بھی اسمائے حسنی میں سے نہیں ہوں گے۔
(10) آخری بات یہ ہے کہ عبدیت کا انتساب صرف اسمائے حسنی کی طرف ہی کرنا چاہئے جیسے عبدالخالق، عبدالباری وغیرہ اور جو اسمائے حسنی میں سے ثابت نہیں ہیں ان کی طرف عبدیت کا انتساب نہیں کرنا چاہئے جیسے عبدالنور،عبدالمعزوغیرہ

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 320 Articles with 350348 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.