لازوال قسط نمبر 12

زندگی نام ہی سمجھوتے کا ہے۔انسان چاہے دنیا کے کسی بھی مقام پر پہنچ جائے مگر اسے کبھی نہ کبھی حالات سے سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔بعض اوقات یہ سمجھوتہ انسان وقت کی وجہ سے کرتا ہے تو بعض اوقات رشتوں کی کسوٹی کی خاطر اسے سمجھوتے نامی زہر کو پینا پڑتا ہے۔انہیں بھی اب سمجھوتہ ہی کرنا تھا۔ رشتے کی خاطر اور وقت کی خاطر ۔ محبت نچھاور کرتے ہوئے انسان بعض اوقات یہ بھول جاتا ہے کہ جس پر وہ اپنی محبت نچھاور کر رہا ہے ۔ کیا وہ ہماری محبت کے قابل بھی ہے یا نہیں؟بعض اوقات انسان اپنے جذبات میں بہک کر اپنی محبت اس شخص پر نچھاور کر ڈالتا ہے جسے آپ کی ذرا پرواہ نہیں ہوتی۔ جس کے نزدیک آپ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بس ایک ضرورت ہوتی ہے جس کی خاطر وہ آپ کو استعمال کر رہا ہوتا ہے اور جب ضرورت ختم ہوتی ہے تو وہ آپ کو اس طرح اپنی زندگی سے نکال باہر پھینکتا ہے جیسے کوئی آٹے سے بال نکالتا ہے۔
چاروناچاررضیہ بیگم بھی انہی حالات سے گزر رہی تھیں۔بچپن سے جوانی تک انمول ان کی آنکھ کا تارا بن کر رہا۔اسی تارے کو انہوں نے وجیہہ کے وجود پر فوقیت دی مگر آج جب انہیں اس تارے کی ضرورت تھی۔ اس کے ساتھ کی ضرورت تھی۔ وہی ان کے لئے انجان بن گیا۔ خاموشی سے اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرلیا۔ اپنی خوشی میں ان کو شریک کر نا بھی ضروری نہ سمجھا۔مگر اب وہ کر بھی کیا سکتی تھیں سوائے اس حقیقت کو قبول کرنے کے۔
’’شاید یہی بہتر ہے۔‘‘کھانا کھاتے ہوئے انہوں نے اپنا ہاتھ روک لیا اور پورے دھیان کے ساتھ علی عظمت کی طر ف متوجہ ہوئیں
’’کیا بہتر ہے؟‘‘ بے موقع بات کو سن کر چونک گئے اور رضیہ بیگم کے چہرے کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا
’’یہی کہ ہمیں اب اس سچائی کو قبول کر لینا چاہئے۔۔‘‘رضیہ بیگم کی بات سن کر انہوں سے زیادہ ری ایکٹ نہیں کیا بس اثبات میں سر ہلادیا۔
’’ آؤ بیٹا! ناشتہ کرلو۔۔۔‘‘فورک کو پلیٹ میں پھیرتے ہوئے ان کی نظر مسلسل ادھر ادھر منڈلا رہی تھی کہ تبھی ان کی نظر سیڑھیوں سے اترتی ہوئی عندلیب کو دیکھا ۔بنا دوپٹے کے بالوں کولہراتے ہوئے نیچے آرہی تھی
’’نو تھینکس۔۔۔‘‘ اس نے روکھے پن میں آخری سٹیپ پر قدم رکھتے ہوئے کہا
’’میں ڈیڈ کے گھر جارہی ہوں۔ وہیں ناشتہ کرلوں گی‘‘سیڑھیوں سے اس نے سیدھا دروازے کا راستہ رخ کیا ۔علی عظمت عندلیب کے اس رویے پر ٹھٹک کر رہ گئے۔
’’لیکن بیٹا!‘‘رضیہ بیگم نے کچھ کہنا چاہا تھا مگر وہ جاچکی تھی۔شکست خوردہ نظریں پلٹ آئیں۔ انہوں نے بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ علی عظمت کی طرف دیکھا جنہوں نے گردن جھٹک کر بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔
’’ امی۔۔آج جوس نہیں دیا آپ نے مجھے کمرے میں آکر۔۔‘‘ شرٹ کی آستینوں کو کہنیوؤں تک فولڈ کرتے ہوئے انمول ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ رہا تھا۔
’’امی نام نہادی بیوی سے کہتے کہ وہ تمہیں جوس بنا کر دے۔۔‘‘ کھانا کھاتے ہوئے علی عظمت نے بنا دیکھے طنزیہ انداز میں کہا تھا
’’ابو پلز۔۔ اسے تو گھر کے کاموں سے دور ہی رکھیے۔ان کاموں کے لئے امی ہیں ناں۔۔‘‘روکھے پن سے جواب دیتے ہوئے وہ ٹیبل پر جھکا اور خود ہی جگ سے جوس گلا س میں ڈالا
’’وہ میں بھول گئی تھی۔۔‘‘ان کی آواز وہ نہیں تھی کو پہلے ہوا کرتی تھی۔آج ایک ماں اپنا دکھ چھپائے ہوئے تھی۔ہنسی بناوٹی تھی۔آواز بناوٹی تھی۔انداز بناوٹی تھی مگر آنکھوں میں تیرنے والا پانی بناوٹی نہیں تھا
’’آئندہ مت بھولنا۔۔‘‘ اس نے جیسے حکم دیا تھا۔
’’ اور ابو۔۔ مجھے بیس ہزار چاہئے پلز میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیجئے گا ایک گھنٹے تک۔۔‘‘گلاس کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے علی عظمت سے کہا
’’ کیا کہا؟ بیس ہزار؟پوچھ سکتا ہوں کس لئے؟‘‘
’’ یہ سوال جواب مت کیجئے مجھ سے۔۔میں آپ سے پوچھ نہیں رہا بلکہ کہہ رہا ہوں۔ مجھے عندلیب کو شاپنگ کروانے لے کرجانا ہے۔ اس لئے مجھے بیس ہزار چاہئے۔او کے۔‘‘اس نے ٹیبل سے ایک دانہ انگور کا اچھال کر منہ میں ڈالا اور پھر باہر کی طرف چل دیا
’’ابھی سے رنگ بدل گئے اس کے۔۔‘‘ علی عظمت کے چہرے کے رنگ فق ہوگئے تھے۔انہوں نے سخت نگاہ رضیہ بیگم پر ڈالی جو ٹھٹک کر رہ گئیں
٭ ٭ ٭
’’تیار ہو گئی تم؟‘‘بلیک شرٹ اور جینز میں اس کی پرسنیلٹی دلفریب نظر آرہی تھی۔کی چین کو انگلی میں گھماتے ہوئے وہ دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑآئینے کے سامنے بیٹھی وجیہہ کو دیکھ رہا تھا
’’جی۔۔‘‘بالوں کو باندھتے ہوئے وہ پلٹی تھی
’’اس سوٹ میں؟؟‘‘ضرغام نے اس کے ڈریس کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جو بالکل ایک عام سا تھا۔ ہلکے نیلے رنگ کا سادہ سا لباس۔ چہرہ بنا میک کے اس کا سانولا رنگ اجاگر کر رہا تھا۔
’’ کیا مطلب؟‘‘اس نے حیرت سے اپنے لباس کی طرف دیکھا
’’تمہاری سیلکشن بہت ہی اولڈ فیشن ہے۔‘‘گردن جھٹک کر وہ آگے بڑھا ۔ کی چین کو جینز میں ڈالا اور وارڈ روب میں کپڑوں کو ٹٹولنے لگا
’’میں نکال کر دیتا ہوں تمہیں ڈریس۔۔۔‘‘وہ پورے دھیان سے کپڑوں کو الٹ پلٹ کر کے ایک اچھا سا ڈریس تلاش کررہا تھا۔ وجیہہ ایک لمحے کے لئے شاک ہوئی تھی۔ اس کے وجود کو پہلی ہی رات ناپسند کرنے والا آج خود اپنے ہاتھوں سے اس کے لئے ڈریس کو سیلکٹ کر رہا تھا۔وہ یک ٹک اس کے چہرے کے دائیں حصے کو دیکھ رہی تھی جو اس کی جانب تھا۔
’’ یہ پہنو تم۔۔‘‘اس نے ایک لباس ہینگر میں لٹکا ہوا اس کے آگے کیا۔ مگر وہ اس لباس کو دیکھنے کی بجائے ضرغام کے چہرے کو دیکھ رہی تھی جس پر انتہا درجہ کی طمانت تھی۔کلین شیو چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ واضح ہو رہی تھی۔بلیک شرٹ میں اس کا دودھیا سفید رنگ اس کی نظر اتار رہا تھا
’’ کیا ہوا۔۔‘‘وجیہہ کو یوں خوابوں میں کھویا دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور آہستہ سے اس کے کانوں میں سرگوشی کی۔پہلی بار اس کے لمس کو اس نے محسوس کیا۔ایک عجیب سا احساس تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت اس کے جسم میں سرایت کر گئی۔ اس نے اپنے خیالوں کو جھٹک کر حقیقت میں قدم رکھا
’’یہ لباس۔۔؟؟‘‘ضرغام ہینگر وجیہہ کے ہاتھوں میں تھما کر آگے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ وجیہہ کے سوال نے اسے پلٹنے پر مجبور کر دیا
’’ہاں۔۔!! کیا برائی ہے اس میں بھلا؟‘‘اس نے بے نیازی سے کہا تھا۔ وجیہہ نے دوبارہ اس ڈریس کی طرف دیکھا تھا۔ ریشمی ڈھلکواں کپڑا۔چمکیلے موتی کہ دور سے ہی اوروں کو اپنی طر ف دیکھنے پر مجبور کر دے۔
’’ برائی تو کچھ نہیں ہے مگر باہر یہ لباس پہن کر جانا مناسب رہے گا؟‘‘وہ حیر ت سے اس لباس کی طرف دیکھ رہی تھی۔جو کسی بھی نامحرم کو اپنی طرف دیکھنے پر مائل کرسکتا تھا۔ان کی نیت کو بھڑکا سکتا تھا ۔ وہ ایسا لباس بھلا کیونکر پہن کرسکتی تھی؟بچپن سے آج تک باہر جاتے ہوئے اس نے ہمیشہ ایسا لباس زیب تن کیا جو نامحرموں کو اس کی جانب دیکھنے پر مجبور نہ کرے۔اور آج اتنا شوخ لباس اس کا شوہر اس کو ہاتھ میں تھمائے ہوئے تھا
’’مناسب تو نہیں ہے مگر اس سے زیادہ اچھا لباس بھی تو نہیں ہے تمہارے پاس۔۔‘‘ہلکی سی مسکراہٹ کو چہرے پر لاتے ہوئے اس نے کہا تھا
’’اب جلدی سے تیار ہوجاؤ۔۔ میں کار میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔۔‘‘یہ کہہ کر وہ گنگناتا ہوا چلاگیا۔
٭ ٭ ٭
کار میں بیٹھنے کے بعد جیسے ہی ضرغام نے اسے بتایا کہ وہ لازوال کے سیٹ پر جا رہے ہیں تو جیسے اس کے سر پر کسی نے بم پھوڑ دیا۔ اس کی آواز لڑکھڑا گئی۔اتنے نامحرموں کے درمیاں وہ ایسا لباس بھلا کیونکر پہن کر جا سکتی تھی؟
’’ ضرغام! آپ کو پہلے بتانا چاہئے تھا میں اس لباس میں کیسے جا سکتی ہوں وہاں۔ وہاں بہت سے مرد ہونگے۔ میں ان کے درمیان اس لباس میں کیسی لگوں گی۔ پلز آپ گھر واپس چلیں۔۔‘‘ وہ اس کے آگے من سماجت کر رہی تھی مگر اس کو تو جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا تھا۔ ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس کے چہرے پر ہلکی سی شاطرانہ مسکراہٹ تھی
’’جسٹ چِل یار۔۔ آج کل سب چلتا ہے۔۔سب تمہیں دیکھنا چاہتے تھے اور اگر میں تمہیں گھر میں بتادیتا تو تم کبھی میرے ساتھ آنے کو تیار ہی نہ ہوتیں اور تمہیں تو بلکہ خوش ہونا چاہئے کہ تم میرے ساتھ میرے شو میں ہونگی۔پوری دنیا دیکھے گی ضرغام عباسی کی بیوی کو۔۔‘‘ وہ بڑے فخر سے کہہ رہا تھا۔
’’ضرغام۔ یہ غلط ہے ۔ بیوی دوسروں کو دیکھانے کے لئے نہیں ہوتی ۔ بیوی کا مطلب یہ تو نہیں کہ اوروں کے سامنے اس کی نمائش کی جائے‘‘اس کی آنکھیں نم ہونا شروع ہو گئیں
’’وجیہہ ! تم ایسے ہی پریشان ہو رہی ہو۔۔وہاں سب میرے دوست ہیں۔کوئی غیر نہیں ہے۔‘‘
’’ وہ سب آپ کے دوست ہیں میرے نہیں اور وہاں سب کے سب میرے لئے غیر محرم ہونگے اور پھر کیمرے کے سامنے میں اپنے آپ کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کروں۔۔ میری یہ پرورش نہیں ہے ضرغام۔۔‘‘
’’چپ۔۔ ایک دم چپ۔۔۔اب ایک لفظ بھی نہیں۔۔‘‘ وجیہہ کی باتوں سے تنگ آکر اس نے غصے میں کہا تو وہ ایک دم سدھ وہ کر بیٹھ گئی۔آنکھوں میں آنسو جنم لینے لگے۔پورے راستے وہ اپنے آپ کو کوستی رہی۔گھر سے نکلتے ہوئے اس نے اپنا عبایا بھی نہیں پہناتھا۔ اس کا خیال تھا کہ ضرغام صرف اسے لانگ ڈرائیو پر لے کر جا رہا ہے۔رات کے وقت بھلا وہ اسے لے کر بھی کہاں جا سکتا ہے؟ مگر شو میں جانے کی بات سن کر تو وہ ٹھٹک کر رہ گئی۔سیٹ پر پہنچنے کے بعد وہ کار سے اترنے کو تیار ہی نہیں تھی۔ کار کو پارک کرنے کے بعد ضرغام نے دو بار اسے نرمی سے کہا کہ وہ کار سے اترے مگر وہ نہ اتری تو اس نے زبردستی اس کی کلائی کو پکڑا اور باہر نکالا۔وہ زیادہ مزاحمت نہ کر سکی۔ترچھی نظروں سے پارکنگ ایریا کے چاروں طرف نگاہ دوڑائی ۔ کوئی شخص نظر نہ آیا۔ مگر اس کو سکون نہ ملا کیونکہ یہاں کسی کے نہ ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ اندر کوئی نہیں ہوگا۔ مضبوط قدموں کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہا تھا۔وجیہہ کی کلائی ابھی بھی ضرغام کی گرفت میں تھی۔ وہ دھیمے لہجے میں مسلسل جدوجہد کر رہی تھی مگر اس کا اُس پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا۔وہ سیدھا میک اپ روم میں گیا۔وہاں ہر طرف ماڈلز کی عریاں تصاویر تھیں۔ مگر کوئی نامحرم نہ تھا۔مگر ضرغام کے لئے تو وہاں موجود ہر لڑکی غیر محرم تھی لیکن اس بات سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ضرغام نے ہاتھ بڑھا کر ایک میک آرٹسٹ سے سلام کیا۔ وجیہہ کو تو جیسے شاک لگا تھا۔ ایک نامحرم کس طرح کسی نامحرم سے ہاتھ ملا سکتاہے کیا اسے خدا کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟قیامت میں ملنے والی سزا سے نہیں ڈرتا۔ وہ ہنس ہنس کر اُن سے باتیں کر رہا تھا۔وہ بے خوف تھا مگر اس کا دل کانپ رہا تھا۔وہ بالکل خاموش ایک طرف کھڑی تھی
’’اوہ۔۔ تو یہ ہے تمہاری بیوی۔۔‘‘ ایک لڑکی نے کہا تھا
’’ ہاں! یہ ہے۔۔‘‘سر آہ بھرتے ہوئے ضرغام نے کہا تھا۔
’’یہ کیا ؟ ڈریس تو اتنی اچھی پہنی ہوئی اور چہرے پر اتنی ویرانی۔۔۔‘‘ایک لڑکی آگے بڑھی اور وجیہہ کا چہرہ ٹٹولنے لگی
’’ اسی لئے تو اسے سیدھا یہاں لایا ہوں۔۔ اب شو سے پہلے پہلے اس کا میک اپ کر دو۔۔،‘‘ضرغام نے کہا تھا
’’ یہ تو بہت اچھا کیا تم اسے میرے پاس لائے۔۔ دیکھنا ایسے تیار کروں گی کہ اس کا سانوالا رنگ چاند کی چاندنی میں بدل جائے گا۔‘‘ یہ طنز تھا کہ طعنہ، ویک پل کے لئے وہ نہ سمجھ سکی۔مگر جو سمجھ سکی وہ یہ تھا کہ اس کے سانولے رنگ کو بدلنے کی بات کی گئی تھی۔ انسان کا رنگ اس کے بس میں تو نہیں ہوتا ۔ جو رنگ بھی ہوتا ہے وہ خدا نے بنایا ہوتا ہے پھر بھلا انسان کیسے خدا کی بنائی ہوئی شے میں نقص نکال سکتا ہے۔ جو خدا نے بنایا اُس کو چھپا کر انسان کیا ظاہر کرنا چاہتا ہے۔
’’نہیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔۔‘‘معمولی سا احتجاج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ لڑکی اس کی باتوں کو ان سنا کر کے آگے لے گئی اور چئیر پر بٹھا کر فیس پاؤڈر لگانے لگی
’’ تم بھی ذرا فیس پاؤڈر لگوا لو۔۔‘‘ اس لڑکی نے ضرغام کو کہا تھا
’’ ہاں !تم صحیح کہہ رہی ہو۔۔ پسینہ سے چہرہ خراب سا ہوگیا ہے۔۔‘‘اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ باہر چلا گیا
’’ ضر۔۔۔‘‘ وہ اس کا نام بھی پورا نہ لے سکی۔صرف آدھے گھنٹے میں اس لڑکی نے اس کا حلیہ بدل کر رکھ دیا۔اس نے آنکھیں کھول کر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا تو حیران رہ گئی۔ وہ وجیہہ نہیں تھی۔
’’ واؤ۔۔۔ کیا لگ رہی ہو تم ۔۔۔‘‘دروازے سے ضرغام داخل ہوا تھا۔ پہلی بار اس نے وجیہہ کی تعریف کی تھی۔ ایک عورت کے لئے شوہر کی طرف سے ایک جملہ تعریف دنیا جہاں کی دولت سے بڑھ کر ہوتا ہے مگر اس کے لئے یہ بات خوشی کی نہیں تھی۔اس کے دل میں وہ جذبہ نہیں تھا جو ہونا چاہئے تھا۔ضرغام نے اس کی تعریف نہیں کی تھی۔ اُس نے تو اس لڑکی کی عریف کی تھی جو مصنوعی لبادہ اوڑھے سامنے بیٹھی تھی۔ جس کے خدوخال وجیہہ سے ملتے تھے۔ جس کا چہرہ وجیہہ سے ملتا تھا مگر وہ وجیہہ نہیں تھی۔وجیہہ تو حقیقت پسند تھی اور وہ مصنوعی لبادہ اوڑھے سب کے سامنے تھی۔ اپنی اصل کو چھپا رہی تھی۔لوگوں کی آنکھوں کو دغا دے رہی تھی۔وہ دیکھانے کی کوشش کر رہی تھی جو وہ نہیں تھی۔ خوبصورتی دیکھنے کے لئے نہیں ہوتی۔ خوبصورتی محسوس کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ یہ دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے ۔
’’ مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم اتنی خوبصورت بھی نظر آسکتی ہو؟‘‘ یہ تعریف تھی؟ نہیں ۔۔ یہ تعریف نہیں طنز تھا ۔ جو اس کے دل کو بری طرح گھائل کر رہا تھا۔آج اس نے اپنی دادی کی پرورش پر دنیاکو ترجیح دی تھی
’’بیٹی! دنیا رنگین ہے اور رنگینیوں کو ہی پسند کر تی ہے مگر میری بات ہمیشہ یاد رکھنا یہ رنگینیاں سب پل بھر کے لئے ہوتی ہے جونہی ان رنگینیوں کا پردہ اٹھتا ہے او ر حقیقت واضح ہوتی ہے تو وہی پسند نفرت میں بدل جاتی ہے۔‘‘
’’دادی ! لوگ رنگینیوں کو پسند ہی کیوں کرتے ہیں؟‘‘
’’ بیٹی! لوگ خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں اور خوبصورتی کو دیکھنا چاہتے ہیں۔لوگوں کی نظر میں یہ خیا ل رچ بس گیا ہے کہ اس دنیا میں رہنے کے لئے خوبصورت نظر آنا بہت ضروری ہے ۔ اسی لئے وہ اپنے چہرے پر خوبصورتی کا مکھوٹا پہن لیتے ہیں‘‘
’’دادی! اس میں برا کیا ہے؟‘‘
’’ بیٹی ! اس میں اچھائی ہی کیا ہے؟ انسان اپنی اصلیت کو چھپاتا ہے اور وہ دیکھاتا ہے جو وہ نہیں ہے۔ لیکن جب اصلیت سامنے آتی ہے تو انسان اپنے آپ کو وہیں کھڑا محسوس کرتا ہے جہاں وہ پہلے تھا۔اس طرح ایک بار پھر وہی یہ راستہ اختیار کرتا ہے ۔ اس طرح وہ ایک ہی راستے پر گول گول گھومتا جاتا ہے۔ منزل کو بھول کر راستے کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔‘‘
آج وہ بھی اسی بھول بھلیاں میں بھٹکتے ہوئے خود کو محسوس کر رہی تھی۔جہاں سب کچھ بناوٹی تھی۔ وہ خود بھی اپنے آپ کو اسی بناوٹ کا حصہ سمجھ رہی تھی
’’ اب جلدی سے آجاؤ ۔۔ سیٹ پر۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر چلا گیا۔آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے مگر کوئی ان آنسوؤں کو دیکھنے والا نہیں تھا
’’ مجھے معاف کر دیں دادی۔۔ مجھے معاف کر دیں۔۔‘‘ وہ دل میںآہ و زاری کر رہی تھی۔
’’تمہاری بیوی نظر نہیں آرہی ؟‘‘ شو شروع ہونے میں ایک منٹ رہتا تھا۔شہزادنے ضرغام سے دریافت کیا
’’ بس آتی ہی ہوگی۔۔‘‘ اس نے قدرے آہستہ سے کہا اور سیٹ کی طرف بڑھ کر اپنے آپ کو ایک ابر پھر آئینے میں دیکھا۔ پرکشش شخصیت جو کسی بھی لڑکی کو فدا کردے۔ وہ اپنے ساتھ کھڑی ہونے والی لڑکی کو بھی ایسا ہی دیکھانا چاہتا تھا کہ ہر کوئی پہلی ہی نظر میں مر مٹے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس نے بے جوڑ شادی کی ہے۔حسن پرست ہمیشہ حسن کو ہی پسند کر تا ہے۔بس وہ بھی یہی جتلانا چاہتا تھا کہ وہ بھی ایک حسن کی دیوی پر مٹا ہے
’’یہ کون ہے؟‘‘ایک ذات اپنے آپ کو سیاہ چادر میں لپیٹے ظاہر ہوئی تھی۔سر تا پا صرف حجاب تھا۔ چہرے کو بھی کو چادر سے ڈھانپا ہوا تھا۔ ہاتھ بھی اسی چادر کے اندر تھے۔ صرف آنکھیں تھی۔ جو دیکھی جا سکتی تھی۔ شہزاد نے اسے دیکھتے ہی حیرت سے پوچھا تھا۔
’’ ملتے میں مسز ضرغام سے۔۔‘‘شو شروع ہوچکا تھا۔ ضرغام نے وجیہہ کا تعارف کروایا تو کیمرہ مین کیمرہ اس ذات کی طرف لے گیا جو اپنے آپ کو ڈھانپے ہوئے تھے۔ ضرغام کی نظروں نے کیمرے کا تعاقب کیاتو آنکھیں ٹھٹک کر رہ گئیں۔ چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوگئے۔اس کی ساری شہرت اور عزت و مرتبے کو اُس ایک لمحے میں خاک میں ملا دیا۔وہ خراماں خراماں آگے بڑھنے لگی۔سب کی آنکھیں اس پر مرکوز تھیں۔ وہ برجستہ اس کے پاس گیا
’’ کیا ہے یہ؟‘‘اس نے تقریباً سرگوشی کی تھی مگر مائیک میں آواز گونج رہی تھی۔
’’ یہ ایک عورت ہے۔‘‘اس نے پراعتمادی سے جواب دیا
’’کٹ۔۔‘‘ شہزاد کے کہنے پر سین کو کٹ کیا گیا اور فوراً ایک سانگ پلے کر دیا گیا۔
’’ ضرغام کیا ہے یہ سب کچھ؟‘‘ غصے میں شہزاد نے کہا تھا
’’ سر مجھے ایک منٹ دیں ذرا۔۔۔‘‘وہ گھسیٹتا ہوا وجیہہ کو ایک کمرے کی طرف لے گیا اور اندر داخل ہوتے ہی کمرے کا دروازہ لاک کیا
’’ کیا ہے یہ سب کچھ۔۔‘‘ اس نے بے دردی سے اس کے چہرے سے نقاب اتار پھینکا
’’یہ حقیقت ہے ضرغام۔ ایک عورت کی عزت صرف حجاب میں پوشیدہ ہوتی ہے بے حیائی میں نہیں۔۔۔‘‘ اس نے جواب دیا
’’ جسٹ شیٹ اپ۔۔۔اتارو اسے اسی وقت ۔۔ اتارو۔۔‘‘وہ غصے میں غرایا تھا
’’نہیں ضرغام۔۔ میں یہ گھر جا کر ہی اتاروں گی۔۔۔‘‘میک اپ کرنے کے بعد جیسے ہی وہ میک روم سے باہر نکلنے لگی تھی کہ اس کی نظر ایک طرف رکھے عبائے پر گئی۔اس نے اُس لڑکی سے دومنٹ طلب کئے اور وہ عبایا پہن کر باہر سیٹ پر چلی آئی تھی۔
’’میں نے کہا اسے ابھی کہ ابھی اتارو۔۔ اس کو۔۔ تمہاری وجہ سے میری عزت کا تماشا بن جائے گا ورنہ‘‘ وہ مسلسل غرا رہاتھا
’’ ضرغام! اسے پہن کر آپ کی عزت کا تماشا نہیں بنے گا بلکہ اسے پہن کر تو میں آپ کی عزت کی حفاظت کروں گی۔ ‘‘
’’شیٹ اپ۔۔ آئی سے شیٹ اپ۔۔ اس کو اتارو اور میرے ساتھ چلو۔۔۔‘‘اس نے بے دردی سے اس کا عبایا اپنے ہاتھوں سے اتارنا شروع کیا
’’ ضرغام۔۔ یہ عبایا آپ کی عزت ہے۔ اس کو اتار کر آپ اپنے آپ کو سب کے سامنے برہنہ کر یں گے۔خدارا! یہ ظلم مجھ پر نہ کریں۔ یہ عبایا مت اتاریں۔۔‘‘وہ مسلسل جدوجہد کرتی رہی ۔ منت سماجت کرتی رہی مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا
’’ٹھیک نہ اتارو۔۔ اس عبائے کو لیکن پھر تمہیں میری شرط ماننی ہوگی۔۔‘‘ وہ ایک لمحے کے لئے پیچھے ہٹا
’’ شرط؟ کون سی شرط؟‘‘ اس کے دل میں کھٹکا ہوا وہ یک ٹک ضرغام کو دیکھنے لگی
’’اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو آج کے بعد تم کبھی اپنا سر نہیں ڈھانپو گی وگرنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میری زندگی سے نکل جاؤ۔۔‘‘وجیہہ کے پاؤں تلے سے تو جیسے زمین ہی نکل گئی۔
’’ ضرغام۔۔‘‘ آنکھوں سے آنسو خود بخود نکل آئے
’’بولو۔۔ تمہیں کیا منظور ہے؟ میرا ساتھ یا پھر ؟‘‘اس نے معنی خیز لہجے میں پوچھا تھا۔ وی یک ٹک گردن کو دائیں جانب ہلکا سا جھکائے ضرغام کی طرف دیکھتی جا رہی تھی۔اس کا ذہن مفلوج ہو کر رہ گیا۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ا س کی آواز میں لرزہ طاری تھا۔
’’ جو کہہ رہا ہوں بس اس کا جواب دو۔۔۔ لیکن ایک با ت یار رکھنا جو فیصلہ کرو اس کا گواہ تم اپنے ایمان کو بنانا۔‘‘ایک ایسی شرط وہ رکھ چکا تھا جسے نبھانا اس کے بس سے باہر تھا۔ اس کے دل نے چاہا کہ اسی وقت کہہ دے مجھے تمہاری کوئی شرط منظور نہیں۔ میں کبھی اپنے حجاب کو صرف ایک شخص کے لئے داؤ پر نہیں لگا سکتی
’’وجیہہ ! مجھ سے ایک وعدہ کروکہ تم ضرغام کو راہ راست پر لاؤ گی۔ وہ دنیا کی رنگینیوں میں بھٹک کر رہ گیا ہے ۔ تم اسے دنیا کی رنگینیوں سے نکال کر اسلام کی چادر میں لاؤ گی۔ پلز وجیہہ مجھ سے وعدہ کرو۔۔۔‘‘
’’ میں وعدہ کرتی ہوں۔۔۔میں ضرغام کو اسلام پر لانے کی اپنی تئیں پوری کوشش کروں گی ‘‘ اس وعدے نے اسے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہا
’’ ٹھیک ہے مگر میری بھی ایک شرط ہے۔۔‘‘ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اس نے کہا تھا
’’ تمہاری شرط؟ کیا؟‘‘ضرغام نے حیرت سے پوچھا
’’میں تب تک اپنا سر نہیں ڈھانپوں گی جب تک آپ مجھے نہیں کہیں گے لیکن کیا اس کا وبال آپ اپنے سر لینے کو تیار ہیں؟‘‘
’’ وبال؟‘‘
’’ جی وبال۔۔ ایک بیوی ہمیشہ اپنے شوہر کے آگے مجبور ہوتی ہے ۔ اسے اکثر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کرنا پڑتا ہے جو اسے اس کو شوہر کرنے کو کہتا ہے لیکن آپ جانتے ہیں بعض کام جو شوہر کرنے کوکہتا ہے وہ ناجائز ہوتے ہیں مگر عورت کی مجبوری ہوتی ہے۔ وہ اس کام کر نے کو تیار ہوجاتی ہے مگر اس کام کا وبال اس عورت کی بجائے اس شوہر پر آتا ہے جو اسے وہ کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔‘‘
’’ صحیح ہے۔۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔ دین سے دوری نے اسے ہاں کرنے پر اکسایا تھا۔ اگر دین جانتا ہوتا تو اتنا بڑا گناہ اپنے سر کبھی نہ لیتا۔ضرغام نے اپنے ہاتھوں سے اپنی بیوی کے سر کو برہنہ کر دیا۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔مگر اس نے پرواہ نہیں کی۔اس کے بال ہوا میں لہرانے لگے۔ضرغام نے اپنے ہاتھوں سے کندھے سے کچھ بال آگے لٹکائے۔کھلے بالوں میں وہ پہلے سے زیادہ حسین لگ رہی تھی۔
’’ تم ایسے پہلے سے زیادہ حسین لگتی ہو۔۔‘‘اس کا غصہ کم ہوچکا تھا۔اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ دوبارہ سٹیج کی طرف بڑھا۔وہ خراماں خراماں سٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے مگر سب کی نظریں وجیہہ کی طرف تھیں۔وہ خود میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ شرم و حیا کے سمندر میں وہ غوطے کھا رہی تھی مگر سب کی نظریں بدستور اس کی طرف اٹھ رہی تھیں۔زندگی میں پہلی بار وہ بنا حجاب کے کسی نامحرم کے سامنے آئی تھی۔سر پر دوپٹہ نہیں تھا۔چہرے پر حجاب نہیں تھا۔ کوئی ایسی اوٹ نہیں تھی جس کے ذریعے وہ خود کو دوسروں کی نظروں سے چھپا سکے۔کیمرے کی تلملاتی روشنیاں اس کے وجود کو مزید چھلنی کر رہی تھیں۔آنکھیں جھکی رہیں۔ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔اسے کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ بس جانا چاہتی تھی مگر وقت تو جیسے تھم ساگیاتھا۔سنیل کی رفتار سے وہ رینگ رہا تھا۔
٭ ٭ ٭
شگفتہ بی بی کو جب وجیہہ کی اس قربانی کا معلوم ہوا تو وہ ایک لمحہ کے لئے ساکت رہ گئیں۔وجیہہ کے آگے شرمندہ ہوئیں کہ اس نے ان کی خاطر اتنی بڑی قربانی دی۔
’’میں رب سے یہی دعا کرونگی کہ اللہ تمہاری مدد کرے۔۔‘‘اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کہہ سکیں
’’میں تم سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔۔‘‘آئینے کے سامنے وہ اپنے کھلے بالوں کو دیکھ رہی تھی کہ پیچھے سے ضرغام نے آکر اس سے کہا تھا۔ وہ فوراً پلٹی
’’معافی۔۔ معافی کس لئے۔۔‘‘ اس کا لہجے گلوگیر تھا جیسے دل ہی دل میں رو رہی ہو۔مگر آنسو واضح نہ تھے
’’وہ سیٹ پر تم سے سختی سے بات کی تھی ۔۔ اس لئے۔۔‘‘وہ پہلی بار وجیہہ سے بات کرتے ہوئے اپنی نظریں چرا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے واقع اپنی غلطی کا احساس ہو۔
’’کوئی بات نہیں۔۔ اس کے لئے تو میں نے آپ کو معاف کر دیا۔۔‘‘پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے ضرغام کے چہرے کی طرف دیکھا جو یہ الفاظ سن کر بدر کے چاند کی طرح روشن ہوگیا تھا
’’سچ۔۔‘‘ اس نے انجانے میں اپنے دونوں ہاتھ وجیہہ کے شانوں پر رکھ لئے
’’ہاں۔۔‘‘ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وجیہہ نے تصدیق کی۔تبھی اسے اندازہ ہوا کہ اس کے ہاتھ وجیہہ کے کندھوں پر ہیں۔ اس نے فوراً اپنے ہاتھ پیچھے ہٹائے اور واش روم میں جا کر نائیٹ سوٹ چینج کیا۔وجیہہ نے بھی بیڈ شیٹ کو سیٹ کیا اور اپنا بسترصوفے پر بچھایا
’’ویسے اگر تم تھوڑا سا میک اپ کر کے رہا کرو تو اچھی لگو گی۔۔۔‘‘ کرتے کی آستینیں کہنیوں تک چڑھاتے ہوئے وہ بیڈ کی طرف بڑھا
’’اگر آپ کو اچھا لگتا ہے تو ضرور کرونگی۔۔‘‘ہلکی سی مسکراہٹ اس کیا اداس چہرے پر پھیل گئی
’’بہت خوب۔۔مجھے خوبصورتی ہی پسند ہے‘‘وہ بیڈ پر لیٹنے لگا تو اس کی نظر صوفے پر گئی جہاں وجیہہ اپنا تکیہ سیٹ کر رہی تھی
’’ یہ تکیہ صوفے پر کیوں رکھ رہی ہو؟‘‘اس نے حیرت سے استفسار کیا
’’سونے کے لئے۔۔‘‘
’’ لیکن وہاں کیوں؟ تم یہاں بھی تو سو سکتی ہو۔۔‘‘یہ سنتے ہی وجیہہ کے ہاتھوں سے لحاف نیچے گر گیا۔
’’ نن نن نہیں۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔‘‘ اس سے جھک کر لحاف اٹھاتے ہوئے کہا
’’ کیسے ٹھیک ہو؟‘‘وہ برجستہ اٹھا
’’اب تمہیں صوفے پر سونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم بیڈ پر سو سکتی ہو۔۔‘‘ اس کا سرہانہ اور لحاف اٹھا کر بیڈ کی طرف لے جاتے ہوئے کہا
’’ لیکن ضرغام ۔۔۔‘‘ اسے جیسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا
’’پھر لیکن۔۔ اب چلو۔۔‘‘ وہ پلٹا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر لے گیا۔
’’ اب آرام سے یہاں سو۔۔‘‘شانوں سے پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھایا۔ وجیہہ نے دھیرے دھیرے اپنی نظریں اوپر ضرغام کے چہرے کی طرف اٹھائیں تو ایک الگ اندازاس کے وجود میں پایا۔ چہرے پر عجیب سی کشش سمائی ہوئی تھی۔ لبوں ہر ہلکی سی مسکراہٹ میں آج وہ اس کو پہلے سے کہیں زیادہ خوبرو لگ رہا تھا
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘وجیہہ کے یک ٹک دیکھنے پر اس نے پوچھا تھا
’’آپ کو۔۔۔‘‘برجستہ اس کی زبان سے جاری ہوا تھا لیکن بعد میں وہ اپنے ہی کہے گئے الفاظ پر پشیمان تھی۔ فوراً اپنی نظریں جھکا لیں
’’میں ہوں ہی ایسا جو دیکھے بس دیکھتا ہی جائے۔۔‘‘مسکراتے ہوئے وہ اپنی جگہ پر آبیٹھا اور ٹیک لگاکر لحاف اوڑھا
’’آج آپ کا موڈ بہت خوشگوار ہے۔ کوئی خاص بات ہے؟‘‘جو سوال کافی دیر سے اس کے دل میں کھٹک رہا تھا آخر اس نے پوچھ ہی ڈالا
’’پتا نہیں کیوں۔۔۔تمہیں دیکھ کر خود بخود موڈ فریش ہوگیا۔۔‘‘وجیہہ کی طرف جھک کر اس نے رومانوی انداز میں کہا تھا۔یہ سن کر ایک بار پھر وجیہہ کی آنکھیں جھک گئیں۔ کیا واقعی ضرغا م کا دل پگھل رہا تھا؟ کیا واقعی ایک قربانی ضرغام کو وجیہہ کے قریب لا رہی تھی؟کئی سوال اس کے دل میں کھٹکنے لگے تھے۔
’’آج آپ نے مجھ سے ایک چیز مانگی تھی ، میں نے انکار نہیں کیا۔ کیا اب میںآپ سے کچھ مانگ سکتی ہوں ؟‘‘ اس نے لیٹنا چاہا مگر جھٹ اٹھ بیٹھی اور فوراً سوال داغا
’’ہاں۔۔‘‘
’’آپ نماز پڑھنا شروع کر دیں۔۔‘‘پہلا قدم اس نے اٹھایا تھا جواب کی توقع اسے اگرچہ نہیں تھی مگر پھر بھی وہ جواب کی منتظر تھی اور ایک بار پھر ضرغام نے اسے حیران کر دیا
’’اچھا۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ کروٹ بدل کر لیٹ گیا ۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے ٹیبل لیمپ آف کیا تو کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔وہ چاندی میں ضرغام کی طرف دیکھنے لگی۔پہلی بار اس کی آنکھوں سے پیار چھلک رہا تھا۔ایک قربانی دینے سے ضرغام میں کتنی بڑی تبدیلی آگئی تھی۔ وہ بس اب اُس انتظار میں تھی جب ضرغام خود اس کے سر پر دوبارہ محبت کی چادر اوڑھائے گا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ناول ابھی جاری ہے
 

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 98894 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More