وہ روزی بی بی نے کہا تھا سلمان سے کہنا،،،اس کو یہ مرض
عام ہے وہ ضرور کچھ کرے گا‘‘،،،پھر برکت عجیب انداز سے بولا‘‘،،پر اِک بات
مجھے یاد تو ہے مگر بس یاد ہی ہے‘‘،،،سمجھ نہیں آیا،،سلمان نے سوالیہ نظروں
سے برکت کو دیکھا‘‘،،وہ کیا؟؟؟ اس کی آواز میں حیرت کم اور تجسس ذیادہ تھا‘‘،،،
برکت نے عجیب سے انداز میں منہ بنایا‘‘،،پھر سر کھجا کے بولا،،‘‘روزی بی بی
بولی جب بھی سلمان کسی کے لیے سوچتا ہے،،تو اپنی روح میں غوطہ لگا کے سوچتا
ہے‘‘،،،اس کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ اب اس کی زندگی کا بس اک یہ ہی مقصد
ہے،،اور وہ کر گزرتا ہے‘‘،،،جہاں اس کی اپنی ذات مقصود ہو،،،پھر وہ کام یا
مقصد کسی ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح ہو جاتا ہے‘‘،،،باقی میں بھول گیا‘‘،،،برکت
نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا‘‘،،،
سلمان کے چہرے پر وہی مسکراہٹ رقص کرنے لگی جو اس کی پہچان تھی‘‘،،،جو اس
کو سب سے الگ کرتی تھی‘‘،،
یار برکت تو کتنا سر کھاتا ہے‘‘،،چائے نہیں پوچھتا‘‘،،حد ہے ویسے تیرے
بھائی پن کی‘‘،،،
برکت بے دلی سے کچن کی جانب بڑھا‘‘،،،سلمان بھائی میرا تو کوئی موڈ نہیں ہے‘‘،،بس
اک کپ ہی بنا دیتا ہوں‘‘،،
سلمان بھائی آپ میں سب عادتیں اچھی ہیں‘‘،،،بس بے وقت کی راگنی اچھی نہیں‘‘،،،سلمان
نے حیرت سے کہا ‘‘،،
بے وقت راگنی کونسی؟؟برکت کچن سے بولا‘‘بے ٹائم،،ہروقت چائے‘‘،،،سلمان اس
سے پہلے کہ کچھ بولتا‘‘،،روزی کی آواز آئی‘‘،،،برکت تین کپ بنانا‘‘،،،فراز
اور روزی سامنے سے مسکراتے ہوئے آئے‘‘،،،فراز مسکرا کے بولا‘‘،،،
روزی اس سے کہہ دو جیسی چائے سلمان کے لیے بناتا ہے‘‘،،،ہمارے لیےبھی ویسی
ہی بنائے‘‘،،،روزی نے حیرت سے سلمان کو دیکھا‘‘،،،سلمان کیسی چائے؟؟،،،
سلمان نے فراز کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے‘‘،،،فراز صاحب کیوں میری چائے بند
کرواؤ گے میری کوئی سپیشل چائے نہیں ہوتی‘‘،،،فراز ہنس کے بولا،،،برادر اک
تو تم ڈرتے بہت ہو‘‘،،،یار وہی بولو نا جو برکت کو کہتے ہو‘‘،،دودھ
پتی‘‘،،،
پتی تیز‘‘،،میٹھا دودھ ذرا کم‘‘،،،اس سے پہلے کہ سلمان کچھ بولتا‘‘،،برکت
نے اندر سے ہی آواز لگائی‘‘،،بے فکر ہو جائیں‘‘،،سب کے لیے سلمان سپیشل ٹی
حاضر ہے‘‘،،،بس میں ابھی لایا ذرا دیر تک پکانا پڑتی ہے‘‘،،،
روزی نے سلمان کو دیکھ کر بظاہر لاپروائی سے کہا‘‘،،،سلمان آپ سچ مچ ڈرتے
ہو،،،یا،،،بس ظاہر کرتے ہو کہ ڈرپوک ہو‘‘،،،سلمان سمجھ گیا تھا روزی کوئی
عام سی لڑکی نہیں‘‘،،،ورنہ وہ اس بات کو عام سے انداز میں ٹال دیتا‘‘،،،
سلمان نے سنجیدگی سے کہا‘‘،،،یہ خوف نہیں حقیقت ہے‘‘،،،جو لوگ کچے یا
نامکمل گھروں میں رہتے ہیں‘‘،،وہ ہمیشہ بارش۔۔دھوپ۔۔اندھی سے ڈرتے رہتے
ہیں‘‘،،،ان کا خوف رات سے شروع ہوکر ۔۔۔پھر رات سے دوبارہ شروع ہو جاتا
ہے‘‘،،،خوف کا اختتام نہیں ہوتا‘‘،،،زندگی ہمیشہ ہم سے سوال جواب کرتی
ہے‘‘،،،
اس کو جواب پسند نہ آئے تو ظالم سماج کی طرح‘‘،،،چیرے لگاتی ہے‘‘،،ہمارے
پاس دوسرا چانس ذرا کم کم ہی ہوتا ہے‘‘،،،ہمیں کوئی بھی خوشی تنہا نہیں
آتی۔۔ہر خوشی کا حصہ دینا پڑتا ہے ہمیں‘‘،،،
ہم ان پرندوں کی طرح ہوتے ہیں‘‘،،جب ان کا آشیانہ صرف اس وجہ سے ختم کردیا
جائے‘‘،،،کہ اس سے آگ جلانی مقصود ہو یا رستہ کشادہ کرنا ہو‘‘،،،وہ کئی روز
تک اس درخت کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔۔جہاں انہوں نے کچھ دن گزارے ہوتے
ہیں‘‘،،،روزی نے رنجیدہ سے لہجے میں کہا‘‘،،،اور تم کن میں سے ہو؟،،
سلمان کے چہرے پرزخمی سی مسکراہٹ آگئی‘‘،،،وہ درد کو چھپا رہا تھا‘‘،،،مگر
روزی کی آنکھ ایسی ایکسرے مشین بنی ہوئی تھی‘‘،،جو ہر زخم کو باخوبی دیکھ
سکتی تھی‘‘،،،
سلمان بولا‘‘،،میرا بھی آشیانہ کٹ گیا ہے‘‘،،،میں اسی درخت کے نیچے کھلے
آسمان تلے بیٹھا ہوا ہوں‘‘،،،(جاری)
|