مال مفت، دلے بے رحم۔ یہ مقولہ وجود میں آئے پتہ نہیں
کتنہ عرصہ گزر گیا ہے۔اس کی صداقت اور حقانیت پر کوئی حرف نہیں۔ کسی دفتر،
ادارے یا قومی ملکیت سے وابستہ مراعات کا کیسے بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ
استعمال ہوتا ہے۔ یہ ہر کسی کو کسی نہ کسی مقام پر اندازہ ہوا ہو گا۔ جیسے
کہ سرکاری ٹیلیفون، گاڑی، دفتر ، مکان، بجلی، پانی وغیرہ کا استعمال۔ اپنی
گاڑی ہو تو اس کا استعمال اور محتاط رہنا ، سرکاری ہو تو اسے اپنے سارے
خاندان کی پراپرٹی قرار دینا ، سرکاری گاڑی کا تیل، مرمت، صفائی سب کچھ
متعلقہ دفتر کے ذمہ لگ جاتا ہے۔ کام گھر کا کریں ، بل دفتر سے نکال لیں ،
کون پوچھے گا۔ بیگم یا بیٹا گاڑی کو تباہ کریں مگر اس کا نقصان دفتر سے
پورا ہوتا ہے۔ شاپنگ ، سکول وین ، رینٹ اے کار کی طرح سرکاری گاڑی بروئے
کار لائی جاتی ہے۔ سرکاری گاڑیاں اگر بند کر دی جائیں اور افسران کو اپنی
گاڑیا استعمال کرنے کے لئے ہدایت دی جائے یا سرکاری گاڑی کے تمام اخراجات
متعلقہ افسر اپنی جیب سے کرے تو سرکاری اثاثوں کی بے قدری میں شاید کچھ کمی
آ سکتی ہے۔ اس طرح ادارہ افسر کی بے رحمی سے بھی بچ سکتا ہے۔ اگر ایک افسر
کئی گاڑیاں، بڑے دفاتر، کشادہ گھر،بھاری تنخواہ، تمام اخراجات سرکار کی جیب
سے کرتا ہے تواس کے فائدے کم اور نقصانات زیاد ہ ہیں۔ ٹیلیفون اور دیگر
مراعات کا بھی یہی ہوتا ہے۔ اگر نگران حکمران مخلص ہوں تو فوری ایکشن لیتے
ہیں۔گیس، بجلی ،پٹرول یا غذائی بحران بھی یوں ہی پیدا نہیں ہوتے۔ادارے یوں
ہی کنگال نہیں ہوتے۔ اداروں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بھی اپنی وجوہات
ہیں۔ بد نظمی، ڈسپلن شکنی وغیرہ جیسی ان میں کئی چیزیں قدرے مشترک ہیں۔ ان
میں ایک انتہائی اہم ایڈہاک ازم بھی ہے۔معلوم نہیں اس طرف ہمدردی اور خلوص
کے ساتھ کوئی توجہ دینا مناسب کیوں نہیں سمجھتا۔ یسب کام چلاؤ پالیسی ہے۔یہ
نیا مائنڈ سیٹ ہے جسکے تحت ہم عارضی بندو بست اوروقتی انتظام پر یقین رکھتے
ہیں۔حکومتیں بھی یہی سمجھتی ہیں کہ ان کا دور بخیر و خوبی گزر جائے ۔کل کس
نے دیکھا۔آج جو ہونا ہے، ہو جائے۔ تجوری لٹ جائے۔ خزانہ خالی ہو جائے۔گلط
اعداد و شمار سے اعلیٰ نگران کو گمراہ کیا جاتا ہے۔مستقبل کی کوئی منصوبہ
بندی نہیں۔ مسائل آئیندہ حکومت پر ڈال دیں گے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ
ملے۔ خرچہ کم ہو۔ یعنی فائدہ ہمارا، نقصان دوسروں کا۔ اچھے اور مثبت کام کا
کریڈٹ ہم لے اڑیں ۔ جو منفی کام ہو، جو نقصان ہو، اسے دوسروں کے کھاتے میں
ڈال دیا جائے۔ حکمران اسے اپنے سیاسی مخالفین کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنا دور ہی سنہرا نظر آتا، باقی تاریک ہی تاریک۔انہیں
دوسروں کے ہر کام میں سازش کی بو آتی ہے۔ اگر ان کی نااہلی اور کام چوری سے
کوئی سکینڈل سامنے آ جائے تو اس کا خطاوار کون بنتا ہے۔ ملبہ کس پر ڈال دیا
جاتا ہے۔ خود کو بچانے کے لئے کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سب کچھ
دوسروں کے سر ڈالنے کا ایک آسان نسخہ ہے۔ یہ سازش ہے۔ایک پارٹی دوسری پر
الزام ڈالتی ہے کہ اس نے بیوروکریسی میں اپنے آدمیوں سے سازش کرائی ہے۔
کیوں کہ وہ حکومت کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت کی بدنامی ان کا مقصد ہے۔
مخالفین کوہماری گڈ گورننس گوارا نہیں۔ یہی کچھ حکومتی وزراء وزیرا عظم کو
باور کرا رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ بچ نکلیں گے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کے
کرتب اس سرکس میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان کا شو مقبول ہو گیا ہے۔ کیوں کہ ان
کے کئے کی سزا چند افسران کو مل چکی ہے۔ یہ قربانی کے بکرے بن چکے ہیں۔
ایسا ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ یہ کوئی نئی یا انوکھی روایت ہر گز نہیں ہے۔
یہ ہتھیار ان کے آزمائے ہوئے ہیں۔ ان پر انہیں مکمل اعتماد ہے۔ یہ بھی سچ
ہے کہ بیورو کریسی کا بھی قصور ہے۔ وہ اپنی سیاسی آقاؤں کو خوش رکھنے کے
ہمیشہ جتن کرتی ہے۔ ان کے در پر یہ لوگ پڑے رہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ سمجھتے
ہیں کہ ہم بہت زیادہ چاپلوس ہیں اور چاپلوسی کو پسند کرتے ہیں۔ آپ اپنے
افسر کو چند روز منہ نہ دکھائیں تو وہ سمجھے گا یا اسے سمجھا دیا جائے گا
کہ فلاں آپ کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ اس لئے یہاں سلوٹ مارنے حاضر نہیں ہوتا۔
آپ کو تحائف دینے سے پرہیز کرتا ہے۔ آپ کی دعوت کرنے سے عاری ہے۔ سونے پہ
سہاگہ یہ کہ ان میں سے بھی بعض کان کے کچے ہوتے ہیں۔ تا ہم انہیں بھی
مجبوری میں ان پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے کیوں کہ یہی ان کی آنکھیں اور کان
ہوتے ہیں۔ جب یہی گمراہ کریں ۔ امانت میں خیانت کریں تو کوئی کیا کر سکتا
ہے۔ ایڈہاک ازم بھی اس کے اسباب میں سے ایک ہے۔
ایڈہاک ازم کیا ہے۔ اس کی ضرورت کیوں درپیش رہتی ہے۔ اصل میں یہ بلیک میلنگ
کی وباہے ۔ اداروں کو اسی وبا سے تباہ اور برباد کیا جاتا ہے۔ اس کا رواج
اوپر سے نیچے تک ہے۔ عارضی بندوبست۔ کام چلاؤ۔ ملازم مستقل ہو گا تو پنشن،
دیگر مراعات بھی ہوں گی۔ یہی سبب ہے کہ ان سے بچنے کے لئے ایڈہاک ازم کو
متعارف کیا گیا۔ لیکن یہاں سے آپ جتنا بچاتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ نقصان
پیداوارکی کمی کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔ آپ کا ملازم پریشان ہو گا۔ اسے
اپنی نوکری اور مستقبل کے عدم تحفظ کی فکر رہے گی۔کام پر اس کی توجہ یا لگن
میں قدرتی طور پر کمی آئے گی۔کیوں کہ وہ مستقل نہیں بلکہ کنٹریکٹ پر ہے۔ یہ
اعلیٰ افسر یا وزیر مشیر ہے جو اس کی روزی روٹی کا مالک بن جاتا ہے۔ بلا
وجہ اسے چاپلوسی پر آمادہ اور مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ آپ کے گھر کے چکر
لگائے۔ آپ کو خوش رکھے۔ آپ کے غلط کام کو بھی درست قرار دے۔ آپ کی خوشنودی
کا کوئی موقع ضائع نہ کرے۔ تو اس کی نوکری پکی۔ ورنہ قلم کی ایک جنبش سے وہ
کل ہی دفتر نہیں آسکے گا۔وہ تجربہ ایک ادارے میں کرے گا ۔ بہتر کی تلاش میں
رہے گا۔ موقع ملا تو چلا گیا۔اس کا تجربہ دوسرے کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ یہ
میرٹ کی پامالی کا بھی باعث بن جاتا ہے۔یہی عدم تحفظ کا احساس ہے جو ایک
کنٹریکٹ ملازم کو کام نہیں کرنے دیتا۔ اس کو آپ عارضی طور پر رکھ رہے ہیں۔
وہ اوور ایج ہو رہا ہے۔ یہ تو آپ کی زمہ داری ہے کہ آپ اس کی استعداد کار
بڑھانے کی جانب توجہ دیں۔ اگر اسے ملازم رکھا ہے تو کوئی وجہ ہوگی۔ لیکن اب
اس نے تجربہ حاصل کیا ہے۔ ایک تجربہ کار ملازم کی صلاحیتوں سے محروم ہونے
کا کون سوچ سکتا ہے۔ اگر وہ کام چور ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کام چور
ہیں۔ اگر آپ خود کام چور نہیں تو آپ کا ماتحت کبھی کام چور، نکما، غیر زمہ
دار نہیں ہو سکتا ہے۔
ہم ایڈہاک ازم کو کیوں فروغ دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی افسران یا اہلکار
اپنے مستقبل سے بے نیاز ہو کر دلی طور پر کام کرنے سے جی چرا لیتے ہیں۔ وہ
ہر وقت متفکر رہتے ہیں۔ تا ہم یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔کسی ادارے کا سی او یا
نگران اگر یہ کہے کہ ادارہ میں نے چلانا ہے۔ ہمیں تمام سہولیات و مراعات
دیں۔ چھوٹے ملازمین کو مراعات کی ضرورت نہیں۔انہیں ہم سیدھا کریں گے۔ وہ
سہولیات، مراعات مانگیں گے تو ان کی رخصت پکی۔ تو ان حالات میں کیا ہو گا۔
اس ادارے کا اﷲ ہی حافظ۔ ایڈہاک ازم کا خاتمہ نہ ہوا تو اداروں کی پیداواری
صلاحیتیں مزید کم ہو سکتی ہیں۔ کام کی رفتار، معیار میں بہتری آئے گی
توپیداوار میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو گا۔سی ای او، محنت کش ، ملازم ،
کارکن کو ایڈہاک تقرری کے باعث بعض اہم مراعات سے محروم رکھا جائے تووہ
ادارہ تسلی بخش پیداوار اور کارکردگی سے محروم رہ جاتا ہے۔اس پر غور کیا
جانا چاہیئے کہ ایڈہاک ازم کا خاتمہ اداروں کے لئے منافع بخش ار پیداوار
میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ |