کیامسلمانوں کے لیے اپنے مذہب کی جانب لوٹ آنے کا وقت اب
بھی نہیں آیا ہے ؟
اسلام کے خلاف بیان بازیوں اور زہرافشانی کی بات کی جائے تواس اَمرمیں کوئی
بھی دودھ کادُھلانہیں ہے۔میڈیا بھی اس میں ملوث ہے۔میڈیا پرآئے دن اسلام
مخالف موضوعات پر ڈیبیٹ(بحث ومباحثہ) کرانامیڈیاٹیم کے لیے ٹی آرپی بڑھانے
کا بہترین ذریعہ ہے۔ان پروگرامات میں مختلف لوگوں (نام نہاد ایکسپرٹ)کو
بلایاجاتا ہے۔یا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلام مخالف ذہن رکھنے
والوں کو مدعو کیاجاتا ہے اور اسلامی تصور پیش کرنے کے لیے منجھے ہوئے عالم
کو بلانے کی بجائے ایسوں کو لایاجاتا ہے جو کم علمی اور کج روی کا شکار
ہوتے ہیں۔ڈیبیٹ کے دوران ایسے افراد اغیار کے سوالات کا جواب نہیں دے پاتے
اور ان کی لاجوابی اور خاموشی اسلام کی بدنامی کا باعث بنتی ہے۔درحقیقت
میڈیا کامنصوبہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ڈیبیٹ میں اسلامی اسکالر کے نام پر ایسے
کمزوروں کو بُلایا جائے جن کو دورانِ گفتگو خاموش کرایاجاسکے اور یہ نا
سمجھ اورکمزور صفت لوگ سستی شہرت اور محض ٹی وی پر آنے کے شوق میں مسلمانوں
کی رُسوائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔اربابِ علم کو چاہیے کہ اس امرمیں سرجوڑ کر
بیٹھیں اور متفقہ طور پر فیصلہ صادر کریں کہ اس طرح کے ٹی وی پروگرامس میں
کوئی بھی شریک نہ ہو۔ہاں اگر کوئی اس پایہ کا عالم ہو کہ نہ صرف مختلف
زبانوں بلکہ متعدد علوم وفنون کا بھی ماہر ہو جو ہر اعتراض کا دندان شکن
جواب دے سکے تو بات جدا ہے۔رہی بات میڈیا اور اسلامی موضوعات کے وضاحت اور
ہندوستانیوں کی ذہن سازی کی تو ہمیں چاہیے کہ ہم میڈیاکویقین دلائیں کہ آپ
ہمارے دارالعلوم ، دارالقضاء اور دارالافتاء میں تشریف لائیں،ہم آپ کی
حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں اور یہاں آکر ہمارے جید،مستند اور ذی علم علمائے
کرام سے سوالات کریں،ان شاء اﷲ تعالیٰ انبیائے کرام کی میراث سے حصہ پانے
والے یہ علمائے کرام میڈیااور فرقہ پرستوں کے ذریعے کھڑے کیے جانے والے ہر
فتنے کا اپنے جوابات کے ذریعے مکمل سدّباب کریں گے۔
سیاسی شعور کی بات کی جائے تو وہ بھی ہم میں ناپید ہے۔کسی کے بہلاوے میں ہم
بہت جلد آجاتے ہیں اور جنھیں ہم اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں وہ قوم کا سَودہ
کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ حکمت عملی کی
کمی،منصوبہ بندی کا فقدان اور سیاسی وِژن کا نہ ہوناہے۔جب کہ مسلم جماعتوں
کے قائدین نے آزادیِ ہند کے لیے اپنی شریانوں سے خون بہایاہے،اگر یہ کہوں
تو بے جا نہ ہوگا کہ غیروں نے جتنا پسینہ نہیں بہایاہے اس سے کہی زیادہ
ہمارے رہبروں، رہنماؤں اور قائدین نے اپنا خون بہایا ہے، مسکراتے ہوئے تختہ
ٔدار کو بوسہ دیا ہے اور انقلاب کی چنگاری کو آزادی میں تبدیل کیاہے۔باوجود
اس کے سیاسی میدان میں ہمارے وقعت محض کٹھ پُتلی جیسی ہے۔ایسا لگتاہے کہ
فرقہ پرست جماعت کو ہرانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے۔یہاں
مقصد کسی کی حمایت یا مخالفت کرنانہیں ہے بلکہ فکروشعور کی بالیدگی مقصود
ہے۔ہر سیاسی جماعت کے منشور اور ان کے عملی اقدام پر طائرانہ نظردوڑائے تو
معلوم ہوگا کہ کوئی بھی جماعت مسلمانوں کے حق میں مفید نہیں ہے۔کوئی کھُلا
دشمن ہے تو کوئی چھُپا۔ایسے میں ہمیں صرف مسلمان بننا ہے۔کسی کی نیّامیں
سوار ہوکر اپنی کشتی ہرگز نہیں تیرائی جا سکتی،اپنی کشتی کی نگہبانی ہمیں
خود کرنا ہوگی،کسی جھولی میں بھیک میں پڑے سکّوں کی مانند پڑے رہنے سے بہتر
ہے کہ ہم اپنی اہمیت کو جانیں،سمجھیں اور اپنا استحصال ہونے سے محفوظ
رہیں۔ہم چاہے جتنے بھی آزاد خیال ہوجائیں،ہم چاہے اسلام سے زیادہ کسی کو
بھی چاہنے لگیں،ہم چاہے احکام ِ خداوندی سے زیادہ غیروں کی باتیں مانیں تب
بھی بحیثیت مسلمان ہمیں مرنا ہی ہوگا۔ ملیشیا، افغانستان، عراق، اُندلس،
ایتھوپیا وغیرہ کے نظارے ہمارے لیے درس عبرت ہے۔وہ اپنی بیٹیوں کی شادیاں
غیروں سے کرتے تھے،ان کی محفلوں کی رونق بنتے،بلکہ صرف ان کا نام اسلامی
تھا کام مکمل غیر اسلامی۔پھر بھی ان کے گلوں پر چھُریاں پھیری گئیں،ان کی
عورتوں کے بطن سے ناجائز اولادیں پیدا کی گئیں اور ان کے ننھے ننھے زندہ
بچوں کے جسموں پر گھوڑے دوڑا دیئے گئے۔چاہے ہم اسلام سے جتنی دوری اختیار
کرلیں اور احکام ِ خداورسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے جتنی چاہے بغاوت کرلیں مگر
بہر حال مرنا ضرورہے۔جب مرنا ہی ہے تو کیوں نہ ہم اسلام پر مرے تاکہ ہمارا
پرورگار ہم سے راضی ہواور جنت الفردوس کی نعمتیں ہمارااستقبال کررہی
ہو۔ہمارے دروازوں پر ہر روز دی جانے والی دستک اس بات کی جانب اشارہ کررہی
ہے کہ اسلام کی جانب لوٹ آنے کا وقت آگیاہے۔ایک چرواہاجب بکریاں چراتاہے تو
ساتھ میں کچھ کُتّے بھی رکھتا ہے تاکہ ریوڑ سے الگ ہوجانے والی بکریوں کو
وہ کُتّا بھونک کر اور کانٹ کر دوبارہ ریوڑ میں لے آئیں۔ہم بھی اپنے ریوڑ
سے دور جا چکے ہیں۔طاغوتی قوتوں کے موجودہ کُتّے اور بھیڑیوں نے ہم پر
بھونکنا شروع کردیا ہے ،اس سے پہلے کہ وہ کاٹنا بھی شروع کردیں لوٹ آئیں
اپنے ریوڑ میں۔پناہ حاصل کرلیں خدائے عزوجل کی۔جس دن ہم اپنے مذہب پر لَوٹ
آئیں گے ان شآاﷲ تعالیٰ اس دن سے ہماری عظمت وشوکت کاڈوباہواسورج پھر طلوع
ہوگا،مدینۂ منورہ سے نوارانی کرنیں ہمارے حوصلوں کو جِلہ بخشیں گی اور
اسلامی پرچم پوری شان وشوکت کے ساتھ اکناف عالم میں عام ہوگا۔آج بھی منفی
بیان بازیوں کا سلسلہ کم ہوسکتاہے بشرطیکہ ہم مسلمان ہو جائے۔
یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا |