میرے بعض محترم دوست اولیاء کی
اصطلاح کو بعض مخصوص ہستیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور ان خود ساختہ
اولیاء اللہ سے بہت سی جھوٹی سچی کرامات کا ان کے ولی اللہ ہونے کے ثبوت
میں پیش کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اللہ کے ولی مسلمانوں کی
علامات قرآن میں واضح کر دی ہیں۔ ان اولیاء اللہ کے بارے میں انشاءاللہ کسی
اور کالم میں گفتگو ہوگی۔ میں چونکہ خود بھی پہلے ان خود ساختہ اولیاء کی
کرامات کا قائل تھا اور یہ سب کچھ پڑھ کر سوچتا تھا کہ دیکھو ان اولیاء
کی پہنچ کہاں تک ہے یہ تو اللہ تعالٰی سے نہ صرف گفتگو کرتے ہیں بلکہ بحث
کر کے اپنی بات بھی منوا لیتے ہیں۔ انشاء اللہ اپنے اگلے چند کالمز میں میں
ان اولیاء کے کچھ قصے ان ہی کی کتابوں سے نقل کروں گا اور فیصلہ اپنے محترم
قارئین پر چھوڑوں گا کہ اگر اسلام یہی ہے تو پھر شرک کسے کہتے ہیں۔
کتاب ہے دلیل العارفین، ملفوظات خواجہ معین الدین چشتی مرتبہ خواجہ بختیار
کاکی ص 97
ایک وقت خواجہ با یزید بسطامی مقام قرب میں تشریف لے گئے۔ ہاتف نے آواز دی
کہ اے بایزید تمہاری خواستگاری اور ہماری بخشش و عطا کا وقت ہے مانگو کیا
مانگتے ہو میں تم کو دوں گا۔ خواجہ نے سجدے میں سر جھکا دیا اور کہا کہ
بندہ کو خواستگاری سے کیا کام۔ بادشاہ کی بخشش و انعام و اکرام جسقدر ہو
بندہ اس میں راضی ہے۔ پھر آواز آئی کہ اے بایزید ہم نے تم آخرت کی خوبی اور
رستگاری عطا کی۔ بایزید نے عرض کیا کہ یا الہی آخرت تو دو ستونوں کا بندی
خانہ ہے۔ پھر آواز آئی کہ ہم نے بہشت اور دوزخ اور عرش اور کرسی جو کچھ
ہماری مملکت ہے تجھ کو دی۔ عرض کیا خیر۔ پھر ندا آئی کہ اچھا تمہارا کیا
مطلب ہے کچھ مانگو تو ہم دیں۔ عرض کیا کہ الہی میرا مطلب تو خود جانتا ہے۔
آواز آئ؛ کہ اے بایزید تو ہم کو ہم سے مانگتا ہے۔ اگر ہم تجھ کو تجھ سے
مانگیں تو کیا کرے گا۔ جیسے ہی آواز آئی خواجہ نے قسم کھا کر کہا کہ قسم ہے
تیرے عزت و جلال کی اگر تو مجھ کل قیامت میں طلب کرے گا اور آتش دوزخ کے
سامنے کھڑا کرے گا تو حاضر ہوں گا اور ایسی آہ سرد کھینچوں گا کہ دوزخ کی
حرارت زائل ہو جائے گی۔ حتیٰ کہ کچھ نہ رہے گی۔ کیونکہ آتش محبت کے سامنے
اس کی اصل ہی کیا ہے۔ جب بایزید نے یہ فرمایا ندا آئی اے بایزید (ہر چہ
جستی یا فتی) یعنی جس چیز کی تجھے تلاش تھی تو نے پا لی۔
محترم قارئین دیکھیے یہ اس خالق کاینات کے ساتھ ایک بندے کی گفتگو ہو رہی
ہے اور ذرا گفتگو کا انداز دیکھیں۔ کیا اس ذات باری تعالیٰ کے ساتھ کوئی
ایسی گفتگو کر نے کی جرات کر سکتا ہے۔ انبیاء کرام کے لیے تو جبرائیل وحی
لے کر آئے اور یہ جو انبیاء کے پیروں کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہیں
ڈائریکٹ کال ملائیں۔ مزید دیکھیں کہ جنت دوزح اور اپنی مملکت بھی اللہ ان
کو پیش کر رہا ہے مگر موصوف اللہ کی پیشکش کو ٹھکرا رہے ہیں۔ ہم مسلمانوں
کو جو سب سے بہتر دعا اللہ تعالیٰ نے سکھائی کیا وہ یہ نہیں ہے کہ اے اللہ
ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
کیا ہم اپنی دعاؤں میں اللہ سے یہ دعا نہیں مانگتے کہ اے اللہ ہمیں قیامت
کے دن عذاب دوزخ سے محفوظ رکھنا اور جنت میں مقام عطا فرمانا۔ اور اللہ
تعالیٰ نے کامیاب لوگوں کو قرآن میں جو سب سے بڑی خوشبری دی ہے وہ جنت کی
ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنے دیدار سے بھی نوازیں گے۔ اس سے زیادہ کا نہ
تو اس ذات باری نے وعدہ کیا ہے اور نہ ہی ایک مومن کو اس سے زیادہ کی خواہش
ہوگی۔ اور کسی ذی روح کی کیا مجال کہ اس سے اس طرح کے گستاخانہ انداز
اختیار کر سکے اور اللہ تعالیٰ کو ایک سرد آہ کھینچ دوزخ کی آک کو بجھانے
کی دھمکی بھی دے ڈالے وہاں تو انبیاء بھی عاجزی اور انکساری اور ادب کے
ساتھ صرف دعا ہی کر سکتے ہیں ۔ ۔ اور ان پیر صاحب کا تقاضہ کیا ہے اس پر
بھی غور فرما لیجیے۔ اور آخر میں اللہ نے نعوذ باللہ ان صاحب کی ضد کے آگے
ہار مان لی اور اپنا آپ بسطامی کو سونپ دیا۔ حضرت موسیٰ تو ایک نبی تھے اور
انہیں اللہ تعالٰی سے کلام کی سعادت ہوئی۔ مگر ان صوفیاء کی پہنچ تو دیکھیں
ان میں بہت سو کے متعلق آپ پڑھیں گے کہ وہ کلام کے علاوہ اللہ کو خواب میں
دیکھتے ہیں اور یہاں تک کہ اللہ تعالٰی انہیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ میں نے
نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اس ولی کے پاس بھیجا ہے ۔ تاکہ نبی پاک
اس ولی سے درخواست کریں کہ وہ لوگوں کو اپنی باتیں سنایا کریں۔
یہاں تمام بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ میری تمام گزارشات کا کسی مسلک
سے بالاتر ہو کر قرآن اور حدیث کی رو سے جائہ لیں اور پھر اپنی رائے سے
نوازیں۔ |